بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

ٹیم کیپٹن نے مسکراتے ہوئے ناصر سے کہا تھا۔
”اگر میں بھی اسٹیڈیم چلوں تو؟” میں نے گفتگو میں مداخلت کی۔
”وائے ناٹ شیور۔” کیپٹن نے بڑی فراخدلی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا تھا۔ کچھ دیر تک ہم وہیں بیٹھے رہے پھر ٹیم کے لیے کوسٹر آ گئی تھی اور سب کھلاڑیوں نے اپنا سامان اٹھانا شروع کر دیا۔
”ہم لوگ ہوٹل نہیں جائیں گے، یہیں سے گراؤنڈ چلیں گے اس لیے تم اپنا سامان اور کٹ کسی پلیئر کو دے آؤ تاکہ وہ اسے ہوٹل لے جائے۔” کپتان نے مجھے کہا تھا اور میں سر ہلاتا ہوا اپنا سامان لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔
کوسٹر تک جانے اور ٹیم کے فزیو کو سامان دینے میں دس منٹ لگے تھے اور جب میں واپس وی آئی پی لاؤنج کی طرف آنے لگا تو وہ ٹیم مینجر کے ساتھ باتیں کرتی ہوئی لاؤنج سے نکل رہی تھی۔ میرے قدم اسے دیکھ کر رک گئے تھے۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا لیکن شناسائی نام کی کوئی چیز اس کے چہرے پر نہیں جھلکی تھی۔ ٹیم مینجر اس کے ساتھ چلتے ہوئے آ کر میرے پاس رک گئے۔
”احسن، ساجد کہہ رہا تھا کہ تم بھی ہمارے ساتھ جانا چاہ رہے ہو؟” انھوں نے مجھ سے استفسار کیا میں نے اثبات میں سر ہلایا تھا مینجر نے اس سے میرا تعارف کروایا تھا۔
”یہ رابیل علی ہیں یہاں کی اسسٹنٹ کمشنر اور میرے خیال میں انھیں تو آپ جانتی ہی ہوں گی یہ احسن منصور ہیں دنیا کے ٹاپ آل راؤنڈرز میں شمار ہوتا ہے ان کا۔ ویسے یہ باؤلر زیادہ اچھے ہیں۔”
”بالکل جانتی ہوں میرا جنرل نالج کافی اچھا ہے۔ مجھے مشہور اور اہم لوگوں کے بارے میں کافی معلومات ہوتی ہیں… السلام و علیکم کیسے ہیں آپ؟” اس نے مینجر سے بات کرتے ہوئے اچانک مجھے مخاطب کیا تھا:
”میں ٹھیک ہوں لیکن میرا جنرل نالج ہمیشہ سے ہی خراب ہے مجھے اہم لوگوں کے بارے میں بھی کچھ پتا نہیں ہوتا۔”
میرا لہجہ بہت معنی خیز تھا لیکن وہ کسی قسم کا نوٹس لیے بغیر بولی:
”یہ آپ کا ہی نہیں بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہوتا ہے لیکن آپ کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کرکٹر ہیں اور کرکٹرز کا جنرل نالج جتنا خراب ہوتا ہے وہ اتنا ہی اچھا پرفارم کرتے ہیں۔ کم از کم ہماری ٹیم کا ریکارڈ تو اس بات کا گواہ ہے۔”
ہمارے ٹیم مینجر نے اس کی بات پر ہلکا سا قہقہہ لگایا اور میں قدرے جھینپ گیا اس کے جملوں میں ابھی بھی وہی پرانی کاٹ تھی جس کے لیے وہ مشہور تھی۔
ہم اس کے ساتھ چلتے ہوئے باہر آ گئے تھے۔ جہاں دو گاڑیاں ہماری منتظر تھیں۔ ایک گاڑی میں پہلے ہی ہمارے کوچ اور کیپٹن براجمان تھے۔ اس لیے مجھے دوسری گاڑی میں ٹیم مینجر اور رابیل علی کے ساتھ بیٹھنا پڑا وہ فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے برابر میں بیٹھی ہوئی تھی اور تمام راستے ہمارے مینجر کے ساتھ بڑے پروفیشنل انداز میں انتظامات کے بارے میں باتیں کرتی رہی۔
ایک ہفتہ تک ہم فیصل آباد رہے اور ان سات دنوں میں تقریباً روزانہ ہی دو تین بار اس سے میرا آمنا سامنا ہوتا رہا۔ وہ بڑے خوشگوار انداز میں مجھ سے حال احوال پوچھتی رہی اور مجھے اس خوش فہمی میں مبتلا کرتی رہی کہ شاید میرے بارے میں اس کی سوچ بدل چکی ہے اب وہ بھی میرے لیے اچھے جذبات رکھنے لگی ہے۔ سو اس ہفتہ میں اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کر چکا تھا۔





ٹیسٹ میچ کے آخری دن مقامی انتظامیہ کی طرف سے دونوں ٹیموں کو عشائیہ دیا گیا تھا۔ عشائیہ ایک مقامی ہوٹل میں دیا گیا تھا۔ رابیل بھی وہاں موجود تھی۔ عشائیہ کا ابھی باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا جب میں نے رابیل کے پاس جا کر کہا تھا کہ میں اس سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں وہ دوسرے لوگوں سے ایکسیکیوز کرتی ہوئی بڑی خوش دلی سے میرے ساتھ آ گئی تھی ہم ہال سے نکل کر ہوٹل کے عقبی لان کی طرف آ گئے تھے۔
”بیٹھیں۔” میں نے لان میں پڑی چیئرز کی طرف اشارہ کیا اور خود بھی ایک چیئر کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”آپ کچھ کہنا چاہتے تھے مجھ سے؟” اس نے چیئر پر بیٹھتے ہی مجھ سے سوال کیا تھا۔
میں اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ وہ پرپل سوٹ میں ملبوس تراشیدہ بالوں کو ماتھے سے ہٹاتے ہوئے بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ پہلی خوبصورت لڑکی تھی جسے میں نے دیکھا تھا جن لڑکیوں سے میری دوستی تھی ان کے سامنے رابیل علی بہت عام، بہت معمولی نظر آتی تھی۔ لیکن بس یہ دل تھا جسے اس کے سامنے ہر خوبصورتی ماند نظر آتی تھی اور میں تھا جس پر بس اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
”میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
کسی تمہید کے بغیر میں نے وہ جملہ کہہ دیا تھا جسے بولنا مجھے ایک بہت دشوار گزار عمل لگتا تھا۔
صرف ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے پر حیرانگی جھلکی تھی لیکن پھر اس کا چہرہ بے تاثر ہو گیا تھا اور بڑی پرُسکون آواز میں اس نے کہا تھا:
”یہ ممکن نہیں ہے۔”
”کیوں ممکن نہیں ہے؟” میں نے بڑی بے تابی سے اس سے پوچھا تھا۔
”کیونکہ میری منگنی ہو چکی ہے اور چند ماہ تک میری شادی ہونے والی ہے۔”
اس کی بات سن کر مجھے یوں لگا تھا جیسے اب میں کبھی سانس نہیں لے پاؤں گا جیسے زمین کی گردش یک دم رک گئی تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوا تھا اپنی آواز مجھے جیسے کسی اندھے کنوئیں میں سے آتی محسوس ہوئی تھی۔
”کون ہے وہ؟”
”اس کا نام ضیغم حیدر ہے۔ وہ ایک سی، ایس، پی آفیسر ہے اور آج کل انٹرئیر منسٹری میں کام کر رہا ہے۔”
”کیا یہ لو میرج ہے؟” میں نے بہت دھیمی آواز میں پوچھا تھا۔
”ویل، میں اسے لو میرج تو نہیں کہہ سکتی ہاں البتہ یہ پسند کی شادی ضرور ہوگی۔ اصل میں ہم دونوں ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔ ہماری بہت اچھی دوستی تھی اور انڈر اسٹینڈنگ بھی، سو اس نے مجھے پروپوز کر دیا اینڈ دیٹس اٹ۔”
”کیا تم سے مجھ سے زیادہ محبت کوئی کر سکتا ہے؟”
میں نے بہت تیز آواز میں کہا۔ وہ چند لمحوں تک ناگواری سے میری طرف دیکھتی رہی اور پھر شستہ انگریزی میں بولی:
”پتا نہیں مجھے یہ خوش فہمی کیوں ہو گئی تھی کہ تمہارا دماغ اب ٹھیک ہو گیا ہوگا لیکن ایسا نہیں، تم اب تک بالکل ویسے ہی ہو، تم میں بالکل فرق نہیں آیا۔”
”ہاں میں آج بھی وہی ہوں۔ جو تم سے محبت کرتا تھا اور آج بھی بے تحاشا محبت کرتا ہوں۔”
میں نے اسی کی روانی سے انگریزی ہی میں اسے جواب دیا تھا۔
”تمھیں اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے شرم کیوں نہیں آتی؟ کیا تم کو یاد بھی ہے کہ کتنی لڑکیوں سے تم نے یہی جملہ کہا ہوگا؟ شاید تمھیں ان کی تعداد بھی یاد نہیں ہوگی۔”
اس نے بڑے سرد مہر لہجے میں مجھ سے کہا۔
”میں نے آج تک یہ جملہ صرف ایک لڑکی سے کہا ہے اور وہ تم ہو سو مجھے تعداد اچھی طرح یاد ہے۔”
”تم کیا ہر لڑکی سے یہی کہتے ہو؟”
اس نے بڑے تیکھے انداز میں مجھ سے پوچھا تھا۔
”تمھیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں ہر لڑکی سے یہ بات کہتا پھر رہا ہوں۔ یہ صرف تم ہی ہو جسے میں یہ بات کہہ رہا ہوں۔” میں نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے بڑے اکتائے ہوئے انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔
”آل رائٹ، آل رائٹ مانا کہ تم بہت پارسا ہو لیکن مجھے تمہاری پارسائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، میرے خیال میں اب مجھے چلنا چاہیے ڈنر شروع ہونے والا ہے۔”
اس نے ٹیبل پر رکھے ہوئے اپنے ہینڈ بیگ پر ہاتھ رکھا اور میں نے یک دم اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”مجھے تم سے ابھی بہت کچھ کہنا ہے، تم سنے بغیر نہیں جا سکتیں۔”
اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے میں نے بڑے بے خوف انداز میں کہا تھا۔
”میرا ہاتھ چھوڑ دو۔” اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کیے بغیر مجھے کہا تھا۔
”میں نہیں چھوڑوں گا۔” ایک عجیب سی ضد مجھ پر سوار ہو گئی تھی۔
”تم چھوڑو گے ضرور چھوڑو گے۔ اگر ایسے نہیں تو بے عزت ہو کر چھوڑو گے۔ میں تمہاری کوئی فین ہوں نہ ہی کوئی گرل فرینڈ جس کے ساتھ تم رومانس لڑانے کے لیے یہاں بیٹھے ہو۔ میرے ایک اشارے، ایک آواز پر تم پولیس اسٹیشن میں ہو گے اور تمہاری کوئی شہرت اور کارکردگی تمھارے کسی کام نہیں آئے گی، تم ہیرو سے زیرو بن جاؤ گے سو بہتر ہے کہ ایسی کسی صورت حال سے پہلے ہی میرا ہاتھ چھوڑ دو۔”
اور میں نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ اپنی کمزور پوزیشن کا احساس مجھے ہو گیا تھا لیکن ایسا نہیں تھا کہ اس کا جنون میرے سر سے اتر گیا تھا۔
”مجھے صرف ایک بات بتا دو جس شخص سے تم شادی کر رہی ہو، اس میں ایسی کون سی خوبی ہے جو مجھ میں نہیں اس کے پاس وہ کون سی چیز ہے جو میں تمھیں نہیں دے سکتا؟”
میں نے ہاتھ چھوڑتے ہی اس سے سوال کر دیا تھا۔ وہ اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا کر یک دم بڑے اطمینان سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
”آل رائٹ، میرا خیال ہے مجھے تمھیں آئینہ دکھانا ہی پڑے گا۔ تم کرکٹرز، ایکٹرز اور politicians اصل میں خوش فہمی کے کیڑے ہوتے ہو۔ ساری عمر خوش فہمی پر پلتے رہتے ہو اور ذرا سی حقیقت سامنے آنے پر ایسے تڑپنے لگتے ہو جیسے جونک پر نمک ڈال دیا جائے کیا تم سچ سننے کا حوصلہ رکھتے ہو؟”
”تمھارے منہ سے میں سب کچھ سن سکتا ہوں چاہے وہ کتنی ہی کڑوی بات کیوں نہ ہو۔”
”ویل سیڈ، اوکے پھر مجھے بتاؤ کہ تمھارے پاس ہے کیا، تعلیم ہے؟”
اس کا لہجہ زہریلا تھا اور سوال اس سے بھی زیادہ تلخ۔
”تعلیم سے کیا ہوتا ہے؟ یہ کوئی اتنی بھی اہم چیز نہیں ہے۔”
میں نے بڑا کمزور سا دفاع کیا تھا۔
”ٹھیک ہے بقول تمھارے تعلیم کوئی اتنی بھی اہم چیز نہیں ہے تو چلو مان لیتے ہیں لیکن یہ بتاؤ کہ اچھا کردار ہے تمھارے پاس؟”




Loading

Read Previous

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Bahot hi behtareen afsana hai padhte waqt ye bilkul mehsoos hi nahi hua umera Ahmed ka ye pehla writing piece hai

  • عمیرہ کی کہانیوں کی خصوصیات میں ان کی ہیروئن کا کردار بہت مضبوط ہونا ہے اور مجھے یہ خصوصیت بہت متاثر کرتی ہے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!