کچی کاگر — افشاں علی

ہمیشہ کی طرح رطابہ کا لاہور میں بڑے تپاک سے استقبال ہوا تھا۔ آخر کو وہ اس گھر کی بہو بھی تھی تو کنزا کا میکہ بھی، رطابہ سب سے مل ملا کر کچن میں چلی آئی جہاں کنزا بھی موجود تھی۔
”ارے بھابھی! آپ کچن میں کیوں چلی آئیں؟ آپ لائونج میں بیٹھیے، تھوڑا ریسٹ کر لیجئے سفر کرکے آئی ہیں تھک گئی ہوں گی نا…”
کنزا نے اس کی وہاں آمد پر مسکرا کر کہا ”کیسی باتیں کررہی ہو کنزا، میں کوئی مہمان تھوڑی نا ہوں اور رہی بات سفر کی تو بہت آرام دہ سفر طے کرکے آئی ہوں…”
رطابہ نے کھلکھلاتے ہوئے بشاش لہجے میں کہا اور ساتھ ہی سلیب پر رکھے دہی کے بائول کو اٹھاتے ہوئے رائتے کے لیے دہی پھینٹنے لگی۔ ”ماشا اللہ میرے بیٹے اور بہو کے آنے سے تو گھر میں رونق سی آگئی ہے۔” فاطمہ بیگم بھرے پورے ڈائننگ ٹیبل کو دیکھ کر محبت بھرے لہجے میں بولیں۔





”ممی، اٹس ناٹ فیئر یہاں جو آپ کا بیٹا اور بہو رہتے ہیں کیا ان کے دم سے رونق نہیں ہوتی…؟”
رمیز نے مصنوعی ناراضگی سے منہ بسورا۔
”ارے میرے چاند تاروں تم لوگوں ہی کے دم سے تو رونق ہے اور جب انیس اور رطابہ بھی بچوں سمیت آتے ہیں تو یہ رونق اور بڑھ جاتی ہے…”
انہوں نے اپنے برابر میں بیٹھے انیس کی بلائیں لیں۔
”ارے بھابھی آپ کیوں ان کاموں میں لگی ہوئی ہیں… کنزا ہے نا وہ سب کرے گی…”
رمیز کی نظر رطابہ پر پڑی جو فرائیڈ رائس کی ٹرے تھامے ڈائننگ ٹیبل کی سمت ہی آرہی تھی۔ ”کیوں رمیز بھائی، میں یہ سب کام کیوں نہیں کرسکتی؟ آخر کو میں بھی اس گھر کی بہو ہوں اور بہوئیں تو کام کرتے ہوئے ہی اچھی لگتی ہیں…”
رطابہ نے شوخی سے رمیز کو جواب دیا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
کنزا نے کھانے پر اچھا خاصا اہتمام کیا تھا، آخر کو اس کا لاڈلا بھائی اور سہیلیوں جیسی بھابھی جو آئے ہوئے تھے۔
”حماد! چھوٹے بھائی کو دیکھو کیسے چپ چاپ آرام سے کھانا کھا رہا ہے اور آپ اتنے بڑے ہوکر مجھے تنگ کررہے ہو…”
حماد جو کھانے کے معاملے میں کافی چوذی تھا اب بھی فرائیڈ رائس میں موجود مٹر کے دانوں کو دیکھ کر کھانے سے انکاری تھا، جسے کنزا نے ڈپٹتے ہوئے انعام کی مثال دی۔
”ہاں بیٹا! اپنے انیس کے بچے ماشاء اللہ بہت سلجھے ہوئے اور تمیزدار ہیں، اب بھی دیکھو ذرا کتنی خاموشی سے کھانا کھا رہے ہیں، مجال ہے جو ماں کو ذرا بھی تنگ کیا ہو…”
شہاب الدین صاحب نے بچوں کی تعریف کی۔
”جی پاپا، یہ بات تو آپ نے بالکل ٹھیک کہی، بھابھی نے بچوں کی پرورش بہت اچھے انداز ہے حالاں کہ وہ جاب بھی کرتی ہیں پھر بھی گھر کو بہت اچھے سے manageکیا ہے…”
رمیز نے بھی کُھلے دل سے سراہا، رطابہ کا سر فخر سے اونچا ہو چلا جیسے اُسے آسکر ایوارڈ ملا ہو، سسرال میں تعریفی جملے سننا اور وہ بھی اپنے بچوں پر کی جانے والی تربیت کے حوالے سے یہ ہر بہو کا ہی خواب ہوتا ہے اور اب وہی خواب حقیقت بن کر اس کے سامنے تھا تو کیوں نا اس کا سر فخر سے بلند ہوتا۔
٭…٭…٭
بہت ہی خوش گوار موڈ کے ساتھ ڈنر کیا گیا جہاں انیس کو یہاں آکر اپنے پیرنٹس کی کمی محسوس نہ ہوئی وہیں رطابہ کو بھی یہاں آکر جوائنٹ فیملی کو انجوائے کرنے کا موقع مِلا۔
اب بھی سب بڑے ٹی وی لائونج میں ڈنر سے فارغ ہوکر بیٹھے تھے، انیس اور رطابہ اپنے ہمراہ لائے گئے تحائف سب کو دینے کے بعد اب باتوں میں مشغول تھے جب کہ ٹی وی لائونج سے ذرا فاصلے پر پیچھے کارپٹ پر بچے اپنے کھلونوں کے ہمراہ اپنی دنیا سجائے کھیلنے میں مگن تھے۔
رمیز اور کنزا کے تین بچے تھے آٹھ سالہ حماد پھر عتیقہ جو چھ سال کی تھی اور پھر سب سے چھوٹا ڈھائی سالہ عباد جب کہ رطابہ اور انیس کے دو ہی بچے تھے۔
چھے سالہ انعام جو عتیقہ کا ہی ہم عمر تھا اور چار سالہ انوشہ بڑے سبھی خوش گپیوں میں مگن تھے، جبھی یک دم شور سا اٹھا اور رونے کی آواز پر سبھی بڑے بچوں کی طرف متوجہ ہوئے۔
”کیا ہوا بچو…؟”
شہاب الدین کے استفسار پر عتیقہ نے رونی صورت بنائے روٹھے ہوئے لہجے میں شور کی وجہ بتائی۔
”دادا جی! انعام نے میری ڈول توڑ دی…” ثبوت کے طور پر عتیقہ نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے جس میں ایک ہاتھ میں ڈول کا سر جبکہ دوسرے ہاتھ میں ڈول کا بقیہ دھڑ تھا۔
”بُری بات انعام، آپ نے بہن کی ڈول کیوں توڑی…؟”
انیس نے تنبیہہ انداز میں ڈپٹا روتا ہوا انعام بھاگ کر اپنی مما کی گود میں آ سمایا۔
”مما، میں نے کچھ نہیں کیا، مما غلطی سے ڈول ٹوٹ گئی۔ میں bad boyنہیں ہوں نا؟ مم… مما… مما… سوری…
انعام رونے کے ساتھ ساتھ اپنی صفائی بھی دینے لگا۔
”بیٹا! کوئی بات نہیں، میں عتیقہ کو نئی ڈول لا دوں گا، آپ رو نہیں…” رمیز نے پیار سے پچکارا
”ہاں انعام، یہ ڈول تو اولڈ ہوگئی تھی، پاپا عتیقہ کو نیو ڈول لادیں گے۔ تم رو مت، چلو آئو ہم کرکٹ کھیلتے ہیں…” حماد نے بھی اسے رونے سے باز رکھنا چاہا پر وہ مسلسل روتا ہی رہا۔
”م…مم… مما… میں bad boy نہیں ہوں، مما سوری، مجھے punishنہیں کریں گی نا؟ مما میں bad boyنہیں، مجھے اسٹور روم میں بند نہیں کریں گی نا…؟”
انعام کا مسلسل رونا اور اس کی باتیں جہاں سب بڑوں کو حیران کررہی تھیں وہیں انیس اور رطابہ بھی اپنے بیٹے کے رویے کی وجہ سے پریشان ہو رہے تھے۔
رطابہ اسے چپ کروانے اور بہلانے کی ناکام سی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔
مسلسل رونے سے انعام کی ہچکی بندھ چلی تھی تبھی انیس نے آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو گود میں اٹھا لیا۔
”میرا انعام تو بہت سٹرونگ ہے، بالکل spider manکی طرح، وہ تو good boyہے نا… وہ اب اسے بہلانے لگے۔





اپنے پاپا کی گود میں آکر کسی حد تک انعام کا رونا کم ہوچکا تھا۔
”چاچو! آپ کو پتہ ہے، انعام کو بہت اچھی ڈرائنگ بنانی آتی ہے…”
انیس نے رمیز کو مخاطب کیا…
”ارے واہ! پھر تو میرا انعام اپنے چاچو کو ڈرائنگ بنا کر دکھائے گا۔” حماد بیٹا جائو آپ ڈرائنگ بُک لے آئو…”
رمیز نے بھی انعام کا دھیان بٹانا چاہا۔ ڈرائنگ بُک آنے تک اس کا رونا بند ہوچکا تھا اور اگلے کچھ منٹوں بعد وہ پھر سے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مگن ہو چلا تھا۔
”بھابھی! وہاں بھی انعام یونہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روتا ہے…؟”
پاس بیٹھی کنزا نے دھیمے لہجے میں رطابہ سے پوچھا جواباً رطابہ نے نفی میں سر ہلایا وہ کہتی بھی کیا اس کے پاس تو جواب ہی نہ تھا۔
رات کچھ اور گذری تو شہاب الدین تو سونے چل دیئے جب کہ فاطمہ بیگم کو بھی نیند کی گولی لینے کی وجہ سے اب غنودگی ہونے لگی تو وہ بھی سونے کی غرض سے چل دیں۔ رمیز اور انیس واک پر نکل گئے جب کہ بچے اب کارٹون دیکھنے میں مصروف تھے۔
رطابہ کنزا کے ہمراہ ہی کچن میں چلی آئی تاکہ کچن سمیٹنے میں اس کی مدد کرسکے۔
”بھابھی کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ میں کتنی لکی ہوں نا اگر میرے رب نے مجھ سے میرے ماں باپ کو جدا کیا تو مجھے ان گنت رشتوں سے نواز دیا، شوہر اتنا پیار کرنے والا ملا، سسرال ہوں یا میکہ دونوں ہی ایک ملا اور بھابھی کے روپ میں اتنی اچھی سی فرینڈ ملی…”
رطابہ جو دھلے ہوئے برتنوں کو خشک کرکے ریک میں رکھ رہی تھی کنزا کی بات پر اس کی جانب متوجہ ہوئی جس کے لہجے میں تشکر اور آنکھوں میں آنسو کے ننھے ننھے قطرے جھلملا رہے تھے۔
”پرُخلوص لوگوں کو بھی ہمیشہ اچھے لوگوں کی ہم راہی ہی نصیب ہوتی ہے، اور لکی تو میں ہوں جو مجھے اتنی اچھی جیٹھانی اور نند ملی ہے جو دونوں ہی روپ میں سگی بہنوں سے بڑھ کر ہے…”
رطابہ نے پیار سے اس کو خود سے لگاتے ہوئے کہا…
”مما… نینی آئی ہے…” تبھی آنکھیں مسلتی انوشہ وہاں چلی آئی تو وہ اسے گود میں اٹھائے سلانے چل دی۔
وہ بچوں کو سلانے میں مصروف تھی جبھی کنزا بھی کچن سے فراغت کے بعد وہیں چلی آئی۔
”بھابھی آپ کو وہ بات بُری تو نہیں لگی…؟”
پاس بیٹھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”کون سی بات…؟” رطابہ جو سوئے ہوئے انعام کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔ کنزا کی بات پر چونکی۔
”وہی جو میں نے آپ سے انعام کے رونے سے متعلق پوچھی تھی…”
ارے نہیں! میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں، تم بھی کیا چھوٹی چھوٹی باتوں کو خود پر اتنا حاوی کرلیتی ہو، مجھے تو لگتا یہ بھی اپنی پھوپھو پر ہی گیا ہے…
رطابہ نے ہنستے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں جواباً کہا
……نہیں بھابھی یہ بات چھوٹی تو نہیں میں نے پہلے بھی نوٹ کیا ہے…
”کنزا، یہ تمہارا وہم ہے اور کچھ نہیں ورنہ ماشاء اللہ میرے بچے بہت سمجھ دار ہیں…”
رطابہ نے سوئے ہوئے انعام کی پیشانی کو چوما تو کنزا نے بھی خاموش ہو جانے میں ہی عافیت جانی۔
٭…٭…٭





اگلا ویک اینڈ تھا اس لیے سب نے آئوٹنگ کا پروگرام بنایا۔ اس وقت بھی وہ سب پارک میں آئے ہوئے تھے کُھلی ہوا، سر سبز گھاس کا قالین اور مختلف جھولے بچے بھی بہت خوش تھے تو بڑے بھی خوش، انیس کو آفس سے آنے کے بعد شاذو نادر ہی یہ موقع مل پاتا کہ وہ بچوں کے ہمراہ کہیں آ جا سکے۔
”ملا کی دوڑ مسجد تک” کے مصداق عید تہوار یا کسی خاص موقع پر وہ کراچی سے لاہور تک آنے میں ہی اپنی تفریح سمجھتے جبکہ رطابہ کی تو مصروفیت ہی کچھ ایسی تھی کہ سنڈے بھی کب آکر دبے پائوں گزر جاتا۔ پتہ ہی نہ چلتا۔
شہاب الدین صاحب سب بچوں کے لیے کون آئس کریم لے آئے تو بچے جو کچھ دیر پہلے کھیلنے میں مگن تھے اب تھامے کون آئس کریم تھا اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔
”بچّو بھاگو مت آئس کریم گِر جائے گی پہلے آئس کریم ختم کرلو پھر کھیلنا…”
کنزا کی نظر ان پر پڑی تو وہ ٹوکے بنا نہ رہ پائی۔
مگر بچوں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی بھاگ دوڑ جاری رکھی تو وہ بھی اپنی ساس اور بھابھی کے ساتھ پھر سے باتوں میں مشغول ہوگئی۔
”دیکھا گر گئی نا آئس کریم، پھپھو نے منع بھی کیا تھا بھاگو مت…”
انیس کی آواز پر تینوں نے پلٹ کر اس سمت دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے بچے آئس کریم تھامے بھاگ دوڑ کر رہے تھے اب وہاں سبھی بچے منہ بسورے کھڑے تھے جب کہ گھاس پر کون آئس کریم گری ہوئی تھی جو عتیقہ اور انوشہ کی تھی اور کچھ آئس کریم انوشہ کے فراک پر بھی گری ہوئی تھی۔
انوشہ بھاگتے ہوئے عتیقہ سے ٹکرائی تھی اور عتیقہ اپنا توازن برقرار نہ رکھی پائی جس کے سبب اس کی آئس کریم انوشہ کے فراک اور گھاس پر گر گئی جہاں انوشہ کی بھی بچی کچی آئس کریم گری ہوئی تھی۔
اگلے ہی پل پھر سے وہ بات ہوئی جس کی کسی کو امید بھی نہ تھی۔
منہ بسورتی روتی انوشہ دوڑ کر ان کی طرف آئی اور اپنی مما کی گود میں منہ چھپائے زار و زار رونا شروع ہوگئی۔
سبھی کا خیال تھا آئس کریم گر جانے کی وجہ سے رو رہی ہے۔
”پھپھو کی جان، پاپا آپ کو ایک اور آئس کریم دلا دیں گے، چلو شاباش رونا بند کرو…”
کنزا نے رطابہ کی گود میں چھپی انوشہ کے بالوں کو سہلاتے ہوئے اسے اپنی گود میں لینے کی کوشش کی مگر وہ آنے کے بجائے اور تیزی سے رونا سٹارٹ کرچکی تھی اور رونے کے ساتھ ساتھ اب باقاعدہ کانپ بھی رہی تھی۔
”چندا، میری گڑیا، کیا ہوا بیٹا…؟” رطابہ نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹا۔
”انو، مائے پرنسس چاچو آپ کو ایک اور آئس کریم دلائیں گے وہ بھی چاکلیٹ والی بس…” رمیز نے بھی اسے چپ کروانے کی کوشش کی۔
”مما! آپ غشا تلوگی میں نے تچھ نہیں کیا…”




Loading

Read Previous

ادھورا پن —- منیر احمد فردوس

Read Next

خواب لے لو خواب — سائرہ اقبال

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!