بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

وہ اسٹیج پر مجھے اس ننھے بچے کی طرح ٹریٹ کر رہی تھی جس کے ہاتھوں میں کھلونوں کا ایک ڈھیر ہو اور وہ اسے سنبھالنے کی کوشش میں بے حال ہوا جا رہا ہو۔ اس نے میرے ہیئر اسٹائل سے لے کر میرے کھیل اور میری تعلیمی دلچسپیوں سے لے کر میرے گھر آنے والی فون کالز تک کو موضوع بحث بنایا تھا۔ میں اس کے ہر سوال پر بوکھلاتا، کبھی کھسیانی ہنسی ہنستا، کبھی جھینپتا اور جب کبھی اپنی طرف سے معقول جواب دینے کی کوشش کرتا تو ہال سے آنے والی کوئی آواز یا رابیل علی کا کوئی تبصرہ میرے اس جواب کی معقولیت کو یک دم زائل کر دیتا۔ ایسے لگتا تھا جیسے اس نے میرے لیے بلکہ سارے مہمانوں کے لیے کافی ہوم ورک کیا تھا اور شاید ہال میں بھی اس نے کچھ لوگوں کو کچھ جملے رٹا رکھے تھے جو بروقت بولے جاتے تھے۔
میں اس انٹرویو کے اختتام تک بالکل ہمت ہار چکا تھا اور میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں وہاں سے بھاگ جاؤں۔ مجھے شبہ ہو رہا تھا کہ مختلف ڈیپارٹمنٹس باقاعدہ پلاننگ سے میرے ساتھ یہ سلوک کر رہے تھے کیونکہ ہال میں سے جتنے تبصرے مجھ پر کیے گئے تھے۔ وہ ساری آوازیں وہاں سے آتی رہی تھیں جہاں ایم اے کے اسٹوڈنٹس بیٹھے تھے۔ لیکن بہرحال میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ وہ لوگ جیسے مجھے فرسٹ ائیر فول سمجھ کر چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے اور میں سب سننے پر مجبور تھا۔
لیکن پتا نہیں کیوں اس دن واپس گھر آ کر میں جب سونے کے لیے لیٹا تو مجھے چند گھنٹے پہلے کی یہ ساری آپ بیتی اتنی بری نہیں لگی۔ رابیل علی سے مرعوبیت اور بھی بڑھ گئی تھی کیونکہ اس دن پہلی بار میں نے اسے اردو اور انگلش میں بولتے بلکہ خوب بولتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسے دونوں زبانوں میں یکساں مہارت تھی اور میں دونوں میں سے کسی پر بھی عبور نہیں رکھتا تھا۔
اس رات میں بہت دیر تک رابیل علی کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور زندگی میں پہلی بار میں نے کسی لڑکی کی ظاہری خوبصورتی کی بجائے اس کی ذہانت اور حاضر دماغی کے بارے میں سوچا تھا۔ اس وقت مجھے اس کے سوالوں کے بہت مناسب جواب سوجھ رہے تھے اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اس نے کوئی بھی ایسا سوال نہیں کیا تھا جس کا جواب نہ دیا جا سکتا ہو لیکن اب اس کا فائدہ نہیں تھا کیونکہ جواب دینے کا وقت گزر چکا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا تھا۔ جیسے میں اس کے لیے ایک ننھا بچہ تھا جسے وہ بہلا کر اپنی اور دوسروں کی انجوائے منٹ کا سامان کر رہی ہو۔
جب سے میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں آیا تھا، یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے مجھے اتنی غیر سنجیدگی سے لیا تھا۔ یہ درست تھا کہ میں کافی کم عمر تھا لیکن بہرحال اپنے قد و قامت سے میں کسی طور بھی ٹین ایجر نہیں لگتا تھا اور نہ ہی مجھے یہ بات پسند تھی کہ مجھے ٹین ایجر کے طور پر ٹریٹ کیا جاتا۔





پتا نہیں کیا ہوا تھا مگر اس فنکشن کے بعد میں نے باقاعدہ طور پر کالج جانا شروع کر دیا تھا۔ کلاسز میں کم ہی اٹینڈ کرتا ہاں انگلش ڈیپارٹمنٹ کا چکر ضرور لگایا کرتا تھا وجہ صرف رابیل علی تھی۔ وہاں اکثر میرا اس سے سامنا ہو جاتا تھا۔ لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ اس نے کبھی بھی مجھ سے سلام دعا میں پہل نہیں کی تھی۔ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ ہوتی اور میں اپنے دوستوں کے ساتھ اور وہ اچٹتی سی نظر مجھ پر ڈال کر گزر جانے کی کوشش کرتی اور میں ہمیشہ پہل کرتے ہوئے اس سے ہیلو ہائے کرتا۔ وہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا جواب دیتی اور میرے ساتھ مزید گفتگو کرنے کی بجائے پاس سے گزرتی چلی جاتی۔
شروع میں مجھے اس کے اس رویے سے عجیب سی خفت کا احساس ہوا تھا کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ مجھے لڑکیوں سے سلام دعا میں پہل کرنی پڑی ہو یا کسی نے اس طرح سرسری انداز میں میرے سلام دعا کا جواب دیا ہو، جیسے اہم شخص میں نہیں وہ ہو۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے وہ جان بوجھ کر ایسا کرتی تھی تاکہ میں یہ سمجھ کر کہ وہ بڑی منفرد لڑکی ہے اس کی طرف مزید راغب ہوں اور اس کی محبت میں گرفتار ہو جاؤں۔
جب یہ خیال میرے دماغ میں آیا تو یک دم وہ مجھے بڑی تھرڈ کلاس لڑکی لگی جو مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے وہی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی تھی جو آج کل کی ہر لڑکی استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کچھ اس میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں لیکن بیشتر ناکام رہتی ہیں کیونکہ آج کا مرد اتنا بھولا نہیں ہے جتنا لڑکیوں نے سمجھ لیا ہے۔ بے نیازی جتانے کا یہ حربہ مردوں کا بہت پرانا اور آزمودہ حربہ رہا تھا جسے وہ اب آؤٹ ڈیٹڈ سمجھ کر چھوڑ چکے ہیں اور لڑکیوں نے اسے اپنا لیا ہے۔ سو مجھے خود پر بڑا افسوس ہوا کہ میں کیسے اس حربے میں پھنس گیا ہوں اور ایک مجنوں کی طرح میں نے انگلش ڈیپارٹمنٹ جانا شروع کر دیا ہے۔
اگلے کچھ دن میں کالج جانے سے باز رہا لیکن پھر چند دن کے بعد پتا نہیں مجھے کیا سوجھی کہ میں نے پھر کالج جانا شروع کر دیا اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ انگلش ڈیپارٹمنٹ بھی، میں نے بہت کوشش کی کہ اسے نظر انداز کرنا شروع کر دوں بالکل ویسے ہی جیسے وہ مجھے کرتی ہے لیکن بس یہی ایک کام تھا جو میں نہیں کر پایا۔ اسے دیکھتے ہی اس کے لیے مخالفانہ خیالات اور اس کے لیے میری کدورت بھک سے میرے دماغ سے غائب ہو گئی تھی۔ اپنی ساری انا، غیرت اور خود داری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں نے اس کا حال پوچھا تھا اور وہ I’m fine کہہ کر جوابی طور پر میرا حال پوچھے بغیر چلی گئی تھی میری ساری محنت کا حصول وہ مسکراہٹ تھی جو چند لمحوں کے لیے مجھ سے بات کرتے ہوئے اس کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی اور پھر یہ سب روٹین کا حصہ بن گیا تھا۔
اس پر نظر پڑتے ہی میں کسی سحرزدہ معمول کی طرح اس کی طرف بڑھ جاتا تھا اور ان ہی رسمی دعائیہ کلمات کے بعد وہ رکے بغیر چلی جاتی تھی اور مجھے اپنی اس حرکت پر بے حد طیش اور شرم محسوس ہوتی تھی لیکن صرف اس وقت تک جب تک وہ دوبارہ میرے سامنے نہیں آ جاتی تھی۔
پھر آہستہ آہستہ مجھے پتا چلا کہ صرف میں ہی نہیں تھا جو اس کے پروانوں میں شامل تھا وہاں ستم رسیدہ اور بھی تھے اور ان میں ہر عمر اور ہر ایئر کے نوجوان شامل تھے اور سب سے بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ میرا عزیز ترین دوست عمر زبیری بھی ان ہی لوگوں میں شامل تھا۔ مجھے ہمیشہ اس بات پر خوشی محسوس ہوتی تھی کہ میں جب بھی عمر سے انگلش ڈیپارٹمنٹ جانے کے لیے کہتا ہوں وہ ایک لفظ کہے بغیر اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ میری دوستی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے مگر اس کا انکشاف بہت بعد میں ہوا کہ وہ اصل میں رابیل علی کو دیکھنے کے لیے وہاں جانے پر تیار ہو جاتا تھا۔ اگرچہ یہ اندازہ کبھی بھی نہیں ہو پایا کہ میں بھی اس کے رقیبوں میں شامل ہوں اور نہ ہی یہ انکشاف میں نے کرنے کی کوشش کی۔ یہ اسی کی بدولت تھا کہ مجھے ان دوسرے لڑکوں کے بارے میں پتا چلتا گیا جو رابیل علی کو دیکھنے کے لیے انگلش ڈیپارٹمنٹ جاتے تھے۔
عمر کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ انگلش ڈیپارٹمنٹ میں کون کس لیے جاتا تھا اور میری معلومات میں اضافہ کا وہ سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ یہ ر از بھی مجھ پر آہستہ آہستہ ہی آشکار ہوا تھا کہ جس چیز کو میں رابیل علی کی چال یا حربہ سمجھ رہا ہوں وہ دراصل اس کی عادت تھی۔ میں وہ پہلا یا واحد آدمی نہیں تھا جسے وہ اگنور کرتی تھی وہ اپنے علاوہ ہر ایک کو ہی اگنور کرتی تھی اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ ہاں لڑکوں کی سلام دعا کو وہ صرف سلام دعا تک ہی محدود رکھتی تھی اور حال احوال جاننے یا پوچھنے کا تکلف تک نہیں کرتی تھی۔
اس کی ریپوٹیشن کالج میں ایسی تھی کہ اوّل تو کوئی اسے مخاطب کرنے کی جرأت ہی اپنے آپ میں پیدا نہیں کر پاتا تھا خاص طور پر وہ جو کالج صرف سیر و تفریح اور نظارے کرنے کے لیے آتے تھے۔ وہ خود اعتمادی سے مالا مال تھی، بہت ساروں کے پاس یہ خوبی ہوتی ہے۔ وہ اسٹریٹ فارورڈ تھی، بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ وہ بلا کی ذہین تھی، لاکھوں لوگ ذہین ہوتے ہیں۔ اس کی شخصیت خوبصورت تھی، یہ بھی کوئی ایسی خاص خوبی نہیں ہے۔ وہ بے داغ کردار کی مالک تھی، کم سہی مگر خوبصورت کردار کے بہت لوگ بھی اسی دنیا میں ملتے ہیں۔ مگر یہ ساری باتیں کسی ایک شخص میں بہت کم ملتی ہیں اور کسی عورت میں تو شاید بہت ہی کم، کالج میں اور بھی بہت سی لڑکیاں ایسی تھیں جن کے چرچے عام تھے، جن کے ہزاروں پروانے تھے اور انھیںدیکھنے کے لیے بھی لڑکے باقاعدہ انتظار کرتے تھے مگر وہ صرف ان لڑکیوں کی خوبصورتی کے پروانے تھے۔ کوئی کسی کے چہرے کی ایک جھلک دیکھنے کا منتظر رہتا اور کسی کو کسی اور کی فگر غضب کی لگتی یا کسی کے لباس پہننے کا انداز ایسا ہوتا کہ وہ دوسروں کو دعوت نظارہ دیتا رہتا لیکن میں نے کبھی کسی لڑکے کو کسی لڑکی کی شخصیت یا ذہانت سے اتنا متاثر نہیں دیکھا تھا کہ وہ اس کے لیے اس طرح بے قرار پھرے مگر رابیل علی ایسی لڑکی تھی جس کی جسمانی خوبصورتی کے لیے تو شاید کوئی اسے دیکھنے کے لیے کھڑا نہ ہوتا مگر ذہن یا شاید شخصیت یا شاید… نہ جانے کیوں مجھے یہ بتانا اتنا مشکل کیوں ہو رہا ہے کہ اس میں کیا بات تھی جو دوسروں کو یوں سحرزدہ کر دیتی تھی۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ بہت مغرور تھی جب کوئی اس سے مخاطب ہوتا اس کا حال احوال دریافت کرتا یا اس سے کسی مسئلے پر مدد کا طلبگار ہوتا تو وہ بڑی سنجیدگی سے اس کی بات سنتی تھی۔ میں نے کبھی اس کے انداز میں دوسروں کے لیے ہتک نہیں دیکھی تھی، شاید وہ اپنے دوستوں کے علاوہ باقی سب کو ایک سے انداز میں ہی ٹریٹ کرنا چاہتی تھی اور یہ میرے لیے کچھ قابل قبول نہیں تھا۔ میں خاص توجہ اور غیر معمولی برتاؤ کا عادی ہو چکا تھا۔ مجھے یہ گوارہ کیسے ہوتا کہ وہ مجھے عام سا لڑکا سمجھے اسے احسن منصور اور دوسرے لڑکوں میں کوئی فرق ہی محسوس نہ ہو۔
میری بے چینی بجا تھی مگر شاید رابیل کو احسن منصور نظر ہی نہیں آتا تھا۔ اسے تو شاید سیکنڈائیر کا ایک ننھا لڑکا نظر آتا تھا۔
ان ہی دنوں کرکٹ سیزن شروع ہو گیا تھا اور میری توجہ رابیل سے ہٹ گئی تھی۔ تقریباً چھ ماہ تک میں مختلف اندرونی و بیرونی دوروں میں مصروف رہا تھا اور ان چھ ماہ میں رابیل علی میرے ذہن سے یکسر محو ہو کر رہ گئی تھی۔ میری توجہ ان لڑکیوں پر مبذول رہی تھی جو میرے اردگرد رہتی تھیں اور ان پر یوں کی موجودگی میں مجھے رابیل علی بالکل یاد نہیں آئی۔
یہ چھ ماہ میرے لیے اور عروج لے کر آئے تھے۔ میں نے کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کا معاہدہ بھی کر لیا تھا اور چند دوسرے اسپورٹس وئیر کے اداروں کے ساتھ بھی میں نے کانٹریکٹ کیے تھے اور دولت اب مجھ پر بارش کی طرح برس رہی تھی۔
چھ ماہ تک کرکٹ میں مصروف رہنے کے بعد میں سیزن ختم ہوتے ہی کالج آیا تھا اور آتے ہی مجھے رابیل بھی یاد آ گئی تھی۔ اس بار میں اپنی ذاتی ہنڈا سوک پر کالج آیا تھا اور میں جانتا تھا کہ کالج میں میرا استقبال بھی پہلے سے زیادہ پرُجوش طریقے سے ہوگا اور ایسا ہی ہوا تھا۔ مجھے اس سیزن میں میری بہترین پر فارمنس پر بے تحاشا داد اور مبارکبادیں دی گئی تھیں اور ہر تعریفی کلمے پر میرا سر فخر سے اور بلند ہو جاتا تھا۔ مجھے توقع تھی کہ رابیل مجھ سے سامنا ہونے پر رسماً ہی سہی مگر مجھے مبارکباد ضرور دے گی کیونکہ پچھلے چھ ماہ سے میں جو کارنامے دکھاتا پھر رہا تھا اس پر یقینا داد کا مستحق تھا۔ میں جہاں سے گزرتا ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنتا ہوا انگلش ڈیپارٹمنٹ پہنچ گیا۔
اس دن عمر میرے ساتھ نہیں تھا اور اس کے بجائے میرے دوسرے دوست میرے ساتھ تھے۔ میں نے اسے چند لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھے دیکھا۔ وہ سب کسی بحث میں مصروف تھے۔ میں دانستہ طور پر اس کے پاس رکا۔ اس کے پاس بیٹھے ہوئے دوسرے لڑکوں نے مجھے کافی خوش دلی سے گریٹ کیا تھا اور مجھے میری پرفارمنس پر مبارکباد دی تھی لیکن اس نے صرف میرے سلام کا جواب دیا تھا اور پھر مسکراتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والی میری گفتگو سنتی اور دیکھتی رہی۔
ایک دفعہ بھی اس کے لبوں سے میرے لیے کوئی تعریفی کلمہ نہیں نکلا تھا۔ میں اس کے بولنے کا منتظر تھا اور وہ شاید میرے جانے کے انتظار میں تھی پھر میں وہاں سے آ ہی گیا تھا۔ ایک عجیب سی ہتک کا احساس ہوا تھا مجھے اس دن اور پتا نہیں کیوں ساری رات میں سو نہیں پایا۔ سگریٹ پر سگریٹ سلگاتے کمرے کے چکر لگاتے ہوئے میں نے ساری رات گزار دی۔
صبح میں فجر کی اذان کے بعد سویا تھا اسی لیے جاگنگ کے لیے بھی نہیں جا پایا، نہ ہی کوئی دوسری ایکسر سائز کرنے کو میرا دل چاہا۔ امی نے دس بجے ناشتے کی میز پر میری آنکھیں سرخ دیکھ کر مجھ سے وجہ پوچھی تھی اور میں بڑی صفائی سے انھیں ٹال گیا تھا۔
رابیل علی کے بارے میں سب کچھ جاننے کی بے چینی میرے سر پر سوار تھی۔ میں اس کے ماضی، حال، ہر چیز کے بارے میں جاننا چاہتا تھا کہ شاید کوئی ایسا رخنہ ایسی دراڑ مجھے ملے جس سے میں اس کے قلعے کو توڑ سکوں۔ وہ جو اس قدر پرسکون اور ناقابل تسخیر نظر آتی ہے کہیں تو کچھ ایسا ہوگا جس سے اس کی مضبوطی اور سکون کو ختم کیا جا سکے گا اور اگلے چند ہفتوں میں، میں اس کے بارے میں سب کچھ معلوم کر چکا تھا اور ایک عجیب سی مایوسی مجھے ہوئی تھی۔
میرا خیال تھا کہ وہ کسی بہت امیر و کبیر فیملی سے تعلق رکھتی ہے اور شاید اس کے اعتماد کی وجہ بھی یہی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ وہ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کی ماں ایک گورنمنٹ اسکول میں ہیڈ مسٹریس تھی جو سترہ سال پہلے اپنے شوہر سے طلاق لے چکی تھی۔ رابیل کی دو اور بہنیں تھیں اور وہ دونوں بھی اس کی طرح قابل تھیں۔ اس کی چھوٹی بہن معصومہ علی نے گورنمنٹ کالج سے گریجویشن کیا تھا اور پھر اس نے لندن اسکول آف اکنامکس کا ایک اسکالر شپ حاصل کیا تھا اور اس وقت وہ انگلینڈ میں زیر تعلیم تھی اور اس کی سب سے چھوٹی بہن ملیحہ علی، کے۔ ای میڈیکل کالج میں تھی۔ وہ جس علاقے میں رہائش پذیر تھے وہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس لوگوں کا علاقہ سمجھا جاتا تھا اور وہ ایک پرانی طرز کے پانچ مرلے پر بنے ہوئے گھر میں مقیم تھے۔
تعلیمی قابلیت کے علاوہ کوئی اور خاص خصوصیت ان کے گھر میں نہیں پائی جاتی تھی اور مجھے یہ سب کچھ جان کر یک گو نہ سکون بھی ہوا تھا کہ میں مالی اعتبار سے اس سے بہت برتر ہوں اور اس کی بے رخی کی وجہ کم از کم اس کی دولت نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ دولت نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں تھی۔
اور نہ جانے کیوں میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ میں دولت کے ذریعے اس کو امپریس کر سکتا ہوں اسی لیے میں نے اس کے لیے ایک بہت قیمتی گھڑی خریدی تھی۔ لیکن اب میرے لیے مسئلہ یہ تھا کہ اسے یہ گھڑی کیا کہہ کر دی جائے۔ میں نے تمام ممکنہ بہانوں کو سوچا تھا اور پھر برتھ ڈے گفٹ کا بہانہ مجھے بھا گیا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کالج کے ایڈمیشن فارم میں اس کی جو ڈیٹ آف برتھ لکھی تھی۔ اس کے مطابق اس کی سالگرہ کو گزرے تقریباً ایک مہینہ ہو چکا تھا لیکن مجھے اس سے کوئی مایوسی نہیں ہوئی کیونکہ میرے نزدیک یہ کوئی زیادہ عرصہ نہیں تھا۔
سو ایک دن میں ایک خوبصورت کارڈ اور گفٹ پیک کے ساتھ دوبارہ انگلش ڈیپارٹمنٹ پہنچ گیا تھا۔ اس دن وہ مجھے برآمدے میں ایک بہت خوبصورت اور دراز قد لڑکے کے ساتھ باتیں کرتی ہوئی ملی۔ وہ لڑکا بڑی سنجیدگی سے اسے کچھ بتا رہا تھا اور وہ بالکل خاموش کھڑی اس کی بات سن رہی تھی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کس طرح اس سے بات شروع کروں۔ برآمدے میں اس وقت بہت کم لوگ تھے اور جو تھے وہ مجھ پر نظریں جمائے ہوئے کھڑے تھے۔ میں آہستہ آہستہ رابیل کے پاس پہنچ گیا اور اس سے پہلے کہ وہ میری طرف متوجہ ہوتی اس لڑکے کی نظر مجھ پر پڑی تھی۔ وہ بولتے بولتے رک گیا شاید وہ میری آمد کا مقصد سمجھنا چاہ رہا تھا۔ مجھے اس کے چہرے پر واضح طور پر حیرانگی نظر آئی۔




Loading

Read Previous

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Bahot hi behtareen afsana hai padhte waqt ye bilkul mehsoos hi nahi hua umera Ahmed ka ye pehla writing piece hai

  • عمیرہ کی کہانیوں کی خصوصیات میں ان کی ہیروئن کا کردار بہت مضبوط ہونا ہے اور مجھے یہ خصوصیت بہت متاثر کرتی ہے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!