دربارِدل — قسط نمبر ۱

میرے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس میں موجود مشروب یک دم اور سیاہ ہو گیا تھا۔ گلاس کے کناروں پر میری لپ اسٹک کے نشان تھے۔ کوئی اُن نشانوں پر انگلی پھیر کر یا محض ایک نظر ڈال لینے پر یہ اندازہ کر سکتا تھا کہ میرے ہونٹ خوبصورت تھے۔ مشروب میں موجود برف کے کیوبز اب بہت ننھے ننھے سے رہ گئے تھے… چند لمحوںمیں وہ بھی تحلیل ہو جاتے… اس سیاہ مشروب میں غائب ہو جاتے بالکل اسی طرح جس طرح میں ہو رہی تھی… ابھی… اس وقت…
میرے بائیں طرف ٹیبل کے سرے پر بیٹھا قہقہے لگانے والا مرد میرا شوہر تھا… اور ”وہ” تھا جیسے میں نے دنیا میں سب سے زیادہ چاہا تھا… ہنستے ہوئے اس کا ”سفید چہرہ” سرخ ہو رہا تھا… اور وہ ”سفید شرٹ” پہنے ہوئے تھا اور “D&G” کا آفٹر شیو اس کے وجود کو مہکا رہا تھا اور اس کی کلائی میں “Gucci” کی گھڑی تھی اور اس کی پلیٹ میں ”فرائیڈ چکن” کا ایک ٹکڑا اور اس کے گلاس میں ”لیمن سپرائٹ”… اور میں… میں… میں… دربارِ دل میں تھی… کسی نے میری آنکھوں سے پٹی اتار دی تھی مجھے ٹھیک طرح سے دیکھنے کے لیے آنکھیں جھپکنی بھی نہیں پڑیں… سب کچھ نظر آ رہا تھا… صاف نظر آ رہا تھا۔
مگر میری بینائی کو واپس آنے میں بہت دیر لگ گئی تھی اتنی دیر کہ اب سامنے نظر آنے والے منظر پر مجھے یقین نہیں آ رہا تھا… خود اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لینے پر بھی میرا ذہن یہ سب کچھ تسلیم کرنے سے انکار کر رہا تھا… ذہن جو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا آنکھیں اور دل نہیں مان رہا تھا… اور آنکھیں جو کچھ دکھانے کی کوشش کر رہی تھیں… ذہن اس پر یقین نہیں لا رہا تھا۔
مجھے اپنا وجود یک دم برف کا بت بنتا محسوس ہوا تھا یا پھر کانچ کا مجسمہ… جو انگلی کی ہلکی سی ضرب سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا… یوں ڈھے جاتا جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں… میں نے اپنے ہونٹ بھینچنے کی کوشش کی… اور میرے ہونٹوں نے میرا ساتھ نہیں دیا ایک عجیب Defiance تھی جو میرے وجود کے ہر عضو میں اتر آئی تھی… مہر سمیع کا اپنا جسم اس کو Own کرنے سے انکار کر رہا تھا… وہ کسی اور کے اشارے پر چل رہا تھا… کسی اور کے اشارے پر؟… میں، میں پِس رہی تھی… مہر سمیع… میرا ذہن سب کچھ تسلیم کرنے کی سعی میں مصروف تھا۔
اور مراد… وہ ہنس رہا تھا… میرا شوہر… وہ شخص جسے میں نے سب سے بڑھ کر چاہا تھا… وہ ہنس رہا تھا۔ اس کی ہنسی میں کانٹوں جیسی چبھن تھی… وہ مجھ پر ہنس رہا تھا… اور پھر میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے چھری اور کانٹے کو بھی یک دم ہنستے دیکھا… پھر ٹیبل پر میرے سامنے پڑی میری ڈنر پلیٹ… پھر میرا گلاس… باری باری سب ہنسنے لگے تھے اور پھر میز پر پڑی ہر شے… ہر چیز… ڈشز، پلیٹیں، چمچ، کانٹے، چھریاں، ڈونگے، گلاسز… سب اس کورس میں شامل ہو گئے تھے… پھر ٹیبل، کرسیاں، ڈیکوریشن پیسز، دیوار پر لگی Paintings، لائٹس، پردے، فرنیچر، ڈرائنگ روم اور ڈائننگ کی ہر شے قہقہے لگانے لگی تھی۔ ان سب کی نظریں مجھ پر تھیں اور ان سب کی انگلیاں بھی مجھی پر اٹھی ہوئی تھیں… وہاں کمرے میں موجود ہر شے کا جیسے ایک چہرہ اُگ آیا تھا اور ہر چہرے کی نظریں مجھ پر تھیں… اور میں… میں انھیں دیکھ نہیں پا رہی تھی۔
میرے ہاتھ سے کانٹا پلیٹ میں گرا… مراد نے مجھے چونک کر دیکھا۔ ”کیا ہوا؟”… ”تم نے کھانا کیوں چھوڑ دیا؟” مراد نے مجھ سے پوچھا۔ اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
”اور انسان شر کو اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر کو بے شک انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔” سورة بنی اسرائیل پارہ 15۔
”بھابھی کیا ہوا؟” یہ مونس تھا… میرے شوہر کا بہترین دوست… ”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟” وہ بھی مراد کی تشویش میں شامل تھا۔ میں نے اس کے چہرے کو دیکھا… اس کے نام کو دل میں دہرایا… مونس… مومی… بے یقینی تھی کہ بھنور کی طرح مجھے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی اور میں بے بسی سے اس کی گرفت سے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”پریکٹیکل جوک” کسی نے میرے سر پر کچھ مارا۔ ”500 روپے” ایک دوسری آواز نے سرگوشی کی۔ ”1000 روپے” آوازیں تھیں کہ بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ میں نے سانس لینے کی کوشش کی… میں نے آوازوں کی بازگشت سے فرار ہونے کے لیے کوشش کی۔





”کیا بات ہے مہر؟” وہ پھر مراد تھا۔ اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا مگر میرے ہاتھ نے اس کے ہاتھ کا لمس محسوس نہیں کیا۔ میں نے اپنے ہاتھ کو دیکھا… وہ لمس محسوس کیوں نہیں کر رہا تھا… کیا ”وہ” نہیں تھا؟… ”یا میں” نہیں تھی؟
”کھانا کھانا کیوں بند کر دیا؟” وہ پوچھ رہا تھا… ”میں کیوں کھا رہی تھی؟” میں سوچ رہی تھی۔ ”اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو؟” اسے میری نظریں عجیب لگیں۔ ”اس طرح کیا دیکھ رہی تھی؟” میں نے سوچا… وہ تو کبھی بھی چہرہ نہیں تھا میرے لیے… صرف آواز تھی… پھر میں چہرے کو کیوں دیکھ رہی تھی؟… کیا دیکھ رہی تھی؟… جب آوازیں چہروں میں تبدیل ہوتی ہیں تو کیا وہ سب کو اسی طرح بھیانک لگتی ہیں جیسے مجھے لگ رہی تھیں… یا پھر یہ سب صرف میرے ساتھ ہی ہوا تھا…؟ میرے ساتھ ہی ہونا تھا؟…
”مہر کیا سوچ رہی ہو؟” آواز نے ایک بار پھر کہا… نہیں چہرے نے ایک بار پھر کہا… ہاں۔ یہ وہی تو تھا… وہی آواز… پھر آخر میں نے اسے Illusion کیوں سمجھا؟… کیوں جانا؟… میں نے اس کے ہاتھ کے نیچے سے اپنے ہاتھ کو کھینچا… میں اس کی نہیں تھی۔ میں کسی اور کی تھی… کس کی؟… میں نے دل کو ٹٹولا۔
”آئیے مہر سمیع… آپ بھی آئیے۔” دل نے مجھے خوش آمدید کہا۔ ”دیکھئے آپ نے کیا پایا ہے؟” وہ مسکرا رہا تھا ”جو پایا ہے… وہ کھرا ہے یا کھوٹا؟” وہ پوچھ رہا تھا۔ ”کھرا ہے تو کیا دام دیے ہیں؟” اس کا لہجہ عجیب تھا۔ ”کھوٹا ہے… تو کیا کھویا ہے؟” میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔
میں دربارِ دل میں تھی… دل بادشاہ کے حضور… ”دیکھئے انجام محبت… اور کہیے آپ کہاں ہیں؟” وہ تمسخر سے کہہ رہا تھا۔ ”کیا محسوس کر رہی ہیں؟… کیا کہنا چاہتی ہیں؟”… کچھ کہہ پائیں گی؟… اب بھی؟… ابھی بھی…؟ دل نے ہنس کر مجھ سے کہا تھا… اور پھر میرے وجود سے اپنی زنجیریں ہٹا دی تھیں میں دل کی گرفت سے آزاد ہو گئی تھی… اتنے سالوں میں پہلی بار بوجھ ہٹا تھا… یا بوجھ بڑھا تھا؟
”جائیے آپ کو آزاد کرتے ہیں… انجام محبت دیکھ لینے والے دربارِ دل میں کیا ٹھہریں گے؟ وہ کہہ رہا تھا۔ ”جائیے۔” مگر میں کہاں جاتی… اب… اب… کہاں؟ اتنا بڑا دھوکہ کھا کے؟ ”میں نے دھوکہ نہیں دیا آپ کو… میں نے تو صرف فریب دیا تھا۔” وہ ہنسا۔ ”دھوکہ تو آپ نے خود کھایا ہے۔” اس کے ماتھے پر یک دم بل آئے… میں نے خود کو دربارِ دل سے باہر پایا۔
”آئی ایم سوری بھابھی…” یہ مونس تھا۔ ”اگر میری باتوں سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے تو۔” مونس نے جیسے میری حالت کو Assess کرتے ہوئے نتیجہ نکالا تھا۔
”تکلیف پہنچی ہو تو؟” میں نے سوچا۔ ”کیا مجھے تکلیف پہنچی تھی؟” میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ تکلیف؟… یہ تکلیف کیا ہوتی ہے؟… کیا یہ تکلیف تھی جو میں محسوس کر رہی تھی؟… یا پھر بے عزتی تھی؟… یا پھر یہ پچھتاوا تھا؟… یا کوئی احساسِ زیاں تھا؟… یا یہ کچھ اور تھا؟… کچھ اور جس کو میں نام نہیں دے پا رہی تھی۔ جس کو کوئی نام نہیں دے سکتا تھا۔ ”مجھے اس موضوع پر بات کرنی نہیں چاہیے تھی۔” مونس وضاحت کر رہا تھا۔ ”مجھے اصل میں اندازہ نہیں تھا کہ آپ کو اتنا برا لگے گا ورنہ میں بات کرتے ہوئے محتاط رہتا۔” ”نہیں نہیں یار تم نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ تمھیں ایکسکیوز کرنی پڑے۔” مراد نے مونس کو ٹوکا تھا، وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ معذرت مونس کو نہیں کرنی چاہیے تھی… وہ کسی اور کو کرنی چاہیے تھی… میرے شوہر کو… مراد کو… مومی کو… یا پھر شاید مجھے۔
”مہر سمجھ دار لڑکی ہے وہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہوتی ہے نہ برا مانتی ہے۔” مراد مونس کو تسلی دے رہا تھا۔ ”چھوٹی چھوٹی باتیں؟” میں نے اس کے الفاظ سنے۔ اس کے نزدیک ہر بات ہمیشہ چھوٹی چھوٹی ہوتی ہے… ہر بار… ہر بات… اور میں… میں کہاں کی سمجھ دار تھی… میں تو…
میں نے کرسی چھوڑ دی اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی… مراد کے چہرے سے نظریں ہٹائے بغیر… چپ چاپ… میں نے ایک بار بھی اسے دیکھتے ہوئے پلک نہیں جھپکی تھی… میں نے دیکھا ہی پہلی بار تھا اسے… ایک سال میں پہلی بار میں نے اس چہرے کو دیکھا تھا… اس سے جس سے مجھے عشق تھا… نہیں عشق نہیں تھا کچھ اور تھا… عشق انسان سے خدا نہیں چھڑواتا… میں نے چھوڑا تھا… تو پھر کیا یہ عشق تھا؟… اگر عشق نہیں تھا تو پھر کیا تھا؟ ”اور انسان شر کو اس طرح مانگتا ہے جیسے خیر کو… اور بے شک انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔”
”مہر… مہر… رکو… کہاں جا رہی ہو؟” وہ مجھے پیچھے سے آوازیں دے رہا تھا… وہ جو میرا کچھ بھی نہیں تھا… اور میں… میں اگر پیچھے مڑ کر دیکھ لیتی تو ایک بار پھر پتھر کی ہو جاتی جیسے چار سال سے پتھر کی ہو گئی تھی۔
”بھابھی ناراض ہو گئی ہیں مراد… ہمیں یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔” مونس کہہ رہا تھا۔ ”وہ ناراض نہیں ہوتی… تم کھانا کھاؤ… میری اور اس کی بہت اچھی انڈر سٹینڈنگ ہے میں اسے منا لوں گا۔”
وہ آخری جملہ تھا جو میں نے سنا تھا اس کے بعد میں ڈائننگ روم سے باہر نکل آئی… اور میں نے پہلی بار لاؤنج کو دیکھا… میں اس گھر میں پچھلے ایک سال سے رہ رہی تھی مگر میں نے ایک سال میں پہلی بار اس جگہ کو دیکھنے کی کوشش کی جو میرا گھر تھی اور میں اسے پہچان نہیں پائی… میں وہاں کیوں تھی؟… کیا تعلق تھا میرا اس گھر سے؟ میرا ذہن جیسے ماؤف ہو گیا تھا… کسی سوال کا جواب نہیں دے پا رہا تھا اور میں… میں چہروں کی شناخت کھو رہی تھی… یا پھر شاید پہلی بار کر رہی تھی۔
پھر لاؤنج سے گزرتے ہوئے میں نے اپنے عکس کو آئینے میں دیکھا اور میں اسے بھی پہچان نہیں پائی… وہ کون تھی جو آئینے میں تھی… وہ میں تو نہیں ہو سکتی تھی۔ میں… مہر سمیع تو کوئی اور تھی… اور جو وہاں میرے سامنے آئینے میں تھی وہ کون تھی… ساڑھی میں ملبوس… کٹے ہوئے Streaked بال… زیورات سے لدا پھندا وجود میک اَپ سے لتھڑا چہرہ… کیوٹکس لگے لمبے ناخن… سلیولیس بلاؤز سے جھلکتے عُریاں بازو… مہر سمیع تو… میں نے بے یقینی سے آئینے کو دیکھا…پھر اپنے ناخنوں کو… پھر اپنے ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک کو پوروں سے چھوا… یہ سب کچھ کس وقت ہو گیا تھا؟… بے یقینی سی بے یقینی تھی… میں مہر سمیع تھی؟… مگر آئینے میں نظر آنے والا وجود کسی اور کا تھا… مگر آئینے کے سامنے میں تھی… مہر سمیع… تو پھر آئینے کے اندر کون تھا؟… کیا مہر سمیع؟… کوئی بھیانک خواب تھا جو ختم ہو گیا تھا یا پھر خواب شروع ہوا تھا؟

**…**…**




Loading

Read Previous

لال جوڑا — علینہ ملک

Read Next

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!