”بند کواڑوں کے آگے” کسی بھی ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی میری پہلی کہانی ہے۔ جسے میں نے ایک سچے واقعے سے متاثر ہو کر لکھا۔ اس کہانی کی اشاعت نے ڈائجسٹس کی دنیا کے دروازے مجھ پر کھول دیئے۔ اگرچہ میں اسے بعد میں آنے والی تحریروں کے مقابلے میں کمزور ترین تحریر سمجھتی ہوں۔ مگر میں نے اسے تب لکھا تھا جب مجھے کہانی لکھنا نہیں آتا تھا اور جب میں سمجھتی تھی کہ میں زندگی میں کبھی کوئی اچھی کہانی نہیں لکھ سکوں گی۔
عمیرہ احمد
********************************
بند کواڑوں کے آگے
میں نے پہلی بار اسے گورنمنٹ کالج کے ایک فنکشن میں دیکھا تھا۔ وہ اسٹیج سیکرٹری تھی اور ہر شخص، ہر چیز پر حاوی سی لگ رہی تھی۔ گفتگو کے فن سے آشنا تھی اور آواز کی خوبصورتی اپنی جگہ تھی۔
میں نے اسے بہت قریب سے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش میرے دل میں پیدا ہوئی تھی۔ میں نے اس وقت انٹر میں نیا نیا داخلہ لیا تھا اور وہ وہاں گریجویشن کی طالبہ تھی۔ یہ ضرور تھا کہ پہلی بار کو ایجوکیشن میں آنے کے بعد میں لڑکیوں سے کچھ خائف تھا لیکن اس وقت جس عمر میں تھا قدرتی طور پر مجھے صنف مخالف میں کافی دلچسپی محسوس ہوتی تھی۔
لیکن بہرحال مجھے اس سے متاثر ہونے کے باوجود اس کے پاس جانے یا ملنے کا شوق نہیں ہوا۔ وجہ بالکل واضح تھی، مجھے اس وقت لڑکیوں میں جو چیزیں اٹریکٹ کرتی تھیں ان میں سے کچھ بھی اس کے پاس نہیں تھا۔ نہ اس کے نین نقش تیکھے تھے، نہ بال لمبے تھے، نہ رنگت چاند کی طرح تھی، نہ دانت موتیوں جیسے تھے، نہ چال ہرنی جیسی تھی، نہ ہی وہ فیشن ایبل تھی۔ ہاں مگر اس کا قد بہت دراز تھا۔ اس فنکشن میں، میں بس دور سے اتنا ہی دیکھ سکا تھا۔
میں کوئی علامہ قسم کا اسٹوڈنٹ بھی نہیں تھا جو اس کے انداز گفتگو میں خوبصورت الفاظ کے انتخاب سے متاثر ہو جاتا سو بس چند گھنٹے وہاں گزارنے اور اس کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ اس فنکشن پر تبصرہ کرتا ہوا میں واپس گھر آ گیا تھا۔ رابیل علی سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔
کالج میں داخلہ لینے کے چند ماہ بعد ہی جونیئر ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی پاکستانی ٹیم میں میرا انتخاب ہو گیا تھا۔ اور تعلیم سے میری توجہ بالکل ہی ہٹ گئی تھی۔ اس زمانہ میں کرکٹ ہی میرے لیے سب کچھ تھی۔ تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے مجھ پر کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ میری فیملی بہت امیر نہیں تھی لیکن بہرحال ہم کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتے تھے، خاص طور سے جب سے میرے بڑے دونوں بھائی بھی کمانے لگے تھے تب سے ہماری مالی پوزیشن کافی اچھی ہو گئی تھی۔
شروع میں گھر والوں نے مجھے کرکٹ کھیلنے سے منع کرنے کی کافی کوشش کی تھی لیکن بہرحال میں ان کی چالوں اور باتوں میں نہیں آیا۔ کرکٹ میرا شوق نہیں، جنون تھا اور اس جنون نے گھر والوں کو بھی اپنے حصار میں لے ہی لیا تھا۔ کلب کرکٹ کھیلتے کھیلتے جب اچانک میری سلیکشن انڈر 19 ٹیم کے لیے ہو گئی تو میرے ساتھ ساتھ میرے گھر والے بھی بہت خوش تھے۔
پھر میں جونیئر ورلڈ کپ کے لیے انگلینڈ چلا گیا۔ پاکستان کی مجموعی پرفارمنس وہاں پر زیادہ بہتر نہیں رہی لیکن جن چند کھلاڑیوں نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی تھی ان میں، میں بھی تھا۔ پتا نہیں کون کون سے خطاب تھے جو مجھے دے دیے گئے تھے۔ مجھے پاکستان کی باؤلنگ کا مستقبل قرار دے دیا گیا تھا اور میں جیسے ان پچیس دنوں میں مستقل ہواؤں میں رہا تھا۔ گمنامی سے ایک دم دنیا کے سامنے آنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی چمگادڑ یک دم سورج کے سامنے آ جائے۔
میں خوبصورت اور کم عمر تھا۔ ٹیلنٹڈ تھا اور مجھے ان سب چیزوں کا احساس تھا۔ جونیئر ورلڈ کپ کے اختتام کے ساتھ ہی انگلینڈ میں لیگ کرکٹ میں حصہ لینے والے ایک کلب کے ساتھ میرا معاہدہ ہو گیا تھا۔ اور پھر چند ہی ماہ میں مجھے بہت سے ملکوں کی جونیئر ٹیموں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ میں پاکستان کی جونیئر ٹیم کا ایک مستقل رکن بن گیا تھا۔
مجھے یاد ہے جب میں دوبارہ کالج آیا تھا تو تقریباً آٹھ ماہ گزر گئے تھے۔ کالج سے میرا نام خارج نہیں کیا گیا تھا، وجہ صرف کرکٹ ہی تھی اور میں جانتا تھا کہ اب میں ایک دوسرا احسن منصور ہوں۔ کالجمیں میری بہت زیادہ شناخت نہیں ہوئی تھی کیونکہ ظاہر ہے ایک جونیئر ٹیم کا کھلاڑی لائم لائٹ میں اس طرح نہیں رہتا جس طرح سینئر کھلاڑی رہتے ہیں مگر جتنی شہرت اور شناخت مجھے حاصل تھی میں اس پر بھی خوش تھا۔ اب میرا چہرہ ایک عام چہرہ نہیں رہا تھا۔ میں خود کو دوسروں سے منفرد اور ممتاز سمجھنے لگا تھا خاص طور پر لڑکیوں میں میری مقبولیت بڑھ گئی تھی۔ یا کم از کم مجھے تو ایسا ہی لگتا تھا۔
مجھے یاد ہے چند ماہ بعد میں نے ایک صبح اخبار میں رابیل علی کی تصویر دیکھی تھی۔ اس نے BA میں ٹاپ کیا تھا اور اس کا چہرہ دیکھتے ہی مجھے وہ فنکشن یاد آ گیا تھا جس میں، میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ میں کچھ مرعوب سا ہوا تھا آخر BA میں ٹاپ کرنا کوئی معمولی بات تو نہیں تھی لیکن یہ احساسات صرف کچھ دیر کے لیے ہی تھے۔ میں جلد ہی اسے ایک بار پھر بھول گیا تھا۔ ان ہی دنوں آسٹریلیا کا ٹور کرنے والی پاکستانی ٹیم کے لیے میرا انتخاب کیا گیا تھا اور میں جیسے خوشی سے پاگل ہو گیا تھا۔
میں صرف سترہ سال کا تھا اور اس عمر میں یک دم پاکستانی کرکٹ ٹیم میں بغیر کسی سفارش کے آ جانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ مبارکبادوں کا ایک طویل سلسلہ تھا جو شروع ہو گیا تھا۔ اگلے دن کالج میں بھی میں سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا یہاں تک کہ کچھ اساتذہ نے بھی مجھے کلاس میں ہی مبارکباد دی تھی۔
پھر میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کاٹور کرنے والی ٹیم کے ساتھ چلا گیا اور میرے کیریئر کا باقاعدہ آغاز ہو گیا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کون سی طاقت تھی لیکن بہرحال میرا ہر پانسہ سیدھا ہی پڑتا رہا۔ میں صرف ایک باؤلر تھا لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ بیٹنگ میں دلچسپی نہ ہونے کے باوجود میری پرفارمنس اس میں بھی شاندار رہی تھی۔ جہاں سپر اسٹارز فلاپ ہونا شروع ہوتے وہاں کبھی میری بیٹنگ رنگ جمانے لگتی اور کبھی میری باؤلنگ اپنی دھاک بٹھانے لگتی۔
جب ان دونوں سیریز میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد میں پاکستان واپس لوٹا تھا تو میری گردن کے کلف میں اور اضافہ ہو چکا تھا۔ میری باتوں کا انداز بدل چکا تھا کیونکہ میں بدل چکا تھا۔ ہر ماہ گھر والوں سے پانچ چھ سو جیب خرچ لینے والے کے پاس اب اتنے پیسے تھے کہ وہ گھر والوں پر ڈھیروں روپے خرچ کر سکے۔ اخبارات میں میری پرفارمنس پر خصوصی کالم لکھے جا رہے تھے۔ اسپورٹس میگزین مجھ پر خصوصی ضمیمے نکال رہے تھے۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس کی طرف سے مجھے اپنے لیے کھیلنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ میں اب اسٹار آل راؤنڈرز کی صف میں شامل ہو گیا تھا اور اس سب کے لیے مجھے نہ سالوں کی محنت کرنی پڑی تھی نہ کوئی طویل جدوجہد۔
پاکستان واپس آنے کے بعد جب میں دوبارہ کالج گیا تھا تو مجھے دیکھتے ہی جیسے ہر ایک حیران ہو جاتا تھا۔ آٹو گرافس لینے والوں کا ایک بڑا ہجوم تھا جس نے مجھے پہلے دن اپنے گھیراؤ میں رکھا اور ظاہر ہے اس میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اور میں یقینا زندگی میں یہی سب کچھ چاہتا تھا۔ میں اب لڑکیوں سے پہلے کی طرح خائف نہیں تھا۔ بیرونی دوروں نے صنف نازک کے سامنے میری گھبراہٹ کو ختم کر دیا تھا۔ اب میں ان کے تبصروں کے جواب اتنے ہی شوخ انداز میں دیتا تھا۔ لیکن اب کالج میرا آنا جانا کافی کم ہو گیا تھا میں صرف خانہ پری کے لیے ہی کبھی کبھار وہاں جاتا تھا ورنہ مجھے نہ تو تعلیم میں پہلے کوئی دلچسپی تھی نہ ہی اب تھی بس میرے والدین کا اصرار تھا کہ میں گریجویشن ضرور کر لوں چاہے تھرڈ ڈویژن میں ہی سہی اور میں نے ان کے اصرار پر سر جھکا دیا تھا۔
رابیل علی سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات تب ہوئی تھی جب کالج نے اپنے ایک سالانہ فنکشن میں کچھ نامور لوگوں کے ساتھ مجھے بھی مدعو کیا۔ وہ اب انگلش ڈیپارٹمنٹ میں ایم اے انگلش کی طالبہ تھی اور اس فنکشن میں ایک بار پھر اسٹیج سیکرٹری کے طور پر سامنے آئی تھی لیکن پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ وہ لوگوں میں بہت پاپولر ہے۔
میرے کچھ دوستوں نے مجھے اس فنکشن کا آغاز ہونے سے پہلے ہی اس کے بارے میں خبردار کیا تھا کہ وہ بہت تیکھے سوال کرتی ہے اور زیادہ تر مد مقابل کو لاجواب کر چھوڑتی ہے لیکن جو عجیب بات مجھے اپنے دوستوں کے رویے میں محسوس ہوئی تھی وہ رابیل کے لیے احترام تھا۔ میرے دوستوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو لڑکیوں کے بارے میں تبصرے کرتے ہوئے محتاط رہتا مگر رابیل کے بارے میں وہ بڑے محتاط انداز میں بات کر رہے تھے۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ لاشعوری طور پر اس سے مرعوب تھے۔
مجھے ان کے رویے پر کافی حیرانگی ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے میں نے بڑی لاپرواہی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن میرے دوست عمر نے کہا تھا:
”دیکھیں گے تم بھی کتنے پانی میں ہو۔ اس کے سامنے ساری چوکڑیاں نہ بھول جاؤ تو میرا نام بدل دینا۔”
رابیل کے بارے میں اس جملے نے میرے تجسّس اور تشویش دونوں کو بڑھا دیا تھا۔ میں نے سوچا کہ پروگرام کے آغاز سے پہلے میں اس سے ملوں اور پوچھوں کہ وہ مجھ سے کس قسم کے سوالات کرے گی اور جب میں نے اپنے دوستوں سے اس بات کا اظہار کیا تو عجیب سار سپانس انھوں نے دیا تھا۔ عمر نے کندھے اچکائے تھے۔ حسن نے سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹ سکوڑے تھے۔ عادل جھینپی سی ہنسی ہنسنے لگا تھا۔
یک دم مجھے احساس ہوا کہ وہ سب اس کے پاس جانے سے گھبرا رہے تھے۔ ایسے جیسے وہ بے حد کنفیوز ہو گئے تھے۔ لیکن بہرحال وہ میرے ساتھ اس کے پاس جانے پر آمادہ ہو گئے۔ پھر کچھ دیر کے بعد میں رابیل علی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ اس فنکشن کے انچارج سرعمانوئیل اور چند دوسرے اسٹوڈنٹس کے ساتھ کھڑی کچھ پیپرز دیکھ رہی تھی اور شاید کسی موضوع پر کچھ بحث بھی ہو رہی تھی۔
سرعمانوئیل نے مجھے دور سے دیکھ لیا تھا اور وہ تیزی سے میرے پاس آئے تھے۔ بڑی گرم جوشی سے انھوں نے میرا حال احوال پوچھا تھا اور فنکشن میں آنے کے لیے شکریہ ادا کیا تھا پھر وہ مجھے میری نشست پر لے جانا چاہتے تھے لیکن میں نے ان سے کہا کہ میں رابیل علی سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں اگر وہ اسے میرا پیغام دے دیں تو میں ان کا بہت مشکور ہوں گا۔ وہ مسکراتے ہوئے رابیل کے پاس چلے گئے تھے۔ اور چند لمحے بعد میں نے رابیل اور اس کے ساتھ کھڑے دوسرے لڑکوں کو اچانک اپنی طرف متوجہ ہوتے دیکھا۔ وہ ان پیپرز کو رول کرتی ہوئی میری طرف آ گئی تھی اور پتا نہیں کیوں لیکن مجھے لگا تھا کہ میں اتنا ہی کنفیوز ہوں جتنے میرے دوست ہیں۔ میرے پاس آ کر اس نے مسکراتے ہوئے مجھے وش کیا تھا:
”سرعمانوئیل کہہ رہے تھے کہ آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہے ہیں۔”
اس نے بغیر کسی توقف کے مجھ سے پوچھا اور یک دم مجھے لگا کہ میرا سارا اعتماد رخصت ہو گیا ہے لیکن بہرحال اپنی ساری ہمت کو اکٹھا کرتے ہوئے میں نے اس سے کہا:
”وہ اصل میں میرے دوست کہہ رہے تھے کہ آپ اسٹیج پر اپنے سوالوں اور باتوں سے بہت پریشان کرتی ہیں۔”
اس کے چہرے پر میری بات سن کر حیرانگی کے تاثرات نمودار ہوئے تھے لیکن پھر اس نے ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ میرے دوستوں کو دیکھتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
”آپ کے کون سے دوست کہہ رہے ہیں کہ میں اسٹیج پر اپنے سوالوں سے پریشان کرتی ہوں؟”
میں نے عمر کی طرف اشارہ کیا تھا اور مجھے لگا تھا جیسے عمر وہاں سے دوڑ لگا دے گا کم از کم اس کے چہرے سے مجھے ایسا ہی لگا تھا۔
”آپ کا نام کیا ہے؟” اس نے مسکراتے ہوئے براہ راست عمر سے ہی پوچھا تھا۔ عمر کا نام جاننے کے بعد اس نے کہا تھا:
”دیکھیں عمر! میں پریشان کرنے والے سوال نہیں کرتی، میں اچھے سوال کرتی ہوں تاکہ ان کے جواب بھی اچھے اور منفرد ملیں اور جو لوگ پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ اسے انجوائے کریں۔ اگر وہی اسٹیریو ٹائپ سوال پوچھے جاتے رہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو اس بات میں دلچسپی ہو گی کہ وہ مہمانوں کے ساتھ میری باتیں سنے لیکن بہرحال میں کبھی بھی اپنے پروگرامز میں حصہ لینے والوں کو پریشان کرنا نہیں چاہوں گی اور آج کا پروگرام دیکھنے کے بعد آپ ضرور مجھے بتائیے کہ میں نے کون سا سوال ایسا کیا تھا جو پریشان کرنے والا تھا یا جو مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔”
وہ بڑی نرمی سے مجھے نظر انداز کیے ہوئے عمر سے مخاطب تھی جو زمین پر نظریں گاڑے کھڑا تھا۔
میں نے آج تک اسے کبھی کسی لڑکی کے سامنے نظریں جھکائے نہیں دیکھا تھا لیکن آج میں نے دیکھ ہی لیا تھا۔ وہ عمر سے بات کرنے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئی۔
”جہاں تک آپ کا تعلق ہے تو ہم سب کو آپ پر بہت فخر ہے۔ ہمارے کالج کو آپ پر ناز ہے کیونکہ آپ بہترین پلیئر ہیں اور میں نہیں سمجھتی کہ آپ کو کوئی خدشہ ہونا چاہیے۔ آپ گراؤنڈ میں اتنے کانفیڈنٹ نظر آتے ہیں تو یقینا اسٹیج پر بھی ہوں گے اور میں کوشش کروں گی کہ بقول عمر کے کوئی پریشان کرنے والا سوال نہ کروں۔ میرے خیال میں اتنی یقین دہانی کافی ہے ناؤ ایکسکیوزمی مجھے کچھ کام ہے۔”
وہ معذرت کرتی ہوئی واپس چلی گئی تھی۔ میں ان چند لمحوں میں مکمل طور پر اس کا جائزہ لے چکا تھا۔ وہ بلیک اور وائٹ چیک کی شرٹ میں ملبوس تھی۔بلیک شلوار کے ساتھ اس نے بلیک دوپٹہ لیا ہوا تھا اور جینز کی بلیک جیکٹ کی آستینیں اس نے کہنیوں تک الٹ رکھی تھیں اس کی بائیں کلائی میں ایک رسٹ واچ تھی اور دوسری کلائی بالکل خالی تھی۔ کانوں میں چھوٹی چھوٹی بالیاں تھیں اور اسٹیپس میں کٹے ہوئے کھلے بالوں میں اس نے ایک ہیئر بینڈ لگا رکھا تھا۔
وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی مگر اس کی آنکھیں اور مسکراہٹ دونوں یقینا خوبصورت تھیں۔ اس کی آنکھیں بہت چمکدار اور بچوں کی طرح شفاف تھیں یقینا اس کی شخصیت میں کوئی ایسی بات تھی جو دوسروں کو مرعوب کر دیتی تھی شاید اس کا اعتماد، شاید اس کا انداز گفتگو، شاید اس کی آواز یا شاید یہ سب کچھ… میں بہرحال کافی متاثر ہوا تھا۔
اور اس دن اسٹیج پر جا کر میں واقعی اپنی ساری چوکڑی بھول گیا تھا۔ اس کے سوال بہت تیکھے تھے اور ان کے پوچھنے کا انداز اس سے بھی سوا تھا۔ جو کمی رہ گئی تھی وہ ہال میں سے آنے والے ریمارکس تھے اور تالیوں اور قہقہوں کا ایک شور تھا جو اس کے ہر سوال پر ہال میں بلند ہوتا تھا۔ مجھے اسٹیج پر بلانے سے پہلے وہ چند دوسرے مہمانوں سے باتیں کرتی رہی تھی اور اس نے ان سے بھی کافی مشکل اور دلچسپ سوال پوچھے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی میری طرح نروس نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ کافی میچور عمر کے تھے لیکن بہرحال میں اپنی اس خود اعتمادی کا کوئی مظاہرہ نہیں کر سکا جس کے لیے میں مشہور تھا۔ میں ایک ہی رات میں جیسے سپر اسٹار سے laughing stock بن گیا تھا۔
2 Comments
Bahot hi behtareen afsana hai padhte waqt ye bilkul mehsoos hi nahi hua umera Ahmed ka ye pehla writing piece hai
عمیرہ کی کہانیوں کی خصوصیات میں ان کی ہیروئن کا کردار بہت مضبوط ہونا ہے اور مجھے یہ خصوصیت بہت متاثر کرتی ہے