کھوئے والی قلفی

اُن آخری دنوں میں ہماری کلاس کی لڑکیاں بھی ہم لڑکوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی فری ہوگئی تھیں۔ ہم سبھی ہم جماعت کلاس روم میں مجلس لگا کر بیٹھے رہتے۔ کوئی تفریح کے لیے مزاحیہ بات کرتا تو کوئی یونیورسٹی سے فری ہوجانے کو مدعا بناکر دُکھی کردیتا۔ لڑکیاں بھی اپنی دوستوں سے سبھی جھگڑوں کو بھلا کر ہنسی خوشی رہتیں۔
وہ دسمبر کا آخری ہفتہ تھا۔ ہمارا بھی تو یونیورسٹی میں آخری ہفتہ ہی گزر رہا تھا۔ہلکی ہلکی دھوپ میں چلتی ہوئی دھیمی ہوا جسم سے ٹکرا کر لہو منجمد کررہی تھی۔
یونیورسٹی کی سڑکیں اور سبھی لان خشک پتوں سے لدے ہوئے تھے۔ اُن زرد خشک پتوں پر قدم پڑتے ہی وہ چیخنے چلانے لگتے۔ یونیورسٹی کے لان میں لگا واحد آم کا پیٹر بالکل برہنہ ہوچکا تھا۔ اُس کی سب سے اونچی شاخ پر فاختہ نے گھونسلا بنایا ہوا تھا۔ ٹھنڈ کی وجہ سے اُس کے سبھی بچے مرگئے تھے اور وہ گھونسلے سے سر اوپر اُٹھاکر نم آنکھوں سے یونیورسٹی کی رونق کو دیکھ کر اپنا جی بہلا رہی تھی۔ میں نے فاختہ کو نظر بھر کر اُداس نظروں سے دیکھا اور اُس کے بچوں کی موت پہ دُکھ کا اظہار کیا۔ فاختہ نے ایک نظر مجھے دیکھا پھر آسمان کی طرف دیکھ کر مجھے دیکھنے لگی۔ گویا وہ اپنے بچوں کی موت کو ”خدا کا حکم“ تسلیم کرتے ہوئے سرتسلیم خم کرچکی تھی۔ میں اپنے آفس کی جانب جانے لگا۔ دفعتہ مجھے عقب سے اپنا نام سن کر رُکنا پڑا۔ آواز نسوانی تھی۔ میں رُکا ، پلٹا اور سیدھا دیکھنے لگا۔ وہ تیز قدموں سے چلتے ہوئے میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس کا نام آبش سکندر تھا اور وہ میری کلاس فیلو تھی۔وہ ایک امیر گھرانے کی اکلوتی چشم و چراغ تھی۔
یہ وہی لڑکی تھی جس کے ساتھ یونیورسٹی کے پہلے ہی دن میری توں توں میں میں ہوئی تھی۔ وہ بہت گھمنڈی لڑکی تھی۔ شاید کسی لڑکے نے پہلی بار اُس کو آئینہ دِکھایا تھا جبھی تو وہ ہتھے سے اُکھڑ رہی تھی۔ قریباً نصف گھنٹہ تک ہماری تکرار جاری رہی۔ کسی نے بھی ہمیں جھگڑنے سے روکا نہیں تھا شاید اس لیے کہ سبھی اُس وقت ایک دوسرے سے انجان تھے اور کسی کے جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے۔ اُس پہلی ملاقات کے بعد ہم دونوں میں لڑائی جھگڑے کا سماں قائم رہا۔ وہ کوئی موقع ضائع کرتی اور نہ ہی میں۔ جب بھی ہم دونوں کی نظریں آپس میں ملتیں ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر کسی شیر کی طرح غراتے۔ آبش سکندر سے جھگڑے کی روایت قائم رکھنے کا ایک نقصان مجھے یہ ہوا کہ کلاس کی کوئی بھی لڑکی مجھ سے بات نہیں کرتی تھی۔ صرف دو لڑکے دوست بنے تھے اور آبش کا میرے ساتھ برتاﺅ دیکھ کر کوئی بھی لڑکا آبش سے بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ لڑکیوں کے ساتھ بھی اُس کی کوئی خاص دوستی نہیں تھی بس ایک کلاس فیلو ہونے کے ناتے دعا سلام تھی۔
کہتے ہیں کہ بندہ اور سماں سدا ایک جیسے نہیں رہتے۔ بالکل بجا کہتے ہیں۔ نہ تو میں نے اور نہ ہی آبش سکندر نے یہ سوچا تھا کہ ہم دونوں کی آپس میں کبھی دوستی بھی ہوگی، لیکن ہماری سوچ کو وقت نے مات دے دی۔ وہ ہمارے شعبے کے “Annual Dinner”کی پارٹی کا موقع تھا جب میں نے اور آبش سکندر نے پچھلے گلے شکوے کوڑے دان میں ڈالتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ مجھے آج بھی یاد ہے اُس دن آبش نے گلابی رنگ کی کڑھائی والی لمبی قمیص اور چوڑی دار سفید پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ سر پر دوپٹا اوڑھنے کی جسارت وہ نہ کرتی تھی۔ بس دوپٹے کو پٹی کی طرح گلے میں لٹکا رکھا تھا۔ میں یونیورسٹی کی کینٹین کے باہر رکھے پتھر کے بنچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ آبش سکندر کی گاڑی گیٹ کے پاس آکر رُکی اور وہ کار سے باہر نکل آئی۔ ڈرائیور گاڑی لے کر واپس چلا گیا۔ یونیورسٹی کا گیٹ اور کینٹین ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہی تھے۔ باہر سے آنے والے کو گیٹ سے گزر کر کینٹین کے سامنے سے ہوکر جانا پڑتا تھا۔ میں نے اُس دن سفید کُرتا پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ آبش میرے پاس سے گزرنے لگی تو مجھے دیکھتے ہی اُس کے قدموں کی رفتار دھیمی ہوگئی۔ میں بھی بنچ سے کھڑا ہوگیا، نہ جانے کیوں اُس دن آبش کو دیکھ کر نا تو مجھے غصہ آیا اور نا ہی آبش کو۔ وہ جہاں تھی وہیں رُک گئی۔ میں اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پھر میں نے اپنے قدموں کو آبش کی طرف اُٹھایا۔
”السلام علیکم مس آبش سکندر! میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ میں نے آپ کو بہت برا بھلا کہا ہے پلیز مجھے معاف کردیں۔“ میں نے سرجھکا کر آبش سے معافی مانگی۔
”وعلیکم السلام مسٹر آلف علی! میں بھی آپ سے اپنے رویے کی معافی مانگتی ہوں۔ بے شک جو ہوا وہ غلط تھا مجھے معاف کردیں۔“ آبش نے بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے مجھ سے معافی مانگی۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کو سچے دل سے معاف کردیا۔ اُس دن سے ہم میں دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ کلاس روم ہوتا یا لان ، لائبریری ہوتی یا کینٹین۔ ہم دونوں ایک ساتھ رہتے۔ پہلے ہم دونوں کی دشمنی کے چرچے ہوتے تھے پھر دوستی کے چرچے ہونے لگے۔ اُسے کوئی بھی کام ہوتا یا کسی بھی مدد کی ضرورت ہوتی وہ صرف مجھے ہی کہتی۔ ہم نے جس شدت سے دشمنی کا رشتہ نبھایا تھا اب اُسی شدت سے دوستی کا رشتہ نبھانے لگے۔ وہ ہر وقت مجھ سے جونک کی طرح چمٹی رہتی تھی۔ یونیورسٹی کا ہر فرد مجھے آبش کے ساتھ دیکھ کر ناجانے کیوں سیخ پا ہوتا رہتا تھا۔ شاید اس لیے کہ میں ایک سادہ سا دیہاتی لڑکا تھا جس کے ہاتھ لنگور کی جگہ انگور آگئے تھے۔

Loading

Read Previous

عقل مند شاعر

Read Next

گل موہر اور یوکلپٹس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!