کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

”ہاں دوسری ٹیم کی انجوائے منٹ کے لیے کیپ اٹ اپ۔’
فری نے کیوٹکس ایک دفعہ پھر سنبھال لی تھی۔ ملازم نے کپ لا کر ٹیبل پر رکھ دئیے۔ مومی نے اپنا کپ ٹیبل پر رکھ دیا اور ان دونوں کے لیے چائے بنانے کے لیے کپ اٹھایا تھا، جب فراز نے اسے روک دیا۔
”ڈونٹ بی سو فار مل مومی! یہاں یہ سب کچھ نہیں چلتا۔ تم اپنی چائے پیو ہم اپنے خود بنالیں گے۔” اس نے کچھ جھینپ کر اپنا کپ اٹھالیا۔
”ہاں، ان لوگوں کو میزز آتے ہیں نہ ہی اب یہ سیکھنے کے قابل رہے ہیں۔ اب تو جہاں ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر انہیں ٹریٹ کرنا چاہئے۔” فری نے کیوٹکس ناخنوں پر لگاتے ہوئے کہا تھا۔
”اور تم ولید! تم ذرا اپنا حال دیکھو۔ بڑا شوق ہے تمہیں میچز کھیلنے اور کرکٹر بننے کا اور تمہیں اتنی سمجھ نہیں ہے کہ کٹ میں میچ کھیلنے جایاکرو۔ ایسے ہی چلے جاتے ہو منہ اٹھا کر۔ حلیہ دیکھو ذرا اپنا لگتا ہے باہر کسی سڑک پر جھاڑو دے کر آئے ہو۔” اب فری اسے ڈانٹ رہی تھی۔
مومی نے ایک نظر اس پر دوڑائی۔ اس کے کپڑے واقعی گرد سے اٹے ہوئے تھے۔ بالوں پر بھی اچھی خاصی دھول نظر آرہی تھی اور پسینے اور مٹی نے مل کر اس کے چہرے پر بھی ٹھیک ٹھاک میک اپ کر دیا تھا۔ فراز کا حلیہ اس سے بہت بہتر تھا۔ ولید پر فری کے تبصرے کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ اسی طرح پرسکون انداز میں چائے اور بسکٹ کھاتا رہا۔
”جس دن میرا پرائز بانڈ نکلے گا، اس دن میں کٹ خرید لوں گا۔ بہر حال مشورہ نوٹ کر لیا ہے۔”
”کٹ خریدنے کے لیے تمہیں کون سے خزانے کی ضرورت ہے۔ مہنگی نہیں تو سستی سہی، چار پانچ ہزار کی تو بات ہے ویسے تو تم۔”
ولید نے ایک چیخ کے ساتھ اس کی بات کاٹی تھی۔
”چار پانچ ہزار اور یہ چار پانچ ہزار آئیں گے کہاں سے؟ تم جانتی ہو، میں ابھی ایک ایک روپے کے لیے ترستا ہوں۔ میرے پاس چار پانچ ہزار ہوں تو میں کٹ کے بجائے ایک اچھا سوٹ نہ لے لوں۔ دو چار سستی شرٹس نہ لے لوں۔ ایک عدد جینز یا ایک اچھا ہیئر برش نہ لے لوں۔ کیسے منہ اٹھا کر کہہ دیا ہے تم نے کہ صرف چار پانچ ہزار کی تو بات ہے۔” اس کی آواز میں مومی کو خفگی محسوس ہوئی تھی مگر فری پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”معاف کرو بابا! میں بھول گئی تھی کہ دنیا میں ایک واحد غریب تم ہی تو رہ گئے ہو۔ جس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ بہر حال آنٹی ٹیرس پر کھڑی اشارے کر رہی ہیں۔ میرا خیال ہے۔ تمہیں بلا رہی ہیں۔ صبح سے غائب ہو اب ذرا جا کر وضاحتیں پیش کرو۔”
فری نے بات کرتے کرتے سامنے اشارہ کیا تھا۔ ولید نے فوراً پلٹ کر دیکھا پھر کھڑا ہو گیا مومی نے بھی مڑ کر دیکھا تھا۔ ولید کے گھر کے ٹیرس پر ایک عورت کھڑی تھی۔ ولید کو کھڑے ہوتے دیکھ کر وہ وہاں سے غائب ہو گئی تھی۔
”اب تو بھی اٹھ جا فراز اور میرے ساتھ چل کر اس رسوائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ جو مستقبل کے اسٹار بیٹسمین کو اپنی سوتیلی ماں کے ہاتھوں برداشت کرنی پڑے گی۔” اس نے فراز کو کندھے سے کھینچا تھا۔ مومی نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی وہ بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”شرم کرو ولید! تم بات کیسے کرتے ہو؟” فری نے اسے گھورا تھا مگر اس پر اثر نہیں ہوا تھا۔
”کیوں سچ نہ کہوں کیا۔ کیا رسوا نہیں کرتیں ممی جوتے مارتی ہیں سو الگ۔ اب جاتے ہی لمبے چوڑے سوال ہوں گے۔ کہاں گئے تھے؟ کس سے پوچھ کر گئے تھے؟ اتنی دیر کہاں لگائی؟ واپس آنے کی کیا ضرورت تھی؟ انہی دوستوں کے پاس کیوں نہیں رہ گیا جن کے پاس گیا تھا؟ اٹھ فراز! اب میرے ساتھ چل کر ذرا جھوٹ بھی بول، تیری ضد پر ہی صبح کھڑکی کے راستے نکل کر آیا تھا۔ اب تو ساتھ چل کر بتا کہ زندگی کے رہنما اصولوں پر کون سا سیمینار اٹینڈ کرکے آئے ہیں۔”
وہ فراز کو بازو سے کھینچتا ہوا لے گیا تھا۔ فری مسکرا رہی تھی۔ مومی انہیں جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
”ان کی امی سوتیلی ہیں؟” اس نے کچھ دیر بعد فری سے پوچھا تھا۔ وہ ایک بار پھر کیوٹیکس لگانے میں مصروف ہو چکی تھی۔
”ان کی؟ اچھا اس ولید کی۔ ہاں اس کی امی سوتیلی ہیں۔” وہ مومی کے سوال پر کچھ چونکی تھی پھر اس نے کہا تھا۔





”ڈیتھ ہو گئی ہے ان کی امی کی؟” اس نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا۔ ”نہیں بھئی ڈیتھ کہاں؟ اصل میں یہ ارمغان ماموں کی دوسری بیوی کا بیٹا ہے۔ اس کی امی کسی بنک میں منیجر تھیں۔ ارمغان ماموں کا کافی آنا جانا تھا۔ وہاں سنا ہے وہ کافی خوبصورت تھیں۔ یہ ولید بھی تو ان ہی کی طرح ہے۔ ماموں کو محبت ہو گئی تھی ان سے۔ پہلے سے شادی شدہ تھے انہوں نے دوسری شادی چھپ کر کی، شروع میں تو نبیلہ آنٹی کو پتا ہی نہیں چلا پھر بعد میں جب پتا چلا تو انہوں نے بڑا ہنگامہ کیا مگر ارمغان ماموں نے دوسری بیوی کو طلاق دینے سے انکار کر دیا۔ نبیلہ آنٹی کے تب دو بچے تھے۔ ظاہر ہے، وہ گھر چھوڑ کر تو نہیں جاسکتی تھیں۔ اس لئے بے چاری رودھو کر چپ ہو گئیں۔ تین سال تک ماموں کی دوسری شادی چلتی رہی پھر پتہ نہیں کیا وجہ ہوئی۔ لیکن ان کی دوسری بیوی نے طلاق کا مطالبہ کردیا۔ ماموں نے ان کا یہ مطالبہ پورا کر دیا۔ ولید شروع میں اپنی ماں کے پاس ہی تھا۔ ماموں ے اسے لینے کی کوشش نہیں کی پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کی امی نے دوسری شادی کر لی اور ولید کو ماموں کے پاس بھیج دیا تب تین سال کا تھا یہ۔ تب سے اب تک یہیں ہے ماموں کے پاس۔” فری آہستہ آہستہ اسے تفصیل بتاتی گئی۔
”اپنی امی کے پاس نہیں جاتے یہ؟” اسے ولید سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔
امی کے پاس کیسے جاسکتا ہے۔ وہ تو امریکہ میں ہیں۔ ان کے اپنے ہیں۔ پاکستان تو شاید وہ بہت کم ہی آتی ہیں اور انہوں نے کبھی ولید سے رابطہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کریں بھی تو ولید تو مشکل سے ہی جائے گا اور وہ اگر جانے پر تیار ہو بھی جائے تو نبیلہ آنٹی تو اسے مار ہی دیں۔ وہ تو کبھی اس کے۔”
”فری بی بی! آپ کا فون آیا ہے۔” ملازم نے آکر اسے اطلاع دی تھی۔
”میرا فون۔ اچھا بھئی میں اندر جارہی ہوں۔” وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر کیوٹکس اٹھا کر اندر چلی گئی تھی۔ وہ گم صم سی وہیں بیٹھی رہی۔
”اور اس کی سوتیلی امی اسے بخشنے پر تیار کیسے ہوں گی؟ اس کی امی کی وجہ سے ان کی ازدواجی زندگی تباہ ہوتے ہوتے رہ گئی اور ولید کو وہ اس عورت کی نشانی سمجھتی ہوں گی جس نے ان کے شوہر پر ڈورے ڈالے اور ان کا گھر تباہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس میں ولید کا کیا قصور ہے۔ وہ تو بے گناہ ہے وہ تو پہلے سے ہی مظلوم ہے۔ کیا اس کا دل نہیں چاہتا ہو گا کہ وہ اپنی امی سے ملے۔ ان کے پاس رہے مگر اس کی امی اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھتیں۔ کیا اسے اس بات سے تکلیف نہیں ہوتی ہو گی اور اس کی سوتیلی امی یہ باتیں سمجھتی ہی نہیں۔ اسے تنگ کرنے سے کیا ہو گا لوگ ماں باپ کی سزا اولاد کو دینے کی کوشش کیوں کرتے ہیں اور ولید کے ابو، وہ کیوں ان کو ایسی باتوں سے نہیں روکتے۔ نبیلہ آنٹی کا نہ سہی مگر ان کا تو وہ سگا بیٹا ہے پھر ان کو اس کی پرواہ کیوں نہیں ہے۔” وہ سوچنے لگی تھی۔
”اور مجھے لگتا تھا دنیا میں سب کچھ صرف میرے ساتھ ہی ہوا ہے باقی ساری دنیا تو بہت خوش ہے۔”
اس کی امی بھی اس کی پیدائش کے ایک سال بعد ایک حادثے میں وفات پاگئیں تھیں۔ اس کے ابو نے امی کی وفات کے آٹھ ماہ بعد دوسری شادی کر لی تھی۔ مومنہ کونانی نے اپنے پاس ہی رکھا۔ وہ اس سے بہت محبت کرتی تھیں۔ ابو نے بھی دوسری شادی کے بعد اسے لینے پر اصرار نہیں کیا۔ کیونکہ تب وہ بہت چھوٹی تھی اور ان کا خیال تھا کہ مومنہ ننھیال میں ایڈجسٹ ہو چکی ہے۔ اس لئے وہ اسے ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ نانی کے پاس ہی رہی پھر نانی کی وفات ہو گئی۔ ایک دفعہ پھر ماموؤں کے ساتھ اس کے باپ کی میٹنگ ہوئی تھی اور آخر میں طے پایا تھا کہ وہ اپنے باپ کے پاس چلی جائے کیونکہ اسے مستقل طور پر رکھنے پر کوئی تیار نہیں تھا حالانکہ مومنہ کا خیال تھا کہ اس نے کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا وہ ایک بہت بے ضرر سی مخلوق تھی۔ خاموش، فرمانبردار، تعاون کرنے والی۔ پھر بھی اس کے لئے ننھیال میں جگہ نہیں بن پائی۔
”دیکھو، تمہاری امی بہت اچھی ہیں۔ بہت پیار کرنے والی ہیں۔ تم انہیں بالکل تنگ مت کرنا۔ ان کی ہر بات ماننا پھر وہ تم سے بھی بہت پیار کریں گی۔ تم سب سے بڑی ہو۔ اس لیے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا بھی تمہاری ذمہ داری ہے۔ تم تو بہت سمجھدار ہونا۔”
اسے ابھی تک یاد تھا پہلی بار ننھیال سے اپنے گھر لے جاتے ہوئے ابو سارا رستہ اسے سمجھاتے رہے تھے کہ اسے گھر میں کس طرح رہنا ہے کس طرح بات کرنا ہے کس طرح چلنا ہے۔ دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے۔ وہ ان کی ہر بات پر سرہلاتی گئی۔ اس کے لئے یہ سب کچھ مشکل نہیں تھا۔ اس کی تربیت تو ننھیال میں نانی پہلے ہی اسے دے چکی تھیں۔ دس سال وہ ننھیال میں اسی تابعداری اور خاموشی کے ساتھ رہی تھی جس کی تلقین اس کے ابو اسے کر رہے تھے۔ گھر پہنچنے پر گاڑی سے اترنے کے بعد ابو نے اس کا ہاتھ اور بیگ پکڑ لیا تھا اور پھر اندر لے گئے تھے۔ وہاں پہلی بار اس نے اپنی ماں سے ملاقات کی تھی۔
”یہ مومنہ ہے ثمینہ! امی کو سلام کرو مومی۔” اس کے ابو نے ایک عورت سے اس کا تعارف کروایا تھا۔ اس نے گھٹی گھٹی آواز میں سلام کیا تھا۔ ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس عورت کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ اس کے سلام کا جواب دینے کے بعد اس نے مومنہ کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔
”بلال! آپ کپڑے چینج کر لیں۔ میں چائے لاتی ہوں۔”
وہ عورت پھر فوراً اس کے ابو کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔ اس کے ابو نے اس کا بیگ وہیں رکھ دیا اور پھر خود ایک دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ اس کی امی بھی ان کے پیچھے چلی گئی تھیں۔ مومنہ خاموشی سے اپنے بیگ کو پکڑ کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کی امی چند منٹ بعد دوبارہ نمودار ہوئی تھیں اور ایک نظر اس پر ڈالتے ہوئے ایک دوسرے کمرے میں غائب ہو گئی تھیں۔ مومنہ کو بعد میں پتا چلا کہ وہ چکن ہے۔ پندرہ منٹ بعد اس کے ابو دوبارہ آئے تھے۔
”آؤ تمہیں تمہارا کمرہ دکھا دوں مومنہ۔”
انہوں نے ایک بار پھر بیگ اس کے ہاتھ سے لے لیا تھا۔ پھر وہ اسے ایک کمرے میں لائے تھے جہاں پہلے ہی دو بستر لگے ہوئے تھے۔
”یہاں تمہاری بہنیں رہتی ہیں۔ تم بھی یہیں رہو گی۔ ابھی تھوڑی دیر بعد تمہاری امی تمہارا بستر بھی یہاں لگا دیں گی۔”
انہوں نے اس کا بیگ ایک کونے میں رکھتے ہوئے کہا اس رات وہ سو نہیں پائی تھی۔ اسے ہمیشہ سے نانی کے ساتھ سونے کی عادت تھی۔ نانی کی وفات کے بعد وہ اپنے بڑے ماموں کی بیٹیوں کے پاس سوتی رہی تھی اور اب یہاں وہ خود کو بالکل اکیلا محسوس کر رہی تھی۔ اس کی دونوں بہنیں اس کے پاس نہیں آرہی تھیں نہ ہی اس سے بات کرتی تھیں اور مومنہ کے لئے کسی سے خود بات کرنا تو ہمیشہ سے ہی مشکل تھا اور پھر یہ صرف اس رات پر منحصر نہیں تھا۔ اگلے بارہ سال بھی وہ اس گھر میں اسی طرح گم صم رہی تھی۔
وہ کبھی بھی اس گھر کو اپنا گھر نہیں سمجھ سکی تھی۔ وہ بار بار اپنے ننھیال جانا چاہتی تھی۔ مگر وہاں بھی چند دن رہنے کے بعد واپس آجاتی اور پھر اگلے کئی ہفتے اپنے گرد و پیش سے بے خبر رہتی۔ اس نے ابو کو اپنے رویے سے کوئی شکایت نہیں ہونے دی تھی۔ وہ وہاں بالکل ویسے ہی رہتی تھی جیسے وہ چاہتے تھے۔ فرمانبردار، خاموش اور تعاون کرنے والی لیکن جو فاصلہ اس نے پہلے ہی دن اپنے اور امی کے درمیان محسوس کیا تھا، وہ کبھی کم نہیں ہو سکا تھا۔ امی بہت ریزرو رہتی تھیں اور اس کے سامنے تو اور بھی سنجیدہ اور الگ تھلگ نظر آنے کی کوشش کرتیں۔ ان کی یہ خاموشی درمیان والی دیوار کو اور اونچا کرتی گئی تھی۔
…***…
”یار! دے دو کچھ روپے۔ تم جانتے نہیں، مجھے ان کی کتنی ضرورت ہے۔” وہ اب مبشر سے کہہ رہا تھا۔
”میں جانتا ہوں۔ بہت اچھی طرح جانتا ہوں، تمہیں کس لئے ضرورت ہے۔ اسی لئے تو نہیں دے رہا۔” مبشر ہنوز اسے نظر انداز کرنے میں مصروف تھا۔
”یار! میں واپس کر دوں گا۔” اس نے اب دوسرا حربہ استعمال کیا تھا۔
”آج تک کبھی واپس کئے ہیں؟”
”نہیں مگر اس بار ضرور کروں گا تم دیکھ لینا اگر واپس نہ کئے تو آئندہ مت دینا۔”
وہ اب التجاؤں میں مصروف تھا۔
”میں دیکھ دیکھ کر تنگ آچکا ہوں۔ اس لئے میرے پاس روپے نہیں ہیں۔ تم کوئی اور در کھٹکھٹاؤ۔”
مبشر پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ مومی نے اسے دیکھا وہ بے حد مایوس نظر آرہا تھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی وہاں آیا تھا اور آتے ہی وہ فراز سے کچھ روپے مانگنے لگا۔ مگر فراز نے صاف انکار کر دیا تھا اور اب وہ باری باری سب سے مدد طلب کر رہا تھا مگر سب اسے نظر انداز کئے ہوئے وی سی آر پر ٹرمینیٹر ٹو دیکھنے میں مصروف تھے۔
”دیکھ فراز! دے دے دو ہزار ہی کی تو بات ہے تو لے لینا۔ یار! دیکھ تجھے دوستی کا بھی احساس نہیں۔” وہ ایک بار پھر فراز سے مخاطب تھا۔
”دوستی کا احساس ہے اسی لئے تو نہیں دے رہا۔ تونے سنا نہیں کہ دوستی میں روپے پیسے کو نہیں آنا چاہئے اور ویسے بھی مہینے کے آخری دن ہیں۔ میں خود کھینچ تان کر گزارا کر رہا ہوں۔ تمہیں کیسے دے دوں تم پر ویسے بھی میرا بہت سا قرض ڈیُو ہے اگر کہو تو یاد کرواؤں۔” فراز نے اپنی جیب سے پاکٹ ڈائری نکال لی تھی۔
”رہنے دے اگر تو کچھ دے نہیں سکتا تو لینے کی بات بھی نہ کر۔” اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا تھا۔
”لے کون رہا ہے میں تو اپنا واپس مانگ رہا ہوں۔”
”فری! تم ہی دے دو کچھ۔” اس نے فراز کی بات مکمل طور پر سنی ان سنی کر دی تھی۔ اب وہ فری سے مخاطب تھا۔
”دیکھو ولید! مجھ سے مانگتے ہوئے تمہیں ویسے ہی شرم آنی چاہیے۔ میں زیادہ سے زیادہ تمہیں وہ کیک دے سکتی ہوں جو میں نے دوپہر کو بنایا تھا۔ اس کے علاوہ مجھ سے کچھ امید مت رکھو۔ تمہیں زیادہ ضرورت ہے تو نبیلہ آنٹی سے مانگو یا پھر ماموں سے کہو اب وہ ایسے بھی نہیں ہیں کہ تمہاری ضرورت پوری نہ کریں۔”
فری ایزی چیئر پر جھولتی ہوئی اس سے کہہ رہی تھی۔
”ممی سے کیسے مانگوں وہ تو پاکٹ منی بڑی مشکل سے دیتی ہیں ان کا بس چلے تو وہ اسے بھی بند کردیں اور پاپا وہ تو بات ہی نہیں سنتے اور اگر سنیں گے تو جوتا پہلے اتاریں گے۔ مدد کا بعد میں سوچیں گے اگر مجھے گھر والوں سے مدد کی توقع ہوتی تو میں تم لوگوں کے آگے ہاتھ کیوں پھیلاتا۔”
وہ اب بالکل بے بس نظر آرہا تھا۔
”تم اپنے اخراجات پر قابو کیوں نہیں پاتے۔ جتنی پاکٹ منی تمہیں ملتی ہے، وہ اچھی خاصی ہوتی ہے بلکہ چاہو تو بچا بھی سکتے ہوں۔” ثمین نے بڑی سنجیدگی سے اس سے کہا تھا۔
”تمہیں کیا پتا کہ میں کس طرح اپنے اخراجات پورے کرتا ہوں۔ یونیورسٹی کے اخراجات ہوتے ہیں اور کئی قسم کی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب میں پاکٹ منی سے ہی پوری کرتا ہوں۔”
”ہوں پاکٹ منی سے اور وہ جو تم جاب کرتے ہو، اس کے روپے کہاں جاتے ہیں؟”
اس بار ثمین کا لہجہ روکھا ہو گیا تھا۔
”وہ بھی اپنی تعلیم پر ہی خرچ کر رہا ہوں۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ فیس اور کتابوں پر کتنے روپے لگ جاتے ہیں۔ گھر بیٹھ کر باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔”
مومی اٹھ کر کمرے سے باہر آگئی تھی۔ وہ اندر ابھی تک روپے مانگنے میں مصروف تھا۔ مگر آج جیسے سب نے تہیہ کر رکھا تھا کہ اسے خالی ہاتھ ہی بھیجنا ہے۔ اس لیے کسی نے بھی سخاوت دکھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ تھک ہار کر اٹھ کھڑا ہوا۔
”کیک تو کھاتے جاؤ ولید۔” دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے فری کو کہتے سنا تھا۔
”اسے بھی اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروا دو شاید اس پر بھی تمہیں پرافٹ ملنے لگے۔” وہ خفگی سے کہتا ہوا باہر آگیا تھا۔ اپنے پیچھے اس نے فری کا قہقہہ سنا۔ وہ برآمدے کی سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ جب اس نے اپنے پیچھے ایک آواز سنی۔
”ایک منٹ ذرا رک جائیں۔” وہ چونک کر پیچھے مڑا تھا۔
”میرے پاس کچھ روپے تھے فالتو پڑے تھے۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے آپ کو ضرورت ہے آپ لے لیں۔”
مومی نے نروس ہو کر اپنا ہاتھ اس کے آگے پھیلا دیا تھا۔ وہ چند لمحے حیرانی سے اسے دیکھتا رہا۔
”تھینک یو۔ لیکن میں بہت جلد یہ رقم واپس کر دوں گا۔” اس نے روپے جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”نہیں میں واپس لینے کے لیے نہیں دے رہی ہوں مجھے ان کی ضرورت نہیں تھی۔ آئندہ بھی نہیں ہو گی آپ انہیں رکھ سکتے ہیں۔”
وہ تیزی سے اندر چلی آئی اس کا دل جیسے بلیو ں اچھل رہا تھا خوشی کا ایک عجیب سا احساس اس کے اندر بیدار ہو رہا تھا۔
”اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی، اب اسے کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑے گا۔ کسی سے کہنا بھی نہیں پڑے گا۔ پتا نہیں اسے کس چیز کے لیے روپے چاہیے تھے اور یہ سب لوگ کیو ں انکار کر رہے تھے جب وہ جانتے بھی تھے کہ وہ اپنے گھر والوں سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس کی مدد کریں گے پھر بھی وہ اس طرح کر رہے تھے۔”
وہ ایک بار پھر سوچ رہی تھی۔ لاؤنج میں سب فلم دیکھنے اور اس پر تبصرہ کرنے میں مصروف تھے۔ وہ اندر آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی چور نظروں سے اس نے سب کا جائزہ لیا کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ اس نے ایک اطمینان بھری سانس لی۔ ”اس کا مطلب ہے کسی کو شک نہیں ہوا۔” اس نے سوچا بھی تھا۔
…***…
”مومی! میں پینٹنگز کی ایک نمائش دیکھنے جارہی ہوں PC میں، چلو گی؟” فرح نے چہرے پر بلش آن لگاتے ہوئے اس سے پوچھا۔ وہ جواب دینے کے بجائے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”کیا ہوا بھئی، ایسا کیا پوچھ لیا میں نے؟” فری نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ایک لمحے کو اس کا ہاتھ رک گیا تھا۔
”میں پہلے کبھی نہیں گئی۔” وہ کچھ جھینپ گئی تھی۔
”پہلے تو تم نے اور بھی بہت کچھ نہیں کیا ہوگا۔ اب کرو گی بس تم چل رہی ہو میرے ساتھ۔ اصل میں واصف نے مدعو کیا ہے مجھے۔ وہ بھی لنچ کے بعد ادھر ہی آرہا ہے۔” اس نے مومی کو بتایا تھا۔
”میں کپڑے چینج کر لوں؟” چند منٹ سوچنے کے بعد اس نے فری سے پوچھا۔
”خدا کا خوف کیا کرو مومی! کیا ایسے کاموں کے لیے بھی اجازت لیتے ہیں بھئی ظاہر ہے۔ باہر چل رہے ہیں تو گھر کے کپڑوں میں تو نہیں جائیں گے۔ کپڑے بدل کر ہی جائیں گے اور اس کام کے لیے مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جاؤ جاکر کپڑے چینج کرو۔”
فری نے قدرے ناگواری سے کہا۔ وہ کچھ شرمندہ ہو کر اس کے کمرے سے نکل آئی۔ دس منٹ بعد جب وہ واپس فری کے کمرے میں گئی تھی تو وہ بالکل تیار کھڑی تھی۔
”اتنی لائٹ لپ اسٹک۔ اسے صاف کرو اور یہ والی لپ اسٹک لگاؤ۔”
اس نے مومی کو دیکھتے ہی حکم جاری کیا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کی ہدایات پر عمل کرنے لگی۔
”لاؤ تھوڑا سا بلش آن بھی لگا دوں۔”




Loading

Read Previous

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Read Next

آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

One Comment

  • This story just blew my mind.still i feel like i am in a dream .Humaira Ma’am you never ever failed in to leave me in emotion of aww

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!