پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۳

”ایسا ہوچکا ہے۔”
”کیا ثبوت ہے… نکاح نامہ ہے تمہارے پاس؟” وسیم نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
”یہاں نہیں ہے، لاہور میں ہے، میرے سامان میں۔”
”بابا! میں کل لاہور سے اس کا سامان لے آتاہوں۔ دیکھ لیتے ہیں۔” وسیم نے ہاشم مبین سے کہا۔ اِمامہ بے اختیار پچھتائی۔ سامان سے کیا مل سکتا تھا۔
”شادی کر بھی لی ہے تو کوئی بات نہیں، طلاق، دلوا کر تمہاری شادی اسجد سے کرواؤں گا اور اس آدمی نے طلاق نہ دی تو پھر اسے قتل کروادوں گا۔” ہاشم مبین نے سرخ چہرے کے ساتھ وہاں سے جاتے ہوئے کہا۔ کمرہ آہستہ آہستہ خالی ہوگیا۔ وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اسے پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ جال میں پھنسنے کے بعد کے احساسات کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک اتفاق تھا کہ نکاح نامے کی کاپی سالار نے اس کو نہیں بھجوائی تھی۔ اگر اس کے پاس ہوتی بھی تو تب بھی وہ اسے ہاشم مبین کو نہیں دے سکتی تھی ورنہ سالار سکندر کا نام نکاح نامے پر دیکھنے کے بعد ان کے لیے اس تک پہنچنا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا منٹوں کا کام تھا اور اس کے سامان سے نکاح نامہ نہیں ملے گا تو اس کے اس بیان پر کسی کو یقین نہیں آسکتا کہ وہ نکاح کرچکی تھی۔
اس نے کمرے کے دروازے کو لاک کر دیا اور موبائل پر سالار کو کال کرنے لگی۔ اس نے ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔
”تم ایک بار پھر لاہور جاؤ اور جلال کو میرے بارے میں بتاؤ… میں اب اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔ مجھے یہاں سے نکلنا ہے اور اس کے علاوہ میں کہیں نہیں جاسکتی۔ تم میرے لیے ایک وکیل کو ہائر کرو اور اس سے کہو کہ وہ میرے پیرنٹس کو میرے شوہر کی طرف سے مجھے حبس بے جا میں رکھنے کے خلاف ایک کورٹ نوٹس بھجوائے۔”
”تمہارے شوہر، یعنی میری طرف سے۔”
”تم وکیل کو اپنا نام مت بتانا بلکہ یہ بہتر ہے کہ اپنے کسی دوست کے ذریعے وکیل ہائر کرو اور میرے شوہر کا کوئی بھی فرضی نام دے سکتے ہو۔ تمہارا نام وکیل کے ذریعے انہیں پتا چلے گا تو وہ تم تک پہنچ جائیں گے اور میں یہ نہیں چاہتی۔”
اِمامہ نے اسے یہ نہیں بتایا کہ اسے کیا خدشہ ہے اور نہ ہی سالار نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
اس سے بات کرنے کے بعد امامہ نے فون بند کر دیا۔ اگلے روز دس گیارہ بجے کے قریب کسی وکیل نے فون کر کے ہاشم مبین سے امامہ کے سلسلے میں بات کی اور انہیں اِمامہ کو زبردستی اپنے گھر رکھنے کے بارے میں اس کے شوہر کی طرف سے کئے جانے والے کیس کے بارے میں بتایا۔ ہاشم مبین کو مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ وہ غصے میں پھنکارتے ہوئے اس کے کمرے میں گئے اور اسے بری طرح مارا۔
”تم دیکھنا اِمامہ! تم کس طرح برباد ہوگی… ایک ایک شے کے لیے ترسوگی تم… جو لڑکیاں تمہاری طرح اپنے ماں باپ کی عزت کو نیلام کرتی ہیں ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ تم ہمیں کورٹ تک لے گئی ہو… تم نے وہ سارے احسان فراموش کردیے، جو ہم نے تم پر کیے۔ تمہارے جیسی بیٹیوں کو واقعی پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردینا چاہیے۔”
وہ بڑی خاموشی سے پٹتی رہی۔ اپنے باپ کی کیفیات کو سمجھ سکتی تھی مگر وہ اپنی کیفیات اور اپنے احساسات انہیں نہیں سمجھا سکتی تھی۔
”تم نے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا، کسی کو نہیں۔ ہمیں زندہ درگو کر دیا ہے تم نے۔”
سلمیٰ ان کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی تھی، مگر انہوں نے ہاشم مبین احمد کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ خود بھی بری طرح مشتعل تھیں، وہ جانتی تھیں کہ امامہ کا یہ قدم کس طرح ان کے پورے خاندان کو متاثر کرنے والا تھا اور خاص طور پر ان کے شوہر کو۔
”تم نے ہمارے اعتماد کا خون کیا ہے۔ کاش تم میری اولاد نہ ہوتیں۔ کبھی میرے خاندان میں پیدا نہ ہوئی ہوتیں۔ پیدا ہو ہی گئی تھی تو تب ہی مر جاتی… یا میں ہی تمہیں مار دیتا۔” اِمامہ آج ان کی باتوں اور پٹائی پر نہیں روئی تھی۔ اس نے مدافعت کی کوئی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ وہ صرف خاموشی کے ساتھ پٹتی رہی پھر ہاشم مبین احمد جیسے تھک سے گئے اور مارتے مارتے رک گئے۔ ان کا سانس پھول گیا تھا۔ وہ بالکل خاموشی سے ان کے سامنے دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔
”تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے، سب کچھ چھوڑ دو۔ اس لڑکے سے طلاق لے لو اور اسجد سے شادی کرلو۔ ہم سب اس کو معاف کردیں گے، بھلا دیں گے۔” اس بار سلمیٰ نے تیز لہجے میں اس سے کہا۔
”نہیں، واپس آنے کے لیے اسلام قبول نہیں کیا مجھے واپس نہیں آنا۔” اِمامہ نے مدھم مگر مستحکم آواز میں کہا۔ ”آپ مجھے اس گھر سے چلے جانے دیں، مجھے آزاد کردیں۔”
”اس گھر سے نکل جاؤگی تو دنیا تمہیں بہت ٹھوکریں مارے گی… تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ باہر کی دنیا میں کیسے مگرمچھ تمہیں ہڑپ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ جس لڑکے سے شادی کر کے تم نے ہمیں ذلیل کیا ہے وہ تمہیں بہت خوار کرے گا۔ ہمارے خاندان کو دیکھ کر اس نے تمہارے ساتھ اس طرح چوری چھپے رشتہ جوڑا ہے، جب ہم تمہیں اپنے خاندان سے نکال دیں گے اور تم پائی پائی کی محتاج ہو جاؤگی تو وہ بھی تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا، تمہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی، کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا۔” سلمیٰ اب اسے ڈرا رہی تھیں۔ ”ابھی بھی وقت ہے امامہ! تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے۔”
”نہیں امی! میرے پاس کوئی دقت نہیں ہے، میں سب کچھ طے کرچکی ہوں۔ میں اپنا فیصلہ آپ کو بتا چکی ہوں۔ مجھے یہ سب قبول نہیں۔ آپ مجھے جانے دیں، اپنے خاندان سے الگ کرنا چاہتے ہیں، کر دیں۔جائیداد سے محروم کرنا چاہتے ہیں، کردیں۔ میں کوئی اعتراض نہیں کروں گی مگر میں کروں گی وہی جو میں آپ کو بتا رہی ہوں۔ میں اپنی زندگی کے راستے کا انتخاب کرچکی ہوں۔ آپ یا کوئی بھی اسے بدل نہیں سکتا۔”
”ایسی بات ہے تو تم اس گھر سے نکل کر دکھاؤ، میں تمہیں جان سے مار دوں گا لیکن اس گھر سے تمہیں جانے نہیں دوں گا… اور اس وکیل کو تو میں اچھی طرح دیکھ لوں گا۔ تمہیں اگر یہ خوش فہمی ہے کہ کوئی کورٹ یا عدالت تمہیں میری تحویل سے نکال سکتی ہے تو یہ تمہاری بھول ہے، میں تمہیں کبھی بھی کہیں بھی جانے نہیں دوں گا۔ میں بیلف کے آنے سے پہلے اس گھر سے کہیں اور منتقل کردوں گا پھر میں دیکھوں گا کہ تم کس طرح اپنے فیصلے کو تبدیل نہیں کرتیں اور مجھے اگر وہ لڑکا نہ ملا، جس سے تم نے شادی کی ہے تو پھر میں اس بات کی پروا کیے بغیر کہ تمہارا نکاح ہوچکا ہے اسجد سے تمہاری شادی کردوں گا۔ میں اس شادی کو سرے سے ماننے سے انکار کرتا ہوں۔ تمہاری شادی صرف وہ ہوگی جو میری مرضی سے ہوگی، اس کے علاوہ نہیں۔” وہ مشتعل انداز میں کہتے ہوئے سلمیٰ کے ساتھ باہر نکل گئے۔ وہ وہیں دیوار کے ساتھ کھڑی خوف زدہ اور پریشان نظروں سے دروازے کو دیکھتی رہی۔ اس نے جس مقصد کے لیے شادی کی تھی اس کا کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ ہاشم مبین احمد اپنی بات پر چٹان کی طرح اڑے ہوئے تھے۔
٭…٭…٭





”بے چاری امامہ بی بی!” ناصرہ نے سالار کے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے اچانک بلند آواز میں افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا۔ سالار نے مڑ کر اسے دیکھا۔ وہ اپنی اسٹڈی ٹیبل پر پڑی ہوئی کتابوں کو سمیٹ رہا تھا۔ ناصرہ اسے متوجہ دیکھ کر تیزی سے بولی۔
”بڑی مار پڑی ہے جی کل رات کو۔”
”کس کو مار پڑی ہے” سالار نے کتابیں ایک طرف کرتے ہوئے کہا۔
”امامہ بی بی کو جی! اور کسے۔” وہ کتابیں ایک طرف کرتے کرتے رک گیا اور ناصرہ کو دیکھا جو کمرے میں موجود ایک شیلف کی جھاڑ پونچھ کر رہی تھی۔
”ہاشم مبین صاحب نے کل بہت مارا ہے انہیں۔”
سالار بے حد محظوظ ہوا۔ ”واقعی؟”
”ہاں جی، بہت زیادہ پٹائی کی ہے، میری بیٹی بتا رہی تھی۔” ناصرہ نے کہا۔
”ویری نائس۔” سالار نے بے اختیار تبصرہ کیا۔
”جی… آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” ناصرہ نے اس سے پوچھا۔
”کچھ نہیں… مارا کس لیے؟” سالار نے پوچھا
اس کے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ ناصرہ کو عجیب لگی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس خبر پر مسکرائے گا۔ اس کے ذاتی ”قیافوں” اور ”اندازوں” کے مطابق ان دونوں کے درمیان جیسے تعلقات تھے اس پر سالار کو بہت زیادہ افسردہ ہونا چاہیے تھا مگر یہاں صورت حال بالکل برعکس تھی۔
”بے چاری امامہ بی بی کو پتا چل جائے کہ سالار صاحب اس خبر پر مسکرا رہے تھے تو وہ تو صدمے سے ہی مرجائیں۔” ناصرہ نے دل میں سوچا۔
”کس بات پر مارنا ہے جی!” سنا ہے وہ اسجد صاحب سے شادی پر تیار نہیں ہیں کسی اور ”لڑکے” سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔” ناصرہ نے لڑکے پر زور دیتے ہوئے معنی خیز انداز میں سالار کو دیکھا۔
”بس اس بات پر۔” سالار نے لاپروائی سے کہا۔
”یہ کوئی چھوٹی بات تھوڑی ہے جی، ان کے پورے گھر میں طوفان مچا ہوا ہے۔ شادی کی تاریخ طے ہوچکی ہے، کارڈ آچکے ہیں اور اب امامہ بی بی بضد ہیں کہ وہ اسجد صاحب سے شادی نہیں کریں گی۔ بس اسی بات پر ہاشم صاحب نے ان کی پٹائی کی۔”
”یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ اس پر کسی کو مارا جائے۔” وہ اپنی کتابوں میں مصروف تھا۔
”یہ تو آپ کہہ رہے ہیں نا… ان لوگوں کے لیے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔” ناصرہ نے اسی طرح صفائی کرتے ہوئے تبصرہ کیا۔ ”میں تو بڑی دکھی ہوں امامہ بی بی کے لیے۔ بڑی اچھی ہیں، ادب لحاظ والی… اور اب دیکھیں… کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ان پر۔ ہاشم صاحب نے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔ میری بیٹی روز ان کا کمرہ صاف کرتی ہے… اور وہ بتاتی ہے کہ ان کا تو چہرہ ہی اتر کر رہ گیا ہے۔”
ناصرہ اسی طرح بول رہی تھی۔ شاید وہ شعوری طور پر یہ کوشش کر رہی تھی کہ سالار اسے اپنا اور امامہ کا حمایتی اور طرف دار سمجھتے ہوئے کوئی راز کہہ دے مگر سالار احمق نہیں تھا اور اسے ناصرہ کی اس نام نہاد ہمدردی سے کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں۔ اگر امامہ کی پٹائی ہو رہی تھی اور اسے کچھ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو اس سے اس کا کیا تعلق تھا، مگر اسے اس صورت حال پر ہنسی ضرور آرہی تھی۔ کیا اس دور میں بھی کوئی اس عمر کی اولاد پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور وہ بھی ہاشم مبین احمد جیسے امیر طبقے کا آدمی… حیرانی کی بات تھی
سوچ کی ایک ہی رو میں بہت سے متضاد خیالات بہ رہے تھے۔
ناصرہ کچھ دیر اسی طرح بولتی اپنا کام کرتی رہی مگر پھر جب اس نے دیکھا کہ سالار اس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہااور اپنے کام میں مصروف ہو چکا ہے تو وہ قدرے مایوس ہوکر خاموش ہوگئی۔” یہ پہلے محبت کرنے والے تھے، جن کا رویہ بے حد عجیب تھا… کوئی اضطراب… بے چینی اور پریشانی تو ان دونوں کے درمیان نظر ہی نہیں آرہی تھی… ایک دوسرے کی تکلیف کا بھی سن کر… شاید امامہ بی بی بھی ان کے بارے میں اس طرح کی کوئی بات سن کر اسی طرح مسکرائیں، کون جانتا ہے۔”
ناصرہ نے شیلف پر پڑی ایک تصویر اٹھا کر صاف کی۔
٭…٭…٭
گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ اس کی زندگی کے سب سے مشکل اور تکلیف دہ فیصلوں میں سے ایک تھا مگر اس کے علاوہ اس کے پاس اب دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہاشم مبین احمد اسے کہاں لے جاتے اور پھر کس طرح اسے طلاق دلوا کر اس کی شادی اسجد سے کرتے، وہ نہیں جانتی تھی۔ واحد چیز جو وہ جانتی تھی وہ یہ حقیقت تھی کہ ایک بار وہ اسے کہیں اور لے گئے تو پھر اس کے پاس رہائی اور فرار کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اسے جان سے کبھی نہیں ماریں گے مگر زندہ رہ کر اس طرح کی زندگی گزارنا زیادہ مشکل ہو جاتا، جیسی زندگی کی وہ اس وقت توقع اور تصور کر رہی تھی۔
ہاشم مبین احمد کے چلے جانے کے بعد وہ بہت دیر تک بیٹھ کر روتی رہی اور پھر اس نے پہلی بار اپنے حالات پر غور کرنا شروع کیا۔ اسے گھر سے صبح ہونے سے پہلے پہلے نکلنا تھا اور نکل کر کسی محفوظ جگہ پر پہنچنا تھا۔ محفوظ جگہ…؟ اس کے ذہن میں ایک بار پھر جلال انصر کا خیال آیا، اس وقت صرف وہی شخص تھا جو اسے صحیح معنوں میں تحفظ دے سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے مجھے اپنے سامنے دیکھ کر اس کا فیصلہ اور رویہ بدل جائے، وہ اپنے فیصلے پر غور کرنے پر مجبور ہوجائے، ہوسکتا ہے وہ مجھے سہارا اور تحفظ دینے پر تیار ہوجائے، اس کے والدین کو مجھ پر ترس آجائے۔
ایک موہوم سی امید اس کے دل میں اُبھر رہی تھی۔ وہ مدد نہیں بھی کرتے تب بھی کم از کم میں آزاد تو ہوں گی۔ اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزار تو سکوں گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں یہاں سے کیسے نکلوں گی اور جاؤں گی کہاں…؟
وہ بہت دیر تک پریشانی کے عالم میں بیٹھی رہی، اسے ایک بار پھر سالار کا خیال آیا۔
”اگر میں کسی طرح اس کے گھر پہنچ جاؤں تو وہ میری مدد کرسکتا ہے۔”
اس نے سالار کے موبائل پر اس کا نمبر ملایا۔ موبائل آف تھا، کئی بار کال ملائی لیکن اس سے رابطہ نہ ہوسکا۔ امامہ نے موبائل بند کر دیا۔ اس نے ایک بیگ میں اپنے چند جوڑے، کپڑے اور دوسری چیزیں رکھ لیں۔ اس کے پاس کچھ زیورات اور رقم بھی تھی، اس نے انہیں بھی اپنے بیگ میں رکھ لیا پھر جتنی بھی قیمتی چیزیں اس کے پاس تھیں، جنہیں وہ آسانی سے ساتھ لے جاسکتی تھی اور بعد میں بیچ کر پیسے حاصل کر سکتی تھی وہ انہیں اپنے بیگ میں رکھتی گئی۔ بیگ بند کرنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور پھر دو نفل ادا کیے۔
اس کا دل بے حد بوجھل ہو رہا تھا۔ بے سکونی اور اضطراب نے اس کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ آنسو بہا کر بھی اس کے دل کا بوجھ کم نہیں ہوا تھا۔ نوافل ادا کرنے کے بعد جتنی آیات اور سورتیں اسے زبانی یاد تھیں اس نے وہ ساری پڑھ لیں۔
”بیگ لے کر اپنے کمرے کی لائٹ بند کرکے وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔ لاؤنج کی ایک لائٹ کے علاوہ ساری لائٹیں آف تھیں، وہاں زیادہ روشنی نہیں تھی۔ وہ محتاط انداز میں چلتے ہوئے سیڑھیاں اُتر کر نیچے آگئی اور پھر کچن کی طرف چلی گئی۔ کچن تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ محتاط انداز میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے کچن کے اس دروازے کی طرف بڑھ گئی جو باہر لان میں کھلتا تھا۔ عقبی لان کے اس حصے میں کچھ سبزیاں لگائی گئی تھیں اور اس گھر میں کچن کا وہ دروازہ واحد دروازہ تھا جسے لاک نہیں کیا جاتا تھا، صرف چٹخنی لگادی جاتی تھی۔ دروازہ اس رات بھی لاک نہیں تھا۔ وہ آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔ کچھ فاصلے پر سرونٹ کوارٹرز تھے، وہ بے حد محتاط انداز میں چلتے ہوئے لان عبور کرکے اپنے اور سالار کے گھر کی درمیانی دیوار تک پہنچ گئی۔ دیوار بہت زیادہ بلند نہیں تھی، اس نے آہستگی سے بیگ دوسری طرف پھینک دیا اور پھر کچھ جدوجہد کے بعد خود بھی دیوار پھلانگنے میں کامیاب ہوگئی۔
٭…٭…٭
گہری نیند کے عالم میں سالار نے کھٹکے کی آواز سنی تھی پھر وہ آواز دستک کی آواز میں تبدیل ہوگئی تھی۔ رک رک کر … مگر مسلسل کی جانے والی دستک کی آواز … وہ اوندھے منہ پیٹ کے بل سو رہا تھا۔ دستک کی اس آواز نے اس کی نیند توڑ دی تھی۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اس نے تاریکی میں اپنے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ خوف کی ایک لہر اس کے اندر سرایت کرگئی۔ وہ آواز کھڑکیوں کی طرف سے آرہی تھی۔ یوں جیسے کوئی ان کھڑکیوں کو بجا رہا تھا مگر بہت آہستہ آہستہ…یا پھر شاید کوئی ان کھڑکیوں کو ٹٹولتے ہوئے کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سالار کے ذہن میں پہلا خیال کسی چور کا آیا تھا، وہ سلائیڈنگ ونڈوز تھی اور بدقسمتی سے وہاں کوئی گرل نہیں تھی۔ اس کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی گئی تھی کیوں کہ وہ امپورٹڈ گلاس کی بنی ہوئی تھیں جنہیں آسانی سے توڑا یا کاٹا نہیں جاسکتا تھا اور انہیں صرف اندر سے کھولا جاسکتا تھا۔ گھر کے چاروں طرف موجود لان میں ویسے بھی رات کو کتے کھلے ہوتے تھے اور ان کے ساتھ تین گارڈز بھی ہوتے تھے… مگر ان تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود اس وقت اس کھڑکی کے دوسری طرف موجود چھوٹے سے برآمدے میں کوئی موجود تھا، جو اس کھڑکی کو کھولنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
اپنے بیڈ سے دبے قدموں اٹھ کر وہ تاریکی میں ہی کھڑکی کی طرف آیا جس طرف سے آواز آرہی تھی، وہ اس کے بالکل مخالف سمت گیا اور بہت احتیاط کے ساتھ اس نے پردے کے ایک سرے کو تھوڑا سا اٹھاتے ہوئے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ لان میں لگی روشنیوں میں اس نے اپنی کھڑکی کے سامنے جسے کھڑا دیکھا تھا اس نے اسے ہکا بکا کر دیا تھا۔
”یہ پاگل ہے۔” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا اس وقت اگر لان میں پھرتے چار غیر ملکی نسل کے کتے اسے دیکھ لیتے تو سالار یا کسی بھی دوسرے کے پہنچنے سے پہلے وہ اسے چیر پھاڑ چکے ہوتے اور اگر کہیں گارڈز میں سے کسی نے اسے وہاں دیکھا ہوتا تو بھی وہ تفتیش یا تحقیق پر وقت ضائع کرنے سے پہلے اسے شوٹ کرچکے ہوتے مگر وہ اس وقت بالکل محفوظ وہاں کھڑی تھی اور یقینا اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر یہاں آئی تھی۔
ہونٹ بھینچے، اس نے کمرے کی لائٹ آن کی۔ لائٹ آن ہوتے ہی دستک کی آواز رک گئی۔ کتے کے بھونکنے کی آواز آرہی تھی۔ پردے کھینچتے ہی اس نے سلائیڈنگ ونڈو کو ہٹا دیا۔
”اندر آؤ جلدی۔” سالار نے تیزی سے امامہ سے کہا۔ وہ کچھ نروس ہوکر کھڑکی سے اندر آگئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک بیگ بھی تھا۔
”پردے برابر کرتے ہی سالار نے مڑکر اس سے کہا۔
”فارگاڈ سیک امامہ! تم پاگل ہو۔” امامہ نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ اپنا بیگ اپنے پیروں میں رکھ رہی تھی۔
”تم دیوار کراس کر کے آئی ہو؟”
”ہاں۔”
”تمہیں گارڈز یا کتوں میں سے کوئی دیکھ لیتا تو … اس وقت باہر تمہاری لاش پڑی ہوتی۔”
”میں نے تمہیں بہت دفعہ رنگ کیا، تمہارا موبائل آف تھا، کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا میرے پاس۔”
سالار نے پہلی بار اس کا چہرہ غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی اور چہرہ سستا ہوا تھا۔ وہ بڑی سی سفید چادر لپیٹے ہوئے تھی مگر اس کی چادر اور اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ مٹی کے داغ تھے۔
”تم مجھے لاہور چھوڑ کر آسکتے ہو؟” وہ کمرے کے وسط میں کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔
”اس وقت؟” اس نے حیرانی سے کہا۔
”ہاں، ابھی اسی وقت۔ میرے پاس وقت نہیں ہے۔”
سالار نے تعجب کے عالم میں وال کلاک پر ایک نظر ڈالی۔ ”وکیل نے تمہارے گھر فون کیا تھا، تمہارا مسئلہ حل نہیں ہوا؟”
امامہ نے نفی میں سر ہلایا۔ ”نہیں وہ لوگ مجھے صبح کہیں بھجوا رہے ہیں۔ میں تمہیں اسی لیے سارا دن فون کرتی رہی مگر تم نے موبائل آن نہیں کیا۔ میں چاہتی تھی تم وکیل کو کہو کہ وہ بیلف کے ساتھ آکر مجھے وہاں سے آزاد کروائے مگر تم سے کانٹیکٹ نہیں ہوا اور کل اگر تم سے کانٹیکٹ ہوتا بھی تو کچھ نہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ وہ لوگ اس سے پہلے ہی مجھے کہیں شفٹ کردیتے اور یہ ضروری تو نہیں کہ مجھے یہ پتا ہوتا کہ وہ مجھے کہاں شفٹ کر رہے ہیں۔”
سالار نے جما ہی لی۔ اسے نیند آرہی تھی۔ ”تم بیٹھ جاؤ۔” اس نے امامہ سے کہا۔ وہ ابھی تک کھڑی تھی۔
”تم اگر مجھے لاہور نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم بس اسٹینڈ تک پہنچا دو، میں وہاں سے خود لاہور چلی جاؤں گی۔” اس نے سالار کو نیند میں دیکھ کر کہا۔ ”میرا اندازہ ہے کہ اس وقت تو کوئی گاڑی لاہور نہیں جارہی ہوگی۔”
”میں تمہیں صبح…” امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”نہیں، صبح نہیں۔ میں صبح تک یہاں سے نکل جانا چاہتی ہوں۔ اگر لاہور کی گاڑی نہیں ملی تو میں کسی اور شہر کی گاڑی میں بیٹھ جاؤں گی پھر وہاں سے لاہور چلی جاؤں گی۔”
”تم بیٹھو تو سہی۔” سالار نے اس سے ایک بار پھر کہا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے ہچکچائی پھر صوفہ پر جاکر بیٹھ گئی۔ سالار خود بھی اپنے بیڈ کی پائینتی پر بیٹھ گیا۔
”لاہور تم کہاں جاؤگی؟” اس نے پوچھا۔
”جلال کے پاس۔”
”مگر وہ تو تم سے شادی سے انکار کرچکا ہے۔”
”میں پھر بھی اس کے پاس جاؤں گی، اسے مجھ سے محبت ہے۔ وہ مجھ کو اس طرح بے یار و مددگار نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اس سے اور اس کے گھر والوں سے ریکویسٹ کروں گی۔ میں جانتی ہوں وہ میری بات مان لیں گے، وہ میری صورتِ حال کو سمجھ لیں گے۔”
”مگر تم تو مجھ سے شادی کر چکی ہو۔” امامہ چونک کر سالار کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”پیپر میرج ہے وہ … میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میں مجبوراً نکاح کر رہی ہوں، شادی تو نہیں ہے یہ۔”
وہ اسے پلکیں جھپکائے بغیر گہری نظروں سے دیکھتا رہا۔ ”تم جانتی ہو، میں آج لاہور گیا تھا جلال کے پاس۔”
امامہ کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ ”تم نے اسے میری پریشانی اور صورتِ حال کے بارے میں بتایا؟”
”نہیں۔” سالار نے نفی میں سر ہلایا۔
”کیوں؟”
”جلال نے شادی کرلی ہے۔” سالار نے لاپروائی سے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔ وہ سانس لینا بھول گئی۔ پلکیں جھپکائے بغیر وہ کسی بت کی طرح اسے دیکھنے لگی۔
”تین دن ہوگئے ہیں اس کی شادی کو، کل پرسوں تک وہ سیر و تفریح کے لیے نادرن ایریاز کی طرف جا رہا ہے۔ اس نے میری کوئی بات سننے سے پہلے ہی مجھے یہ سب کچھ بتانا شروع کر دیا تھا۔ شاید وہ چاہتا تھا کہ میں اب تمہارے بارے میں بات نہ کروں۔ اس کی بیوی بھی ڈاکٹر ہے۔” سالار بات کرتے کرتے رک گیا۔ ”میرا خیال ہے کہ اس کے گھر والوں نے تمہارے مسئلے کی وجہ سے ہی اس کی اس طرح اچانک شادی کی ہے۔” وہ یکے بعد دیگرے جھوٹ پر جھوٹ بولتا جا رہا تھا۔
”مجھے یقین نہیں آرہا۔” جیسے کسی خلا سے آواز آئی تھی۔
”ہاں، مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا اور مجھے توقع تھی کہ تمہیں بھی یقین نہیں آئے گا مگر یہ سچ ہے۔ تم فون کر کے اس سے بات کرسکتی ہو اس بارے میں۔” سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔ امامہ کو لگا وہ پہلی بار صحیح معنوں میں گھپ اندھیرے میں آکھڑی ہوئی ہے۔ روشنی کی وہ کرن جس کے تعاقب میں وہ اتنا عرصہ چلتی آئی ہے، یک دم گل ہوگئی ہے۔ راستہ تو ایک طرف، وہ اپنے وجود کو بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی۔
”اب تم خود سوچ لو کہ لاہور جاکر تم کیا کروگی۔ وہ تو اب تم سے شادی کرسکتا ہے، نہ اس کے گھر والے تمہیں پناہ دے سکتے ہیں۔ بہتر ہے تم واپس چلی جاؤ، ابھی تمہارے گھر والوں کو پتا نہیں چلا ہوگا۔”
امامہ نے کہیں بہت دور سے سالار کی آواز آتی سنی۔ وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”مجھے لاہور چھوڑ آؤ۔” وہ بڑبڑائی۔
”جلال کے پاس جاؤگی؟”
”نہیں۔ اس کے پاس نہیں جاؤں گی مگر میں اپنے گھر نہیں رہ سکتی۔”
”وہ یک دم صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ سالار نے ایک سانس لے کر الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
”یا پھر مجھے گیٹ تک چھوڑ آؤ، میں خود چلی جاتی ہوں۔ تم چوکیدار سے کہو، وہ مجھے باہر جانے دے۔” اس نے بیگ اٹھا لیا۔
”تمہیں اندازہ ہے کہ یہاں سے بس اسٹینڈ کتنی دور ہے۔ اتنی دُھند اور سردی میں تم پیدل وہاں تک جاسکوگی۔”
”جب اور کچھ نہیں رہا میرے پاس تو دھند اور سردی سے مجھے کیا ہوگا۔” سالار نے اسے گیلی آنکھوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھوں کو رگڑ رہی تھی۔ سالار اس کے ساتھ کہیں جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ لاہور تو بہت دور کی بات تھی، اسے ابھی بھی نیند آرہی تھی اور وہ سامنے کھڑی لڑکی کو ناپسند کرتا تھا۔
”ٹھہرو، میں چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔” وہ نہیں جانتا اس کی زبان سے یہ جملہ کیوں اور کیسے نکلا۔
امامہ نے اسے ڈریسنگ روم کی طرف جاتے دیکھا۔ وہ کچھ دیر بعد باہر نکلا تو شب خوابی کے لباس کے بجائے ایک جینز اور سویٹر میں ملبوس تھا۔ اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے اس نے کی چین اور گھڑی کے ساتھ ساتھ اپنا والٹ بھی اٹھایا۔ امامہ کے قریب آکر اس نے بیگ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
”نہیں، میں خود اٹھا لوں گی۔”
”اٹھا لیتا ہوں۔” اس نے بیگ لے کر کندھے پر ڈال لیا۔ وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے پورچ میں آگئے۔ سالار نے اس کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تھا اور بیگ کو پچھلی سیٹ پر رکھ دیا۔
”گاڑی گیٹ کی طرف آتے دیکھ کر چوکیدار نے خود ہی گیٹ کھول دیا تھا مگر اس کے قریب سے گزرتے ہوئے سالار نے اس کی آنکھوں میں اس حیرت کو دیکھ لیا تھا جو اس کی نظروں میں رات کے اس وقت فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی امامہ کو دیکھ کر آئی تھی۔ یقینا وہ حیران ہوا ہوگا کہ وہ لڑکی اس وقت اس گھر میں کہاں سے آئی تھی۔
”تم مجھے بس اسٹینڈ پر چھوڑوگے؟” مین روڈ پر آتے ہی امامہ نے اس سے پوچھا۔ سالار نے ایک نظر گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”نہیں، میں تمہیں لاہور لے جا رہا ہوں۔” اس کی نظریں سڑک پر مرکوز تھیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جزدان میں لپٹی دعائیں — آدم شیر

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!