آبش نے جس دن یونیورسٹی سے ناغہ کرنا ہوتا وہ اُس بارے میں مجھے ایک دن پہلے ہی بتادیتی۔ یہ الگ بات تھی کہ میں اُسے بتائے بغیر اُس کی چھٹی کی درخواست لکھ کر جمع کروا دیتا تھا۔ یہ بات اُسے کبھی پتا نہیں چلی، نا ہی کبھی میں نے اُسے بتانا ضروری سمجھا۔
اُس آخری ہفتے جب آفس روم کی طرف جاتے ہوئے مجھے آبش نے زور سے پکارا، تو میں وہیں رُک گیا۔ جب مڑ کر دیکھا تو وہ میرے سامنے آکھڑی تھی۔ اُس نے فیروزی رنگ کی قمیص شلوار پہنی ہوئی تھی۔ دوپٹے کو ہمیشہ کی طرح کندھوں اور گلے کے قریب لٹکا رکھا تھا۔
”کہاں گھومتے پھر رہے ہو؟ وہ بھی اکیلے اکیلے۔ تمہیں پتا بھی ہے کہ یہ ہمارا یونیورسٹی میں آخری ہفتہ جارہا ہے۔ کم سے کم یہ آخری لمحے تو تم میرے ساتھ گزار لو۔“ آبش نے سوال کے ساتھ ہی دوستانہ شکایت بھی کی تھی۔
میں نے اُس لڑکی کو دیکھا جس کے ساتھ کبھی میرا انڈیا اور پاکستان کی طرح جارحانہ تعلق تھا، لیکن اب وہ میری سب سے اچھی دوست تھی۔
”دو سال…. پورے دو سال تمہارے ساتھ ہی تو گزارے ہیں۔ دو سال کا عرصہ کیا کم تھا جو اب اِس آخری ہفتے کا رونا رونے بیٹھ گئی ہو؟“
میں نے سنجیدگی سے اُسے چھیڑنے کی سعی کی تھی جس میں کامیاب بھی ہوگیا تھا۔
”اوئے بکواس بند کر اپنی، میں نے کہا نا کہ تم اپنا سارا وقت میرے ساتھ گزاروگے تو مطلب میرے ساتھ ہی گزاروگے۔ اِدھر اُدھر مٹر گشت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے…. سمجھے….؟“
آبش کبھی کبھار مجھ سے تھوڑا جذباتی ہوجاتی تھی۔ اُس دن بھی وہ جذباتی ہوگئی تھی۔ وہ مجھے اپنی ملکیت سمجھتی تھی۔ مجھ پر اپنا حق جتاتی تھی اور سچ کہوں تو اُس کا مجھ پر یوں حق جتانا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔
”اچھا ٹھیک ہے ماسی مصیبتے! تم جیسا کہوگی میں ویسا ہی کروں گا۔ تم چلو میں بس سرانعام اللہ وٹو صاحب سے دو منٹ مل کر آتا ہوں۔“
میں نے ہر بار کی طرح اُس کی ضد کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ وہ مجھے غصے سے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر پاﺅں پٹختی وہاں سے چلی گئی۔ میرا سر سے دو منٹ بات کرنا بھی اُس کو اچھا نہیں لگا تھا۔ اُس کا بس چلتا تو وہ مجھے اپنے ہاتھوں میں لکیروں کی طرح شامل کرلیتی۔
سر سے ملاقات کرکے جب میں باہر لان میں آیا، تو وہ مجھے کہیں دِکھائی نہیں دی ۔ آتے جاتے کلاس فیلوز سے بھی اُس کے بارے میں دریافت کیا مگر سب کا جواب نفی میں تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس وقت کہاں ملے گی۔ مجھے پتا تھا کہ وہ جب بھی مجھ سے ناراض ہوتی تو کہاں جاکر بیٹھتی تھی۔ میں وہیں چلا گیا۔ وہ وہیں تھی۔
یونیورسٹی کے آخری کونے میں لگے شہتوت کے درخت کے سائے میں پتھر کی سِل پر بیٹھی گھاس پر بکھرے خشک پتوں کو سر گھٹنوں میں دیے دیکھ رہی تھی۔ درخت پر بیٹھی ایک چڑیا حیرانگی سے آبش کو دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ آبش کی تنہائی ماپ رہی تھی یا پھر اُس کی اُلجھی ہوئی سانس گن رہی تھی۔ چڑیا کی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی وہ شاخ سے اُڑگئی۔
میں آہستہ سے چلتا ہوا آبش کے ساتھ پتھر کی سِل پر بیٹھ گیا۔
وہ ابھی تک گم صم بیٹھی ہوئی تھی۔ ایک نظر بھی مجھ پر نہیں ڈالی۔ حالاں کہ وہ تو میری خوشبو بھی پہچان لیتی تھی۔ پھر میں نے ہلکا سا کھانس کر اپنی موجودگی ظاہر کی تو اُس نے گردن ٹیڑھی کرکے مجھ پر ایک نظر ڈالی اور پھر سے نیچے خشک پتوں کو دیکھنے لگی۔
”ناراض ہو؟“میں نے سوال کیا۔
آبش نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموش بیٹھی رہی۔میں نے پھر سے وہی سوال دہرایا۔
اُس کا جواب پھر سے وہی ”خاموشی“ تھا۔
”کچھ تو بولو…. یوں چپ تو مت بیٹھو۔“میں نے اُسے منانے کی خاطر پیار سے التجا کی۔
وہ پھر بھی خاموش بیٹھی رہی۔ میری کسی بھی بات یا التجا کا اُس پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔
آج سے پہلے اُس نے کبھی یوں مجھے خاموشی کی مار نہیں دی تھی۔ مجھے تکلیف ہورہی تھی۔ نہ جانے وہ اُن خشک پتوں میں کیا ڈھونڈ رہی تھی؟ بہت اُجڑی اُجڑی سی لگ رہی تھی۔ اُسے دیکھ کر میں نے پہلی بار یہ محسوس کیا کہ وہ اندر سے بہت دُکھی تھی۔
میں نے اُس سے اِس دُکھ اور اُجڑے پن کی وجہ پوچھی مگر اُس کا جواب وہی ”خاموشی“ رہا۔
اُس چپ سے میں بیزار ہوگیا اور وہاں سے اُٹھ کر جانے لگا تو اُس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔