بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

پھر بہت سی لڑکیوں کے ساتھ میری دوستی رہی، ان میں برٹش بھی تھیں اور پاکستانی بھی جو انگلینڈ میں مقیم تھیں اور ہر ایک کے ساتھ میری دوستی آخری حد کو پار ضرور کرتی رہی۔ لیکن پتا نہیں میرا دل کسی ایک لڑکی پر کیوں نہیں ٹھہرتا تھا۔ میں بہت جلد ایک لڑکی کی قربت سے اکتاتا اور دوسری لڑکی تلاش کرنا شروع کر دیتا۔ ان دنوں میں مجھے رابیل علی قطعاً یاد نہیں آئی اور اگر کبھی یاد آئی بھی تو مجھے ہنسی آتی کہ میں کس قسم کا رومانس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
میرے لیے رابیل علی کا چارم ختم ہو چکا تھا اور وہاں رہنے کی وجہ سے اس کی اچھی انگلش کا اثر بھی زائل ہو گیا تھا اب میرے لیے بھی وہ بس کالج کی ایک لڑکی تھی اور بس، میں فیصلہ کر چکا تھا کہ گریجویشن نہیں کروں گا کیونکہ اب مجھے اس کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ چھ ماہ بعد انگلینڈ سے واپس آنے والا احسن منصور اب پہلے جیسا احسن منصور نہیں رہا تھا اس کا اندر اور باہر یکسر طور پر بدل چکا تھا۔ میں ذہنی طور پر بہت میچور ہو چکا تھا اور شاید مضبوط بھی۔
جب میں نے زبیری کو کالج چھوڑنے کے فیصلے کے بارے میں بتایا تو اس نے میرے اس فیصلہ کو ناپسند کیا تھا۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ پڑھنا نہیں تو نہ سہی چند دن انجوائے منٹ کے لیے ہی آ جایا کروں اور انجوائے منٹ کے لفظ نے مجھے اس کی بات ماننے پر مجبور کر دیا۔
کالج میں واقعی فنکشنز کا آغاز ہونے والا تھا جس سے اچھی خاصی تفریح ہو جاتی سو میں نے اس کی بات مان لی تھی۔ عمر زبیری سے ہی مجھے پتا چلا تھا کہ رابیل علی نے ایم اے انگلش پارٹ ون کے امتحان میں کالج میں ٹاپ کیا تھا لیکن مجھے اس پر زیادہ حیرت نہیں ہوئی شاید وہ نہ کرتی تو حیرت ہوتی۔
انگلینڈ میں چھ ماہ رہنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا تھا کہ اب میری دلچسپی رابیل میں ختم ہو گئی تھی سو مجھ پر اس خبر کا خاص اثر نہیں ہوا لیکن میں غلط تھا۔ اس دن میں عمر کے ساتھ کالج گیا تھا اور میں نے انگلش ڈیپارٹمنٹ جانے کی قطعاً کوشش نہیں کی لیکن اس دن سب اتفاقات سے بڑا اتفاق ہوا تھا۔ کالج سے واپس گھر جاتے ہوئے وہ مجھے سڑک کے کنارے دکھائی دی تھی۔





اور میں جو اسے ایک عام سی لڑکی سمجھنے کا تہیہ کر چکا تھا پتا نہیں کس طرح بے قابو ہوا اور میں نے گاڑی بالکل اس کے قریب جا کر روک دی وہ چند لمحوں کے لیے ٹھٹھک کر رک گئی تھی لیکن پھر میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی اس کی تیوری پر بل پڑ گئے تھے اور پتا نہیں کیوں لیکن مجھے اس کا یہ انداز اچھا لگا۔ بہت عرصے بعد کسی لڑکی نے مجھے دیکھ کر یوں بیزاری کا اظہار کیا تھا ورنہ تو میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی لڑکیاں شہد کی مکھی کی طرح میری طرف کھنچی چلی آتی تھیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہوئی تھی کہ تیوری پر بل ڈالنے کے باوجود وہ میری طرف بڑے بے دھڑک انداز میں آئی تھی۔
”ہاں جی کیا مسئلہ ہے آپ کو؟”
اس نے میرے قریب آتے ہی بڑے تیکھے انداز سے سوال کیا تھا۔ میں نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی جواب دیا تھا:
”مسئلہ تو شاید آپ کو درپیش ہے میں تو آپ کو دیکھ کر رک گیا تھا کہ شاید آپ کو لفٹ کی ضرورت۔”
اس نے میری بات کاٹتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ ترش لہجے میں کہا:
”کیا میں نے آپ سے لفٹ مانگی تھی جو آپ اس طرح اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں؟”
مجھے یک دم ایسا لگا جیسے وہ پہلے ہی کسی بات پر غصہ میں تھی اور میں خوامخواہ اس کے عتاب کا نشانہ بن رہا ہوں اسی لیے میں نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے مزید وضاحت کی:
”آپ پیدل جا رہی تھیں تو اس لیے میں نے گاڑی روک دی تاکہ آپ کو گھر پہنچا دوں۔”
”جسٹ ٹیل می ون تھِنگ کیا اس کالج کی ہر پیدل جانے والی لڑکی کو آپ گھر پہنچاتے ہیں؟ اور اگر ایسا کرتے بھی ہیں تو برائے مہربانی اپنی نوازش اپنے پاس رکھیں، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اور آئندہ کبھی اس طرح میرے پاس گاڑی لا کر مت کھڑی کرنا۔”
بڑے اکھڑ لہجے میں کہتے ہوئے وہ گاڑی کے پاس سے ہٹنا چاہ رہی تھی جب میں نے اس سے اچانک کہا:
”ہر کسی کے لیے تو گاڑی نہیں روکی جاتی یہ تو کچھ خاص لوگوں کے لیے روکی جاتی ہے جیسے میرے لیے تم خاص ہو۔”
آپ سے تم پر آنے میں مجھے ایک لمحہ لگا تھا اور وہ ایک عجیب شاکڈ حالت میں میرے سامنے کھڑی تھی شاید وہ مجھ سے ایسے کسی جملے کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
”پھر تم نے ایگزام میں ٹاپ کیا تھا، اس کی مبارکباد بھی تمھیں ملنی چاہیے تھی سو میں نے سوچا…” اس نے بڑے غضبناک انداز میں میری بات کاٹ دی تھی۔
”تم سوچا مت کرو کیونکہ تم یہ کام کرنے کے قابل نہیں ہو۔ سوچنے کے لیے دماغ چاہیے اور تمہارا دماغ کرکٹ خراب کر چکی ہے۔”
”تم مجھے…” میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے تنبیہی انداز میں انگلی میری طرف کرتے بڑے زور سے کہا تھا:
”اپنا منہ بند رکھو اور میری بات سنو، ذرا اپنی عمر دیکھو اور اپنی حرکتیں دیکھو، ہے کیا تم میں جو اس قسم کی فضول بکواس کر رہے ہو۔ تم سے چار سال سینئر ہوں میں، تمھیں تو مجھ سے اس قسم کی بے ہودہ بات کرنے سے پہلے ڈوب کر مر جانا چاہیے۔ تمھیں گھر میں کوئی روک ٹوک کرنے والا کوئی سمجھانے والا نہیں ہے، تمھیں اس طرح کھلا چھوڑا ہوا ہے کیسا خاندان ہے تمہارا؟ جاؤ جا کر گھر والوں سے کہو کہ تمھیں لگام ڈال کر رکھیں۔ لوگوں کے لیے عذاب بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔”
وہ یہ کہہ کر بڑی تیزی سے وہاں سے چلی گئی تھی اور میں اسٹیرنگ وہیل پر ہاتھ جمائے دانت بھینچے اسے جاتا دیکھتا رہا۔ مجھ میں ایسی کون سی خامی تھی جو اسے مجھ سے یوں متنفر کر رہی تھی۔ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں گونج رہا تھا۔ گھر آ کر بھی میں بہت زیادہ ڈسٹرب رہا تھا وہ جو ایک خوش فہمی تھی کہ اب مجھے اس میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہو گی وہ ختم ہو گئی تھی میں جان چکا تھا کہ وہ اب بھی میرے لیے اتنی ہی اہم ہے جتنی پہلے تھی اور پہلی دفعہ میں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا۔
اس بے عزتی کے بعد مجھے اس سے قطعاً نفرت محسوس نہیں ہوئی حالانکہ ہونی چاہیے تھی لیکن مجھے تو اس پر غصہ تک نہیں آیا۔ میں اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا تھا لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئی اور قدم اٹھاتا مجھے ٹیم کے ساتھ دورے پر جانا پڑا۔
بیرونی دورے سے واپسی پر ہوم سیزن شروع ہو گیا اور جب میں ان سب سے فارغ ہوا تو اس وقت وہ کالج سے فری ہو چکی تھی۔ مجھے یہ اطمینان تھا کہ میرے پاس اس کا ایڈریس ہے اس لیے میں کبھی بھی اس سے رابطہ کر سکتا ہوں۔ سو اسی اطمینان کے ساتھ میں انگلینڈ چلا گیا تھا کافی ماہ وہاں گزارنے کے بعد میں واپس پاکستان آیا تھا اور یہاں پھر ایک غیر ملکی ٹیم کے خلاف سیریز کے لیے میرا انتخاب کر لیا گیا تھا سو میں چاہتے ہوئے بھی فوری طور پر اس سے رابطہ نہیں کر پایا۔
اور پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ اس کا خیال میرے ذہن سے محو ہو گیا۔ مجھے دوبارہ اس کا خیال اس وقت آیا تھا جب چند ماہ بعد ایک دن اخبار میں ایم اے انگلش پارٹ ٹو میں ٹاپ کرنے والی طالبہ کے طور پر میں نے اس کی تصویر دیکھی اور تصویر دیکھنے کے ساتھ ہی یک دم مجھے اس سے وابستہ سارے واقعات یاد آنے لگے اور بے اختیار سا ہو کر میں نے اس کا ٹیلی فون نمبر تلاش کیا اور پھر اسے فون کیا تھا۔لیکن یہ جان کر مجھے شاک لگا تھا کہ وہ وہاں سے جا چکے ہیں اور اب وہاں اس مکان کے نئے مالک تھے۔
چند لمحوں کے لیے تو مجھے ایسا لگا جیسے میری سانس ہی بند ہو گئی ہو۔ اپنے اوسان بحال کرتے ہوئے میں نے اس مکان کے نئے مالک سے درخواست کی تھی کہ وہ مجھے اس کے بارے میں کوئی اطلاع دیں اگر وہ جانتے ہوں لیکن انھوں نے مجھے یہ بتا کر اور مایوس کر دیا تھا کہ انھوں نے وہ مکان کسی پراپرٹی ڈیلر سے خریدا تھا اس لیے وہ اس مکان کے پرانے مالکوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ مجھے بہت شاک پہنچا تھا لیکن شاک سے زیادہ مایوسی ہوئی تھی آخر میں اس سے رابطہ کیسے کرتا؟
چند ہفتے میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرتا رہا لیکن میرا پرابلم یہ تھا کہ میں اپنے نزدیکی دوستوں کو اس کے بارے میں کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا اور جن لوگوں کے ذریعے میں اس کا اتا پتا معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا وہ اس کے بارے میں زیادہ باعلم نہیں تھے۔ چند ہفتوں کی بھاگ دوڑ کے بعد بھی ناکامی ہونے کی وجہ سے میں نے اپنی کوششیں ترک کر دیں لیکن رابیل علی میرے ذہن سے محو نہیں ہوئی۔
پھر چار سال گزر گئے۔ ان چار سالوں میں بہت کچھ بدل گیا۔ پہلے میں پاکستان کے ٹاپ باؤلرز میں تھا۔ چار سالوں میں بین الاقوامی طور پر میرا ڈنکا بجنے لگا تھا۔ پہلے میں صرف باؤلر تھا پھر میں نے بیٹنگ میں بھی اپنا لوہا منوا لیا۔ ایک دنیا میرے آگے پیچھے پھرتی تھی۔ میرے پاس صرف روپیہ نہیں بے شمار روپیہ تھا۔ پھر مادی لحاظ سے میں جتنا اوپر گیا تھا اخلاقی لحاظ سے اتنا ہی نیچے گر گیا تھا۔
پہلے میرے افیئرز چھپتے رہتے تھے لیکن اب میرے افیئرز صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی مشہور تھے لیکن اس کے باوجود میری شہرت اور میرے چاہنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوئی تھی نہ ہی میرے خاندان نے کبھی میرے کسی افیئر پر اعتراض کیا تھا۔ میں ان کے سامنے اپنے ہر اسکینڈل کو بوگس قرار دیتا اور وہ اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے اور یقین کرتے بھی کیوں نہیں آخر یہ میں ہی تھا جس کی وجہ سے وہ ایک عام سے علاقے کے عام سے گھر سے اٹھ کر شہر کے سب سے پوش علاقے کے ایک دس کنال کے مکان میں مقیم تھے۔ میری وجہ سے ہی اب اس گھر کے ہر فرد کے پاس اپنی ذاتی گاڑی موجود تھی۔ میرے بھائیوں نے میرے روپے کی مدد سے اپنا ذاتی امپورٹ ایکسپورٹ کا کام شروع کر دیا، سوا نہیں میرے کسی فعل پر اعتراض کیوں ہوتا۔
بے شمار لڑکیوں سے تعلقات رکھنے کے باوجود اب بھی رابیل علی میرے سینے میں ایک خنجر کی طرح گڑی ہوئی تھی شاید وہ میری پہلی اور اب تک کی واحد شکست ہے اس لیے میں اسے زیادہ یاد کرتا ہوں یا پھر ہاں آسان لفظوں میں یہ مان لینا زیادہ آسان ہے کہ میں رابیل علی سے محبت کرتا آ رہا ہوں۔ وہ واحد حقیقت ہے جسے ماننے میں مجھے کوئی عار نہیں۔ مجھے کبھی بھی یہ توقع نہیں رہی تھی کہ اب دوبارہ کبھی اس سے میرا سامنا ہو پائے گا لیکن ایسا ہو ہی گیا۔
میں ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے فیصل آباد گیا تھا۔ ائیرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج تک پہنچتے پہنچتے میں لوگوں سے ہاتھ ملاتے اور آٹوگراف دیتے دیتے کافی تھک چکا تھا اور تھکنے سے زیادہ میں اکتایا ہوا تھا۔ اسی لیے لاؤنج میں پہنچ کر میں اپنی کٹ اور بیگ رکھ کر چائے پینے بیٹھ گیا تھا تاکہ لوگ مجھے چائے پیتا دیکھ کر میری طرف نہ آئیں۔ میرے ساتھ دو تین دوسرے پلیئرز بھی شامل ہو گئے تھے۔
چائے کے سپ لیتے ہوئے اچانک میری نظر اس لڑکی پر پڑی تھی جو ہماری ٹیم کے مینجر، کوچ اور کیپٹن سے مصروف گفتگو تھی۔ اس کی پشت میری طرف تھی اس لیے میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا لیکن نہ جانے کیوں مجھے کچھ عجیب سا احساس ہوا تھا۔ اس کے کھڑے ہونے کا انداز بہت مانوس سا لگا تھا پھر بات کرتے کرتے اس نے چہرے کو موڑا تھا اور میرے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹتے بچا وہ بلاشبہ رابیل علی تھی۔ اس کے چہرے کا ایک ایک نقش میرے ذہن میں محفوظ تھا۔ میں تو لاکھوں کے مجمع میں بھی اسے پہچان جاتا۔ لاؤنج میں تو پھر چند درجن لوگ تھے۔
میں ایک عجیب سے عالم میں صوفہ سے ٹیک لگائے اسے دیکھتا رہا۔ وہ اب بھی پہلے ہی کی طرح تھی۔ بلیک کڑھائی والے سفید شلوار سوٹ کے ساتھ وہ بلیک کوٹ میں ملبوس تھی۔ بال اب بھی اسٹیپس ہی میں کٹے ہوئے تھے لیکن ان کی لمبائی میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ ہاں اب بالوں میں کوئی ہیئر بینڈ نہیں تھا جو ایک زمانے میں اس کا ٹریڈ مارک سمجھا جاتا تھا۔ اپنے دراز قد کے ساتھ وہ لاؤنج میں بہت نمایاں تھی۔
میں ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر تک اس کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد ہماری ٹیم کا کیپٹن میرے صوفے کی طرف بڑھ آیا تھا جب کہ وہ ہمارے ٹیم مینجر کے ساتھ لاؤنج سے باہر چلی گئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے میرا دل چاہا کہ میں بھاگ کر اس کے پیچھے جاؤں مگر میں جانتا تھا یہ ممکن نہیں تھا۔ اب میں ایک اسٹار بولر تھا اور میڈیا کے اتنے بہت سے لوگوں کے سامنے ایسی کوئی حرکت اگلے ہی دن اخبار میں شائع ہو جاتی سو میں نے خود پر قابو پا لیا تھا لیکن اپنی ٹیم کے کپتان کے صوفے پر بیٹھتے ہی میں نے ایک لمحے کا انتظار کیے بغیر پوچھا تھا:
”وہ لڑکی کون تھی جس سے آپ باتیں کر رہے تھے؟”
”اوہ… وہ رابیل علی تھی۔ یہاں کی اسسٹنٹ کمشنر ہے۔ میچ کے سارے انتظامات بھی اس کی زیر نگرانی ہوئے ہیں۔ وہ چاہ رہی تھی کہ ہم ابھی کچھ دیر بعد اسٹیڈیم جا کر ایک دفعہ وہاں کی ارینجمنٹ کا جائزہ لے لیں تاکہ اگر کسی چیز کی کمی ہو تو وہ پوری کی جا سکے۔میں مینجر اور کوچ کے ساتھ تھوڑی دیر تک اسٹیڈیم جاؤں گا۔”
وہ مجھے بتا کر چائے پینے میں مشغول ہو گیا۔
”کیا یہ لڑکی واقعی اسسٹنٹ کمشنر تھی؟”
یہ سوال میرے ساتھ صوفے پر بیٹھے ہوئے ناصر نے کیا تھا۔ اس کے لہجے میں تجسّس آمیز اشتیاق تھا۔
”ہاں بالکل ہے تمھیں شبہ کیوں ہو رہا ہے؟”




Loading

Read Previous

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Bahot hi behtareen afsana hai padhte waqt ye bilkul mehsoos hi nahi hua umera Ahmed ka ye pehla writing piece hai

  • عمیرہ کی کہانیوں کی خصوصیات میں ان کی ہیروئن کا کردار بہت مضبوط ہونا ہے اور مجھے یہ خصوصیت بہت متاثر کرتی ہے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!