کچی کاگر — افشاں علی

وہ روتے ہوئے ہچکیوں کے ساتھ توتلی زبان میں بولی۔
”نہیں مما کی جان، مما اپنی پرنسس کو غصہ نہیں کریں گی، شاباش! اب چپ ہو جائو میرا بیٹا…” رطابہ نے اسے اپنی گود میں بٹھایا اور پیار سے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ”مما، آپ غشا نہیں تلنا، آئش کریم میں نے نہیں ڈرائی، مما شولی… آپ… اشٹور میں بند نہیں تلنا…
وہ روتے ہوئے مسلسل بولے بھی جا رہی تھی۔ ”ادھر آئو چاچو کے پاس…” رمیز نے آگے بڑھ کر اسے گود میں اٹھایا اور ذرا فاصلے پر موجود آئس کریم پارلر کے پاس لے آیا انیس بھی اس کے ہمراہ تھے اور پھر دونوں نے مل کر بڑی مشکلوں سے اسے بہلایا تھا۔
رطابہ عجیب سی الجھن کا شکار تھی اس کی نگاہیں اپنے پاپا کی گود میں بیٹھی آئس کریم کھاتی انوشہ کے گرد طواف کر رہی تھی مگر دماغ کہیں اور ہی بھٹک رہا تھا۔
کنزا نے بھی اس کی غیرموجودگی محسوس کر لی تھی مگر فی الحال اسے ٹوکنا مناسب نہ لگا۔
گھر واپسی تک وہ یونہی کھوئی کھوئی عجیب سے خیالوں میں گھری ان کے تانے بانے بنتی رہی ڈنر تو باہر ہی کیا جا چکا تھا دونوں چھوٹے بچے گاڑی میں ہی سو گئے جب کہ تینوں بڑے بچے بھی اب نیند کے زیراثر نظر آرہے تھے انعام کے سونے کے بعد جب وہ کمرے سے نکل کر ٹی وی لائونج میں آئی تو کنزا کو اکیلے بیٹھے پایا۔
”یہ لوگ آج پھر واک پر چلے گئے…؟”





اس نے کنزا کے برابرصوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”جی بھابھی، ابھی تو باہر سے آئے تھے مگر پھر چل دیئے…” کپڑوں کو تہ کرتے ہوئے کنزا نے جواب دیا۔ رطابہ بھی اس کی مدد کے خیال سے کپڑوں کو تہہ کرنے میں اس کا ہاتھ بٹانے لگی۔
”بھابھی ایک بات کہوں…؟”
ہاں بولو، ایک کیا جتنی دل چاہے اتنی بات کہہ لو بھلا تمہیں اجازت لینے کی کیا ضرورت…”
رطابہ نے پیار سے کہا۔
”بھابھی آپ کو نہیں لگتا انعام اور انوشے باقی بچوں سے مختلف ہیں، ان کی بہت سی عادتیں بھی، بچے تو چھوٹی موٹی شرارتیں کرتے ہنستے مسکراتے اچھے لگتے ہیں۔ ڈر سے سہمے بچے تو…”
اس نے بات ادھوری چھوڑ کر رطابہ کو دیکھا کپڑے تہ کرتے رطابہ کے ہاتھ لمحہ بھر کو تھم سے گئے وہ کیا جواب دیتی وہ تو خود بہت سے سوالوں میں الجھی ہوئی تھی۔
”بھابھی کوئی بات ہے؟”کوئی پریشانی…؟
کنزا نے گم صُم بیٹھی رطابہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو وہ چونک گئی۔
پتا نہیں کنزا کیا بات ہے؟ مجھے تو خود کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ ہم دونوں نے تو کبھی بچوں کو زور سے ڈانٹا تک نہیں کجا کہ اسٹور روم میں بند کرنا، مگر پتا نہیں کیوں بچے ہر بات بات پہ ایسا ری ایکشن دے رہے ہیں…”
رطابہ نے بالآخر وہ بات کہہ ہی ڈالی جو اسے کب سے پریشان کر رہی تھی۔ ”بھابھی آپ زیادہ پریشان نہ ہوں، بچے ابھی چھوٹے ہیں ذرا۔ ناسمجھ ہیں ہو سکتا ہے کوئی ڈر، کوئی بات ان کے ذہن میں گھر کر گئی ہو جو انہیں ڈسٹرب کر رہی ہو، پریشان ہونے کے بجائے ہمیں بچوں کی Mentality کو سمجھنا چاہیے، شاید کوئی سرا ہاتھ آجائے…”
”ہوں” کنزا کی بات پر اس نے پرُسوچ انداز میں گردن ہلائی۔
٭…٭…٭
اتوار کی رات ان کی واپسی تھی بہت ساری دعائوں اور تحائف کے ہمراہ لدے وہ پھر روشنیوں کے شہر میں آبسے۔
گھر آتے ہی اس نے پہلے بچوں کو سلایا کیوں کہ صبح اسکول بھی جانا تھا۔ پھر گھر کی ہلکی پھلکی ڈسٹنگ کر کے اس نے اپنے اور انیس کے ڈریس کے ساتھ بچوں کے یونیفارم بھی پریس کر کے ہینگ کیے اور ان سب کاموں سے فارغ ہو کر جب وہ روم میں آئی تو انیس دوسری اور کروٹ لیے سو چکے تھے، وہ بھی بیڈ کی دوسری سائیڈ خاموشی سے آکر لیٹ گئی پر نیند آنکھوں سے کافی دور تھی۔
ذہن بہت سے الجھے بکھرے تانے بانے سلجھانے میں لگا ہوا تھا کچھ عجیب سی بے زاری اور کسلمندی سی اس پر طاری تھی،
سکون کی بجائے روم روم میں تھکن اتری ہوئی تھی۔
رات بھر بستر پر کروٹ پہ کروٹ بدلنے کے سبب صبح اس کی آنکھ معمول سے ذرا لیٹ کھلی۔
اس نے اٹھ کر جلدی جلدی دوچار چھپا کے پانی کے منہ پر مارے اور ناشتہ بنا کر بچوں کو اٹھانے چل دی انہیں تیار کرانے تک انیس بھی آفس کے لیے ریڈی ہو چکے تھے،
وہ بچوں کو ناشتہ کرانے کے ساتھ ساتھ خود بھی سینڈوچ بطور بریک فاسٹ کھا کم اور نگل زیادہ رہی تھی۔
بچوں کو اسکول روانہ کرنے کے بعد وہ اپنی فائل اور پرس تھامے انیس کی ہمراہی میں ہی باہر نکلی پر روانہ ہونے سے پہلے وہ میڈ کو فون کرنا نہ بھولی تھی۔
انیس آفس جاتے ہوئے اسے بھی یونیورسٹی ڈراپ کر دیتے جب کہ واپسی میں وہ خود ہی چلی آتی، آج وہ اپنے مقررہ وقت سے پورے بیس منٹ لیٹ ہو چکی تھی اس لیے بغیر کسی سے ملے وہ سیدھی لیکچرز بنا کر کلاسز لینے چل دی وہ اپنے تمام لیکچرز سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ پیون نے اسے ڈین کا پیغام دیا۔
”میم نے، آپ کو میٹنگ روم میں بلایا ہے…”





وہ اپنا پرس تھامے جب میٹنگ روم میں داخل ہوئی تو وہاں حسبِ معمول سبھی سٹاف موجود تھا ماسوائے نادیہ بشیر کے جو شاید آج غیر حاضر تھی۔
یہ بات سبھی نے بہ طور خاص نوٹ کی تھی کیوں کہ نادیہ بشیر کا شمار ریگولر لیکچرار میں ہوتا تھا، وہ بغیر کسی ایمرجنسی کے کبھی بھی absent نہ ہوتی تھی اور نہ ہی اپنا لیکچر چھوڑتی تھی۔
رطابہ سمیت سبھی سٹاف، اس اچانک بلائے جانے والی ایمرجنسی میٹنگ سے ناواقف ہی تھا۔
اس سے پہلے کہ رطابہ ہی کسی سے نادیہ بشیر کے بارے میں استفار کرتی میم زاہدہ ذکی کی آمد ہوئی۔
”آپ میں سے کن کن لیکچرار اور پروفیسر کی آج کی کلاسز compelte ہوچکی ہیں…؟”
یہ میٹنگ جتنی غیرمتوقع تھی اتنا ہی میم کا سوال بھی جواباً سب نے اپنی اپنی detailsبتائیں۔ تقریباً سبھی کے لیکچرز یا پریکٹیکل باقی ہی تھے ماسوائے رطابہ، اس کی لیب اسسٹنٹ سائرہ اور پروفیسر فرحت جہاں کے۔
اس وقت سبھی کے چہرے پر سوالیہ نشان تھے، سبھی آنکھوں ہی آنکھوں اور اشاروں میں باتیں کررہے تھے۔
پر میم سے کچھ پوچھنے کی جسارت کسی میں نہ تھی، کیوں کہ میم کا موڈ بہت ہی سنجیدہ نظر آرہا تھا مگر میم کی اگلی بات نے تو گویا ان سب کو شاکڈ ہی کردیا۔
”آج صبح لیکچرار نادیہ بشیر کے بیٹے کی اچانک ڈیتھ ہوگئی۔ صبح وہ یونیورسٹی آرہی تھیں کہ یہ افسوس ناک خبر ملتے ہی وہ راستے سے ہی گھر چل دی۔
مجھے یہ بات ابھی معلوم ہوئی میں وہیں جارہی ہوں سوچا آپ میں سے جن ٹیچرز کے لیکچرز وغیرہ ہوچکے ہوں ان کو بھی ساتھ لے لوں…”
میم زاہدہ ذکی نے اس ہنگامی میٹنگ کی جو وجہ بتائی وہ سبھی کے لیے افسوسناک اور کسی شاکڈ سے کم نہ تھی۔
سٹاف کے سبھی ممبرز نادیہ بشیر کے ہاں تعزیت کے لیے جانا چاہتے تھے مگر ابھی کلاسز آف نہیں ہوئی تھیں جو اٹینڈ کرنا بھی ضروری تھی کیوں کہ سیمسٹرز قریب تھے اس لیے باقی سب نے جانا مؤخر کردیا۔ جب کہ رطابہ لیب اسسٹنٹ سائرہ اور پروفیسر فرحت جہاں میم کے ہمراہ ہی نادیہ بشیر کے گھر تعزیت کے لیے روانہ ہوئے جہاں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔
نادیہ کا تو رو رو کر بُرا حال ہوچکا تھا۔ رو رو کے نڈھال ہوتی نادیہ کو اس کی ماں سنبھالنے کی کوشش کررہی تھیں ہنستے کھیلتے بچے کے یوں اچانک ڈیتھ کی وجہ اب تک معلوم نہ ہو پائی تھی۔





بالآخر میم زاہدہ ذکی نے ہی پاس بیٹھی ایک خاتون سے دریافت کیا۔
”بہن جی، مُنے کو کیا ہوا تھا، کیا بیمار تھا…؟”
”اے بہن کا ہے کی بیماری، لاپرواہی کے لیے لاپرواہی… اچھا بھلا ہنستا کھیلتا بچہ یوں دیکھتے ہی دیکھتے لقمہ اجل بن گیا، کہنے کو گھر میں اتنے لوگ ہیں پر ایک بچے کو نہ سنبھال سکے…”
اس خاتون نے غمگین سے لہجے میں جواب دیا۔
”صحیح کہتے ہیں لوگ ماں تو ماں ہوتی ہے، ماں جیسی دیکھ بھال کوئی بھی نہیں کرسکتا اگر ماں اپنے بچے کی خود دیکھ بھال کر رہی ہوتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی مگر اُسے تو اوروں کے بچوں کے مستقبل کی فکر پڑی تھی…”
برابر میں بیٹھی ایک اور خاتون نے طنزیہ لہجے میں کہا
”پر ہوا کیا تھا…؟” میم زاہدہ ذکی نے پھر سے اپنا سوال دہراتے ہوئے پوچھا۔
”وہی تو بتا رہی ہوں بہن جی”
وہ خاتون تھوڑا پاس کِھسکی…
”ماں تو صبح پڑھانے نکل جاتی اور بچے کو سونپ جاتی تائی اور دادی کے حوالے، اب دادی تو خود جوڑوں کی مریضہ اور رہی تائی تو اسے اپنے کاموں اور بچوں سے فرصت کہاں، سارا دن بچہ بن ماں کے بچوں کی طرح روتا اور بلکتا رہتا۔
نادیہ کے آنے کے ٹائم تک روتے بلکتے یونہی سو جاتا۔
آج بھی نادیہ کے جاتے ہی اپنی تائی کے پیچھے پیچھے اوپر کی سیڑھیاں چڑھنے گیا اور وہیں سے پیر پھسل گیا، جب تک سب اکٹھے ہوئے تب تک بچے کی سانسیں ہی تھم گئیں۔
ہائے ہائے بڑا افسوس ہوا ہمیں تو اور نادیہ کو شاباش ہے بھئی وہ کہتے ہیں نا گھر کے پیروں کو تیل کا ملیدہ…”
اس پڑوسی خاتون نے ہاتھ مسلتے ہوئے اس افسوسناک واقعہ کی تفصیل بتائی۔
تدفین نماز ظہر کے بعد تھی وہ لوگ تدفین تک وہاں رُکے رہے۔ نڈھال ہوتی نادیہ کو اپنا ہی کوئی ہوش نہ تھا، روتی کُر لاتی نیم جاں نادیہ بار بار بے ہوش سی ہوکر اپنی ماں کی گود میں جھول جاتی، آخر اس نے تو اپنا لخت جگر کھویا تھا جو اُس کے وجود کا حِصّہ تھا، اس ماں کا دکھ کسی کو نظر آیا یا نہیں مگر سب کو قصور اسی ماں کا دکھ رہا تھا۔
جتنی دیر تک وہ لوگ وہاں موجود رہے۔ ہر زبان کی نوک پر ماں کے لیے ہی طنز و طعنے ہی تھے جنہیں سن سن کر رطابہ سخت بددل ہورہی تھی۔
اس کے لیے تو اب اس کا دِل آزار ماحول میں بیٹھنا دوبھر ہورہا تھا۔ پہلے ہی رات سے اس کا سر بھاری سا ہورہا تھا۔ اوپر سے یہ افسوس ناک خبر سن کر طبیعت اور بوجھل سی ہوگئی۔
میم زاہدہ ذکی نے بھی یہ بات نوٹ کی تھی تبھی واپسی میں اسے اس کے اپارٹمنٹ کے گیٹ پر ہی ڈراپ کردیا۔
”مس آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی take rest you will feel better”
٭…٭…٭
اپارٹمنٹ کی ہر سیڑھی پر قدم رکھتے اس کا دل اور بوجھل سا ہو جاتا۔
نظروں کے سامنے بار بار اس روتی بلکتی ماں کا چہرہ آ جاتا تو دماغ سے کچھ دن پہلے ہنستی مسکراتی نادیہ کا عکس محو نہ ہوتا۔
زندگی واقعی بہت بے رحم ہے یا پھر یہ دنیا بہت ظالم جو تھوڑی بھی بے احتیاطی اور لاپرواہی برداشت نہیں کر پاتی وہ فیصلہ نہ کرپائی۔
”وقت کرتا ہے برسوں پرورش، حادثہ اک دم نہیں ہوتا”
اپنے ذہن و دل میں جاری جنگ لڑتے سیڑھیاں چڑھتے اس نے ریسٹ واچ میں ٹائم دیکھا، پونے دو ہو رہے تھے۔




Loading

Read Previous

ادھورا پن —- منیر احمد فردوس

Read Next

خواب لے لو خواب — سائرہ اقبال

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!