الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲
(سارہ قیوم)
تیئسویں رات:
جب شاہِ گیتی پناہ نے تئیسویں رات کو محل میں قدم رنجہ فرمایا تو شہر زاد کو بلوایا اور کہا کہ اے خاتونِ جمیلہ، توُ وہ قصہ سناتی ہے کہ پھڑک پھڑک جاؤں، وہ فسانہ معرضِ بیان میں لاتی ہے کہ ہر بات پر گلے لگاؤں۔ یہ تو بتاؤ کہ مرنجاں مرنج و مسکین ماموں میں اتنی ہمت کہاں سے آئی اور اتنی جرأت کیوں کر پائی کہ گھر سے بھاگ کر نکاح کیا؟ سچ مچ کہا بھی یا صرف مزاح کیا؟
شہرزاد کھلکھلا کر ہنسی اور یوں چہچہہ زن ہوئی کہ اے شہنشاہِ والا تبار، ماموں کے نکاح کی خبر سن کر سب کی وہی کیفیت ہوئی جو آپ کی ہوئی۔ ہکا بکا، ازخود رفتہ، ہوش و ہواس غائب ہوئے، پھر منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ نانی کے ہاتھ سے تسبیح گر گئی اور ممانی پر گویا بجلی گر گئی۔
سب سے پہلے زلیخا کو ہوش آیا اور اس نے جھپٹ کر حسن کے ہاتھ سے وہ چٹھی چھین لی جو وہ اب تک تھامے کھڑا تھا۔ اس کاغذ پر نظر پڑتے ہی زلیخا کا رنگ سفید پڑ گیا اور اس نے خاموشی سے کچھ کہے بغیر وہ کاغذ نانی کی طرف بڑھا دیا۔ نانی نے کاغذ تھاما، عینک ناک پر جمائی اور جونہی کاغذ پر نظر پڑی، بے ساختہ پکار اٹھی۔ ‘‘یہ تو…… یہ تو نکاح نامہ ہے۔’’
یہ کہہ کر نکاح نامہ ممانی کی طرف بڑھا دیا۔ ممانی نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے شوہر کا نکاح نامہ پکڑا اور اسے یوں گھورنے لگی جیسے میدانِ حشر میں جہنم کے فرشتوں نے اعمال نامہ تھما دیا ہو اور بے یقینی اور رنج سے قعنا کی صورت نظر آتی ہو۔ حیرانی و پریشانی سے حال ناگفتہ بہ۔ اجل کی مہمان نظر آئی تھی، گو زندہ تھی مگر نیم جان نظر آئی تھی۔ ممانی کو سکتے کے عالم میں دیکھ کر زلیخا نے مدھم آواز میں پکارا۔ ‘‘ماما……’’
اس آواز کا سننا تھا کہ ممانی ہوش میں آئی، وحشت کا شکار ہوئی، جوش میں آئی۔ اس زور سے چیخ ماری کہ حاملانِ عرشِ بریں کے کلیجے دہل گئے۔ اپنے بال نوچ ڈالے۔ اپنے چہرے پر اس زور سے دو تھپڑ رسید کیے کہ منہ مثلِ خون لال ہوا، اس مار پیٹ سے برا حال ہوا۔ خوب زور سے چیخی اور مصروفِ ماتم و گریہ ہوئی۔ کپڑے چاک کیے، نالہ ہائے درد ناک کیے۔
نانی اور زلیخا نے بھاگ کر ممانی کو پکڑا کہ اپنا برا حال کرنے سے روکیں لیکن ممانی کسی کے قابو نہ آتی تھی، تلملا تلملا جاتی تھی۔ سینہ کوبی کرتی تھی، اشکوں سے دامن بھرتی تھی۔
حسن ممانی کی یہ حالت دیکھتا تھا اور حیرت سے سوچتا تھا کہ عورتوں کی عقل پر آفرین ہے کہ یہ خاتون کہاں تو شوہر کو پیٹتی تھی اور ہر دم برا بھلا کہتی تھی اور اب شوہر کے نکاح کی خبر سنی تو تاب نہ لاتی ہے۔ آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے، رو رو کر جان کھوتی ہے۔
ہوتے ہوتے ممانی کو مرضِ کہرام سے راحت ہوئی۔ جنون کی حالت سے فراغت ہوئی۔ زلیخا نے پانی لا کر پلایا، نانی نے تسلی دی، گلے لگایا۔ زلیخا نے بصد دقت ِ تمام ممانی کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور ان کے کمرے کو لے چلی۔ ممانی کے قدم ڈگمگائے تھے۔ نہایت کمزور و ناتواں تھی، نقیہ و نیم جاں تھی۔
ممانی کمرے کو گئی تو نانی اور حسن چپ چاپ بیٹھ گئے۔ حسن اس ماجرائے حیرت انگیز سے پریشان تھا، بے حد حیران تھا۔ دل میں سوچتا تھا ،یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے کہ ماموں اس قدر شریر نکلے کہ بڑھاپے میں شادی کی دھن سمائی۔ سوتیلے بیٹے کی جوروُ پر آنکھ لگائی اور بھلا نسیمہ باجی کو کیا ہوا کہ مالی مفاد نہ فکرِ معاش کی، مگر اپنے لیے شوہر کی تلاش کی؟ عجب بو العجبی ہے۔
اپنی سوچوں میں غرق تھا، خاموش تھا، پنبہ دوگوش تھا کہ یکایک دبی دبی ہنسی کی آواز آئی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو نانی کو چپکے چپکے ہنستے پایا، گو کہ ہاتھ منہ پر رکھ کر ہنسی کو چھپاتی تھی لیکن ہنسی تھی کہ پھوٹ پھوٹ جاتی تھی، ذرا قابو میں نہ آتی تھی۔
حسن کو استعجاب ہوا۔ بولا: ‘‘نانی جان، اس ہنسی کا کیا مطلب ہے؟ یہاں ممانی کی جان جاتی ہے اور آپ کو ہنسی آتی ہے؟’’
نانی بہ مشکل تمام ہنسی روکتے ہوئے بولی: ‘‘چھکا مارا ہے آج تو زاہد نے۔ سوسنار کی ایک لوہار کی!’’
حسن نے سر ہلا کر کہا:‘‘یوں تو ماموں نے شریعاً کچھ غلط کام نہیں کیا لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ نئی بیوی کو رکھیں گے کہاں؟ علیحدہ رکھنے کے لیے پیسہ نہیں اور اگر یہاں لے آئے تو ممانی ضرور دونوں کو قتل کرے گی، خونِ ناحق سے ہاتھ بھرے گی اور جب اس نکاح کی خبر بنّے بھائی کو ملے گی تو نہ جانے کیا غضب ڈھائیں اور کیا آفت اٹھائیں۔’’
نانی نے ہاتھ ہلا کر گویا مکھی اڑائی اور کہا: ‘‘جو ہوگی دیکھی جائے گی۔ چھوڑ توُ ان باتوں کو، ذرا جا کے دیکھ فریج میں کوئی مٹھائی پڑی ہے؟ اگر نہیں تو چینی دان ہی لے آ، میں منہ تو میٹھا کروں۔ آخر میرے بیٹے کی شادی ہوئی ہے۔’’
حسن تابعداری سے اٹھا اور چینی دان لایا اور نانی کو تھمایا۔ نانی نے چمچہ بھر چینی منہ میں ڈالی اور نکاح نامہ حسن کے آگے کرکے خوشی سے بے حال ہوتے ہوئے بولی: ‘‘ایک لاکھ حق مہر طے کیا ہے میرے بیٹے نے، دیکھ تو سہی۔ ہائے دیکھ حسن، کتنا اچھا لگ رہا ہے زاہد کے نام کے ساتھ دولہا لکھا ہوا ۔’’ اتنے میں زلیخا باہر نکلی اور نانی نے جلدی سے چینی دان چھپا دیا۔ زلیخا خاموشی سے آکر ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
نانی نے ہمدردی سے پوچھا: ‘‘کیا حال ہے پروین کا؟’’
زلیخا نے گہرا سانس لیا اور بولی:‘‘کیا حال ہوسکتا ہے؟’’
نانی نے دزدیدہ نظروں سے حسن کو دیکھا اور چینی دان کھسکا کر اور بھی چھپا دیا۔
حسن نے کہا:‘‘سوتیاڈہ چیز ہی ایسی ہے کہ عورت تاب نہیں لاتی ہے، جلن سے جان جاتی ہے۔ نہ جانے ماموں کو کیا سوجھی؟ لگتا ہے سٹھیا گئے ہیں، عقل کا استعفیٰ پا گئے ہیں۔’’
زلیخا نے غصے سے ترچھی نظر سے حسن کو دیکھا اور بولی:‘‘ اور تم مجھے کہتے تھے ماں باپ کی قدر کروں، اب خود دیکھ لو ابا نے یہ کیا حرکت کی۔ ساری عمر مردانگی نہیں جاگی، منمناتے رہے تمام عمر اور اب اس عمر میں آکر یہ گل کھلایا۔ شرم بھی نہیں آئی۔’’ یہ سن کر نانی نے پہلو بدلا، بے حد جز بز ہوئی۔
زلیخا غصے میں کہتی رہی:‘‘اور ماما کو دیکھو، ساری عمر ابا کے ساتھ اینٹ کتے کا بیر رکھا اور آج ایسے رو رہی ہیں جیسے کوئی بڑا پیار کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے……’’
زلیخا کا دل کیا چاہتا تھا، یہ کوئی نہ جان سکا کیوں کہ اسی وقت نانی کے فون کی گھنٹی بجی۔ دیکھا تو اس پر ماموں کا نام جگمگا رہا تھا۔ نانی کی خوشی سے چیخ نکل گئی۔ لپک کر فون اٹھایا اور خوشی سے بولی: ‘‘زاہد…… توُ کہاں ہے بیٹے؟’’
زلیخا نانی کے یوں خوش ہونے پر خفا ہوئی اور ہاتھ بڑھا کر نانی کے فون پر انگلی لگائی۔ زلیخا کا چھونا تھا کہ ماموں کی آواز سب کو سنائی دینے لگی۔
One Comment
Why last episode is incomplete it has only six pages and story is not complete please check it and upload the rest of pages thank you.