پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۳

”یہ احمقانہ تجویز اسجد کے علاوہ کسی دوسرے کی ہو ہی نہیں سکتی۔ اسے احساس نہیں ہے کہ ابھی میں پڑھ رہی ہوں۔” امامہ نے اپنی بھابھی سے کہا۔
”نہیں اسجد نے یا اس کے گھر والوں نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بابا خود تمہاری شادی کرنا چاہ رہے ہیں۔” اِمامہ کی بھابھی نے رسانیت سے جواب دیا۔
”بابا نے کہا ہے؟ مجھے یقین نہیں آرہا۔ جب میں نے میڈیکل میں ایڈمیشن لیا تھا تب ان کا دور دور تک ایسا کوئی خیال نہیں تھا۔ وہ تو انکل اعظم سے بھی یہی کہتے تھے کہ وہ میرے ہاؤس جاب کے بعد ہی میری شادی کریں گے۔ پھر اب اچانک کیا ہوا؟” اِمامہ نے بے یقینی سے کہا۔
”کوئی دباؤ ہوگا مگر مجھے تو امی نے یہی بتایا تھا کہ یہ خود بابا کی خواہش ہے۔” بھابھی نے کہا۔
”آپ انہیں بتا دیں کہ مجھے ہاؤس جاب سے پہلے شادی نہیں کرنی۔”
”ٹھیک ہے میں تمہاری بات ان تک پہنچادوں گی مگر بہتر ہے تم اس سلسلے میں خود بابا سے بات کرو۔” بھابھی نے اسے مشورہ دیا۔
بھابھی کے کمرے سے جانے کے بعد بھی وہ کچھ پریشان سی وہیں بیٹھی رہی۔ یہ اطلاع اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ اس کے پیروں کے نیچے سے محاورتاً نہیں حقیقتاً زمین نکل گئی تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ اس کی ہاؤس جاب تک اس کی شادی کا مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا اور ہاؤس جاب کرنے کے بعد وہ اس قابل ہوجائے گی کہ خود کو سپورٹ کرسکے یا اپنی جلال سے شادی کے بارے میں فیصلہ کرسکے۔ تب تک جلال بھی اپنی ہاؤس جاب مکمل کر کے سیٹ ہو جاتا اور ان دونوں کے لیے کسی قسم کا کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا مگر اب اچانک اس کے گھر والے اس کی شادی کی بات کر رہے تھے۔ آخر کیوں؟
”نہیں اسجد اور اس کے گھر والوں نے مجھ سے اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ میں نے خود ان سے بات کی ہے۔”
اس رات وہ ہاشم مبین کے کمرے میں موجود تھی۔ اس کے استفسار پر ہاشم مبین نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا۔
”بات بھی کرلی ہے؟ بابا! آپ مجھ سے پوچھے بغیر کس طرح میری شادی ارینج کرسکتے ہیں۔” امامہ نے بے یقینی سے کہا۔
ہاشم مبین نے کچھ سنجیدگی سے اسے دیکھا۔ ”یہ نسبت تمہاری مرضی سے ہی طے ہوئی تھی۔ تم سے پوچھا گیا تھا۔” انہوں نے جیسے اسے یاد دہانی کروائی۔
”منگنی کی بات اور تھی… شادی کی بات اور ہے… آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ ہاؤس جاب سے پہلے آپ میری شادی نہیں کریں گے۔” امامہ نے انہیں ان کا وعدہ یاد دلایا۔
”تمہیں اس شادی پر اعتراض کیوں ہے۔ کیا تم اسجد کو پسند نہیں کرتیں؟”
”بات پسند یا ناپسند کی نہیں ہے۔ اپنی تعلیم کے دوران میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں آئی اسپیشلسٹ بننا چاہتی ہوں۔ اس طرح آپ میری شادی کردیں گے تو میرے تو سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔”





”بہت سی لڑکیاں شادی کے بعد تعلیم مکمل کرتی ہیں۔ تم اپنی فیملی میں دیکھو… کتنی…” ہاشم مبین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔”
امامہ نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”وہ لڑکیاں بہت ذہین اور قابل ہوتی ہوں گی۔ میں نہیں ہوں۔ میں ایک وقت میں ایک ہی کام کرسکتی ہوں۔”
”میں اعظم بھائی سے بات کرچکا ہوں، وہ تو تاریخ طے کرنے کے لیے آنے والے ہیں۔” ہاشم مبین نے اس سے کہا۔
”آپ میری ساری محنت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو میرے ساتھ یہی کرنا تھا تو آپ کو چاہئے تھا کہ آپ اس طرح کا کوئی وعدہ ہی نہ کرتے۔” امامہ نے ان کی بات پر ناراضی سے کہا۔
”جب میں نے تم سے وعدہ کیا تھا تب کی بات اور تھی… تب حالات اور تھے اب۔۔۔۔”
امامہ نے ان کی بات کاٹی۔ ”اب کیا بدل گیا ہے… حالات میں کون سی تبدیلی آئی ہے جو آپ میرے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں؟”
”میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اسجد تمہاری تعلیم میں تمہارے ساتھ پورا تعاون کرے گا اور تمہیں کسی چیز سے منع نہیں کرے گا۔” ہاشم مبین نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
”بابا مجھے اسجد کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ آپ مجھے میری تعلیم مکمل کرنے دیں۔” امامہ نے اس بار قدرے ملتجیانہ انداز میں کہا۔
”اِمامہ تم فضول ضد مت کرو… میں وہی کرں گا جو میںطے کر چکا ہوں۔” ہاشم مبین نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ”میں ضد نہیں کر رہی درخواست کر رہی ہوں۔ پلیز بابا میں ابھی اسجد سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔” اس نے ایک بار پھر اسی ملتجیانہ انداز میں کہا۔
”تمہارے نسبت کو چار سال ہونے والے ہیں اور یہ ایک بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے خود کچھ عرصے کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے منگنی توڑ دی تو۔”
”تو کوئی بات نہیں کوئی قیامت نہیں آئے گی وہ منگنی توڑنا چاہیں تو توڑ دیں بلکہ ابھی توڑ دیں۔”
”تمہیں اس شرمندگی اور بے عزتی کا احساس نہیں ہے، جس کا سامنا تمہیں کرنا پڑے گا۔”
”کیسی شرمندگی بابا! یہ ان لوگوں کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ اس میں ہماری تو کوئی غلطی نہیں ہوگی۔” اس نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
”تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے یا پھر تم عقل سے پیدل ہو۔” ہاشم مبین نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”بابا! کچھ نہیں ہوگا لوگ دو چار دن باتیں کریں گے پھر سب کچھ بھول جائیں گے۔ آپ اس بارے میں خوامخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔” اِمامہ نے قدرے بے فکری اور لاپروائی سے کہا۔
”تم اس وقت بہت فضول باتیں کر رہی ہو۔ فی الحال تم یہاں سے جاؤ، ہاشم مبین نے ناگواری سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
امامہ بادل نخواستہ وہاں سے چلی آئی مگر اس رات وہ خاصی پریشان رہی۔
اگلے دن وہ واپس لاہور چلی آئی ہاشم مبین نے اس سلسلے میں دوبارہ بات نہیں کی لاہور آکر وہ قدرے مطمئن ہوگئی اور ہر خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے اپنے امتحان کی تیاری میں مصروف ہوگئی۔
ہاشم مبین نے اس واقعہ کو ذہن سے نہیں نکالا تھا، وہ ایک انتہائی محتاط طبیعت کے انسان تھے۔
وہ اِمامہ کے بارے میں پہلی بار اس وقت تشویش میں مبتلا ہوئے تھے، جب اسکول میں تحریم کے ساتھ جھگڑے والا واقعہ پیش آیا تھا۔ اگرچہ وہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں تھا مگر اس واقعے کے بعد انہوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر امامہ کی نسبت اسجد کے ساتھ طے کردی تھی۔ ان کا خیال تھا اس طرح اس کا ذہن ایک نئے رشتے کی جانب مبذول ہوجائے گا اور اگر اس کے ذہن میں کوئی شبہ یا سوال پیدا ہوا بھی تو اس نئے تعلق کے بعد وہ اس بارے میں زیادہ تردد نہیں کرے گی۔ ان کا یہ خیال اور اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
اِمامہ کا ذہن واقعی تحریم کی طرف سے ہٹ گیا تھا۔ اسجد میں وہ پہلے بھی کچھ دلچسپی لیتی تھی مگر اس تعلق کے قائم ہونے کے بعد اس دلچسپی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ ہاشم نے اسے بہت مطمئن اور مگن دیکھا تھا۔ وہ پہلے ہی کی طرح تمام مذہبی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتی تھی۔
مگر اس بار جو کچھ وسیم نے انہیں بتایا تھا اس نے ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی۔ وہ فوری طور پر یہ نہیں جان سکے مگر انہیں یہ ضرور علم ہوگیا کہ امامہ کے عقائد اور نظریات میں خاصی تبدیلی آچکی تھی اور یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کے پورے خاندان کے لیے بڑی تشویش کا باعث تھا۔
وہ اپنی بڑی بیٹیوں کی طرح اسے بھی اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے اور یہ اس لیے بھی اہم تھا کہ اسے شادی کے بعد خاندان ہی میں جانا تھا۔ وہ خاندان بہت تعلیم یافتہ تھا۔ خود ان کا ہونے والا داماد اسجد بھی امامہ کو اعلی تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتا تھا۔ ہاشم مبین کے لیے اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے اسے گھر بٹھا لینا آسان نہ تھا، کیوں کہ اس صورت میں اسے اعظم مبین کو اس کی وجہ بتانی پڑتی اور امامہ سے سخت ناراض ہونے کے باوجود وہ نہیں چاہتے تھے کہ اعظم مبین اور ان کا خاندان امامہ کے ان بدلے ہوئے عقائد کے بارے میں جان کر برگشتہ اور بدظن ہوں اور پھر شادی کے بعد وہ اسجد کے ساتھ بری زندگی گزارے۔ انہوں نے ایک طرف اپنے گھر والوں کو اس بات کو راز رکھنے کی تاکید کی تو دوسری طرف امامہ کی منت سماجت پر اسے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
امامہ صبیحہ کے لیکچر اٹینڈ کرنے اور اس کے ہاں جانے یا جلال سے ملنے کے معاملے میں اس قدر محتاط تھی کہ اس کا یہ میل جول ان لوگوں کی نظروں میں نہیں آسکا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ جویریہ اور رابعہ کو بھی ہر چیز کے بارے میں اندھیرے میں رکھے ہوئے تھی۔ ورنہ اس کے بارے میں ضرور کوئی نہ کوئی خبر ادھر ادھر گردش کرتی اور ہاشم مبین تک بھی پہنچ جاتی مگر ایسا نہیں ہوا ہاشم مبین اس کی طرف سے مطمئن ہوگئے تھے، مگر امامہ کے اندر آنے والی ان تبدیلیوں نے انہیں تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔
ان کے دماغ میں جو واحد حل آیا تھا وہ اس کی شادی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس کی شادی کردینے سے کم از کم وہ خود امامہ کی ذمہ داری سے مکمل طور پر آزاد ہوجائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس طرح اچانک اس کی شادی کا فیصلہ کرلیا تھا۔
”جلال! میرے پیرنٹس اسجد سے میری شادی کر دینا چاہتے ہیں۔” لاہور آنے کے بعد امامہ نے سب سے پہلے جلال سے ملاقات کی تھی۔
”مگر تم تو کہہ رہی تھیں کہ وہ تمہاری ہاؤس جاب تک تمہاری شادی نہیں کریں گے۔” جلال نے کہا۔
”وہ ایسا ہی کہتے تھے، مگر اب وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی تعلیم شادی کے بعد بھی جاری رکھ سکتی ہوں۔ اسجد لاہور میں گھر لے لے گا تو میں زیادہ آسانی سے اپنی تعلیم مکمل کرسکوں گی۔”
جلال اس کے چہرے سے اس کی پریشانی کا اندازہ کرسکتا تھا۔ جلال بھی ایک دم فکر مند ہوگیا۔ ”جلال! میں اسجد سے شادی نہیں کرسکتی۔ میں کسی صورت اسجد سے شادی نہیں کرسکتی۔” وہ بڑبڑائی۔
”پھر تم اپنے پیرنٹس کو صاف صاف بتادو۔” جلال نے ایک دم کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔
”کیا بتادوں؟”
”یہی کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔”
”آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کس طرح ری ایکٹ کریں گے… مجھے انہیں پھر سب کچھ ہی بتانا پڑے گا۔” وہ بات کرتے کرتے کچھ سوچنے لگی۔
”جلال! آپ اپنے پیرنٹس سے میرے سلسلے میں بات کریں۔ آپ انہیں میرے بارے میں بتائیں۔ اگر میرے پیرنٹس نے مجھ پر اور دباؤ ڈالا تو پھر مجھے اپنا گھر چھوڑنا پڑے گا، پھر مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہوگی۔”
”امامہ! میں اپنے پیرنٹس سے بات کروں گا۔ وہ رضا مند ہوجائیں گے۔ میں جانتا ہوں میں انہیں منا سکتا ہوں۔” جلال نے اسے یقین دلایا پوری گفتگو کے دوران پہلی بار امامہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
”اگلے چند ہفتے وہ اپنے پیپرز کے سلسلے میں مصروف رہی، جلال سے بات نہ ہوسکی۔ آخری پیپر والے دن وسیم اسے لینے کے لیے لاہور آگیا تھا۔ وہ اسے وہاں یوں دیکھ کر حیران رہ گئی۔
”وسیم! میں ابھی تو نہیں جاسکتی۔ آج تو میں پیپرز سے فارغ ہوئی ہوں مجھے ابھی یہاں کچھ کام ہیں۔”
”میں کل تک یہیں ہوں۔ اپنے دوست کے ہاں ٹھہر جاتا ہوں جب تک تم اپنے کام نمٹا لو پھر اکٹھے چلیں گے۔” وسیم نے اس کے لیے مدافعت کا آخری راستہ بھی بند کر دیا۔
”میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔” امامہ نے کچھ بے دلی سے فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ وسیم اسے ساتھ لے کر ہی جائے گا۔
”تم اپنی چیزیں پیک کرلو۔ اب تم ساری چھٹیاں وہاں گزار کر ہی آنا۔” اسے واپس مڑتے دیکھ کر وسیم نے کہا۔
”اس نے سر ہلا دیا مگر اس کا اپنی تمام چیزیں پیک کرنے یا اسلام آباد میں ساری چھٹیاں گزارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے طے کیا تھا کہ وہ چند دن وہاں گزار کر کسی نہ کسی بہانے سے واپس لاہور آجائے گی اور یہ ہی اس کی غلط فہمی تھی۔
رات کے کھانے پر وہ سب گھر والوں کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی اور سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
”پیپر کیسے ہوئے تمہارے؟” ہاشم مبین نے کھانا کھاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”بہت اچھے ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح۔” اس نے چاول کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”ویری گڈ۔ چلو کم از کم پیپرز کی ٹینشن تو ختم ہوئی۔ اب تم کل سے اپنی شاپنگ شروع کردو۔”
امامہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔ ”شاپنگ؟ کیسی شاپنگ؟”
”فرنیچر کی اور جیولرز کے پاس پہلے چلے جانا تم لوگ۔ باقی چیزیں تو آہستہ آہستہ ہوتی رہیں گی۔” ہاشم مبین نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس بار اپنی بیوی سے کہا۔
”بابا! مگر کس لیے؟” امامہ نے ایک بار پھر پوچھا۔ ”تمہاری امی نے بتایا نہیں تمہیں کہ ہم نے تمہاری شادی کی تاریخ طے کردی ہے۔”
امامہ کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ کر پلیٹ میں جاگرا۔ ایک لمحہ میں اس کا رنگ فق ہوگیا تھا۔
”میری شادی کی تاریخ؟” اس نے بے یقینی سے باری باری سلمیٰ اور ہاشم کو دیکھا جو اس کے تاثرات پر حیران نظر آرہے تھے۔
”ہاں تمہاری شادی کی تاریخ…” ہاشم مبین نے کہا۔
”یہ آپ کیسے کرسکتے ہیں؟ مجھ سے پوچھے بغیر۔ مجھے بتائے بغیر۔” وہ ہونق چہرے کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔
”تم سے پچھلی دفعہ بات ہوئی تھی، اس سلسلے میں۔” ہاشم مبین یک دم سنجیدہ ہوگئے۔
”اور میں نے انکار کر دیا تھا۔ میں۔”
ہاشم مبین نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔ ”میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ مجھے تمہارے انکار کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میں اسجد کے گھر والوں سے بات کرچکا ہوں۔” ہاشم مبین نے تیز آواز میں کہا۔
”ڈائننگ ٹیبل پر یک دم گہری خاموشی چھا گئی تھی کوئی بھی کھانا نہیں کھا رہا تھا۔
امامہ یک دم اپنی کرسی سے کھڑی ہوگئی۔ ”آئی ایم سوری بابا، مگر میں اسجد سے ابھی شادی نہیں کر سکتی۔ آپ نے یہ شادی طے کی ہے۔ آپ ان سے بات کر کے اسے ملتوی کردیں۔ ورنہ میں خود ان سے بات کرلوں گی۔” ہاشم مبین کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
”تم اسجد سے شادی کروگی اور اسی تاریخ کو جو میں نے طے کی ہے۔ تم نے سنا؟” وہ بے اختیار چلائے۔
”It’s not fair” امامہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”تم اب مجھے یہ بتاؤگی کیا فیئر ہے اور کیا نہیں۔ تم بتاؤگی مجھے؟” ہاشم مبین کو اس کی بات پر اور غصہ آیا۔
”بابا! جب میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی تو آپ زبردستی کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ۔” امامہ بے اختیار رونے لگی۔
”کر رہا ہوں زبردستی پھر میں حق رکھتا ہوں۔” وہ چلائے۔ امامہ اس بار کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ بھینچتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ تیزی سے ڈائننگ روم سے نکل گئی۔
”میں اس سے بات کرتی ہوں، آپ پلیز کھانا کھائیں۔ اتنا غصہ نہ کریں۔ وہ جذباتی ہے اور کچھ نہیں۔” سلمیٰ نے ہاشم مبین سے کہا اور خود وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
ان کے کمرے سے نکلتے ہی وسیم کو دیکھ کر امامہ بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئی۔
”تم دفع ہوجاؤ یہاں سے۔ نکل جاؤ۔” اس نے تیزی سے وسیم کے پاس جاکر اسے دھکا دینے کی کوشش کی۔ وہ پیچھے ہٹ گیا۔
”کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟”
”جھوٹ بول کر اور دھوکا دے کر تم مجھے یہاں لے کر آئے ہو۔ مجھے اگر لاہور میں پتہ چل جاتا کہ تم اس لیے مجھے اسلام آباد لا رہے ہو تو میں کبھی یہاں نہ آتی۔” وہ دھاڑی۔
”میں نے وہی کیا جو مجھ سے بابا نے کہا۔ بابا نے کہا تھا میں تمہیں نہ بتاؤں۔” وسیم نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی۔
”پھر تم یہاں میرے پاس کیوں آئے ہو۔ بابا کے پا س جاؤ۔ ان کے پاس بیٹھو۔ بس یہاں سے دفع ہوجاؤ۔” وسیم ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا پھر کچھ کہے بنا کمرے سے نکل گیا۔
امامہ اپنے کمرے میں جاکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس وقت اس کے پیروں کے نیچے سے صحیح معنوں میں زمین نکل چکی تھی۔ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے گھر والے اس کے ساتھ اس طرح کرسکتے ہیں۔ وہ اتنے قدامت پرست یا کٹر نہیں تھے جتنے وہ اس وقت ہوگئے تھے۔ اسے ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اس کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ “مجھے اس صورت حال کا سامنا کرنا ہے۔ مجھے ہمت نہیں ہارنی۔ مجھے کسی نہ کسی طرح فوری طور پر جلال سے کانٹیکٹ کرنا ہے۔ وہ یقینا اب تک اپنے پیرنٹس سے بات کرچکا ہوگا۔ اس سے بات کر کے کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔”
وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچتی رہی۔ اس کے کمرے میں دوبارہ کوئی نہیں آیا۔
رات بارہ بجے کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ وہ جانتی تھی۔ اس وقت تک سب سونے کے لیے جاچکے ہوں گے۔ اس نے جلال کے گھر کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ فون کسی نے نہیں اٹھایا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی بار نمبر ملایا۔ آدھ گھنٹہ تک اسی طرح کالز کرتے رہنے کے بعد اس نے مایوسی کے ساتھ فون رکھ دیا۔ وہ جویریہ یا رابعہ کو فون نہیں کرسکتی تھی۔ وہ دونوں اس وقت ہاسٹل میں تھیں۔ کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد اس نے صبیحہ کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے والد نے فون اٹھایا تھا۔




Loading

Read Previous

جزدان میں لپٹی دعائیں — آدم شیر

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!