انکار کرنے کی وجہ مجھے خود معلوم نہیں تھی، لیکن پھر کچھ عرصہ اور گزرا تو ابو نے روایتی باپ کی طرح اپنی پگڑی میرے قدموں میں ڈال دی اور بولے:
”بیٹا تمہیں میری عزت کا واسطہ ہے شادی کرلو۔“
ابو کی عزت کی خاطر مجھ جیسے دیسی بندے نے ہتھیار ڈال دیے اور پھر کچھ ہی دنوں بعد میری شادی ہوگئی۔
شادی ہونے کے بعد بھی میں آبش کو بُھلا نہیں پایا۔ اس کی دی ہوئی انگوٹھی میری انگلی میں ہی تھی۔ انگوٹھی تنگ ہونے کی وجہ سے میری انگلی پر اس کے گہرے نشان بن گئے تھے۔ وہ نشان مجھے ہر پل آبش کی یاد دلاتے تھے اور میں سوچنے لگ جاتا کہ خدا جانے اب وہ کہاں ہوگی۔ شاید اس نے بھی شادی کرلی ہوگی۔ ہوسکتا ہے بیرون ملک چلی گئی ہو۔ کبھی کبھی میں یہ بھی سوچتا اور خود سے سوال کرتا کہ کیا وہ پاگل لڑکی مجھے یاد بھی کرتی ہوگی یا نہیں؟
ہوسکتا ہے یاد کرتی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُس نے مجھے بھلا دیا ہو۔ جب آبش کی یاد شدت اختیار کرتی تو میں گھر سے نکل کر دور بہت دور پہاڑوں کی اونچائی پر چلا جاتا۔ وہاں جاکر بے خودی کے عالم میں زور زور سے ”آبش آبش “ پکارتا۔
میں نہیں جانتا تھا کہ میں ایسا کیوں کرتا تھا۔ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ بھی مجھے یاد کرتی ہوگی یا نہیں؟
اس کی یاد آنے پر ہر بار دل سے اِک آہ نکلتی تھی۔ نہ جانے اُس آہ میں کیا کچھ ہوتا تھا۔
”زندگی کسی بورنگ ریلوے اسٹیشن کی طرح ہوتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں کسی بورنگ اسٹیشن پر اترنا پڑتا ہے۔ پھر وہیں سے اپنی منزل کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔“
میں بھی ایک بورنگ اسٹیشن پر اتر کر اپنی نہ چاہی منزل کو پاچکا تھا۔ اس اسٹیشن پر بہت سے لوگ مجھ سے بچھڑ کر اپنی اپنی منزل کی طرف جاچکے تھے وہ بھی اس اسٹیشن پر اتر کر مجھ سے جدا ہوگئی تھی۔ شاید اس کو بھی اس کی منزل مل گئی ہوگی۔ وقت کسی بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتا رہا۔ بہت سی بہاریں اور خزاں کے موسم گزر گئے۔ اس سارے عرصے میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔
میں دو بچوں کا باپ بن گیا تھا۔ ایک بیٹا تھا جس کا نام آیان علی تھا اور ایک بیٹی جس کا نام آبش تھا۔
ہاں! بالکل، وہی نام جو میرے دل کے بہت قریب تھا۔ میری پاگل اور جھلی دوست کا نام۔ میں نے پہلے ہی سے سوچ رکھا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو اُس کا نام دوں گا۔ اُسے کسی بھی صورت اپنے قریب رکھوں گا۔ ہر روز اس کو دیکھو ں گا ۔پیار کروں گا۔ ڈھیر ساری باتیں کروں گا۔ شاید ایسا کرنے سے میرے دل کو کچھ سکون مل سکے۔
پھر ایک شام مجھے نانا جان کے علیل ہونے کی خبر ملی۔ نانا جان نے کہا تھا کہ آلف ایک بار انہیں آکر مل جائے۔ میں اسی دن اس شہر چلا گیا جہاں کبھی میں اس پاگل لڑکی کے ساتھ گھومتا تھا۔ بہاولنگر شہر میں قدم رکھتے ہی اس کی خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔
شاید اسی لمحے اس نے مجھے یاد کرتے ہوئے ٹھنڈی سانس چھوڑی ہوگی۔ نانا جان سے ملا تو معلوم ہوا کہ وہ تو بھلے چنگے تھے۔ بس مجھ سے ملنے کی خاطر انہوں نے اپنی بیماری کو وجہ بنایا تھا۔ نانا اور نانی جان مجھے مل کر بہت خوش ہوئے۔میں نے وہ نہر بھی دیکھی جس میں کبھی میں نہایا کرتا تھا۔ ویسی کی ویسی تھی۔ کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ وہ بزرگوں کے قصے کہانیاں اور حقے کی گُھڑ گُھڑ جوں کی توں قائم و دائم تھی۔
عصر کے قریب میں یونہی چلتا چلتا بازار چلا گیا۔ کتابوں کے اسٹال کے سامنے کھڑا ہوکر میں کتابوں کے عنوانات دیکھتا رہا۔ سردی کا موسم تھا اور ایسا جاڑے کا موسم مجھے ماضی کی بہت سی باتیں یاد دلاتا تھا۔ سب سے اوّل چیز ”آبش“ تھی۔ میں وہیں ایک کتاب ہاتھوں میں لے کر دیکھ رہا تھا کہ اچانک مجھے میرے دائیں گال پر کسی کی نظروں کی تپش کا احساس ہوا۔ نہ جانے کیوں دل کے دھڑکنے کی رفتار بھی تیز ہوگئی تھی۔ میں نے نظر گھما کر اپنی دائیں جانب دیکھا۔ ایک محترمہ مجھے بہ غور دیکھے جارہی تھی۔ سیاہ رنگ کا نقاب چہرے پر سجا رکھا تھا، لیکن وہ آنکھیں….
دل ایک دم سے اچھل کر مٹھی میں آگیا۔