الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰
(سارہ قیوم)
اکیسویں رات
اکیسویں رات کو شہنشاہ شہریار نے ملکہ شہرزاد کو حکم دیا کہ اس قصے کا باقی حصہ سناؤ اور ہمارا حکم بجا لاؤ کہ ہم مشتاق ہیں کہ حسن سوداگر بچے نے زلیخا کو کیا روایت سنائی اور اس کے دوست تاج الملوک کے ساتھ کیا واردات پیش آئی؟
شہرزاد نے جواب دیا کہ شہریار تاجدار کا حکم بہ جان و دل منظور ہے، نافرمانی سے بندی منزلوں دور ہے۔ حسن بدرالدین کہ بلاکی فصیح و بلیغ زبان بولتا تھا، لفظوں کو پھولوں سے تولتا تھا، یوں زمزمہ سنج بیاں ہوا کہ: ‘‘اے زلیخا، راوی کا بیان ہے، طرب افزا داستان ہے کہ عراق کے بادشاہ کی بیٹی چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھی، بے مثال و لاجواب تھی۔ سیمیں بدن، پستہ دہن، زیبا اندام، خوش خرام، درۃ التاج اس کا نام تھا، زمانے بھر میں اس کا ساکوئی نہ گلفام تھا۔ آنکھیں سیاہ، جادو نگاہ، نازُک کمر ہزاروں بل کھاتی تھی، شوخی بلائیں لینے کو آتی تھی۔ خرام ناز کو دیکھ کر غزال چوکڑیاں بھول جاتے تھے اور رخسارِ تاباں چودھویں کے چاند کو شرماتے تھے۔’’
زلیخا نے جو یہ تعریف سنی تو بے اختیار ستائشی انداز میں پکار اٹھی۔ ‘‘واہ! کیا تصویر کھینچی ہے تم نے۔ اب تو مجھے بھی اسے دیکھنے کا شوق ہو گیا ہے۔’’
حسن نے کہا: ‘‘تمہاری طرح کل مملکت شہزادی کے دیدار کی مشتاق تھی، شہزادی درۃ التاج کے نور عالم افروز اور حسن ِگلو سوز کی کہانی شہرہ آفاق تھی۔ لیکن شہزادی پردے میں رہتی تھی، کبھی کسی کے سامنے نہ آتی تھی۔ ایک دن خدا کا کرناکیا ہوا کہ ایک نامی گرامی چور نے بادشاہ کے محل میں کمند لگائی اور سیدھا اس کمرے میں جا پہنچا جہاں شہزادی محوِ آرام تھی اور دنیا و مافیہا سے بے خبر کروٹ لیے سوتی تھی۔ چور نے شہزادی کی اشرفیاں، جواہرات، دُرّو گوہرو زیورات سمیٹ کر پوٹلی میں ڈالے اور سب کچھ لوٹ کر خوشی خوشی روانہ ہونے ہی کو تھا کہ شہزادی نے کروٹ بدلی اور گویا بدلی سے چاند نکل آیا۔ چور نے جو اس فتنہ محشر کو دیکھا تو زیورات کی پوٹلی ہاتھ سے گر گئی اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم محوِ نظارۂ دلفریب ہو گیا۔ بارے کچھ دیر بعد ہوش آیا تو فوراً جیب سے کاغذ قلم نکالا اور شہزادی کے سرہانے بیٹھ کر اس کی تصویر بنانے لگا۔’’
زلیخا نے حیران ہو کر کہا۔ ‘‘بڑا کوئی آرٹسٹ چور تھا ۔چوری کرنے گیا اور وہاں لڑکی کی تصویر بنانے بیٹھ گیا۔’’
حسن نے کہا: ہاں، بھلا ایسا حسن کہاں دیکھنے کو ملتا تھا؟ چور تصویر بنانے میں مگن رہا اور جب فجر کی اذان ہونے لگی تو اسے ہوش آیا، بصد حسرت ایک نگاہ شہزادی کے حسین چہرے پر ڈالی اور کمند لگا کر نیچے اتر گیا۔
اب سنیے کہ اس چور کا ایک بھائی ہندوستان میں رہتا تھا اور جب شہزادی کے زیور چوری ہونے کی منادی ہوئی اور چور کی ڈھنڈیا پڑی تواس چور نے ڈر کر ہندوستان کا رخ کیا اور پانی کے جہاز پر تین ماہ کا سفر طے کر کے ہندوستان پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر شہزادی کے زیور بیچنے بازار کو گیا اور ایک جوہری کی دکان میں جا بیٹھا اتفاق سے وہ جوہری تاج الملوک کا دوست تھا اور اس وقت تاج الملوک اسی دکان میں اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔ چور نے زیورات دکھائے تو جوہری کو بے حد پسند آئے ان میں سے ایک مرغ کے انڈے کے برابر ہیرا تاج الملوک نے بھی پسند کیا۔ جب تمام زیورات کا سودا ہو گیا تو تاج الملوک نے کہا کہ اگر کوئی اور لاجواب چیز ہے تو دکھاؤ ۔ اس کے جواب میں چور نے وہ کاغذ نکالا جس پر شہزادی کی تصویر بنائی تھی اور تاج الملوک کو پیش کیا۔ تصویر پر ایک نظر کا ڈالنا تھا کہ عشق کا تیر جگر کے پار ہوا، مرضِ عشق میں گرفتار ہوا۔
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
چین رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
عشق کی کٹار ایسی سینے میں لگی کہ غش آیا۔ بیٹھا تو گرا، گرا تو بے ہوش، دین و دنیا فراموش ۔’’
زلیخا حیران ہو کر بولی: ‘‘کیا مطلب؟ بے ہوش ہو گیا؟’’
حسن نے کہا: ‘‘ہاں۔’’
زلیخا نے استعجاب سے کہا: ‘‘وہ کیوں؟’’
حسن نے کہا: ‘‘بتایا تو ہے کہ عشق کی آگ ایسی سینے میں بھڑکی کہ غش آگیا۔’’
زلیخا نے بے یقینی سے کہا: ‘‘عشق کے مارے کسی کو کیسے غش آسکتا ہے؟’’
حسن نے آہ بھر کر کہا: ‘‘عشق بڑی بُری بلا ہے ،زلیخا۔ یہ وہ وبال ہے کہ مصیبت میں گرفتار کرتا ہے، جنون سے دوچار کرتا ہے۔ بے چارے وزیر زادے تاج الملوک کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ شہزادی کا عشقِ بلاخیزیوں جان کو چمٹا کہ دل سرد ہو گیا، چہرے کا رنگ زرد ہو گیا۔ دن رات شہزادی کو یاد کر کے آہیں بھرتا تھا۔ کھانا پینا حرام تھا، صرف رونے سے کام تھا ۔چند ہی دنوں میں کمزوری اس حد تک بڑھ گئی کہ بہ سبب نقاہت اٹھنا بیٹھنا محال ہو گیا، جینا وبال ہو گیا اور دن میں کئی دفعہ غش آنے لگے۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘یہ سارے symptoms عشق کی وجہ سے ہو رہے تھے؟’’
حسن نے کہا: ‘‘ہاں۔’’
وہ بھنویں اچکا کر بولی: ‘‘Very strange، پھر آگے کیا ہوا؟’’