ہم رکاب — عرشیہ ہاشمی

’’پیسہ آئے کہاں سے؟ نہ شکل و صورت، نہ پیسہ، نہ اچھی قسمت۔ میرے پاس ہے کیا سوائے فراخی غربت کے؟‘‘ میں نے اداسی سے جواب دیا۔
’’اب ایسی بات بھی نہیں ہے۔ لاکھوں میں ایک ہو تم۔ کبھی اپنی آنکھوں کو دیکھا ہے تم نے؟ سارے جہاں کے رنگ جیسے تمہاری ہی آنکھوں میں رقص کرتے ہیں۔ کئی دلوں پر بجلیاں گرا سکتے ہیں یہ نیناں۔‘‘ وہ پھر سے ایک انجانی مگر سہانی ڈگر کی راہ دکھا رہا تھا اور ایک روز اسکول سے واپسی پر کوئی مجھ سے ٹکرایا اور میرے ہاتھ میں ایک رقعہ تھما دیا۔ خوف اور حیرت کے مارے زبان گنگ تھی۔ رقعے کو کھول کر دیکھا تو وہاں کوئی فون نمبر لکھا ہوا تھا ۔
’’میرے کس کام کا؟‘‘ بے پروائی سے وہ کاغذ یونہی کتاب میں رکھ چھوڑا۔
اگلے روز وہ خوب صورت چہرہ پھر اسی گلی میں سامنے آن کھڑا ہوا۔
’’کال کیوں نہ کی تم نے پیاری چڑیا؟‘‘ چہرے کی طرح اس کی آواز بھی جادو سی تاثیر رکھتی تھی۔ میرا دل عجیب سی لے پر دھڑکنے لگا تھا۔ وہ جو میرے پل پل کا ہم رکاب تھا،مسکرا رہا تھا۔




’’دیکھنا اب پیسہ بھی اور محبت بھی، دونوں ایک ساتھ ملیں گے۔‘‘خواہش کی تتلی ایک بار پھر میرے سامنے کھڑے شخص کا طواف کرنے لگی تو اس نے امید کا ایک اور سرا میرے شعور کے خوبصورت ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا۔
’’میرے پاس فون نہیں ہے۔‘‘
میرا جواب سننے کے اگلے ہی روز اس نے ایک موبائل فون میرے ہاتھوں میں تھما دیا۔
’’ایک ہفتے بعد اسکول چھوٹ جائے گا تمہارا تو فون پر بات کر کے گزارا کرناپڑے گا۔‘‘ میں پریشان سی ہو گئی۔ فون تو لے لیا لیکن اماں ابا کی عزت کے بدلے یہ بہت سستا سودا تھا۔ دل بے شمار وسوسوں میں گھرنے لگا تھا۔
’’نہیں! مجھے اپنی پاکیزگی تار تار نہیں کرنی۔‘‘ میں نے فون نمبر والا رقعہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
زندگی میں پہلی بار شعور نے جرگہ بٹھایا اور اس کا قصور بہت بڑا نکلا۔ چناں چہ میں نے اسے نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔
’’مجھے اس طرح نظر انداز مت کرو ۔ تم جانتی ہو میں تمہارا ہی تو حصہ ہوں۔ کبھی تم سے کنارہ نہیں کر سکتا۔ تو کیا فائدہ مجھ سے دور جانے کے لیے اتنی جہد کا؟ وہ میرے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ اس کی ملتجی نگاہو ں میں نمی تھی۔
’’میں کیوں نہ تمہیں خود سے دور کروں؟ تم نے مجھے ہمیشہ دکھ ہی تو دیے ہیں۔‘‘
’’تم میرے بغیر ادھوری ہو۔‘‘ اس نے ایک بار پھر لب کشائی کی۔
’’تم انسان ہو اور یہ بات مت بھولو کہ انسان ہی خطا کا پتلا ہے۔‘‘
’’صحیح کہتا تھا وہ۔ اگر انسان سے غلطی نہ ہوتو وہ انسان نہیں، فرشتہ کہلاتا۔‘‘
ناراضی کا بت زمیں بوس ہوااور ہواوؑں نے ایک بار پھر لہک لہک کر اسی کے چرچے کرنا شروع کر دیے۔ بصارت پر،سماعت پر اور شعور پر بس اسی کی حکمرانی ہو گئی۔ اس کاجادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔ دل اس کی ہر بات پرآمین کہتا اور میں…..اپنی آنکھوں میں اسی کا خمار لیے دن رات کی ندی میں بہنے لگی تھی۔
پھر ایک روز، دن رات کی اس سنہری ندی میں اس نے ایک کنکر مارا۔ لہروں کا ایک لا متناہی سلسلہ اٹھااور میرا تن من ان لہروں میں گھن چکر ہونے لگا۔
جوانی کی دہلیز پار کرتے ہی وہ مجھے اور بھی زیادہ پیار کرنے لگا۔ پیار کے ساتھ ساتھ اس کی بدتمیزیاں بھی بڑھنے لگی تھیں۔ اس کا ان چھوا احساس کبھی دل کو گدگداتا تو کبھی آنکھو ں میں ان دیکھے سے دل گداز سپنے لا سجاتا۔ کبھی آئینے کے سامنے چلی جاتی، تو میرا سرفخر سے تن جاتا۔ اس نے مجھے ایک بار پھر خود فریبی کا آئینہ دکھا کر احساس دلایا کہ مجھ سے زیادہ خوب صورت اس دنیا میں کوئی نہیں۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ چند روزہ حیات میں انسان کو اپنی ہر خواہش پوری کر لینی چاہیے، سو میں نے ایک بارپھرخواب دیکھنا شروع کر دیے۔ خواہش کی سنہر ی تتلی میرے دل کا طواف کرنے لگی تھی۔ اشاروں کنایوں سے بڑھ کر بات آواز کی کہانی میں ڈھل گئی۔ محبت کا پھول میری ہتھیلی میں تھما دیا گیا تھا۔ خوشی کے جھولے میں جھولتے جھولتے میں خود کو ہی فراموش کر بیٹھی۔ اس پھول کی خوشبو گھر والوں سے چھپانے کی سعی کرتے کرتے میں ہلکان ہونے لگی تھی۔ ہوش تو اس وقت آیا جب اس پھول کی بدبو نے میرے من میں ایک بساند سی چھوڑ دی۔
’’مینا! چلو بھاگ نکلتے ہیں۔ لاہور پہنچ کر کوٹ میرج کر لیں گے۔‘‘ جس خواہش کا بیج اس نے میرے من میں بویا تھا،اس کی فصل کاٹنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ تب احساس ہوا کہ وہ محبت کا گلاب نہیں بلکہ ہوس کا بدبودار کیکٹس تھا جس نے میری روح تک کو چھلنی کر ڈالا تھا۔ اس رات آنکھوں سے خوب برسات ہوئی۔ دل کے سب نالوں کا پانی آنکھوں کے رستے بہ نکلا۔ اس روز ایک بار پھر شیشے کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔
’’تم کبھی میرے خیرخواہ ہو ہی نہیں سکتے۔ میں ہی پاگل ہوں جو تمہیں ہر بار نیا موقع دیتی ہوں۔‘‘ دل کا درد زبان پر شرارے لے آیا تھا۔
’’مجھے تم سے شدید نفرت ہے۔ دفع ہو جاوؑ میری زندگی سے۔‘‘ پرفیوم کی بوتل شیشے پر زور سے مارتے ہوئے دل کی تیرگی نے اپنی بھڑاس نکالی اور جھلی اکھیاں پھوٹ پھوٹ کررو دیں۔ شیشہ ٹکڑے ٹکڑے ہوا تو اس کاجادوٹوٹنے لگا۔ پتھر کا وہ نادیدہ حصار ٹوٹا تو پچھتاوا میرے انگ انگ میں جاگ اٹھا تھا۔ شیشے کے محراب کے اندر سالوں سے بت بنی کھڑی وہ گڑیا آج آزاد ہوئی تھی۔
اس سے دورہونے کے لیے ضروری تھا کہ میں کسی اور کے قریب ہو جاوؑں! چناں چہ میں نے سنہری پری کو اپنا دوست بنا لیا اور اسے نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ اب تڑپنے کی باری اس کی تھی اور مجھے ایک عجیب قسم کی طمانیت کا احساس ہونے لگا تھا۔ ایک سکون سا تھا۔ جو رگ و پے میں آن اترا تھا۔ اب اس کا روٹھا روٹھا چہرہ مجھے اداس نہیں کرتا تھا۔ لیکن وہ ابھی بھی آزاد تھا۔ جذبات میں بھٹکانے کی پوری پوری کوشش کرتا لیکن میں نے بھی طے کرلیاتھا کہ اب اس کی ایک بھی نہیں سننی۔
کئی دنوں بعد آج پھر وہ اپنی جادوئی بانسری لیے میرے سامنے موجود تھا۔
ایسی سہانی بین بجائی کہ دل خود بہ خود اس کی طرف کھنچنے لگا۔
’’ہوش میں رہو!‘‘ سنہر ی پری نے اپنے پر پھڑپھڑائے۔
’’آئم سوری رضوان! میں تم سے نہیں مل سکتی۔ میری منگنی ہونے والی ہے۔ اب دوبارہ مجھ سے رابطہ رکھنے کی خواہش بھی مت کرنا۔‘‘ میں نے اس کے چہرے پر سنہرا طمانچہ رسید کرتے ہوئے ہوس کے بدبودار کیکٹس کو اپنے پاوؑں تلے کچل دیا اور موبائل سے سم نکال کر ٹکڑے ٹکڑے کر دی۔
اب مجھے اپنے نفسِ امارہ کو اور کوئی موقع نہیں دینا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

فیصلہ — محمد ظہیر شیخ

Read Next

پھوہڑ — ثمینہ طاہر بٹ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!