بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

”تمھیں میرے کردار میں کیا خامی نظر آتی ہے؟” میں نے اس سے پوچھا تھا۔
”تمھارے اسکینڈلز…”
”میرے اسکینڈلز کی بات مت کرو یہ سب میڈیا کی بلیک میلنگ ہے۔ پتا نہیں کیسی اسٹوریز بنا کر چھاپتے رہتے ہیں۔” میں نے مشتعل ہو کر اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”میں نہیں جانتی تھی کہ مجھے کبھی اس طرح تمھیں اصلی چہرہ دکھانا پڑے گا ورنہ میں تمھارے بارے میں شائع ہونے والی خبریں زیادہ دھیان سے پڑھتی بلکہ اکٹھی کر کے رکھ لیتی لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ سارے ہی اخبارات تمھارے افیئرز چھاپتے رہتے ہیں بلکہ لوکل یا نیشنل پریس کو تو چھوڑو انگلینڈ کے پریس کو بھی تم سے پرخاش ہو گئی ہے۔ وہ بھی تمہارا ایک سے ایک افیئر سامنے لاتا رہتا ہے۔ تمھیں یہ بلیک میلنگ اس لیے لگتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کے سامنے تمہاری اصلیت ظاہر کر دیتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو یہ وہی اخبارات ہیں جو تمھارے کھیل کے کارناموں کو جلی حروف میں شائع کرتے ہیں، جنھوں نے تمھیں بولنگ کی دنیا کا دیوتا بنا دیا تھا اور تمھیں لگتا ہے کہ وہ تمھیں بدنام کر رہے ہیں۔ تم یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ تم اخلاقی طور پر بہت گر چکے ہو۔”
”رابیل بس یہ سب بند کرو۔” میں نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اسے بولنے سے روک دیا۔
”اگر یہ سب سچ ہے بھی تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تم سے شادی کے بعد یہ سب چھوڑ دوں گا۔ ٹھیک ہے کچھ غلطیاں مجھ سے ضرور ہوئی ہیں لیکن ایسی غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں لیکن میں تمھارے لیے اپنے آپ کو بدل لوں گا۔ تم مجھے جیسا چاہو گی میں ویسا بن کر دکھاؤں گا۔”
اپنے جملے کے اختتام پر میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں جیسے شعلے لپک رہے تھے۔
”جو مرد کسی عورت سے یہ کہتا ہے کہ وہ اس کے لیے اپنے آپ کو بدل دے گا، اس سے بڑھ کر فراڈ اور مکار کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ جو شخص اپنے مذہب کے لیے اپنی پارسائی برقرار نہیں رکھ سکتا، جو شخص اپنے خاندان کی عزت اور نام کے لیے اپنی آوارگی پر قابو نہیں پا سکتا، جو شخص اپنے ماں باپ کے پڑھائے ہوئے تمام سبق بھول کر پستی کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے جو خود اپنی نظروں میں اپنا احترام اور عزت باقی رکھنے کی پروا کیے بغیر عیاشی کرتا ہے وہ کسی عورت کے لیے خود کو کیا بدلے گا؟
تمہاری اس بات نے تمھیں میری نظروں میں اور گرا دیا ہے۔ آخر میں تمھارے جیسے آوارہ اور بدکردار شخص کو اپنا شوہر کیسے بنا سکتی ہوں؟ تمھیں ایک ایسے شخص پر ترجیح کیسے دے سکتی ہوں۔ who is a thorough gentleman.۔
یہ جو تم کرکٹرز ٹائپ کی چیزیں ہوتے ہونا، پتا نہیں کیسے یہ کیڑا تم لوگوں کے دماغ میں گھس جاتا ہے کہ تم لوگ جہاں جاؤ گے لوگ تمھیں پلکیں بچھائے ملیں گے۔ جس سے ملو گے وہ تم لوگوں کو ear to ear smile دیتا پھرے گا جس چیز کی طرف ہاتھ بڑھاؤ گے، وہ مقناطیس کی طرح کھینچتی ہوئی تمہاری طرف آ جائے گی۔ تم لوگ تو پانی میں بننے والے بلبلوں کی طرح ہوتے ہو جن کا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے نہ مستقبل، جب تک وہ ہوتے ہیں پانی پر بس وہ ہی وہ نظر آتے ہیں اور جب غائب ہوتے ہیں لگتا ہی نہیں کہ کبھی پانی پر ان جیسی کوئی چیز نمودار ہوئی ہوگی۔





ایک شاٹ یا ایک وکٹ تم لوگوں کو لائم لائٹ میں لے آتی ہے اور تمہاری بدقسمتی یہ ہے کہ تم لوگوں کو غائب بھی یہی چیزیں کرتی ہیں۔ تمھیں آخر کیا کمپلیکس ہے؟ یہ کہ تم خوبصورت ہو، یہ کہ تمھارے پاس بے تحاشا دولت ہے، یہ کہ تمھارے پاس شہرت ہے یا یہ کہ تمھارے پاس یہ سب کچھ ہے؟ لیکن اس دنیا میں موجود ہر لڑکی کی خواہش صرف یہ چیزیں نہیں ہو سکتیں۔”
”ہاں مگر بہت سی لڑکیوں کی خواہش صرف یہ چیزیں ہی ہوتی ہیں اور تم اسے جھٹلا نہیں سکتیں۔”
اس کی بہت سی باتیں سننے کے بعد میں نے اس سے کہا تھا۔ ایک عجیب سی افسردگی مجھے اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ میرے لیے کتنا تکلیف دہ ثابت ہو رہا تھا۔
”ہاںمگر میں ان لڑکیوں میں شامل نہیں ہوں۔” اس نے بڑے مستحکم انداز میں کہا تھا۔
”تمہارا پلس پوائنٹ تمہاری دولت ہے، تمہاری شہرت ہے مگر یہ دونوں چیزیں تو چور کے پاس بھی ہوتی ہیں لیکن لڑکیاں اسے اپنا آئیڈیل بنائے نہیں پھرتیں۔”
”اوہ لیکن میں بہت سی لڑکیوں کا آئیڈیل ہوں اور میں چور بھی نہیں ہوں۔”
میں طنزیہ آواز میں کہہ کر ہنسا تھا۔
”ہاں تم بہت سی لڑکیوں کے آئیڈیل ہو اور تم چور بھی نہیں ہو لیکن کیا تم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ تم کن لڑکیوں کے آئیڈیل ہو؟ تم میٹرک سے لے کر ماسٹرز تک کسی بھی ایگزام میں ٹاپ کرنے والی کسی بھی لڑکی کے فیورٹ پلیئر تو ہو سکتے ہو لیکن آئیڈیل نہیں نہ ہی تم ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، لیکچرار اور سی ایس پی آفیسر لڑکی کا آئیڈیل ہو سکتے ہو۔ ہاں مگر تم ان لڑکیوں کا آئیڈیل ضرور ہو سکتے ہو جو یا تو تمھارے جیسا ذہن رکھتی ہوں گی یا جنھیں تمہاری طرح تعلیم یا اپنے کیرئیر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی، جن کی زندگی کا واحد مقصد شادی ہوتا ہے، وہ سپر اسٹار احسن منصور سے ہو جائے یا پھر گلی کے کسی بھی چکر باز سے جو تمہاری طرح ان پر جان نثار کرنے کا دعویٰ کرے۔ ایسی ہی لڑکیاں ہوتی ہیں جو تم جیسے کرکٹرز یا ایکٹرز پر نثار ہوتی ہیں یا جو تم لوگوں کو اپنا آئیڈیل بنائے پھرتی ہیں یا جو اپنی کتابوں یا کمرے کی دیواروں کو تم لوگوں کی تصویروں سے سجائے رکھتی ہیں۔ ہم جیسی لڑکیاں نہیں، ہمارے پاس تو تم لوگوں کے بارے میں سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا کیونکہ تم لوگوں نے آخر ایسا کون سا کارنامہ سرانجام دیا ہوتا ہے کہ ہم تمھارے بارے میں وقت نکال کر سوچا کریں۔
ہاں تم لوگ ہمارے لیے ٹائم پاس کا ایک اچھا ذریعہ ہوتے ہو۔ اپنی مصروفیات سے تھک گئے یا تنگ آ گئے تو ایک فلم دیکھ لی یا کوئی میچ دیکھ لیا اور تھوڑی ذہنی تفریح کر لی اینڈ دیٹس آل اس سے زیادہ اہمیت نہیں ہوتی ہمارے لیے تم لوگوں کی۔
کرکٹ کو مائنس کر دیں تو ہے کیا تمہاری ذات میں؟ جس کے بارے میں بات کی جا سکے یا جو قابل غور ہو، تعلیم تمھارے پاس نہیں ہے، کردار تمہارا اچھا نہیں ہے، بات کرنے کا سلیقہ اور ڈھنگ تم کو نہیں ہے، چند دن پرانی ہاتھ لگی دولت کو شو آف کے لیے تم استعمال کرتے ہو اور پھر بھی بضد ہو کہ مجھ میں ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جو آپ کے ہونے والے شوہر میں ہے۔
جب تک کرکٹ کھیل رہے ہو، سب کی آنکھوں میں ہو جس دن یہ چھوڑدو گے تو کسی کے پیروں میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔ تمہارا کیرئیر ہے بھی کتنا؟ اس وقت تم چوبیس یا پچیس سال کے ہو گے۔ اگر مان لیا جائے کہ دس سال اور کرکٹ کھیلو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پینتیس سال کے بعد تمہارا کیرئیر گلیمر اور شہرت سب ختم ہو جائے گا اور اگر میں تمھیں ضیغم سے کمپیئر کروں تو مجھے تمھیں یہ بتاتے ہوئے بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اس کا کیرئیر آج سے دس سال کے بعد عروج کی طرف گامزن ہوگا اور شاید سروس سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی وہ کانٹریکٹ پر کچھ سال جاب کرے سو اس کا کیرئیر پینسٹھ سال کی عمر میں ختم ہو گا۔ سو تم میں اور اس میں تو کوئی comparison ہی نہیں بنتا۔
تم تعلیم میں اس کے برابر نہیں ہو، تم عہدے میں اس کے برابر نہیں ہو، تم کردار میں اس کے برابر نہیں ہو، ہاں شہرت، دولت اور خوبصورتی میں تمھیں کچھ سبقت حاصل ہے لیکن مسٹر احسن منصور یہ چیزیں میری ترجیحات میں کبھی بھی شامل نہیں رہیں۔ ہر مرد اور ہر عورت شادی کے لیے لائف پارٹنر کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے سے بہتر شخص کا انتخاب کرتا ہے مجھے ضیغم خود سے بہتر لگتا ہے اس لیے میں اس سے شادی کر رہی ہوں اور تم مجھے خود سے بہت کمتر لگتے ہو پھر میں تم سے شادی کیسے کر سکتی ہوں؟
تمھارے لیے مناسب یہ ہے کہ کسی ایسی لڑکی کا انتخاب کرو جو تمھیں خود سے بہتر سمجھے اور جن لوگوں کی کمپنی میں تم رہتے ہو تمھیں ایسی لڑکیوں کی کمی نہیں ہوگی۔
میں امید کرتی ہوں کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔ آئندہ مجھ سے آپ کا سامنا ہو بھی تو کسی قسم کی شناسائی ظاہر کرنے کی کوشش مت کیجئے گا اور نہ ہی کوئی توقعات وابستہ کیجئے گا ورنہ آپ کو آج سے زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
وہ اپنا بیگ اٹھا کر بڑے مستحکم قدموں سے ہوٹل کے ہال کی طرف بڑھ گئی۔ مجھے یوں لگا تھا جیسے ساری دنیا چند لمحوں کے لیے ٹھہر گئی تھی، خاموش ہو گئی تھی، میں اندر ہوٹل کے ہال میں نہیں جا سکا بس وہاں سے بھاگ آیا۔ اسے دوبارہ دیکھنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی اس لیے کسی کو اطلاع دیے بغیر ہوٹل سے اپنا سامان لے کر فلائنگ کوچ کے ذریعے اسی رات فیصل آباد سے لاہور پہنچ گیا، جانتا تھا ٹیم مینجمنٹ مجھے اس حرکت پر فائن کرے گی پر تب مجھے ہوش ہی کہاں تھا۔
علی الصبح میں گھر پہنچا تھا۔ گھر والوں کے سوالوں سے بچتا ہوا کچھ کہے بغیر میں اپنے کمرے میں آ گیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے اپنے بیگ دور پھینک دیے تھے۔ پھر بہت دیر تک سر کو ہاتھوں میں تھامے میں صوفے پر بیٹھا رہا۔
اس کی ایک ایک بات میرے ذہن میں گھوم رہی تھی۔ میں احسن منصور ایک رات میں آسمان سے زمین پر آ گیا تھا۔
”تم لوگ خوش فہمی کے کیڑے ہوتے ہو۔” اس نے کہا تھا۔ ”ساری عمر خوش فہمی پر پلتے رہتے ہو اور ذرا سی حقیقت سامنے آنے پر ایسے تڑپنے لگتے ہو جیسے جونک پر نمک ڈال دیا جائے۔”
ہاں اس نے ٹھیک کہا تھا کاش یہ بات کوئی مجھے بہت پہلے کہہ دیتا۔
”تم لوگ پانی پر بننے والے بلبلے ہو جس کا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے نہ مستقبل۔ میں تم جیسے آوارہ شخص سے شادی کیسے کر سکتی ہوں؟ جس سے میں شادی کر رہی ہوں اس کے پاس اچھا کردار ہے جو تمھارے پاس نہیں ہے۔” میرا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔
”تم کرکٹرز اور ایکٹرز ہمارے لیے صرف ٹائم پاس کا ایک ذریعہ ہو اور کچھ نہیں۔”
”احسن کیا بات ہے ایسے کیوں بیٹھے ہو؟”
میں نے سر اٹھایا تھا۔ امی میرے پاس کھڑی تھیں۔ پتا نہیں وہ کس وقت کمرے میں آ گئی تھیں۔
”تم ٹھیک تو ہو نا؟” وہ پوچھتے ہوئے میرے پاس صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ میں خاموشی سے ان کا چہرہ تکنے لگا۔
”کوئی پریشانی ہے کیا؟ میچ تو تم جیت گئے تھے پھر کیا مسئلہ ہے؟”
ایک لمحہ انھیں ساکت تکتے رہنے کے بعد میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ میں کیا چیز ہار آیا تھا یہ وہ کبھی نہیں جان سکتی تھیں۔ آخر زندگی صرف میچ ہی تو نہیں ہوتی۔
”احسن میرے بیٹے میری جان کیا ہوا ہے تمھیں؟” امی مجھے اپنے ساتھ لپٹا کر کہہ رہی تھیں۔
”تم میں ایسا کچھ نہیں ہے جو میرے لیے باعث کشش ہو۔” میرے کانوں میں اس کی آواز گونج رہی تھی۔
”کچھ نہیں ہوا امی بس آپ مجھے بہت یاد آ رہی تھیں۔”
”ہر شخص اپنے سے بہتر شخص سے شادی کرتا ہے لیکن تم کسی طور بھی مجھے خود سے بہتر نہیں لگتے۔”
”لو بھلا اس میں رونے والی کیا بات ہے؟ اب تم بڑے ہو چھوٹے بچے تو نہیں ہو کہ اتنی سی بات پر رونے بیٹھ جاؤ۔” امی میرا ماتھا چومتے ہوئے بول رہی تھیں۔
”آئندہ کبھی مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا ورنہ تمھیں پہلے سے زیادہ تکلیف ہوگی۔”
پچھلی ساری زندگی میں نے نارمل بن کر گزاری تھی مگر اب مجھے ساری زندگی ابنارمل رہنا تھا۔

*…*…*




Loading

Read Previous

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Bahot hi behtareen afsana hai padhte waqt ye bilkul mehsoos hi nahi hua umera Ahmed ka ye pehla writing piece hai

  • عمیرہ کی کہانیوں کی خصوصیات میں ان کی ہیروئن کا کردار بہت مضبوط ہونا ہے اور مجھے یہ خصوصیت بہت متاثر کرتی ہے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!