کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

اس دن واصف کا سالگرہ تھی اور وہ ان سب کو لنچ کے لئے پی سی لے کر گیا تھا۔ ولید اور عثمان دونوں ان کے ساتھ کسی مصروفیت کی وجہ سے نہیں گئے تھے۔ واپسی پر وہ اپنے گھر آنے کے بجائے ولید کے گھر ہی چلے گئے تھے۔ نبیلہ آنٹی باہر دھوپ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ سب بھی اندر جانے کے بجائے ان کے پاس لان میں آگئے تھے۔ کافی دیر تک وہ لنچ کے بارے میں ہی باتیں کرتے رہے۔ پھر پتا نہیں فری کو کیا خیال آیا تھا۔
”وہ تمہیں میں اس دن بتا رہی تھی نا مومی کہ واصف کی اسٹڈی میں کتابوں کی اچھی کلیکشن ہے کسی دن دکھاؤں گی۔ اب دیکھنا چاہو تو جا کر دیکھ لو۔’ز فری نے اس سے کہا تھا۔
”میں کیسے جا سکتی ہوں اکیلے۔” وہ دھیمی آداز میں بولی تھی۔
”چلی جاؤ مومی! کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ سامنے والا کمرہ میرا ہے پہلے والا عثمان کا ہے اور اس سے آگے والا ولید کا۔ میرے کمرے کے ساتھ چھوٹی سی اسٹڈی ہے۔ کمرہ لاکڈ ہے نہ ہی اسٹڈی روم، تم آرام سے جاسکتی ہو۔ کوئی مشکل ہو تو اندر کسی ملازم سے پوچھ لینا۔”
واصف نے راکنگ چیئر پر جھولتے ہاتھ اٹھا کر دوسری منزل کی طرف اشارہ کیا تھا۔ وہاں کچھ کمروں کی کھڑکیاں نظر آرہی تھیں۔ وہ سب دوبارہ گفتگو میں مصروف ہو چکے تھے۔ وہ اٹھ کر اندر آگئی۔
سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر پہنچنے کے بعد اس نے اپنے سامنے کمروں کی ایک لمبی قطار دیکھی تھی۔ اس نے اندازہ لگا کر ایک دروازہ کھول لیا۔ وہ اسٹڈی روم ہی تھا اور وہاں واقعی اچھی خاصی کتابیں تھیں، مگر جس چیز نے اسے سب سے پہلے متوجہ کیا تھا وہ وہاں ٹیبل پر پڑا ہوا ایک عدد کمپیوٹر تھا۔ اس نے اسٹڈی میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا ایک نظر اس نے چاروں اطراف ڈالی تھی۔ اسٹدی کا ایک دروازہ بائیں جانب بھی تھا، شاید وہ واصف کے بیڈ روم میں کھلتا ہوگا، اس نے سوچا تھا اور پھر وہ شیلف کی طرف بڑھ گئی باری باری کتابیں نکال کر اس نے انہیں دیکھنا شروع کیا تھا۔ وہاں مختلف موضوعات پر کتابیں تھیں۔ مگر ان میں زیادہ تر کتابیں کمپیوٹر سے متعلق تھیں۔ اس نے ہر شیلف پر پڑی ہوئی کتابوں کو ترتیب سے دیکھنا شروع کیا اور پھر کچھ کتابیں اس نے نکال لی تھیں۔ کتابیں نکالے کے بعد وہ ٹیبل پر پڑے ہوئے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔ کچھ دیر تک وہ اسے دلچسپی سے دیکھتی رہی۔ کمپیوٹر آن نہیں تھا اور وہ اسے آن کرنا جانتی بھی نہیں تھی۔ نہ ہی وہ ایسا کوئی رسک لینا چاہتی تھی۔ چند لمحے وہ آف پڑے کمپیوٹر کے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتی رہی اور ان پر لکھے ہوئے نمبرز اور حروف کو پڑھتی رہی۔ پھر وہ کتابیں اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
اسٹڈی میں تقریباً ایک گھنٹہ گزار کر جب وہ نیچے آئی تو واصف اندر آرہا تھا۔ اس کے ساتھ اور کوئی نہیں تھا۔
”واصف بھائی! میں نے کچھ کتابیں لی ہیں آپ کی اسٹڈی سے۔ پڑھنے کے بعد واپس کر دوں گی۔” اس نے واصف سے کہا تھا۔
”کووی بات نہیں۔ تم جب چاہو آکر میری اسٹڈی سے کتابیں لے جاسکتی ہو بس انہیں احتیاط سے رکھنا۔ میں نے بڑی محنت سے جمع کی ہیں۔” واصف نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
وہ اسے یقین دہانی کراتے ہوئے باہر آگئی۔ نبیلہ آنٹی اب لان میں اکیلی بیٹھی ہوئی تھیں۔ شاید باقی سب واپس گھر جا چکے تھے۔ وہ کچھ دیر نبیلہ آنٹی کے پاس بیٹھی رہی پھر ان سے اجازت لے کر گھر آگئی تھی۔
چند دن کے بعد کتابیں لے کر وہ واپس اسٹڈی میں گئی تھی اور وہاں سے کچھ اور کتابیں لے کر آئی تھی پھر یہ جیسے اس کی روٹین میں شامل ہو گیا تھا وہ ہفتہ میں ایک دو بار ضرور اسٹڈی جاتی اور کچھ دیر وہاں گزارنے کے بعد کتابیں لے کر آجاتی تھی۔ واصف سے کبھی بھی دوبارہ اسٹڈی جاتے ہوئے اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ عموماً رات کے وقت اپنے باپ کے ساتھ آفس سے واپس آتا تھا اور یہی حال عثمان کا تھا۔ وہ بھی بزنس مینجمنٹ میں تعلیم کمل کرنے کے بعد اپنے باپ کے ساتھ ہی کاروبار میں شریک ہو گیا تھا۔ صرف ولید تھا جو ابھی پڑھ رہا تھا۔ واصف اور عثمان ولید کی طرح اپنی پھوپھو کے گھر زیادہ نہیں آتے تھے۔ ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ وہ ودونوں سارا دن آفس میں ہوتے تھے اور دوسری وجہ شاید یہ کہ وہ دونوں فراز اور فری سے کافی بڑے تھے۔ جبکہ ولید ان کا ہم عمر تھا۔ واصف کی نسبت فری سے طے تھی۔ جبکہ عثمان کے لئے آج کل نبیلہ آنٹی لڑکیاں دیکھنے میں مصروف تھیں۔





اس روز بھی شام کو وہ کتابیں ہی واپس کرنے کے لیے نبیلہ آنٹی کے گھر گئی تھی۔ نبیلہ آنٹی کو بتانے کے بعد وہ اوپر اسٹڈی میں آگئی تھی۔ لائٹ آن کرنے کے بعد اس نے پہلے والی کتابیں واپس اپنی جگہ پر رکھ دی تھیں اور کچھ نئی کتابیں نکال کر اسٹڈی ٹیبل پر رکھ گئی۔ تب ہی اچانک کسی نے ایک جھٹکے سے اسٹڈی کا دروازہ کھولا۔ وہ چونک کر مڑی۔ ولید اسٹڈی کے دروازے میں کھڑا حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ شاید اس وقت واصف کے بیڈ روم میں تھا اور کسی کام سے اسٹڈی میں آیا تھا۔
”مومی! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟”
”میں کتابیں لینے آئی تھی۔” وہ اسے یک دم اپنے سامنے پاکر گڑبڑا گئی تھی۔
”کتابیں لینے لیکن یہاں سے؟” وہ اب بھی حیران تھا۔
”میں نے اجازت لی ہے۔”
”کس سے اجازت لی ہے؟” اس کا لہجہ کچھ تیکھا تھا۔
”واصف بھائی سے پوچھا ہے میں نے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں جب چاہوں یہاں آسکتی ہوں۔”
اس نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”واصف بھائی سے؟ کیا بات ہے بھئی واصف کی۔ بڑے بڑے لوگ ان سے اجازت لیتے ہیں۔ مجھ غریب کو تو کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا۔ ٹھیک ہے مومی بی بی جو چاہیں کریں۔ آپ کو کھلی چھٹی ہے۔” اس کا لہجہ بے حد عجیب تھا۔
”اگر آپ کو برا لگا ہے تو میں آئندہ یہاں سے کوئی کتاب نہیں لوں گی۔ میں آپ کو تکلیف…” اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں ٹیبل پر رکھ دی تھیں۔ اب اس پر کچھ خجالت بھی طاری ہو چکی تھی۔
وہ اس کی بات سن کر دروازہ چھوڑ کر اسٹڈی کے اندر آگیا۔ ”مجھے یہ بتاؤ کہ تم اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض کیوں ہو جاتی ہو۔ اس دن وہ بیڈ منٹن کھیلتے ہوئے چلی گئی تھیں۔ اس کے بعد تم نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی جہاں میں آتا ہوں تم بھاگ جاتی ہو۔ شاید میری شکل دیکھنا ہی نہیں چاہتیں اور پھر میری بات کا غلط مطلب لے رہی ہو۔ میں نے کہا ہے کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے یا تم کتابیں لینے مت آیا کرو۔ میں نے کچھ ایسا کہا ہے؟”
وہ اس کے سامنے کھڑا سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ مومی کو اپنا چہرہ سرخ ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ ”میں ناراض تو نہیں تھی۔ میں تو بس وہ… مجھے… میں۔” وہ ہکلانے لگی۔
”تم آؤ۔ جتنی چاہے کتابیں لے سکتی ہو مجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے Do keep it in your mind. مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔” وہ بات کرتے کرتے اسٹڈی سے نکل گیا تھا۔ اس نے ایک اطمینان بھری سانس لی۔ کتابیں ٹیبل سے اٹھا کر وہ اسٹڈی سے نکل گئی تھی۔
اگلے دو ہفتے وہ اسٹڈی نہیں گئی۔ وہ دوبارہ وہاں اس کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اسی طرح تایا کے گھر آرہا تھا، لیکن اس نے بھی اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا تھا۔ ہاں اب وہ ایک بار پھر مومی سے بات کرنے لگا تھا۔ وہ بھی پہلے کی طرح اس کے آنے پر اٹھ کر وہاں سے نہیں جاتی تھی، وہ نہیں چاہتی تھی وہ پہلے کی طرح دوبارہ یہ بات پوائنٹ آؤٹ کرے۔
…***…
اس دن اس کے ابو اچانک آگئے تھے۔ امی بھی ان کے ساتھ تھیں۔ وہ بہت خوش ہوئی تھی۔ چھ ماہ کے بعد انہیں دیکھ رہی تھی۔
”آپ لوگوں کو انوائٹ کرنے آئے ہیں۔ مرینہ کی شادی ہو رہی ہے۔ چودہ تاریخ کو۔ ہم نے سوچا خود آکر آپ لوگوں کو کارڈ دے دیں اور مومنہ کو بھی لے جائیں۔ وہ بھی بہن کی شادی اٹینڈ کرلے۔” امی نے چائے پیتے ہوئے تائی کو بتایا۔ ان کا چہرہ جگمگا رہا تھا۔ اس نے ابو کو دیکھا وہ بھی مسکرا رہے تھے۔
”مرینہ کی شادی اتنی جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ابھی تو وہ اٹھارہ سال کی ہوئی ہے۔ تم لوگوں کو مومنہ کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ وہ سب سے بڑی ہے چلو روبینہ کی تو تم نے کردی مگر اب مرینہ سے پہلے تمہیں مومنہ کا خیال کرنا چاہیے تھا۔”
تائی چپ نہیں رہ سکی تھیں۔ امی کا چہرہ یک دم سپاٹ پڑ گیا۔ وہ اٹھ کر لاؤنج سے باہر اگئی۔ شام کو وہ امی اور ابو کے ساتھ واپس گجرات آگئی تھی۔ امی کا موڈ اب پھر نارمل ہو چکا تھا۔ شاید تائی نے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔ شادی ایک ہفتے کے بعد تھی اور گھر میں بہت سے کام تھے۔ اس نے امی کے بغیر کہے ہی اپنی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ شادی کی تقریبات بہت دھوم دھام سے ہو رہی تھیں اور شادی کے دوران ہی اسے پتا چلا کہ روبینہ کی شادی کے دوران ہی امی نے مرینہ کا رشتہ طے کر دیا تھا۔ ابو شاید اس بات پر تیار نہ ہوتے۔ اس لیے انہوں نے بہانے سے اسے تایا کے ہاں بھجوا دیا تھا اور اس کی عدم موجودگی میں انہوں نے ابو کو اس رشتے پر رضامند کر لیا تھا۔ شادی پر تایا، تائی بھی فری اور ثمین کے ساتھ آئے تھے اور شادی کی تقریبات ختم ہونے کے بعد انہوں نے ابو سے کہا تھا کہ وہ اب مومنہ کے لیے رشتہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں اور دونوں چھوٹی بہنوں سے پہلے اس کی شادی کریں۔
”بھائی صاحب! ابھی ہم فوری طور پر شادی کر نہیں سکتے۔ آپ کو تو پتا ہی ہے کہ اچھے رشتے کتنی مشکل سے ملتے ہیں اور پھر ابھی دونوں بیٹیوں کی شادی کی ہے، اب فوری طور پر تیسری بیٹی کی نہیں کر سکتے ظاہر ہے بہت کچھ دینا دلانا ہوتا ہے۔ ایک دو سال ٹھہر کر کریں گے تب تک کوئی اچھا رشتہ مل جائے گا اور ویسے بھی مومنہ کون سی بوڑھی ہو رہی ہے۔ ماشاء اللہ ابھی جوان ہے۔ میرا تو ارادہ یہ ہے کہ مومنہ کے ساتھ ہی غزل کی شادی بھی کر دیں۔ وہ بھی خیر سے بڑی ہو رہی ہے۔ اگلے سال اس کا قد مومنہ تک پہنچنے لگے گا۔ آپ کو تو پتا ہی ہے، ہمارے کندھوں پر کتنی ذمہ داریاں ہیں۔ بیٹیوں کی شادی کرنا کوئی آسان کام تو نہیں ہوتا۔”
امی نے ان کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔ ابو خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے رہے۔ تائی نے بات بدل دی۔
اگلے روزفری جانے کے لیے اپنا سامان پیک کر رہی تھی جب وہ اس کے پاس آئی تھی۔
”کیا میں تمہارے ساتھ نہیں جاسکتی؟” اس نے پوچھا تھا۔
فری کے ہاتھ رک گئے۔ ”تم جانا چاہتی ہو؟”
”ہاں۔”
”ٹھیک ہے چلو۔ میں پاپا سے کہہ دیتی ہوں۔” فری نے دوبارہ پیکنگ شروع کردی۔
وہ اپنے کمرے میں آکر سامان پیک کرنے لگی۔ خلاف توقع امی یا ابو نے اس کے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور پہلی بار اسے یہ بات اچھی نہیں لگی۔
”کیا ان لوگوں کو میری ضرورت ہی نہیں ہے؟ میری کمی محسوس نہیں ہوتی۔ امی کو نہیں ابو کو ہی۔” وہ مایوس ہو گئی تھی۔
…***…
اس شام وہ پھر واصف کی اسٹڈی میں آئی تھی۔ کتابیں دیکھتے دیکھتے پتا نہیں اس کے دل میں کیا آئی۔ وہ کمپیوٹر کے پاس آگئی۔ اس نے اسے آن کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔پلگ ساکٹ میں لگانے کے بعد اس نے CPU کو دیکھنا شروع کر دیا بڑی احتیاط سے اس نے پاور کا بٹن دبا دیا۔ چند لمحوں کے بعد کمپیوٹر کی تاریک اسکرین روشن ہو گئی تھی اس نے کی بورڈ پر موجود Keys کو دبانا شروع کیا اسکرین پر موجود سکرین سیور بدل نہیں رہا تھا۔ اس نے باری باری ہر Key کو دبایا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پتا نہیں کتنے منٹ وہ Keys کو بار بار دباتی رہی تھیں پھر اچانک ایک ہاتھ کی بورڈ پر آگیا تھا اس نے کچھ Keys کو پریس کیا تھا پھر پاس ورڈ فیڈ کیا۔
”لو اب کرو، کیا کرنا ہے؟” ایک پرسکون آواز اس کے عقب میں گونجی۔ پھر ہاتھ Key بورڈ سے ہٹ گیا۔ وہ بالکل ساکت تھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اسے شرمندگی ہو رہی تھی۔ اس کا جی چاہا تھا، وہ وہاں سے اٹھ کر بھاگ جائے۔
”کمپیوٹر آپریٹ کرنا آتا ہے؟” ولید نے کچھ توقف کے بعد پوچھا تھا۔
”نہیں۔” اس نے بے جان آواز میں جواب دیا۔
”میں نے اسے آن کر دیا ہے۔ تم اب Key بورڈ استعمال کر سکتی ہو۔ اب کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ جب جانا چاہو تو اسے آن ہی رہنے دینا، مجھے اس پر کچھ کام کرنا ہے۔”
وہ ایک بار پھر اسٹڈی سے غائب ہو گیا تھا۔ اس نے دروازہ بند ہونے کی آواز سن کر ایک گہرا سانس لے کر پیچھے دیکھا تھا۔ پھر دوبارہ اسکرین پر نظریں جمادیں کچھ دیر وہ بے دلی سے Key بورڈ پر ہاتھ چلاتی رہی پھر اٹھ کر اسٹڈی سے باہر آگئی۔
…***…
”جم خانہ چلو گی آج مومی میرے ساتھ؟” اس شام فری نے اس سے پوچھا تھا۔
”سب جارہے ہیں؟”
”نہیں، سب تو نہیں جارہے۔ پاپا اور ممی نے جانا تھا مگر انہیں کسی ڈنر پر جانا ہے۔ فراز کی آج نائٹ ڈیوٹی ہے۔ ثمین کا بھی کوئی ٹیسٹ ہے۔ میں اور مبشر جارہے ہیں۔ بہت بڑا فنکشن ہے وہاں، کچھ پاپ سنگرز بھی آرہے ہیں۔ تم انجوائے کرو گی۔”
فری نے اسے تفصیل بتائی وہ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد تیار ہو گئی۔
فنکشن واقعی بہت بڑا تھا۔ پورے لان میں ٹیبلز لگی ہوئی تھیں اور کوئی بھی ٹیبل خالی نظر نہیں آرہی تھے۔ زیادہ تر نوجوان تھے اور جو ادھر سے ادھر چکر لگا رہے تھ۔ فنکشن ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ اسٹیج پر آرکسٹرا ہلکی ہلکی دھنیں بجا رہا تھا۔ فری اور مبشر کو ساتھ لے کر انویٹیشن کارڈ پر درج نمبر والی ٹیبل کی طرف بڑھ گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد فنکشن شروع ہو گیا۔ ایک مشہور پاپ سنگر نے اسٹیج پر چڑھ کر گانا شروع کیا۔ لوگ ہاتھ اوپر اٹھا کر تالیاں بجا رہے تھے۔ کچھ لڑکے اسٹیج کے سامنے ڈانس کر رہے تھے۔ وہ یہ ہنگامہ دیکھنے میں مگن تھی جب اس نے اسٹیج سے کچھ فاصلے پر ایک ٹیبل پر ولید کو ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ وہ لاشعوری طور پر اسے دیکھتی رہی۔ وہ خلافِ معمول ڈنر سوٹ میں ملبوس تھا اور خوش نظر آرہا تھا۔ وہ دونوں گانا سننے کے بجائے آپس میں باتیں کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ پھر فری کی نظر بھی ولید پرپڑ گئی تھی۔
”ارے ولید بھی آیا ہوا ہے مبشر دیکھو۔” اس نے مبشر کو متوجہ کیا۔
”میں پہلے ہی دیکھ چکا ہوں میرے سامنے ہی آکر بیٹھا ہے۔” مبشر نے بے نیازی برتی۔
”یہ لڑکی کون ہے اس کے ساتھ؟”
”کوئی ایک لڑکی مستقل ہو تو بندہ اتا پتا بھی رکھے، ہر تیسرے دن کوئی نئی لڑکی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ ویسے یہ ارسہ ہے۔ آج کل اس کے بڑے گن گارہا ہے۔ پرسوں کبانہ لے کر گیا ہوا تھا۔ میری بھی اتفاقاً وہاں ملاقات ہو گئی۔ تب ہی اس نے تعارف کروایا تھا۔ یہ کلاس فیلو ہے اس کی جس ملٹی نیشنل کمپنی میں انٹرن کے طور پرکام کر رہا ہے۔ اس میں اس کا باپ بھی ڈائریکٹر ہے۔” مبشر نے پوری تفصیل بتا دی تھی۔
وہ گم صم ہو گئی تھی۔ ”ملٹی نیشنل کمپنی میں انٹرن کے طور پر کام کر رہا ہے؟” اس نے مبشر سے پوچھا تھا۔
”ہاں اصل میں یہ LUMS سے MBA کر رہا ہے۔ پچھلے سال ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے ہائر کیا تھا۔ کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ وہ بھی پارٹ ٹائم جاب کر رہا ہے وہاں بیس پچیس ہزار کما لیتا ہے۔” وہ بے یقینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
”مگر یہ تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس روپے نہیں ہوتے اور ان کے کپڑے بھی…” فری نے ایک ہلکے سے قہقہے کے ساتھ اس کی بات کاٹ دی۔
”یہ عادت ہے اس کی آٹھ دس ہزار انکل بھی اسے ہر ماہ دیتے ہیں اور اتنے ہی روپے یہ نبیلہ آنٹی سے بھی ہتھیا لیتا ہے۔ پھر بھی قرض لیے بغیر اس کا مہینہ نہیں گزرتا۔ اس کے ہاتھ میں سوراخ ہیں روپیہ اس کے پاس نہیں ٹھہر سکتا کچھ سرگرمیاں بھی اس کی ایسی ہیں لڑکیوں کے ساتھ ہوٹلنگ کرنا، تحفے تحائف دینے اب ظاہر ہے یہ سب کام روپے کے بغیر تو نہیں ہوتے اور تم کپڑوں کو کیا کہہ رہی ہو۔ یونیورسٹی جاتے ہوئے اس کا یہی حال ہوتا ہے۔ گھسی ہوئی جینز اور پرانی شرٹس۔ کبھی اسے شام کو دیکھا کرو، کس طرح بن ٹھن کر نکلتا ہے۔ بڑی اونچی چوائس ہے اس کی Versace اور ارمانی کے علاوہ اسے کوئی کپڑے پسند نہیں آتے۔ تم جا کر کبھی اس کی وارڈ روب دیکھو تو حیران ہو جاؤ۔ پورا بوتیک لگتا ہے۔ مگر پھر بھی اسے گھسے پٹے کپڑے پہن کر پھرنے کی عادت ہے۔ کوشش کرتا ہے کہ دوسروں کی چیزیں بھی اٹھا کر لے جائے۔ ایویں ہی تو ہم اسے ذلیل نہیں کرتے رہتے۔ مگر مجال ہے جو اس پر اثر ہو جائے۔ اسے پرواہ ہی نہیں ہے۔ گھر والے پابندیاں لگا لگا کر تھک گئے ہیں۔ مگر یہ ذرا نبیلہ آنٹی کا لاڈلا ہے، اس لیے اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ ماموں تو قطعاً لحاظ نہیں کرتے اس کا۔ انہوں نے لڑکیوں کے ساتھ پھرنے کی وجہ سے اس کی گاڑی واپس لے لی تھی۔ کئی دفعہ جیب خرچ بھی بند کیا ہے انہوں نے مگر اس کو تو سو طریقے آتے ہیں پیسے حاصل کرنے کے وہاں سے پیسے بند ہوتے ہیں تو نبیلہ آنٹی کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ روپے دیں۔ دس کہانیاں سناتا ہے اپنی مجبوریوں کی۔ اصل میں اسے بگاڑنے میں بھی بڑا ہاتھ نبیلہ آنٹی کا ہی ہے۔ ایک تو گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے انہوں نے بڑا لاڈ پیار کیا دوسرے انہیں یہ بھی تھا کہ وہ اپنی ماں کے پاس نہیں ہے، کہیں اسے یہ کمی محسوس نہ ہو۔ اس لیے انہوں نے اس کی ہر جائز ناجائز فرمائش پوری کی۔ اب ظاہر ہے عادتیں پکی ہو چکی ہیں۔ اب وہ پابندیاں لگانے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ قابو میں نہیں آتا ویسے بھی نبیلہ آنٹی کی تو اس میں جان ہے۔ یہی حال اس کا ہے۔ نبیلہ آنٹی پابندی لگاتی ہیں دوسری طرف سے لاڈ پیار بڑھا دیتی ہیں اسے بھی ان کی کمزوری کا پتا ہے اس لیے یہ بھی زیادہ پرواہ نہیں کرتا پابندیوں کی۔ اب ماموں سوچ رہے ہیں کہ MBA کرے تو اسے لندن بھیج دیں گے اپنی کمپنی کا آفس اسٹیبلش کرنے کے لیے اور ان کا خیال ہے اس کی کہیں انگیجمنٹ کر دیں تاکہ کچھ ذمہ داری کا احساس ہو اسے۔”
فری سوفٹ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے اسے سب کچھ بتاتی گئی۔ وہ کوئی سوال نہیں کر سکی تھی۔
”ان سے نین ملا کر دیکھو
یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو
ان سے نین ملا کے دیکھو
یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو
اسٹیج پر موجود سنگر چیخ چیخ کر گا رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر ولید کو دیکھا، وہ ابھی بھی وہیں اس لڑکی کے ساتھ موجود تھا۔ باتوں کا سلسلہ ابھی جاری تھا۔
آج کی رات بہت کالی ہے
سوچ کا دیپ جلا کے دیکھو
”مجھے چہرے پہچاننا کبھی نہیں آسکتا۔” اس نے اعتراف کیا تھا۔ اسے یاد آیا تھا جب وہ بار بار اس کے پیچھے اسٹڈی میں آتا تھا۔ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ہر چیز میں بغیر مانگے ہی مدد کرتا تھا۔
”کوئی ایک لڑکی ہو تو بندہ اتا پتا رکھے اس کے ساتھ تو ہر تیسرے دن ایک نئی لڑکی ہوتی ہ۔” اس کے کانوں میں مبشر کا جملہ گونج رہا تھا۔
”تو کیا یہ میرے ساتھ بھی…” وہ آگے کچھ نہیں سوچ سکی تھی۔
”اور میں نے اسے کیا سمجھا۔ ضرورت مند، مجبور، مظلوم۔” ولید کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھیں دھندلا گئی تھیں۔
ظاہر ہمیشہ دھوکا دیتا ہے کہیں پڑھا ہوا ایک جملہ اس کے ذہن میں گونجنے لگا تھا۔
”مومی کیا ہوا رو کیوں رہی ہو؟” فری نے اچانک اس سے کہا تھا۔
”پتا نہیں آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے۔” اس نے آنکھوں کو مسلنا شروع کیا۔
”ان سے نین ملا کے دیکھو
یہ دھوکہ بھی کھا کے دیکھو
آواز پورے لان میں گونج رہی تھی۔
”اب ٹھیک ہو تم؟”
”ہاں اب ٹھیک ہوں۔” اس نے کچھ دیر بعد آنکھوں سے ہاتھ ہٹا دئیے۔
”سوتیلا ہونا بھی بڑا عذاب ہے سوتیلے ہونے سے مرجانا بہتر ہے۔”
”مجھے صبح سے کسی نے کھانے کے لیے کچھ نہیں دیا مجھے بہت بھوک لگی ہے۔”
”میں ایک ایک روپے کے لیے ترستا ہوں۔ میرے پاس چار پانچ سو روے ہوں تو میں کٹ کے بجائے ایک سوٹ نہ لے لوں۔ دو چار سستی شرٹس نہ خرید لوں۔ ایک عدد جینز یا جاگرز کا جوڑا نہ لے لوں۔ ایک عدد اچھا ہیئر برش نہ لے لوں۔”
”تمہیں کیا پتا میں کس طرح اپنے اخراجات پورے کرتا ہوں۔ یونیورسٹی کی فیس ہوتی ہے پھر اور کئی قسم کے اخراجات ہیں۔ یہ سب میں اپنی جاب اور پاکٹ منی سے ہی پورے کرتا ہوں۔”
اس کی آنکھوں میں پھر کچھ پڑ گیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر آنکھوں کو مسلنا شروع کر دیا تھا۔
”بس میرے پاس کچھ روپے آگئے۔ میں نے سوچا کہ چلو اور کچھ نہیں تو چند نئی شرٹس اور جاگرز ہی لے لوں۔”
”تم لوگ تو میرے حالات جانتے ہی ہو۔ میں کتنی مشکل سے گزر بسر کر رہا ہوں۔ یہ جاننے کے باوجود تم لوگ میرا مذاق اڑا رہے ہو۔”
”اچھا ہے گاڑی واپس لے لی۔ میرے پاس تو پہلے بھی پیٹرول کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ مجھے سفید ہاتھی پال کر کیا کرنا ہے۔”
میوزک کا شور پہلے سے زیادہ بلند ہو گیا تھا۔
”میرے جیسے بندے کے پاس لڑکیوں کے لئے وقت کہاں ہوتا ہے اور لڑکیاں وہ بھی تو بندہ دیکھتی ہیں۔ مجھ میں ایسا ہے کیا کہ کوئی مجھ سے دوستی کرے گی۔”
”ممی کی بات چھوڑو۔ انہیں تو مجھے بدنام کرنے کے علاوہ اور کوئی کام ہے ہی نہیں۔ ہر ایک کے پاس جاکر میرے ہی قصے سناتی رہتی ہیں۔ کبھی واصف اور عثمان کا نام سنا ان کے منہ سے۔”
سنگر اب اسٹیج سے نیچے اُتر کر ٹیبلز کے درمیان چکر لگا رہا تھا۔
”میں اور مومی اچھے پارٹنر بن سکتے ہیں۔ ہم ایک جیسا برا کھیلتے ہیں۔”
”تم اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض کیوں ہوجاتی ہو۔ اس دن بھی تم وہ بیڈ منٹن والی بات پر ناراض ہو گئی تھیں۔ پھر تم نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جہاں میں آتا ہوں۔ تم بھاگ جاتی ہو شاید تم میری شکل دیکھنا ہی نہیں چاہتیں۔”
”تم جتنی کتابیں چاہو لے سکتی ہو۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔”
”اس کے ہاتھ میں سوراخ ہے روپیہ اس کے پاس نہیں ٹھہرتا۔ کچھ سرگرمیاں بھی اس کی ایسی ہیں۔ لڑکیوں کے ساتھ ہوٹلنگ کرنا، تحفے تحائف دینا اب یہ سب کام روپے کے بغیر تو نہیں ہو سکتے۔”
”تم کبھی اس کی وارڈ روب جا کر دیکھو تو حیران رہ جاؤ۔ پورا بوتیک لگتا ہے مگر پھر اس کو گھسے پٹے کپڑے پہن کر پھرنے کی عادت ہے کبھی شام کو دیکھا کرو، اسے کیسے بن ٹھن کر نکلتا ہے۔”
”ویسے بھی نبیلہ آنٹی کی جان ہے اس میں۔ یہی حال اس کا ہے اسے ان کی کمزوری کا پتا ہے۔ اس لیے پابندیوں کی پرواہ نہیں کرتا۔”
اس کے ارد گرد آوازوں کا ہجوم تھا۔ ولید اب بھی وہیں بیٹھا لڑکی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ فری اور مبشر ہاتھ اوپر اٹھا کر تالیاں بجاتے ہوئے سنگر کے ساتھ گا رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں اب بھی کچھ پڑا ہوا تھا۔ آنکھیں مسلنے سے بھی نہیں نکل رہا تھا۔ سنگر دوبارہ اسٹیج پر چڑھ کر ڈانس کرتے ہوئے گا رہا تھا۔ چاروں طرف بیٹھے ہوئے لوگوں کی تالیوں، سیٹیوں اور چیخوں کا شور بڑھتا جارہا تھا۔ وہ سب کچھ دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
رات گیارہ بجے واپسی پر لان سے اُٹھ کر پارکنگ میں لگائی گئی روشنیوں میں آنے پر فری نے غور سے اس کی آنکھوں کو دیکھا۔
”تمہاری آنکھیں تو بے تحاشا سرخ ہو رہی ہیں مومی۔ ستیاناس ہو گیا ہے تم گھر چل کر پانی سے انہیں دھو کر آئی ڈراپس ڈال لینا۔ ورنہ یہ زیادہ خراب ہو جائیں گی۔” گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس نے مومی کو مشورہ دینا شروع کا۔ ”اب تو آنکھ میں کچھ نہیں پڑا ہوا؟”
”نہیں، اب سب کچھ نکل چکا ہے۔” اس نے پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا تھا۔
…***…




Loading

Read Previous

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Read Next

آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

One Comment

  • This story just blew my mind.still i feel like i am in a dream .Humaira Ma’am you never ever failed in to leave me in emotion of aww

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!