کھوئے والی قلفی

وہ مسلسل چپ رہی، کچھ بھی نہیں بولی۔ بس مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔
”چلو آﺅ! میں تمہیں ایک جگہ پر لے کر چلتی ہوں؟“
اس نے میرا ہاتھ تھامنا چاہا، مگر پھر ایک دم سے رُک گئی۔ میری طرف اپنے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو اُس نے پیچھے ہٹالیا۔ میں نے نظر بھر کر اُسے دیکھا تو اس نے سر جھکالیا۔
پھر اس نے ایک تانگہ رکوایا۔ ہم دونوں اس تانگے میں بیٹھ گئے۔ ماضی کی بہت ساری یادیں تازہ ہوگئیں۔ دل سے اک آ ہ نکل کر دل میں ہی دب گئی۔ وہ مجھے اُس تانگے پر بٹھا کر ایک یادوں بھری جگہ پر لے آئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس نے خود کو کتنا بدل لیا تھا۔ کار میں شان سے اکڑ کر بیٹھنے والی لڑکی تانگے پر کیسے سادگی اور آرام سکون سے بیٹھی تھی۔
وہ مجھے ”چاچے گامے“ کی ریڑھی پر لے آئی۔
میں نے اس جگہ کو دیکھا تو نہ جانے کیا کیا یاد آکر دل پہ دستک دے رہا تھا۔ میں نے چاچے گامے کو دیکھا۔ وہ بھی ہماری طرح بوڑھا ہوگیا تھا، لیکن ہم اس سے تھوڑے کم بوڑھے تھے۔ پھر بھی بالوں میں چاندی نے تو خوب رنگ جمادیا تھا۔
آبش پر نظر پڑتے ہی چاچے گامے نے جلدی سے آبش کو مخاطب کیا۔
”آبش پتر! اج خیر تے سی؟ آون وچ دیر کیوں کردِتی؟“
چاچے گامے کے سوال سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ آبش وہاں روز ہی آتی تھی۔ تبھی تو چاچا گاما اس سے اس بارے میں بات کررہا تھا۔ میں پاس ہی کھڑا ان دونوں کو حیرت سے دیکھے جارہا تھا۔ چاچے گامے نے مجھے یکسر نظر انداز کیا ہوا تھا۔ وہ بس آبش کو ہی دیکھ کر اس سے بات کررہا تھا۔
”بس چاچا بازار گئی سی اوتھے ای دیر ہوگئی۔“
میں حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ جسے پنجابی کا ایک لفظ تک نہیں آتا تھا اور اُسے پنجابی سے شدید چڑ تھی۔ میرے اکثر پنجابی میں بات کرنے پر وہ غصہ ہوجاتی تھی، مگر آج وہ بہت اچھی اور روانی سے پنجابی بول رہی تھی۔
پھر آبش نے اپنے پرس سے چار آنے نکال کر چاچے گامے کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ چاچے نے اسے دو کھوئے والی قلفیاں دیں اور بولے:
”آبش پتر تو اے چار آنے مینوں نہ دیا کر، قلفیاں میرے کولوں مفت ای لے لیا کر…. تو چار آنے آدے کولوں سنبھال کے رَکھیا کر پتر…. مینوں پتا اے کہ تینوں ایناں چار آنے دے نال کِنی محبت اے۔“
چاچے گامے نے محبت سے کہا تو آبش نے اُنہیں دیکھ کر مسکرا کر سرجھکا لیا۔
چاچا گاما پھر گویا ہوئے:
”اِک گل ہور پتر! کدی تے دو ناں قلفیاں کھالیا کر…. بس اک ای کھاندی ایں…. دوجی نوں بس تکدی رہندی ایں….“
چاچا گامے کی بات نے میرے دل پر شدید کاری ضرب لگائی۔ نہ جانے اُس لمحے میرے اندر کیا کیا ٹوٹ گیا تھا۔
نہ جانے آبش نے اُن دو قلفیوں اور چار آنے کے بارے میں کیا بتا رکھا تھا۔ اس دور میں جب دس روپے میں بھی ایک قلفی نہیں ملتی تھی چاچا گاما اُسے چار آنے میں دو قلفیاں دے رہا تھا۔
آبش نے ایک قلفی خود لی اور دوسری قلفی مجھے پکڑا دی۔
ماضی کا اِک اور واقعہ میری آنکھوں کے سامنے جھلملانے لگا۔ اِ ک اور آہ نے دل کے خانے کو پر کردیا۔
میں نے آبش کو دیکھا جو بڑے پیار اور چاﺅ کے ساتھ وہ کھوئے والی قلفی کھارہی تھی۔ اس دن آبش نے اپنی ناک اور ہاتھ گندے کیے بغیر ہی ساری قلفی کھالی، لیکن اس دن آبش کو دیکھتے دیکھتے میرے ہاتھوں میں پکڑی قلفی پگھل کر میرے ہاتھوں کو چکنا کر گئی تھی۔
اسی لمحے اچانک میری نظر آبش کی کلائی پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ اُس کی کلائی میں میری دی ہوئی چین ویسے کی ویسے بندھی ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اُس نے اُس چین کو کبھی اپنی کلائی سے اُتارا ہی ناہو….
”تمہارے بچوں کے کیا نام ہیں؟“میں نے یونہی اُس سے پوچھ لیا تھا۔
اس نے ذرا ٹھہر کر میری طرف دیکھا پھر اپنی نظریں میرے چہرے پر ٹکا کر بولی:
”بچوں کے نام تب رکھے جاتے ہیں جب بچے ہوں اور بچے تب ہوتے ہیں جب شادی ہو۔ ہاں اگر میں کبھی شادی کرتی اور میرے بچے بھی ہوتے تو میں بھی اپنے بیٹے کا نام ”آلف“ رکھتی۔“
وہ اپنے بیٹے کو کیا سوچ کر میرا نام دینا چاہتی تھی۔ کیا تھا اس کے دل میں، شاید وہی جو میرے دل میں تھا۔ اُس نے خود پر نہ جانے کیسے ضبط کررکھا تھا۔ جب کہ میرا ضبط جواب دیتا جارہا تھا۔
پھر میں اس سے کوئی اور سوال نہیں کرسکا کیوں کہ اس کا ہر سوال مجھے زندہ درگو کردیتا۔ میں نے اپنی انگلی سے اس کی دی ہوئی انگوٹھی اُتار کر اس کی انگلی میں پہنادی اور بغیر کچھ کہے وہاں سے اپنے دیس لوٹ آیا۔

Loading

Read Previous

عقل مند شاعر

Read Next

گل موہر اور یوکلپٹس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!