بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

رابیل نے اس لڑکے کے خاموش ہو جانے پر اس کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے مڑ کر دیکھا تھا اور مجھے دیکھتے ہی ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی اور زندگی میں پہلی دفعہ اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے میرا حال احوال پوچھا تھا مجھے ایسا لگا تھا جیسے میں ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ہوں پھر اس نے اس لڑکے سے بھی میرا تعارف کروایا تھا وہ ضیغم حیدر تھا اور رابیل کا کلاس فیلو تھا میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور اس نے مسکراتے ہوئے بڑی شستہ انگریزی میں مجھ سے کہا:
”تو آپ وہ ستارے ہیں جنھوں نے آج کل کرکٹ کی دنیا کے باقی سب ستاروں کو دھندلایا ہوا ہے۔”
میں اس کے تبصرے پر کچھ کہہ ہی نہیں پایا۔ اتنی روانی سے میں اسے انگلش میں جواب نہیں دے سکتا تھا اور اردو میں کچھ کہنا مجھے مناسب نہیں لگا سو میں صرف تھینک یو کہہ پایا۔
”رابیل مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔”
”میں نے فوراً ہی رابیل سے کہا تھا اور اس کا جواب میرے لیے چکرانے والا تھا۔
”کیجئے۔” اس نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا کر کہا تھا۔
میں نے ایک نظر ضیغم حیدر کو دیکھا جو بڑی گہری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
”میں اصل میں علیحدگی میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔”
اس سے پہلے کہ رابیل میری بات کے جواب میں کچھ کہتی ضیغم بول اٹھا تھا:
”معاف کیجئے گا میرا خیال ہے مجھے اب چلا جانا چاہیے پھر ملاقات ہوگی۔”
وہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔
”جی فرمائیں آپ کو کیا کہنا ہے؟” مجھے پہلی بار رابیل کے چہرے پر الجھن نظر آئی تھی۔
”اصل میں، میں آپ کو یہ دینا چاہتا تھا۔” میں نے جھجکتے ہوئے پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا تھا لیکن اس نے ہاتھ بڑھائے بغیر مجھ سے پوچھا:
”یہ کیا ہے؟”
”یہ آپ کی سالگرہ کا تحفہ ہے۔”
وہ میری بات پر جیسے حیران رہ گئی تھی۔
”یہ بس ایک گھڑی ہے۔” میں نے مزید وضاحت کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس وقت تک شاید حیرت کے اس جھٹکے پر قابو پا چکی تھی اس نے اپنی بائیں کلائی میرے چہرے کے سامنے کی تھی۔





”یہ جو چیز میری کلائی پر بندھی ہے اسے بھی گھڑی ہی کہتے ہیں اور اگر یہ میری کلائی پر بندھی ہے تو سیدھے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ میری ملکیت ہے اور اگر یہ میری ہے تو ظاہر ہے مجھے مزید کسی گھڑی کی ضرورت نہیں ہے، یہ تھی پہلی بات، دوسری بات یہ ہے کہ میری سالگرہ کو گزرے بہت دن ہو چکے ہیں اس لیے کسی تحفے کی کوئی تک نہیں بنتی، تیسری بات یہ کہ میرے اور آپ کے درمیان ایسا کوئی رشتہ نہیں جو آپ کو یہ تحفہ دینے اور مجھے لینے پر مجبور کرے اور اب ایک سوال، آخر آپ کو میری ڈیٹ آف برتھ کا پتا کیسے چلا ہے؟ جواب میں ہی دے دیتی ہوں میرا خیال ہے آپ نے آفس سے معلوم کروایا ہوگا لیکن کیوں؟”
اس کے لہجے میں اب میرے لیے سرد مہری تھی چہرے پر اس مسکراہٹ کا نام و نشان بھی نہیں تھا جو پہلے ہوتی تھی۔ میں بے حد نروس ہو چکا تھا۔ اسے اتنا غصہ آئے گا یہ میری توقع کے برخلاف تھا۔ میں تو یہ تصور کر رہا تھا کہ وہ اس سرپرائز پر حیران ہو گی اور شاید خوش بھی کہ مجھے اس کی برتھ ڈے کا علم ہے۔ دیر سے ہی سہی لیکن اسے ایک عدد تحفہ بھی دے رہا ہوں، یہ ایک ایسا اعزاز تھا کہ شاید کالج کی کسی اور لڑکی کو ملتا تو وہ خوشی سے مر ہی جاتی۔ مگر وہ سراپا سوال بنی میرے سامنے کھڑی تھی۔ اپنی ڈارک بلیک آنکھیں میرے چہرے پر جمائے وہ بڑی تیکھی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ جن میں مروت اور لحاظ نام کو بھی نہیں تھا۔
میں نے ہولے سے کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا اور پھر اس سے مخاطب ہوا:
”اصل میں، میں آفس میں کسی کام سے گیا تھا تو وہاں بائی چانس آپ کا ایڈمیشن فارم دیکھ لیا اسی میں آپکی ڈیٹ آف برتھ تھی۔ میرے کچھ دوستوں کی ڈیٹ آف برتھ بھی یہی ہے اسی لیے مجھے یہ بہت مانوس سی لگی۔”
مجھے اپنا بہانہ موزوں لگا تھا لیکن اس کے تاثرات ویسے ہی تھے۔
”آل رائٹ، چلیں اس بار میں آپ کے جھوٹ کو سچ مان لیتی ہوں بٹ نیور ڈو اٹ اگین۔” اس نے مجھے جیسے تنبیہہ کی تھی۔ یقینا میری وضاحت پر اسے اعتبار نہیں آیا تھا۔
”دیکھیں میں یہ گفٹ آپ کو کسی غلط نیت سے نہیں دے رہا، میں اصل میں آپ سے بہت امپریس ہوں اور…” اس نے میری بات درمیان میں ہی کاٹ دی تھی:
”Let me make one thing very clear یہاں کالج میں ہم اور آپ امپریس ہونے کے لیے نہیں آتے، یہاں ہم پڑھنے کے لیے آتے ہیں اور اگر بقول آپ کے آپ مجھ سے امپریس ہو بھی گئے تھے تو کیا یہ ضروری تھا کہ آپ بھی مجھے امپریس کرنے کی یہ گھٹیا سی کوشش کرتے اور جہاں تک آپ کی نیت کا تعلق ہے تو مجھے اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ آپ کی نیت غلط تھی یا صحیح۔”
وہ اپنی بات کہہ کر جانے لگی تھی جب میں نے اسے پھر روکا تھا۔
”دیکھیں رابیل آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔”
اس نے جاتے جاتے مڑ کر بڑے مستحکم اور سرد مہر لہجے میں کہا تھا:
”صحیح نہ غلط میں آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھ رہی ہوں کیونکہ میرے پاس اتنا فالتو وقت ہی نہیں ہے جسے میں لوگوں کو سمجھنے پر ضائع کرتی پھروں۔ آپ میرے لیے اس کالج کے ہزاروں اسٹوڈنٹس میں سے ایک ہیں جن میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سو آئی ہوپ کہ اگر آپ کو میرے بارے میں کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی ہو گئی ہے تو آپ اسے دور کر لیں گے۔”
وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھی اور مجھے یوں لگا تھا جیسے اس نے میرے چہرے پر جوتا کھینچ مارا ہو۔ میں خود کو ایک بہت بڑی ہستی سمجھ کر وہاں آیا تھا۔ مگر اس نے شاید مجھے میرا اصلی چہرہ دکھا دیا تھا میں وہاں سے تقریباً بھاگتا ہوا گھر آیا تھا پھر میں بہت دنوں تک کالج جانے کی ہمت نہیں کر پایا اور کئی روز تک میں اپنے حواس میں نہیں رہا۔ وہ کیا تھی جو اس طرح میری تذلیل کرتی؟ اسے احسن منصور اور دوسرے لڑکوں میں کوئی فرق ہی نظر نہیں آیا۔
ٹھیک ہے وہ بہت قابل اور ذہین تھی لیکن ایسی ذہانت والی سینکڑوں لڑکیاں مجھ پر مرتی تھیں۔ ٹھیک ہے اگر اس کے چاہنے والے بہت تھے تو مجھ پر مرنے والوں کی تعداد ان سے بہت زیادہ تھی۔ وہ تو صرف اس کالج میں جانی جاتی تھی اور مجھے دنیا میں پہچانا جاتا تھا پھر بھی اس نے کہا تھا کہ اسے مجھ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایک آگ سی تھی جو میرے اندر بھڑکتی گئی تھی، شاید نوجوانی کا جوش اور غصہ تھا یا شاید تذلیل کا احساس، بہت دنوں تک اندر ہی اندر سلگنے کے بعد میں ایک فیصلے پر پہنچ گیا تھا۔
میں نے دو ہفتے کے بعد اس کے ڈیپارٹمنٹ جا کر اپنی غلطی مانتے ہوئے اس سے معافی مانگی تھی اور اس نے کمال بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے معاف کر دیا تھا۔ پھر چند ہفتوں کے بعد میں کاؤنٹی کھیلنے کے لیے انگلینڈ چلا گیا اور یہاں چھ ماہ کے قیام نے میری زندگی میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ پہلی دفعہ میں اتنے دنوں تک اپنے والدین سے اکیلا دور کسی ایسی جگہ پر تھا جہاں ہر قسم کی آزادی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے میں کسی سیلن زدہ کمرے سے کسی کھلی چراگاہ میں آ گیا ہوں۔ اس سے پہلے ٹیم کے ساتھ میں دورے کرتا رہا تھا لیکن ٹیم کے ساتھ رہتے ہوئے بہت سی پابندیاں تھیں جن کا مجھے سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن کاؤنٹی کے لیے کھیلتے ہوئے ویسی کوئی پابندی مجھ پر نہیں لگائی گئی تھی۔
میں کم عمر تھا۔ خوبصورت تھا، لائم لائٹ میں تھا اور بے تحاشا دولت میرے پاس تھی۔
یہیں ایلسی کے ساتھ میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے سو فٹ ڈرنک بنانے والے ایک ادارے کے ساتھ ایک کمرشل کا کانٹریکٹ کیا تھا اور اس کمرشل میں میرے ساتھ ایلسی براؤنز نے کام کرنا تھا۔ اس کا شمار اوسط درجے کی ماڈلز میں ہوتا تھا۔ لیکن پتا نہیںکیوں مجھے وہ اس قدر اچھی لگی؟ شاید اس کی بے باکی مجھے پسند آئی تھی۔ شاید میں پہلی بار کسی مغربی لڑکی کو اتنے قریب سے جان رہا تھا۔ کمرشل کی شوٹنگ کا آغاز ہونے سے پہلے ایک ڈنر میں اس سے میرا تعارف کروایا گیا تھا اور پہلی ہی ملاقات میں اس نے میرے لیے واضح پسندیدگی کا اظہار کر دیا تھا۔ میں اس کے تعریفی کلمات پر خوشی سے پھولا نہ سمایا تھا۔
بہرحال پہلی دفعہ کوئی مغربی ماڈل گرل میرے لیے اس قسم کے جذبات کا اظہار کر رہی تھی اور پھر اس کے ساتھ میری بے تکلفی بڑھتی چلی گئی۔ اسے کوئی حجاب نہیں تھا اور میں عاشق مزاج تھا۔ ایک رات میں نے اسے اپنے فلیٹ میں ڈنر پر مدعو کیا اور وہ آ گئی تھی۔ ڈنر کے بعد اس نے میرے ساتھ رقص کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق میں فوراً اس پر تیار ہوگیا۔ رقص کے دوران اس نے میری کسی پیش قدمی کا برا نہیں مانا بلکہ مجھے ایسا لگا جیسے وہ خود اسی کے انتظار میں تھی۔ وہ اپنی اداؤں سے میرے جذبات کو اور بھڑکاتی رہی اور پھر اس ملاقات کا اختتام ویسے ہی ہوا تھا جیسے مغرب میں ہوا کرتا ہے۔
وہ عمر میں مجھ سے دس سال بڑی تھی اور میں صرف انیس سال کا تھا۔ یقینا میں اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد نہیں تھالیکن وہ جسمانی طور پر میری زندگی میں آنے والی پہلی عورت تھی۔ یہ تعلق محبت کا نہیں صرف ضرورت کا تھا۔ اخلاقی طور پر تباہی کی جس آخری سیڑھی سے گرنے کے لیے مجھے جو الٹا قدم اٹھانا تھا وہ میں اٹھا چکا تھا۔
صبح جب میں بیدار ہوا تو ایلسی میرے بیڈ میں ابھی سو رہی تھی۔ یک دم مجھے اس سے اور اپنے کمرے سے بے تحاشا خوف محسوس ہوا۔ میں نائٹ گاؤن پہن کر کمرے سے باہر آ گیا۔ صوفے پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے میں پچھلی رات کے واقعات کو یاد کرنے لگا اور ایک عجیب سی ندامت مجھے محسوس ہوئی تھی۔ اپنے پہلے غیر ملکی ٹور سے لے کر انگلینڈ آنے تک ایک بار بھی ایسا موقع نہیں آیا تھا جب میرے والدین یا بھائیوں نے مجھے ان چیزوں سے بچنے کے لیے کوئی نصیحت کی ہو۔ وہ سب ہمیشہ اس بات پر ہی نازاں رہے تھے کہ میں کرکٹ ٹیم میں شامل ہو کر باہر جا رہا ہوں اور اس بار بھی انگلینڈ آتے ہوئے وہ بہت خوش تھے کیونکہ انگلینڈ کا یہ ٹور مجھے مالی طور پر بہت مستحکم کر دیتا۔ کسی نے ایک دفعہ بھی مجھے نہیں کہا کہ میں ایسے کوئی غلط کام کرنے کی کوشش نہ کروں شاید وہ سمجھتے تھے کہ میں ایسا کچھ کر ہی نہیں سکتا یا شاید ان کا دھیان ہی اس طرف نہیں گیا یا پھر انھوں نے یہ سوچا تھا کہ مجھے کسی نصیحت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
لیکن اس دن ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر میں نے جانا تھا کہ ایسی کی گئی کوئی نصیحت شاید میرے بہت کام آتی جو پچھتاوا مجھے صبح ہو رہا تھا وہ اس حرکت کو کرنے سے پہلے ہی ہو جاتا لیکن میری یہ کیفیت بہت زیادہ دیر تک نہیں رہی تھی۔
ایلسی کے بیدار ہوتے ہی یک دم یہ افسردگی دور ہو گئی تھی۔ میں نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دے لی تھی کہ یہ سب ہو ہی جاتا ہے اس دور میں۔ یہ سب کرنے والا میں دنیا کا واحد مرد تو نہیں ہوں نہ ہی کرکٹ ٹیم میں اکلوتا ہوں، ٹیم کے باقی کھلاڑی بھی ایسی حرکات میں ملوث ہوتے رہے ہیں پھر مجھے افسردہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ آخر میں مرد ہوں۔ دوسری ضروریات کے ساتھ یہ بھی میری ایک ضرورت تھی جسے میں نے پورا کر لیا تو کیا برا کیا؟
اور میں واقعی ان فریبوں سے بہل گیا تھا۔ میں ایک ہی رات میں ٹین ایج سے نکل کر ”باشعور” لوگوں میں شامل ہو گیا تھا اور پھر یہ سب میری زندگی کی روٹین میں شامل ہو گیا تھا۔ ایلسی کافی عرصہ تک میرے ساتھ رہی مگر وہ میری زندگی میں آنے والی اکلوتی لڑکی نہیں رہی۔
ان چھ ماہ میں بہت سی لڑکیوں کے ساتھ میرے تعلقات کا آغاز ہوا۔ میں اس ماحول میں مکمل طور پر ایڈجسٹ ہو گیا تھا اور میں یہ بھی جان چکا تھا کہ اس سوسائٹی میں کسی لڑکی کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات رکھنا یا رکھنے کی خواہش کا اظہار کرنا معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لہٰذا جن لڑکیوں کے ساتھ بھی میری جان پہچان ہوتی میں چند ہی ملاقاتوں کے بعد بڑی بے باکی کے ساتھ ان سے اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا کرتا تھا۔ چند دفعہ مجھے بڑے مہذب طریقہ سے انکار کر دیا گیا لیکن زیادہ تر میری اس خواہش یا مطالبہ کو مان لیا جاتا۔




Loading

Read Previous

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Bahot hi behtareen afsana hai padhte waqt ye bilkul mehsoos hi nahi hua umera Ahmed ka ye pehla writing piece hai

  • عمیرہ کی کہانیوں کی خصوصیات میں ان کی ہیروئن کا کردار بہت مضبوط ہونا ہے اور مجھے یہ خصوصیت بہت متاثر کرتی ہے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!