پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۳

وہ رات کو بھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی مگر ملازم کے کھانا لانے پر اس نے کھانا کھالیا۔ رات کو گیارہ بجے کے قریب اس نے جلال کو فون کیا۔ فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔ شاید وہ امامہ کے فون کی توقع کر رہا تھا۔ مختصر سی تمہید کے بعد وہ اصل موضوع کی طرف آگیا۔
”امامہ! میں نے ابو سے کچھ دیر پہلے بات کی ہے۔” اس نے امامہ سے کہا۔
”پھر؟” وہ اس کے استفسار پر چند لمحے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
”ابو! اس شادی پر رضا مند نہیں ہیں۔”
امامہ کا دل ڈوب گیا۔”مگر آپ تو کہہ رہے تھے کہ انہیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔”
”ہاں، میرا یہی خیال تھا مگر انہیں بہت ساری باتوں پر اعتراض ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمہارے اور ہمارے گھرانے کے اسٹیٹس میں بہت فرق ہے… اور وہ تمہارے خاندان کے بارے میں بھی جانتے ہیں اور انہیں سب سے بڑا اعتراض اس بات پر ہے کہ تم اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔ انہیں یہ خوف ہے کہ اس صورت میں تمہارے گھر والے ہمیں تنگ کریں گے۔”
وہ ساکت بیٹھی موبائل کان سے لگائے اس کی آواز سنتی رہی۔ ”آپ نے انہیں رضامند کرنے کی کوشش نہیں کی۔” ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے کہا۔
”میں نے بہت کوشش کی۔ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر تمہارے گھر والے اس شادی پر تیار ہوجاتے ہیں تو پھر وہ بھی راضی ہوجائیں گے۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ تمہارا خاندان کیا ہے لیکن تمہارے گھر والوں کی مرضی کے بغیر وہ میری اور تمہاری شادی کو تسلیم نہیں کریں گے۔” جلال نے اس سے کہا۔
”اور آپ… آپ کیا کہتے ہیں؟”
”امامہ! میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔” جلال نے کچھ بے بسی کے عالم میں کہا۔
”جلال! میرے پیرنٹس کبھی آپ سے میری شادی پر تیار نہیں ہوں گے، بصورتِ دیگر ہماری پوری کمیونٹی ان کا بائیکاٹ کردے گی اور وہ یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتے اور پھر آپ اسجد سے میری منگنی کو کیوں بھول رہے ہیں۔”
”امامہ! تم پھر بھی اپنے والدین سے بات تو کرو، ہوسکتا ہے کوئی راستہ نکل آئے۔”
”میں کل بابا سے تھپڑ کھا چکی ہوں۔ صرف یہ بتا کر کہ میں کسی دوسرے میں انٹرسٹڈ ہوں۔ ”امامہ کی آواز بھرانے لگی۔ ”اگر انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں جسے پسند کرتی ہوں وہ ان کے مذہب کا نہیں ہے تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ پلیز آپ انکل سے بات کریں۔ آپ انہیں میرا پرابلم بتائیں۔” اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔
”میں ابو سے کل دوبارہ بات کروں گا اور امی سے بھی… پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ کیا کہتے ہیں۔” جلال پریشان تھا۔
امامہ نے جس وقت اس سے بات کرنے کے بعد فون بند کیا وہ بے حد دل گرفتہ تھی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ جلال کے والدین کو اس شادی پر اعتراض ہوگا۔
موبائل ہاتھ میں لیے وہ بہت دیر تک خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی۔
٭…٭…٭





”تمہارے ابو مجھ سے پہلے ہی اس سلسلے میں بات کرچکے ہیں اور جو وہ کہہ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے۔ تم کو اس طرح کے خطروں میں کودنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” جلال کی امی نے قطعی لہجے میں اس سے کہا۔ وہ امامہ کے کہنے پر ان سے بات کر رہا تھا۔
”مگر امی! اس میں خطرے والی کیا بات ہے… کچھ بھی نہیں ہوگا، آپ خوامخواہ خوف زدہ ہو رہی ہیں۔” جلال نے کچھ احتجاجی انداز میں کہا۔
”تم حماقت کی حد تک بے وقوف ہو۔” اس کی امی نے اس کی بات پر اسے جھڑکا۔ ”امامہ کے خاندان اور اس کے والد کو تمہارے ابو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہارے ساتھ شادی ہونے کی صورت میں وہ تمہارا پیچھا چھوڑ دیں گے یا ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔”
”امی! ہم اس شادی کو خفیہ رکھیں گے، کسی کو بھی نہیں بتائیں گے۔ میں اسپیشلائزیشن کے لیے باہر جانے کے کچھ عرصہ کے بعد اسے بھی وہاں بلوالوں گا۔ سب کچھ خفیہ ہی رہے گا کسی کو بھی پتا نہیں چلے گا۔”
”ہم آخر امامہ کے لیے کیوں اتنا بڑا خطرہ مول لیں اور تمہیں ویسے بھی یہ پتاہونا چاہیے کہ ہمارے یہاں اپنی فیملی میں ہی شادی ہوتی ہے۔ ہمیں امامہ یا کسی اور کی ضرورت نہیں ہے۔” امی نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”مجھے اگر یہ اندازہ ہوتا کہ تم اس طرح اس لڑکی میں دلچسپی لینا شروع کردو گے تو میں اس سے پہلے ہی تمہاری کہیں نسبت طے کردیتی۔” اس کی امی نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”امی! میں امامہ کو پسند کرتا ہوں۔”
”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم اسے پسند کرتے ہو یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بارے میں، میں اور تمہارے ابو کیا سوچتے ہیں… اور ہم دونوں کو نہ تو وہ پسند ہے اور نہ ہی اس کا خاندان۔” امی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”امی! وہ بہت اچھی لڑکی ہے، آپ اسے اچھی طرح جانتی ہیں، وہ یہاں آتی رہی ہے اور تب تو آپ اس کی بہت زیادہ تعریف کرتی تھیں۔” جلال نے انہیں یاد دلایا۔
”تعریف کرنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں اسے اپنی بہو بنالوں۔” وہ خفگی سے بولیں۔
”امی! کم از کم آپ تو ابو جیسی باتیں نہ کریں۔ تھوڑا سا ہمدردی سے سوچیں۔” اس بار جلال نے لجاجت آمیز انداز میں کہا۔
”جلال! تمہیں احساس ہونا چاہیے کہ تمہاری اس ضد اور فیصلے سے ہمارے پورے خاندان پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمارا بھی خواب ہے کہ ہم تمہاری شادی کسی اچھے اور اونچے خاندان میں کریں۔ تمہارے ابو اگر تمہیں اس شادی کی اجازت دے بھی دیں تو بھی میں کبھی نہیں دوں گی۔ نہ ہی میں امامہ کو اپنی بہو کے طور پر قبول کروں گی۔”
”امی! آپ اس کی صورتِ حال کو سمجھیں، وہ کتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے۔ اس وقت اسے مدد کی ضرورت ہے۔”
”اگر وہ اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے تو پھر اسے کم از کم دوسرے کے لیے کوئی پریشانی کھڑی نہیں کرنی چاہیے۔ میں اسے برا نہیں کہہ رہی۔ وہ بہت اچھا فیصلہ کر رہی ہے مگر ہم لوگوں کی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔ تم کچھ عقل سے کام لو۔ تمہیں اسپیشلائزیشن کے لیے باہر جانا ہے۔ اپنا ہاسپٹل بنانا ہے۔” اس کی امی نے قدرے نرم لہجے میں کہا۔ ”بیٹا! اچھے خاندان میں شادی ہو تو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے بہت سے مواقع ملتے ہیں اور تمہارے لیے تو پہلے ہی بہت سے خاندانوں کی طرف سے پیغام آرہے ہیں۔ جب اسپیشلائزیشن کرلوگے تو کتنے اونچے خاندان میں تمہاری شادی ہوسکتی ہے۔ تمہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔ خود سوچو، صرف امامہ سے شادی کر کے تمہیں کیا ملے گا… خاندان اس کا بائیکاٹ کرچکا ہوگا۔ معاشرے میں جو بدنامی ہوگی، وہ الگ … اور تم سے شادی ہو بھی جائے تو کل کو تمہارے بچے تمہارے اور امامہ کے بارے میں کیا سوچیں گے… یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے ساری عمر کی بات ہے۔” امی اسے سنجیدہ لہجے میں سمجھا رہی تھیں۔ جلال کسی اعتراض یا احتجاج کے بغیر خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
اس کے چہرے سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ قائل ہوا ہے یا نہیں۔
٭…٭…٭
امامہ نے اگلی رات جلال کو پھر فون کیا… فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔
”امامہ! میں نے امی سے بھی بات کی ہے۔ وہ ابو سے زیادہ ناراض ہوئی ہیں میری بات پر۔”
امامہ کا دل گویا مکمل ڈوب گیا۔
”وہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے ایک فضول معاملے میں خود کو انوالو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” جلال نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔ ”میں نے انہیں تمہارے پرابلم کے بارے میں بھی بتایا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ تمہارا پرابلم ہے، ہمارا نہیں۔”
امامہ کو اس کے لفظوں سے شدید تکلیف ہوئی تھی۔
”میں نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ رضا مند نہیں ہیں اور نہ ہی ہوں گی۔” جلال کی آواز دھیمی ہوگئی تھی۔
”مجھے تہاری مدد کی ضرورت ہے جلال!” اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ کسی موہوم سی اُمید پر کہا۔
”میں جانتا ہوں امامہ! مگر میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میرے والدین اس پرپوزل پر رضامند نہیں ہیں۔”
”کیا تم ان کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کرسکتے؟”
”نہیں، یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ مجھے ان سے اتنی محبت ہے کہ میں انہیں ناراض کر کے تم سے شادی نہیں کرسکتا۔”
”پلیز جلال!” وہ گڑگڑائی۔ ”تمہارے علاوہ میرے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔”
”میں اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کرسکتا، تم مجھے اس کے لیے مجبور نہ کرو۔”
”میں آپ کو نافرمانی کے لیے نہیں کہہ رہی ہوں۔ میں تو آپ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہوں۔”
اس کے اعصاب چٹخ رہے تھے۔ اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے زندگی میں کبھی کسی سے اتنے التجائیہ اور منت بھرے انداز میں بات کی ہو۔
”آپ مجھ سے صرف نکاح کرلیں، اپنے والدین کو اس کے بارے میں نہ بتائیں۔ بے شک آپ بعد میں ان کی مرضی سے بھی شادی کرلیں، میں اعتراض نہیں کروں گی۔”
”تم اب بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔ خود سوچو کہ اگر ایسے کسی نکاح کے بارے میں ابھی میرے والدین کو پتا چل جاتا ہے تو وہ کیا کریں گے… وہ تو مجھے گھر سے نکال دیں گے… اور پھر تم اور میں کیا کریں گے۔”
”ہم محنت کرلیں گے، کچھ نہ کچھ کرلیں گے۔”
”تمہارے اس کچھ نہ کچھ سے میں باہر پڑھنے جاسکوں گا؟” اس بار جلال کا لہجہ چبھتا ہوا تھا، وہ بول نہیں سکی۔
”نہیں امامہ! میرے اتنے خواب اور خواہشات ہیں کہ میں انہیں تمہارے لیے یا کسی کے لیے بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ مجھے تم سے محبت ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر میں اس جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا، جس کا مظاہرہ تم کر رہی ہو۔ تم دوبارہ مجھے فون مت کرنا کیوں کہ میں اب اس سارے معاملے کو یہیں ختم کر دینا چاہتا ہوں، مجھے تم سے ہمدردی ہے مگر تم اپنے اس مسئلے کا حل خود نکالو، میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا، خدا حافظ۔”
جلال نے فون بند کر دیا۔
”رات دس بج کر پچاس منٹ پر اسے اپنے ارد گرد کی پوری دنیا دھوئیں میں تحلیل ہوتی نظر آئی۔ کسی چیز کے مٹھی میں ہونے اور پھر دور دور تک کہیں نہ ہونے کا فرق کوئی اِمامہ سے بہتر نہیں بتا سکتا تھا۔ ماؤف ذہن اور شل ہوتے ہوئے اعصاب کے ساتھ وہ بہت دیر تک کسی بت کی طرح اپنے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی رہی۔
“مجھے بتا دینا چاہیے اب بابا کو سب کچھ… اس کے سوا اب اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے… شاید وہ خود ہی مجھے اپنے گھر سے نکال دیں… کم از کم مجھے اس گھر سے تو رہائی مل جائے گی۔”
٭…٭…٭
”میں اسجد سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تو شاپنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” امامہ نے مستحکم لہجے میں سلمیٰ سے کہا۔ سلمیٰ اسے اگلے روز اپنے ساتھ مارکیٹ جانے کا کہنے کے لیے آئی تھیں۔
”پہلے تمہیں شادی پر اعتراض تھا، اب تمہیں اسجد سے شادی پر اعتراض ہے، آخر تم چاہتی کیا ہو۔” سلمیٰ اس کی بات پر مشتعل ہوگئیں۔
”صرف یہ کہ آپ اسجد سے میری شادی نہ کریں۔”
”تو پھر کس سے کرنا چاہتی ہو تم۔” ہاشم مبین اچانک کھلے دروازے سے اندر آگئے تھے۔ یقینا انہوں نے باہر کوریڈور میں امامہ اور سلمیٰ کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی اور وہ اپنے غصہ پر قابو نہیں رکھ پائے تھے۔ امامہ یک دم چپ ہوگئی۔
”بولو، کس سے کرنا چاہتی ہو… اب منہ بند کیوں ہوگیا ہے، آخر تم اسجد سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی… کیا تکلیف ہے تمہیں۔” انہوں نے بلند آواز میں کہا۔
”بابا! شادی ایک بار ہوتی ہے اور وہ میں اپنی پسند سے کروں گی۔” وہ ہمت کر کے بولی۔
”کل تک اسجد تمہاری پسند تھا۔” ہاشم مبین نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”کل تھا، اب نہیں ہے۔”
”کیوں، اب کیوں نہیں ہے؟” امامہ کچھ کہے بغیر ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”بولو، اب کیوں پسند نہیں ہے وہ تمہیں۔” ہاشم مبین نے بلند آواز میں پوچھا۔
”بابا! میں کسی مسلمان سے شادی کروں گی۔” ہاشم مبین کو لگا آسمان ان کے سر پر گر پڑا تھا۔
”کیا… کہا تم نے…؟” انہوں نے بے یقینی سے کہا۔
”میں کسی غیر مسلم سے شادی نہیں کروں گی کیوں کہ میں اسلام قبول کرچکی ہوں۔”
کمرے میں اگلے کئی منٹ تک مکمل خاموشی رہی۔ سلمیٰ کو جیسے سکتہ ہوگیا تھا اور ہاشم مبین… وہ ایک پتھر کے مجسّمے کی طرح اسے دیکھ رہے تھے۔ ان کا منہ کھلا ہوا تھا وہ جیسے سانس لینا بھول گئے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی انہیں زندگی میں اپنی اولاد اور وہ بھی اپنی سب سے لاڈلی بیٹی کے سامنے اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے چالیس سال مکمل طور پر بھنور کی زد میں آگئے تھے۔
”تم کیا بکواس کر رہی ہو۔” ہاشم مبین کے اندر اشتعال کی ایک لہر اٹھی تھی۔
”بابا! آپ جانتے ہیں میں کیا کہہ رہی ہوں۔ آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔”
”تم پاگل ہوگئی ہو۔” انہوں نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے کہا۔ امامہ نے کچھ کہنے کے بجائے نفی میں گردن ہلائی۔ وہ ہاشم مبین کی ذہنی کیفیت کو سمجھ سکتی تھی۔ ”اس لیے تمہیں پیدا کیا… تمہاری پرورش کی کہ تم … تم…” ہاشم مبین کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے کیا کہیں۔ ”صرف اسجد سے شادی نہ کرنے کے لیے تم یہ سب کر رہی ہو، صرف اس لیے کہ تمہاری شادی اس آدمی سے کردیں جس سے تم چاہتی ہو۔”
”نہیں ایسا نہیں ہے۔”
”ایسا ہی ہے… تم بے وقوف سمجھتی ہو مجھے۔” ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔
”آپ میری شادی کسی بھی آدمی سے کریں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بس وہ آپ کی کمیونٹی سے نہ ہو… پھر آپ کم از کم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ میں کسی خاص آدمی کے لیے یہ سب کر رہی ہوں۔”
ہاشم مبین اس کی بات پر دانت پیسنے لگے۔
”تم جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار …تمہیں پتا کیا ہے۔۔۔”
”میں سب جانتی ہوں بابا! میری عمر بیس سال ہے، میں آپ کی انگلی پکڑ کر چلنے والی بچی نہیں ہوں… میں جانتی ہوں آپ کے اس مذہب کی وجہ سے ہمارے خاندان پر بڑی برکات نازل کی گئی ہیں۔”
وہ بڑے مستحکم اور ہموار انداز میں کہتی گئی۔ ”تم …تم … بخشش نہیں ہوگی تمہاری۔ تم۔۔۔”
ہاشم مبین غصے کے عالم میں انگلی اٹھا کر بولنے لگے۔ امامہ کو ان پر ترس آنے لگا۔ اسے دوزخ میں کھڑے ہوکر دوزخ سے ڈرانے والے شخص پر ترس آیا، اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر پھرنے والے شخص پر ترس آیا، اسے مہر شدہ دل والے آدمی پر ترس آیا، اسے نفس زدہ آدمی پر ترس آیا، اسے گمراہی کی سب سے اوپر والی سیڑھی پر کھڑے آدمی پر ترس آیا۔
”تم گمراہی کے رستے پر چل پڑی ہو… چند کتابیں پڑھ کر تم …” امامہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”آپ اس بارے میں مجھ سے بحث نہیں کرسکیں گے، میں سب کچھ جانتی ہوں، تحقیق کرچکی ہوں، تصدیق کرچکی ہوں۔ آپ مجھے کیا بتائیں گے، کیا سمجھائیں گے۔ آپ نے اپنی مرضی کا راستہ چن لیا ہے، میں نے اپنی مرضی کا راستہ چن لیا۔ آپ وہ کر رہے ہیں جو آپ صحیح سمجھتے ہیں میں وہ کر رہی ہوں جو میں صحیح سمجھتی ہوں۔” آپ کا عقیدہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔ میرا عقیدہ میرا ذاتی مسئلہ ہے۔ کیا اب یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ میرے اس فیصلے کو قبول کرلیں، جذباتی حماقت کے بجائے بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جانے والا قدم سمجھ کر۔”
اس نے بڑی رسانیت اور سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ ہاشم مبین کی ناراضی میں اور اضافہ ہوا۔
”میں … میں اپنی بیٹی کو مذہب بدلنے دوں تاکہ پوری کمیونٹی میرا بائیکاٹ کردے… میں فٹ پاتھ پر آجاؤں… نہیں اِمامہ! یہ نہیں ہوسکتا۔ تمہارا اگر دماغ بھی خراب ہوگیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا دماغ بھی خراب ہوجائے۔ کوئی بھی مذہب اختیار کرو مگر تمہاری شادی میں اسجد سے ہی کروں گا، تمہیں اسی کے گھر جانا ہوگا… اس کے گھر چلی جاؤ اور پھر وہاں جاکر طے کرنا کہ تمہیں کیا کرنا ہے کیا نہیں۔ ہوسکتا ہے تمہیں عقل آجائے۔”
وہ غصے کے عالم میں کمرے سے نکل گئے۔
”مجھے پتا ہوتا کہ تمہاری وجہ سے ہمیں اتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا تو میں پیدا ہوتے ہی تمہارا گلا دبا دیتی۔” ہاشم مبین کے جاتے ہی سلمیٰ نے کھڑے ہوتے ہوئے دانت پیس کر کہا۔ ”تم نے ہماری عزت خاک میں ملانے کا تہیہ کرلیا ہے۔”
اِمامہ کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔ وہ کچھ دیر اسی طرح بولتی رہیں پھر کمرے سے چلی گئیں۔
انہیں اس کے کمرے سے گئے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا جب دروازے پر دستک دے کر اسجد اندر داخل ہوا۔ امامہ کو اس کے اس وقت وہاں آنے کی توقع نہیں تھی۔ اسجد کے چہرے پر پریشانی بہت نمایاں تھی۔ یقینا اسے ہاشم مبین نے بلوایا تھا اور وہ اسے سب کچھ بتا چکے تھے۔
”یہ سب کیا ہو رہا ہے امامہ؟” اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔ وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی اسے دیکھتی رہی۔
”تم کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ۔”
”اسجد! تمہیں اگر یہ بتا دیا گیا ہے کہ میں کیا کر رہی ہوں تو پھر یہ بھی بتا دیا گیا ہوگا کہ میں کیوں کر رہی ہوں۔”
”تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم کیا کر رہی ہو۔” وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔




Loading

Read Previous

جزدان میں لپٹی دعائیں — آدم شیر

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!