کھوئے والی قلفی
سلمان بشیر
”یہ اُس دور کی بات ہے جب میں آلف علی ایک خوب صورت دیہاتی نوجوان ہوا کرتا تھا۔ گلگت بلتستان کی بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں کے وسط میں قائم ایک قبیلے کا یونیورسٹی میں پڑھنے والا واحد لڑکا۔ ہمارے قبیلے سے کوئی بھی تعلیم کی غرض سے باہر نہیں گیا تھا۔ میں واحد لڑکا تھا جو اپنے ننھیال کے شہر میں واقع اکلوتی یونیورسٹی میں ایم ۔ اے انگلش کا اسٹوڈنٹ تھا۔ تعلیم کی وجہ سے میری آدھی سے زیادہ زندگی گھر سے باہر ماں باپ سے دور گزری تھی۔
ضلع بہاولنگر ، بستی حافظ آباد موضع روجھانوالی میرے نانا نانی کا آبائی دیس تھا۔میں پچھلے کچھ سالوں سے اُن کے پاس ہی رہ رہا تھا۔ حافظ آباد ایک کچی بستی تھی۔ بجلی اور پانی کے سوا کوئی اور سہولت موجود نہیں تھی۔ پوری بستی میں صرف ایک ہی پکا مکان تھا۔ وہ بھی ضلع ناظم بختاور حسین کا۔
بستی کی سڑکیں ہر وقت دھول سے ڈھکی رہتیں۔ سڑکیں بھی کوئی بجری سیمنٹ سے نہیں بنی تھیں، کچی تھیں لیکن آمدورفت کا واحد ذریعہ ہونے کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کے وزن سے سخت ہوگئی تھیں۔ سڑک کے ساتھ ہی ایک کچی نہر تھی، انسانوں اور جانوروں کا خوب صورت سوئمنگ پول۔
کھیتوں میں ہل چلا کر یا کسی بھی دوسرے سخت کام سے جی کو جلا کر آنے والا ہر آدمی کپڑوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا دیتا۔ نہر کے ٹھنڈے پانی سے نہا کر ساری گھبراہٹ اور تھکاوٹ چھومنتر ہوجاتی۔ میں بھی اکثر نہر میں نہاکر اپنے جسم سے میل اُتار لیاکرتا تھا۔ کیا حسین وقت تھا وہ، آج بھی یاد آنے پر ہونٹوں پر مسکان اور دل میں حسرت کو بیدار کردیتا ہے۔ وہ بستی جنت کے کسی خوب صورت جزیرے سے کم نہیں تھی۔
بستی کا اندرونی حصہ جہاں گردوغبار میں اَٹا ہوا تھا، وہیں بستی کے خارجی چاروں کونے ہری بھری فصلوں اور گہرے سائے والے درختوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔بستی کے وسط میں ایک بڑا سا برگد تھا جو تقریباً ایک کنال رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ وہاں ہر وقت بستی کے بزرگوں کے قہقہے گونجتے رہتے۔ حقے کی ”گُھڑ گُھڑ“ کی آواز میں ایک عجیب سا نشہ محسوس ہوتا تھا۔ شام کے بعد بھی وہاں بزرگوں، جوانوں اور نوجوانوں کی محفلیں سجتیں۔ میں بھی نانا کے ساتھ اکثر وہاں جایا کرتا تھا۔ بزرگوں کی باتیں سن کر ایسے محسوس ہوتا کہ جیسے میں نے ایم ۔اے تک پڑھ کر جھک ہی ماری ہے۔ اصل علم تو اُن بزرگوں کے پاس تھا جو چٹے اَن پڑھ ہونے کے باوجود کسی فلاسفر اور ادیب کی طرح بات کرتے تھے۔
میں صبح مرغے کی بانگ سن کر بیدار ہوجاتا۔ نلکے پر جاکر وضو کرتا اور نماز کے لیے مسجد چلا جاتا۔ نانا جان نماز سے فراغت کے بعد بھینسوں کا دودھ دوہتے۔ نانی اماں چولہا جلاتی اور ناشتے کے لیے چپاتیاں بناتیں۔ ناشتے کے بعد میں تھوڑا پڑھتا پھر آہستہ آہستہ یونیورسٹی جانے کی تیاری کرنے لگ جاتا۔ یونیورسٹی ہمارے گھر سے پانچ میل کے فاصلے پر تھی اور میں پیدل یونیورسٹی جاتا تھا۔ یونیورسٹی شہر کے وسط میں تھی۔ 5 ایکڑ اراضی پر مشتمل یونیورسٹی کی عمارت بہت خوبصورت تھی۔بڑے بڑے کلاس روم، صاف ستھرے باتھ روم، درختوں اور پھولوں کے زیر سایہ گھاس کے لان، بیٹھنے کے لیے پتھر کے بنچ، کشادہ کینٹین کی عمارت، پانی کی بڑی سی ٹینکی اور سواری کھڑی کرنے کے لیے بڑا سا برآمدہ۔
مجھے اُس جگہ سے بہت لگاﺅ تھا۔ وہاں آنے کے بعد میں ایک دوسری زندگی جینے لگتا تھا۔ ایک زندگی وہ تھی جو میں اپنی بستی میں گزار رہا تھا، دوسری زندگی یونیورسٹی کی تھی، بہت ہی خوب صورت۔
یونیورسٹی میں وقت کیسے گزرا،پتا ہی نہیں چلا۔ بس آنکھیں بند کرکے کچھ لمحوں بعد پھر سے کھولیں تو یونیورسٹی کی دو سالہ زندگی اپنی آخری سانسیں لیتے ہوئے ہانپ رہی تھی۔ آخری سمیسٹر کے امتحان دینے کے بعد بھی ہم سبھی کلاس فیلوز باقاعدگی سے یونیورسٹی آتے تھے۔ رزلٹ کو بہانا بناکر ہم روز اس لیے آتے تاکہ یونیورسٹی اور دوستوں کے سنگ کچھ وقت اور گزارسکیں۔ وہ ہمارا یونیورسٹی میں آخری ہفتہ تھا۔ ہماری طرح باقی شعبوں کے طلبہ و طالبات بھی یونیورسٹی آتے تھے۔ کلرک، استاد، گیٹ کیپر اور کینٹین والا بھی یونیورسٹی حاضر ہوتے تھے۔