میں نے مُڑ کر اُسے حیرت سے دیکھا۔ دو سالوں میں پہلی مرتبہ اُس نے مجھے چھوا تھا۔ اُس نے مجھے چھو کر مجھے میری ہی نظروں میں معتبر کردیا۔
”کہاں جارہے ہو؟“اُس نے میری طرف دیکھ کر سوال کیا۔
”تمہیں میرا ساتھ پسند نہیں آرہا تھا اسی لیے یہاں سے اُٹھ کر جارہا تھا۔“ میں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ اُس نے ابھی تک میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔
”تمہیں یہاں سے اُٹھ کر جانے کی اجازت کس نے دی ہے؟“اس کا لہجہ سخت تھا، مگر اُس سختی کے پیچھے اُس کا پیار نظر آرہا تھا۔ اُس سوال میں بھی اُس نے مجھ پر اپنا حق جتادیا تھا۔ عجیب لڑکی تھی۔
”وقت نے۔“میں نے اُس کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ کتنا کومل ہاتھ تھا اس کا ۔
”وقت کون ہوتا ہے ہم دونوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا؟“وہ یک دم طیش میں آگئی۔
میں نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس خاموش کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔
ہمارے درمیان کچھ منٹ خاموشی نے بسیرا کیے رکھا۔ ایسی خاموشی جس میں دھڑکنوں کا شور اور ان کہے لفظوں کا بیان واضح سنائی دے رہا تھا۔ پھر اُس نے آسمان کی طرف دیکھ کر ایک لمبی سانس چھوڑی اور بولی۔
”چلو آج تم مجھے کہیں گھمانے لے چلو۔“
”گھمانے؟ وہ بھی میں؟ میرے پاس تو تمہیں کہیں لے جانے کے لیے کوئی سواری بھی نہیں ہے۔ تم ٹھہری کاروں میں بیٹھنے والی اور میں پیدل دھکے کھانے والا۔“میں نے آبش کی بات سن کر حیرت سے کچھ سوال کرنے کے ساتھ اپنا مذاق اُڑانا فرض سمجھا۔
”مجھے نہیں پتا، بس تم مجھے کہیں گھمانے لے چلو۔ تم جانتے ہو کہ یہ وقت پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ اسی لیے میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے کہیں گھمانے لے چلو تاکہ میں تمہارے ساتھ زندگی کے کچھ رنگ اور دیکھ سکوں۔“اس نے چہرے پر اُداسی سجاتے ہوئے اپنا حکم صادر کردیا تھا۔
اُسے انکار کرنا، مطلب اس کی ناراضگی مول لینا تھا اور وہ ناراض ہوکر بہت ظالم لڑکی بن جاتی تھی۔ میں اُن آخری چند دنوں میں اُسے ناراض نہیں کرسکتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے خوش ہوکر اس یونیورسٹی سے جائے ناکہ ناراض ہوکر۔
”چلو اُٹھو! چلتے ہیں۔ سیر کرنے۔“میں نے اُس دیکھ کر کہا تھا۔
”کہاں لے کر جاﺅگے؟“اُس نے پھر سے سوال کیا۔ ایک تو سوال بہت کرتی تھی۔
”جہاں بھی رب لے جائے۔“میرا جواب سن کر وہ ہلکے سے مسکرائی اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
ہم دونوں یونیورسٹی سے نکل کر باہر مین روڈ پر آگئے۔ اس دور میں مجھ جیسے غریب بندے کے لیے صرف تانگے کی سواری ہی ممکن تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ آبش ایک بڑی سی گاڑی میں یونیورسٹی آتی تھی۔ اس کے لیے تانگے کی سواری کسی گالی کی طرح تھی۔ تانگے کی سواری گوکہ آبش کی شان کے خلاف تھی مگر میری اوقات کے مطابق تھی۔ میں نے اُسے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں تمہیں کار میں بٹھا کرکہیں گھمانے لے جانا افورڈ نہیں کرسکتا، اسی لیے اسی تانگے پر ہی تم کو صبر کے ساتھ اور خوشی خوشی بیٹھنا ہوگا۔
میری بات سن کر وہ مسکرادی تھی۔ ایک تو بات بات پر مسکراتی بہت تھی اور جب مسکراتی تھی تو جاڑے کے موسم میں بھی بہار کی آمد معلوم ہوتی۔ اس کی ہنسی میں دنیا جہان کے سبھی رنگ شامل ہوتے تھے۔
میں جانتا تھا کہ میرے ساتھ آبش پیدل بھی سفر کرنے کے لیے رضا مند تھی۔ یونیورسٹی کے آخری گیٹ کے باہر مین روڈ کے بالکل ساتھ کچھ تانگے والے ہمہ وقت کھڑے رہتے تھے۔
دو آنے کے عوض تانگے والا مجھے اور آبش کو جاڑے کے موسم میں اور ہلکی دھوپ کے سائے میں بہاولنگر کے مین بازار میں اتار کر واپس چلا گیا۔ زندگی میں پہلی بار میں نے دو آنے ایک ساتھ خرچ کیے تھے۔ نانا جان مجھے روز ایک آنہ جیب خرچ دیتے تھے جسے میں جمع کرتا رہتا تھا۔ کبھی خرچ نہیں کرتا تھا۔ ان دو آنوں کے علاوہ اُس وقت میری جیب میں چھے آنے مزید رہ گئے تھے۔ اس دور میں بہاولنگرکا مین بازار بھی زیادہ بڑا نہیں تھا۔ بس چند دُکانیں اور ریڑھیوں والے تھے۔ بوائز سٹی ہائی سکول کے باہر ایک بڑا سا پیپل کا پیڑ تھا جس کے نیچے ”چاچا گاما“ المشہور ”کھوئے والی قلفی والا“ اپنی ریڑھی کے پاس کھڑا تھا۔ چاچا گاما مجھ سے بہ مشکل ہی سات آٹھ سال بڑا ہوگا، مگر سبھی لوگ نہ جانے کیوں اسے ”چاچا“، ”چاچا“ پکارتے تھے۔
چاچا گاما سر پر اپنے مرحوم باپ کی لکیروں والی پگڑی باندھے اپنی ریڑھی کے سامنے مصروف کھڑا ہوتا۔ اُس کی کھوئے والی قلفی بہت مشہور تھی۔
کھوئے والی قلفی میں جڑے بادام اور کاجو کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بہت مزیدار لگتے تھے۔ ایک قلفی کی قیمت ”دو آنے “ تھی۔
میں نے اپنی جیب میں سے چار آنے نکال کر چاچے گامے کی ہتھیلی پر رکھے۔ چاچے نے مجھے دو قلفیاں عنایت کردیں۔
میں نے اُس دن بہت عیاشی کی تھی۔ تین چار آنے ایک ساتھ خرچ کرنا اُس وقت بہت بڑی عیاشی تصور کیا جاتا تھا۔ میں نے تو چھے آنے خرچ کردیے تھے۔ بہر حال وہ چند سکے میری دوست سے زیادہ قیمتی نہیں تھے نہ ہی ہوسکتے تھے۔
میں نے ایک قلفی آبش کو پکڑا دی۔آبش کے لیے وہ کھوئے والی قلفی کوئی عجوبہ تھی۔ اُس نے پہلے کبھی بھی ایسی سوغات نہیں چکھی تھی۔