اگلے دن انہیں چھٹی تھی۔ لنچ کے بعد انہوں نے مجھے شاپنگ کے لئے کہا تو میرا دل بلّیوں اچھل پڑا۔ مرد وں کی عادت ہوتی ہے ہر کام کی شروعات میں نکتہ چینی کرنے کی، مگر ہوشیاری سے انہیں رام کیا جا سکتا ہے۔ شادی کو چار ماہ گزر چکے تھے اور آج میں پہلی بار ان کے ساتھ شاپنگ کے لئے جا رہی تھی۔ میں لباس کے معاملے میںانتہائی ’’چوزی‘‘ ہوں۔ اپنی پسند کے چند ایک برانڈز کے علاوہ میں کم ہی کوئی اور کپڑے پہنتی ہوں۔ ہر سوٹ کے ساتھ کسی مشہور برانڈ کے ’’میچنگ‘‘ جوتے اور جیولری بھی لازمی ہے۔ دوست نے بتایا تھا کہ ’’تانا بانا‘‘ پر ’’فریش ارائیولز‘‘آئی ہوئی ہیں، تو میں نے ٹیکسی ’’تانابانا‘‘ کے سامنے رکوائی اور انہیں ہاتھ پکڑ کے اندر لے گئی۔ سوٹ پسند کرتے ہوئے میں ان سے بھی رائے لے رہی تھی مگر وہ بے توجہی سے بس ہوں ہاں کئے جا رہے تھے۔ آخر ایک سوٹ پسند کرنے کے بعد میں نے ان سے پوچھا:
’’یہ اچھا ہے ناں،خرید لوں؟‘‘
’’ہمم۔۔ ٹھیک ہے۔ کتنے کا ہے؟‘‘ انہوں نے سوٹ
’’صرف چھے ہزار کا۔ ویسے تو اس کی اصل قیمت زیادہ ہے۔ مگر میں نے یہاں کا ڈسکائونٹ کارڈ بنوایا ہوا ہے، اس لئے مجھے ڈسکاؤنٹ پر مل رہا ہے۔‘‘ میں نے فخریہ انداز میں بتایا۔
قیمت کا سن کے ان کا منہ بن گیا۔وہ میرا ہاتھ پکڑ کے باہر لے آئے۔ سیلزمین کے سامنے ان کا یہ رویہ دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔
’’شمع میں تو کُل پانچ ہزار روپے لایا ہوں۔ پاس ہی میرے ایک دوست کی دکان ہے، تم ادھر سے اپنے لئے کوئی اور سوٹ پسند کر لو۔‘‘ باہر آکر وہ بے بسی سے بولے میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
’’نہیں رہنے دیں۔ادھر بھی ویسے ہی سوٹ ہوں گے، جیسے آپ لوگوں نے بری میں خریدے تھے۔‘‘میں سپاٹ انداز میں بولی۔
اس کے بعد انہوں نے کافی کوشش کی کہ میں کوئی اور سوٹ پسند کر لوں مگر میں نے صاف انکار کر دیا۔
’’آپ کے پاس پیسے نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، میں امی سے پیسے لے کر بعد میں خرید لوں گی۔‘‘ میری بس ایک ہی رٹ تھی۔
’’ٹھیک ہے،میں بازار میں تماشا نہیں بنانا چاہتا۔گھر جا کر اس پر بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ سپاٹ انداز میں بولے۔
عیش تو واقعی ماں باپ کے گھر ہوتے ہیں، پرایا گھر پرایا ہی ہوتا ہے۔ مجھے بہت دکھ ہو رہا تھا۔ گھر پہنچ کے میںخاموشی سے کام کاج میں لگ گئی۔ حمزہ بار بارمجھ سے بات کرنے کی کوشش کررہے تھے مگر میں بس ’’ہوں ہاں‘‘ میں ہی جواب دے رہی تھی۔ آخرکار وہ بے بسی سے بولے۔
’’شمع، تم اتنی چھوٹی سے بات کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا رہی ہو؟ کپڑے تو کپڑے ہی ہوتے ہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر برانڈڈ نہ ہوں تو۔‘‘ میں چپ رہی، تو وہ پھر بولے۔
’’اچھا کل جا کے لے لینا اپنی مرضی کا سوٹ لیکن اپنی امی سے اس حوالے سے بات نہ کرنا۔‘‘ گویا وہ ہارمان چکے تھے۔
’’میں نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا کہ آپ میری ضروریات پوری کرتے رہیں تو مجھے کوئی ضرورت نہیں اپنی امی سے بات کرنے کی۔‘‘ میں سپاٹ انداز میں بولی۔
’’میں نے کب تمہاری ضروریات پوری کرنے سے انکار کیا ہے۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ تم اپنی چادر کے مطابق اپنے پاؤں پھیلاؤ۔‘‘ وہ بے بسی سے بولے۔
’’مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ کی ’’چادر‘‘ میں میرے لئے چارہ ماہ میں ایک سوٹ کی گنجائش بھی نہیں۔‘‘ میری آنکھیں بھر آئیں۔ وہ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ اٹھے:
’’تم ٹینشن نہ لو، اس حالت میں ٹینشن ہمارے بچے کے لئے ٹھیک نہیں۔‘‘
میں خاموشی سے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے اپنے آنسو اندر ہی اندر اتارنے لگی۔کچھ دیر کے بعد میں بھرائی ہوئی آواز میں بولی:
’’میں تو ابھی سے آنے والے بچے کے لئے پریشان ہوں۔ آپ مجھے ایک سوٹ نہیں لے کر دے سکتے تو اس کے خرچے کیسے پورے ہوں گے؟‘‘
’’لگتا ہے اب مجھے اپنی ’’چادر‘‘تھوڑی سی بڑھانا ہی پڑے گی۔ اس کے علاوہ اب کوئی اور چارہ نظر نہیں آرہا۔‘‘ وہ عجیب سے انداز میں بولے۔میں نے ان کے لہجے پر غور ہی نہیں کیا۔آج مجھے ان کے اس انداز کی سمجھ آ رہی تھی۔
خیر اگلے دن وہ شام کو مجھے پھر مارکیٹ لے گئے ۔تانابانا سے میری پسند کا سوٹ لینے کے بعد ہم ’’سٹائلو شوز‘‘ پر گئے۔ وہاں سے میں نے تین ہزار کا سوٹ سے میچنگ جوتا پسند کیا۔ حمزہ اس بار کچھ نہیں بولے۔ انہوں نے خاموشی سے رقم ادا کر دی۔ میں نے بھی انہیں کریدنا مناسب نہیں سمجھا کہ کل تک تو ان کے پاس صرف پانچ ہزار روپے تھے۔ تو آج ان کے پاس کہاں سے پیسے آ گئے؟ مجھے آم مل رہے تھے تو مجھے کیا ضرورت تھی پیڑ گننے کی؟ مگر آج مجھے احساس ہو رہا تھا کہ ’’پیڑ گننا‘‘ بھی میری ذمہ داری تھی۔
٭…٭…٭
ایک ماہ بعد ہی میری بہن کی شادی کے دن طے ہوگئے۔ شادی پر ساری شاپنگ انہوں نے میری مرضی سے کرا دی۔ میں نے اپنی بہن کو سونے کی انگوٹھی دینے کی بات کی تو انہوں نے وہ بھی مجھے خاموشی سے لے کر دے دی۔ اس کی شادی کے بعد میں نے اسے اپنے گھر دعوت پر بلایا۔ جس دن اس کی دعوت تھی اس سے ایک دن پہلے میں نے انہیں سودے کی لسٹ پکڑائی تو وہ لسٹ میں چیزیں پڑھ کے حیران ہی رہ گئے۔
’’اتنی لمبی لسٹ؟ تم نے صرف فریحہ کے گھر والوں کو مدعو کرنا ہے یا سارے شہر کو؟‘‘ وہ حیرانی سے بولے۔
میرا جی مکدر ہو گیا۔ گھر میں کبھی کسی نے میری لسٹ پر نکتہ چینی نہیں کی تھی۔ میں جو کچھ لکھ کے دیتی شام کو حاضر ہوجاتا تھا۔ وہ میرا موڈ خراب دیکھ کر نرمی سے بولے:
’’یہ تو بتاؤ بنانا کیا کیا ہے؟‘‘
میں نام گنوانے لگی۔ وہ چیزوں کے نام سنتے جا رہے تھے اور ان کی آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں۔ جب مجھے لگا کہ ان کی آنکھیں بس اپنے حلقوں سے نکلنے ہی والی ہیں تو میں چپ ہوگئی، حالاں کہ ابھی دو تین چیزوں کے نام رہتے تھے۔
’’اتنے سارے آئٹمز تیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اتنے سارے تو صر ف چکھنا بھی ممکن نہیں۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ بہ مشکل اپنی حالت سنبھال کر بولے۔ میں نے خاموشی سے ان سے لسٹ واپس لے لی۔
’’اچھا ابھی میں لیٹ ہو رہا ہوں، واپسی پر اس معاملے پر بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ جلدی سے یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے۔
وہ تو چلے گئے مگر میرا ’’میٹر‘‘ گھوم چکا تھا۔ کچھ دیر بعد’’ میٹر ‘‘کی رفتار سست ہوئی تو میرے ’’دماغ‘‘ نے کام کرنا شروع کیا۔ شاپنگ کے بعد اب پہلی بار انہوں نے گھر کے سودے میں بھی ’’میخ‘‘ نکالی تھی۔ انہیں اس کا سبق سکھانا ضروری تھا ورنہ اکثر شوہر حضرات کی طرح ’’میخیں‘‘ نکالنا ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی، اور میرے خیال میں ایسی عادات کے مالک شوہر کے ساتھ کوئی بھی خاتون خوش نہیں رہ سکتی۔ وہ جب رات کو گھر آئے تو میں کچھ چیزیں تیار کرنے میں مصروف تھی۔ وہ یہ سب دیکھ کے غصے سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں کام ختم ہونے کے بعد کمرے میں پہنچی تو وہ دوسری طرف منہ کئے سو رہے تھے۔ لہٰذا میں نے امی کو ساتھ لیا اور امی نے پیسے ساتھ لئے۔شام کو سارا سودا گھر میں تھا۔
اگلے دن صبح اٹھتے ہی میں کام کاج میں لگ گئی۔اس دوران حمزہ نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ مجھے ان سے کوئی بات کرنے کا موقع مل سکا۔ مجھے حمزہ کی طرف سے کچھ ڈر تھا کہ پتا نہیں وہ مہمانوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں، مگر سب خیریت سے ہوگیا۔ وہ کافی سمجھ دار تھے۔
دعوت بہت شان دار رہی۔مگرکافی چیزیں بچ گئیں۔وہ کچھ میں نے فریز کر دیں اور کچھ محلے میں بانٹ دیں۔ رات کو وہ مجھ سے بولے۔
’’یہ ساری چیزیں تم نے کس سے منگوائیں؟‘‘
’’آپ کیا سمجھتے تھے آپ نہیں لا کر دیں گے تو میں چیزیں لا ہی نہیں سکتی؟‘‘ میں تلخ لہجے میں بولی: اور وہ مجھے حیرانی سے دیکھتے رہ گئے۔
’’فریحہ کے سسرالیوں کو پہلی بار میں نے اپنے گھر بلایا تھا۔اب اگر میں نے ان کے لئے اتنا اہتمام کیا تو ان کے دل میں آپ ہی کی عزت بنی۔ آپ کو تو پتا ہی نہیں کہ دنیا کے ساتھ کیسے چلا جاتا ہے۔‘‘ اس بار میں قدرے نرم انداز میں بولی تھی۔
’’ٹھیک ہے بھئی! میں تو بس پوچھ رہا تھا کہ تم نے ان چیزوں کے لئے پیسے کہاں سے لئے؟‘‘وہ قدرے صلح جویانہ انداز میں بولے۔
’’امی سے ادھار لئے تھے۔‘‘میں سپاٹ انداز میں بولی۔
’’یہ انہیں واپس کرکے آؤ ابھی۔‘‘انہوں نے پرس سے کافی سارے نوٹ نکال کر میری طرف بڑھا دئیے۔ میں نے ان سے اس بار بھی نہیں پوچھا کہ وہ یہ پیسے کہاں سے لائے ہیں، نہ ہی شادی پر ہونے والے اخراجات کے متعلق میں نے ان سے پوچھا تھا، حالاں کہ مجھے پوچھنا چاہئے تھا مگر میری ضرورتیں پوری ہورہی تھیں، مجھے اور کیا چاہئے تھا۔
٭…٭…٭