کھوئے والی قلفی

نہ ہی میں نے کچھ کہا اور نہ ہی اُس نے مجھے روکا تھا۔
ریل کے ڈبے میں بیٹھے ہوئے سارے راستے میری آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ وہ سفر میری زندگی کا سب سے زیادہ صبر آزما اور کٹھن سفر تھا۔ آج اس بات کو آدھی صدی گزر گئی ہے۔ میری انگلی پہ اس کی انگوٹھی سے بننے والے نشان آج بھی موجود ہیں۔ میں اس نشان والی جگہ کو دائرے کی شکل میں سوئی سے کھرچتا رہتا ہوں۔ ایسا کرنے سے وہ والی جگہ زخم کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور وہ زخم بھی آبش کی طرح ہمیشہ میرے دل کے قریب رہے گا کیوں کہ وہ زخم مجھے آبش کی یاد دلاتا ہے۔
اس دن کے بعد میں اس سے کبھی نہیں ملا نہ ہی اس شہر پھر کبھی لوٹ کر گیا، مگر جیسے ہی جاڑے کا موسم آتا ہے مجھے میرا جسم اسی دیس میں گھومتا پھرتا نظر آتا ہے…. آبش کے سنگ….!
دنیا کی ہر چیز بدل گئی لیکن وہ کھوئے والی قلفی کا سواد کبھی نہیں بدلا۔
ہمیشہ وہ سواد مجھے میری زبان پہ محسوس ہوتا رہا…. اور آبش کی ہنسی آج بھی اپنے قریب محسوس ہوتی ہے….!!!
جو اپنے گاﺅں سے نکل کر میں
تیرے شہر کے پاس سے گزروں
تو اِک ویران سے خالی کیفے کی
ٹوٹی ہوئی خالی میز کے سامنے
دو مریل سی خالی کرسیوں کو دیکھ کر
میں وہیں رُک جاتا ہوں۔
اپنی سائیکل کو سٹینڈ پر لگا کر
اُس مریل سی میز کے سامنے آکر
اُن بوسیدہ سی دم توڑ تی کرسیوں پر سے
دھول کو پھونک مار کر صاف کرتا ہوں۔
پھر اِک نظر…. ذرا ٹھہر کر
اُن خالی کرسیوں کو دیکھتا ہوں
پھر ایک کرسی کو قریب کھینچ کر
اُس پہ بیٹھ جاتا ہوں۔
برسوں پہلے اسی جگہ پر بیٹھے ہوئے
میں نے تم کو یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے
پہلی بار دیکھا تھا۔
وہ جگہ ہماری محبت کی سلطنت تھی
جہاں بیٹھ کر میں اور تم
گھنٹوں پھیکی چائے پیتے تھے
تمہارے کپ کو میں اپنے ہونٹوں سے لگا کر
ایک چسکی لیتا
مجھے یاد ہے آج بھی
وہ تیری جھوٹی چائے کی مٹھاس
اُن دو کرسیوں پہ بیٹھے ہوئے
ہم نے کتنے ہی برس محبت کی
باتوں میں گزار دیے
کبھی شاعری پہ بات کی
تو کبھی شعرا پہ تنقید کی
کبھی میرے بالوں کو تم نے سہلایا
تو کبھی تیری زلفوں نے میری بات کی
پھر رفتہ رفتہ پت جھڑکا موسم
موت کا ساماں لیے آنے لگا
تم بھی رفتہ رفتہ اس شہر کے موسم کی طرح
اُس کیفے کی بہار کو
خزاں میں قید کرتے
وہاں سے چلتے بنے
کتنا انتظار کیا تھا میں نے تمہارا
اس کیفے کی اُس میز
اور ان دوخالی کرسیوں سے
نہ جانے کتنی ہی باتیں میں نے تمہاری کیں
اُس میز کے درمیانی حصے میں
تم نے اپنے ناخن سے لکڑی کو کھرچ کر
وہاں ہم دونوں کا نام لکھ کر
ایک دل میں قید کردیا تھا
وہ نام آج بھی ویسے کا ویسے
اس میز پر باقی ہے
ہم دونوں اسی دل میں
آج بھی قیدی بنے بیٹھے ہیں
وہ ہماری قربت کا منظر
اب نظر تو نہیں آتا…. مگر
یہیں کہیں موجود ہے
وہ محبت ابھی تک محفوظ ہے
اسی خالی میز کے سامنے پڑی
دم توڑتی ہوئی دو خالی کرسیوں پر
محبت محفوظ ہے وہیں…. ابھی تلک….!!!!


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Loading

Read Previous

عقل مند شاعر

Read Next

گل موہر اور یوکلپٹس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!