کھوئے والی قلفی

وہ آنکھیں بھلا میں کیسے بھول سکتا تھا۔ کیا کچھ نہیں تھا اُس وقت اُن آنکھوں میں۔ ہر جذبہ لبالب بھرا ہوا۔
دفعتہ اس محترمہ نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹادیا۔ اس کا خوب صورت چہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ دل نے زور سے اُس کا نام پکارا تو اس نے حیرانی سے مجھے یوں دیکھا جیسے اس نے میرے دل کی پکار کو سن لیا ہو۔ باقی کائنات دھندلی دھندلی نظر آرہی تھی۔ کچھ واضح تھا تو اس کا وجود، اس کی گہری کالی آنکھیںاور سفید گلابی چہرہ۔
وہ وہی تھی، آبش! میری دوست…. میری سہیلی۔ میری برسوں کی بے چینی اور بے قراری کی اکلوتی وجہ۔
میں حیرت سے اُسے دیکھے جارہا تھا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی یونہی راہ چلتے میری اس سے ملاقات ہوجائے گی۔
وہ آہستہ سے چلتی ہوئی میرے پاس آگئی۔ وہ مجھے میری ہی طرح بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں آج بھی وہی سب کچھ بیان کررہی تھیں جو وہ اس آخری دن کہہ نہیں پائی تھی۔
”کیسے ہو آلف؟“
اس کی آواز ایک لمبے عرصے بعد سنتے ہی دل کو سکون مل گیا تھا۔ ایک ہی پل میں مجھے میرا نام بہت معتبر لگا۔ میں نے ایک پل کے لیے سکون سے آنکھیں موند لیں اور اس کی کوئل جیسی آواز کو اپنے دل میں قید کرنے لگا۔
”میں ٹھیک ہوں…. تم سناﺅ؟“
”میں بھی ٹھیک ہوں۔“ اس نے اپنا حال بتایا۔
پھر چند لمحے ہمارے درمیان خاموشی چھائی رہی۔ شاید ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکٹھے کررہے تھے۔
پھر وہ بولی:
”آج اس دیس کی کیسے یاد آگئی تم کو؟“
اس کے لہجے اور الفاظ کی تھرتھراہٹ میرے دل پہ پڑتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
”یاد تو تب کیا جاتا ہے جب ہم بھول جائیں۔ میں تو اس دیس کو کبھی نہیں بھولا۔ نہ ہی اس دیس کے لوگوں کو…. نانا جی نے بلوایا تھا، مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ بس اسی وجہ سے آنا پڑا۔“
میں نے آبش کو تفصیلاً بتایا۔
”شادی کرلی؟“
اُس نے اچانک سے سوال کیا۔ نہ جانے اس کے دل میں اور دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ پھر میں نے اس کے سوال کے جواب میں دل پہ پتھر رکھ کر سر کو اثبات میں ہلادیا۔
میرے دل نے اسی لمحے کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز سنی تھی۔ ایک دم سے اس کے چہرے پر اسی جاڑے والی شام جیسا منظر پیدا ہوگیا جیسا منظر اس آخری ملاقات کے موقع پر بنا تھا۔
”کتنے بچے ہیں تمہارے؟“
اس نے خودکو نارمل ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ہلکے سے مسکرا کر پوچھا۔
”ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔“میں نے مختصر جواب دیا۔
”کیا نام ہیں تمہارے بچوں کے؟“ نہ جانے وہ سوال کرکے کیا پوچھنے کی کوشش کررہی تھی۔
”بیٹے کا نام آیان علی ہے۔“میں نے اپنے بیٹے کا نام بتایا۔
”بیٹی کا نام بتاتے ہوئے شرم آتی ہے؟“اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
”آبش۔“
”ہاں بولو، میں سن رہی ہوں۔“اس نے سمجھا تھا کہ میں نے اس کو مخاطب کیا ہے۔
”نہیں…. میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میری بیٹی کا نام آبش ہے۔“
میں نے گہری نظروں سے آبش کو دیکھا۔ جس کی ہنسی ایک دم سے رک گئی تھی اور وہ بہت حیرت اور سنجیدگی میں مبتلا ہوگئی تھی۔ اس لمحے میں نے اس کی آنکھوں سے گرتے ہوئے اس موتی کو دیکھا جسے اس نے بڑی چالاکی سے واپس آنکھوں کی کوٹھڑی میں بند کردیا تھا۔

Loading

Read Previous

عقل مند شاعر

Read Next

گل موہر اور یوکلپٹس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!