کھوئے والی قلفی

قلفی کھاتے وقت قلفی سے بہتا کھویا اس کے ہونٹوں سے نیچے ٹپک رہا تھا۔ کھوئے کے چند قطرے اس کی ناک پر بھی لگ گئے تھے۔ اس کی ناک پر کھوئے کو لگا دیکھ کر میں مسکرانے لگا۔ وہ سمجھ گئی کہ میں کس وجہ سے مسکرا رہا تھا۔ ایک تو وہ مجھے سمجھتی بہت اچھی طرح تھی۔ پاگل کہیں کی۔
اگلے ہی پل اس نے اپنی قلفی میرے منہ اور ناک پر مل دی اور میرے ہاتھوں سے میری قلفی چھین کر مسکراتے ہوئے کھانے لگی۔
اس کے چہرے پر اس وقت مسکان قابل دید تھی۔ اس وقت وہ ایک ہی پل میں مجھے بہت زیادہ پیاری لگی تھی۔ ایک تو وہ مجھے پیاری بہت لگتی تھی۔ منچلی کہیں کی….
دل چاہ رہا تھا کہ وہ ساری زندگی ایسے ہی میرے سامنے کھڑی رہے اورمیں اسے یونہی مسکراتے دیکھتا رہوں۔ وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب آبش اکیلی میرے ساتھ باہر کہیں گھومنے گئی تھی۔
وہ تانگے کی سواری اور قلفی کا مزہ مجھے ساری زندگی یاد رہا۔ میں کبھی ان لمحوں کو بھلا ہی نہیں پایا۔ بھلاتا بھی کیوں آخر؟ وہی چند لمحے ہی تو میری زیست کا حاصل تھے۔ انہیں بُھلا کر اپنی زیست کو بے معنی کیسے کرسکتا تھا میں؟
پھر ہمارا یونیورسٹی کا آخری ہفتہ آخری دن کی آخری سانسوں پر آگیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس دن آبش بہت بجھی بجھی اور کمزور سی لگ رہی تھی۔
اس دن تمام اساتذہ نے ہمارے ساتھ تصویریں بھی بنوائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ تصویریں کبھی مجھ تک نہیں پہنچیں۔
تمام کلاس فیلوز سے آخری بار ڈھیر ساری باتیں کیں۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اس دن لڑکیاں ہم لڑکوں سے خود آ آکر باتیں کررہی تھیں۔
وقت کی قدر اُسی دن ہوئی۔ اس دن زندگی میں پہلی بار وقت بہت تیزی سے گزر گیا۔ اساتذہ اور کلاس فیلوز سے باتیں کرکے جی ہی نہیں بھر رہا تھا، مگر اُس دن وقت ہمارے حق میں نہیں تھا۔
سب سے فری ہوکر میں اپنی دوست کے پاس آگیا۔
مجھے دیکھ کر وہ نہ جانے کیوں غمگین ہوگئی تھی۔ ایک تو وہ دکھی بہت جلدہوجاتی تھی۔ اُلّو کہیں کی۔
آبش کو دیکھ کر میں بھی افسردہ ہوگیا۔ اپنے آنسوﺅں کو بہت مشکل سے سرحد کنارے روکے کھڑا تھا۔ آبش نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ میں اس وقت اسے جی بھر کر دیکھ رہا تھا۔
آبش سے دور جانا پل صراط سے گزرنے کی طرح محسوس ہورہا تھا۔
پھر اس نے اپنی انگلی سے ایک سلور رنگ کی انگوٹھی اتار کر میرے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں پہنادی۔ میں اُسے بہ غور دیکھ رہا تھا۔ میری چھوٹی انگلی اس کی لیڈی فنگر سے بڑی تھی اسی وجہ سے وہ انگوٹھی میری آدھی انگلی میں ہی سما سکی۔
میں نے اُس لمحے اپنے دل کی آنکھ سے اس کی روح پر اس کے آنسوﺅں کو گرتے دیکھا۔ دو موٹے موٹے آنسو میرے دل کی آنکھوں سے بھی نکل کر روح کو گھائل کرگئے۔
میں نے آبش کو ناجانے کیوں اُس لمحے محبوب کی طرح دیکھا اور پھر میں نے اپنے گلے میں پہنی ہوئی چین اُتار کر پاگلوں کی طرح اس کے گلے کی بجائے اس کی کلائی پر بل دے کر باندھ دی۔
یہ سب کچھ ایک ہولناک خاموشی کے زیرِ اثر ہورہا تھا۔
وہ بھی چپ تھی، میں بھی چپ تھا۔ اس کی آنکھیں بھی سرخ ہوگئی تھیں۔میری پیشانی بھی جلنے لگی تھی۔
پھر وہ ایک نظر مجھے دیکھ کر، ہزار ضبط کے باوجود دو آنسو جلدی سے بہاکر، بغیر کچھ کہے، بغیر الوداع کیے جلدی سے بھاگ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ میں حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی کالی سیاہ لمبی چمکتی کار اُسے میرے سامنے وہاں سے لے کر چلی گئی اور میں وہیں حیرت کا مجسمہ بنے اس کی گاڑی کو دور جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
میں نے سوچا تھا کہ وہ اس آخری دن مجھ سے ڈھیروں باتیں کرے گی۔ کچھ کھٹی تو کچھ میٹھی باتیں۔ ہر ہفتے بعد یا کم سے کم ایک مہینے بعد خط لکھنے کا وعدہ ضرور لے گی اور اس آخری دن وہ مجھ سے مصنوعی جھگڑا کرکے مجھے ہماری پہلی ملاقات کی یاد ضرور دلائے گی۔
مگر اس نے میری امید کے مطابق کچھ بھی نہیں کیا تھا۔نہ جانے اس کے ذہن میں اس وقت کیا چل رہا تھا؟
آبش کے جانے کے بعد میں نے بھی اپنے قدم یونیورسٹی کے گیٹ کی طرف بڑھا دیے۔ میں نے آخری بار اپنی یونیورسٹی کے گیٹ کو دیکھا۔ دل ایک دم سے مٹھی میں آگیا تھا۔
نہ جانے کیوں اس وقت میرا رونے کو بہت دل کررہا تھا۔ وہ آبش سے دوری تھی یا یونیورسٹی کو الوداع کہنے کا غم، کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اس یونیورسٹی نے مجھے بہت کچھ دیا تھا۔ سب سے خاص چیز آبش تھی ۔ پھر بے اختیاری کے عالم میں دو آنسو بہاتے ہوئے میں نے یونیورسٹی کے گیٹ کو پیار اور حسرت سے چھوا اور یونیورسٹی کو الوداع کہہ کر گھر لوٹ آیا۔
جس ڈگری کے حصول کی خاطر میں یونیورسٹی آیا تھا وہ ڈگری میرے ہاتھ میں تھی لیکن پھر بھی مجھے کوئی خوشی محسوس نہیں ہورہی تھی۔
اسی شام میں نانا اور نانی کو خدا حافظ کہہ کر ریل گاڑی میں بیٹھا اپنے گھر کی جانب سفر کرنے لگا۔ ریل کے ڈبے میں بیٹھا ہوا میں اپنے دوستوں، نانا، نانی ، بستی حافظ آباد اور آبش سے بہت دور جارہا تھا۔ خوشیوں اور بے پروائی کا دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا تھا۔
گھر پہنچا تو امی اور ابو سے مل کر بھی کوئی خاص خوشی محسوس نہیں ہوئی۔ یہ سب اسی پاگل لڑکی کی وجہ سے ہورہا تھا۔ ناجانے کیوں اور کیسے وہ میرے دل کے بہت قریب پہنچ گئی تھی۔ مجھے علم تک نہیں ہوا تھا۔ وقت آہستہ آہستہ گزرتا چلا گیا۔ امی اور ابو نے مجھے شادی کا کہا تو نہ جانے کیوں میں نے انکار کردیا۔

Loading

Read Previous

عقل مند شاعر

Read Next

گل موہر اور یوکلپٹس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!