کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

اس رات کے بعد وہ دوبارہ کبھی اسٹڈی گئی تھی نہ ولید کے گھر۔ اس نے فری وغیرہ کے پاس بیٹھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ بس اپنے کمرے میں ہی رہتی تھی۔
”میں سوچ رہی ہوں، پولیٹیکل سائنس میں پرائیویٹ طور پر ماسٹرز کر لوں۔” اس نے فری سے کہا تھا۔
”ہاں ضرور کرو۔” فری نے سرسری طور پر کہا۔ وہ کتابیں بازار سے لے آئی تھی اور انہیں لے کر وہ سارا دن اپنے کمرے میں بند رہتی۔ اس نے لان میں بیٹھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ اب ولید کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ اس سے بات کرنا نہیں چاہتی تھی اور بہت دن تک ہر بار کتاب کھولنے پر اس کے سامنے مبشر کے کہے گئے جملے آجاتے تھے۔
”لوگ کس قدر جھوٹے ہوتے ہیں۔ کتنا بڑا فراڈ کرتے ہیں۔” وہ ہر بار سوچتی تھی۔ میں نے کیوں سوچا کہ یہ بندہ قابل رحم ہے اور اسے مدد کی ضرورت ہے اور مجھے اس کی مدد کرنی چاہئے۔ میرے ذہن میں یہ خیال ہی کیوں آیا تھا۔” وہ کئی کئی گھنٹے کمرے میں بے کار بیٹھی رہتی۔
”حالانکہ وہ تو… اور پھر میں نے کیوں اس پر اتنی عنایات کیں۔ کیوں اتنی پرواہ کی۔ وہ میری ذمہ داری تو نہیں تھا۔ مجھے سمجھنے کی کوشش تو کرنی چاہئے تھی کہ سب اس کے بارے میں ایسی باتیں کیوں کہتے ہیں؟ اس طرح کیوں ٹریٹ کرتے ہیں میں اس کے جھوٹ کو کیوں پکڑ نہیں سکی۔ کیا میں اتنی، اور وہ بھی مجھے دھوکا دیتا رہا۔ میرے ساتھ… اس نے کیوں نہیں سوچا کہ مجھے دھوکا نہیں دینا چاہئے۔ وہ مجھے کیا سمجھتا تھا، احمق، بے وقوف یا اپنا شکار اور اگر یہ سب دوسروں کو پتا چل جائے تو۔” وہ خوفزدہ ہوجاتی۔
”وہ میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ کیا کہیں گے فری تو ہنسے گی۔”
”تم مومی! تم کیا اتنی احمق بھی ہو سکتی ہو۔ مجھے یقین نہیں آتا۔” اس کا خوف بڑھتا جاتا۔ ”دنیا رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ اس میں ولید جیسے لوگ ہوتے ہیں اس نے نتیجہ اخذ کیا تھا۔
…***…





چند دنوں سے اس نے فری اور ثمین کے رویے میں عجیب سی تبدیلی محسوس کی تھی۔ خدشات اس کے دل میں ابھرنے لگے تھے۔
”کہیں ان کو…” وہ خوفزدہ ہو جاتی تھی۔ اس دن رات کو فری اس کے کمرے میں چلی آئی۔
”مصروف ہو مومی؟” اس نے اندر آنے کے بعد پوچھا تھا۔ اس کتابیں سمیٹ دیں۔
”نہیں تو۔”
”اصل میں مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”
وہ بے حد سنجیدہ تھی۔ مومی کا سانس حلق میں اٹک گیا تھا۔ ”کیا تم ولید میں انٹرسٹڈ ہو؟” اسے لگا تھا جیسے اس کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی تھی۔
”نہیں” اس کے جواب پر فری کے چہرے کے تاثرات یک دم بدل گئے تھے۔ اب اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔
”ہاں میرا بھی یہی خیال تھا۔ میں بھی سوچ رہی تھی کم از کم مومی اتنی احمق تو نہیں ہو سکتی۔” وہ اب بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ ”اصل میں کچھ دن پہلے نبیلہ آنٹی نے ممی سے بات کی تھی تمہارے رشتے کے بارے میں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ولید کو تم پسند ہو اور وہ شادی کرنا چاہتا ہے مگر میں نے نبیلہ آنٹی سے کہا کہ تم ولید سے شادی کرنا نہیں چاہتیں اور وہ ایک نمبر کا فلرٹ ہے۔ ہم کیسے تمہیں ایسے غیر ذمہ دار آدمی کے پلے باندھ سکتے ہیں۔ کل کو تمہیں کوئی پریشانی ہو تو چچا ہمیں ہی الزام دیں گے۔ ممی نے تو صاف انکار کر دیا کہ تم ولید کو پسند نہیں کرتیں تو شادی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے مگر ولید دو تین دن سے بار بار آرہا ہے۔ کہتا ہے، وہ خود تم سے بات کرنا چاہتا ہے مگر میں نے اس سے کہہ دیا ہے کہ تم اس سے کوئی بات کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ میں نے اس سے کہا ہے کہ پہلے اپنی حرکات ٹھیک کرے پھر کسی لڑکی کے لیے پرپوزل لے کر جائے۔ میں نے اس سے کہا ہے کہ مومی تو تمہیں اوّل نمبر کا لفنگا سمجھتی ہے، وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اس پر نظر رکھو گے۔ بڑی باتیں کی ہیں میں نے اس سے مومی۔ مگر وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے یقین نہیں آرہا کہ مومی مجھے ناپسند کرتی ہے اور یہ سب کچھ اس نے کہا ہے۔ تب مجھے شبہ ہوا کہ شاید تم اس میں انٹرسٹڈ تھیں اور اسی لئے اس نے پرپوزل بھجوایا ہے مگر اب مجھے تسلی ہو گئی ہے۔ میں نے ٹھیک کہا نا؟” وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
”ہاں ٹھیک کہا میں اس میں انٹرسٹڈ نہیں تھی۔” وہ غائب دماغی کے عالم میں کہہ رہی تھی۔
فری کچھ دیر مزید بیٹھی باتیں کرتی رہی تھی پھر اٹھ کر کمرے سے چلی گئی اس نے کمرہ بند کرکے لائٹ آف کر دی تھی۔ پتا نہیں کب تک وہ چپ چاپ بیڈ پر بیٹھی رہی تھی۔
اگلے دن اس نے ابو کو فون کیا۔ ”میں واپس آنا چاہتی ہوں۔”
”مگر ابھی کیوں؟ میں تو چاہ رہا تھا کہ تم کچھ اور…”
”میں اب یہاں رہنا نہیں چاہتی۔ واپس آنا چاہتی ہوں۔” اس نے زندگی میں پہلی بار اپنے ابو کی بات کاٹی۔
تیسرے دن اس کے ابو آکر اسے واپس لے آئے تھے۔ گھر ویسا ہی تھا اور وہاں کے لوگ بھی ریزرو، بجھے بجھے، سنجیدہ۔ تھکن کے اس پرانے احساس نے ایک بار پھر اسے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
”میں دوبارہ کبھی وہاں نہیں جاؤں گی۔ کبھی بھی نہیں۔” اس نے گھر آکر اپنے آپ سے پہلا وعدہ کیا تھا۔
…***…
اسے یاد آرہا تھا۔ یہاں سے جانے کے بعد کئی ہفتے تک وہ گم صم رہی تھی۔ کام کرتے کرتے اسے بہت سی چیزیں بھول جاتی تھیں۔ بات کرتے کرتے اسے پتا نہیں کیا کیا یاد آنے لگتا تھا۔ کئی ماہ تک وہ رات کو ڈراؤنے خواب دیکھتی رہی تھی۔ ایک ہی آواز، ایک ہی چہرہ، ایک ہی وجود اسے ہر وقت اپنے ارد گرد چلتا پھرتا نظر آتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ وہ ان الوژنز سے باہر آنے لگی تھی۔ وہ ہر بار یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتی تھی۔ وہ اچھا انسان نہیں تھا۔ وہ دوسروں کی طرح مجھے بھی پھانسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ورنہ وہ بار بار اس طرح اسٹڈی میں…
اور اب اسے پتا چلا تھا کہ وہ خود اس کی اسٹڈی میں جاتی رہی تھی۔ اسے یاد آیا تھا وہ پہلی بار اسے وہاں دیکھ کر حیران ہو گیا تھا۔ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس نے اپنے ماتھے سے پسینہ خشک کیا۔ سارے پردے آہستہ آہستہ اٹھتے جارہے تھے اور فری… اس نے کیا کیا۔ اس نے ثمین کا راستہ صاف کیا۔ اس نے میری طرف سے خود ہی انکار کر دیا اور اس نے میرے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ مجھے اس کی بات نہیں سننا چاہئے کیونکہ وہ فراڈ ہے۔ اسے ڈر ہو گا کہ اگر ولید نے مجھ سے بات کی تو پھر…”
اس کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ ہر ایک اپنے راستے سے مجھے کتنی صفائی سے ہٹا دیتا ہے۔ چاہے وہ امی ہوں یا پھر ابو یا پھر فری اور ثمین اور میں… میرا وجود کیا اس قدر… وہ گھر سے باہر نکل آئی تھی۔
وہ اب وہاں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ گھر کے سامنے والے لان میں صرف چند آدمی تھے۔ باقی سب عقبی لان میں تھے۔ اسٹیریوز پوری آواز سے انگلش نمبرز بجا رہے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل آئی۔
”کاش دنیا میں میرے علاوہ کوئی اور نہ ہوتا۔ کم از کم اس وقت تو۔”
اس نے گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے سوچا تھا۔ باہر کی سڑک ویران تھی اور وہاں گاڑیاں کھڑی تھیں اور اس خاموشی میں وہ فل والیم پر بجنے والے انگلش نمبر کو باآسانی سن سکتی تھی۔
اس نے چلتے ہوئے اپنے چہرے پر چند قطرے گرتے محسوس کئے۔ اس نے دھیرے سے سر اٹھا کر دیکھا۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ اسٹریٹ لائٹس سڑک پر گرنے والے قطروں کو بہت واضح کرکے دکھا رہی تھیں۔ اس نے ایک بار پھر سر جھکا لیا۔
”میں پچھلے ڈیڑھ سال سے یہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں نے آپ کے ساتھ کب کوئی ایسی حرکت کی تھی کہ آپ میرے بارے میں اتنی خراب رائے رکھنے پر مجبور ہو گئیں۔”
اس نے اپنے پیچھے چاپ سنی اور پھر کسی کو کہتے سنا۔ الوژن ایک بار پھر اس کے ساتھ چلنے لگا تھا۔
اس نے اسے دیکھنے کی کوشش نہیں کی وہ اب اس کے برابر چل رہا تھا وہ بھی اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔ سڑک پر اس کے ساتھ چلتے ہوئے وہ یوں بول رہا تھا جیسے خود کلامی کر رہا ہو۔
”میرا خیال ہے، میں نے اس ایک سال میں جو آپ نے یہاں گزارا تھا ہمیشہ آپ کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔ تحفظ دینے کی کوشش کی تھی پھر بھی آپ کے لیے میں ایک فلرٹ، آوارہ اور لفنگا انسان ہوں۔” بارش کے قطرے تیز ہونے لگے تھے۔
”یہ ٹھیک ہے کہ لڑکیوں کے ساتھ میری دوستی ہوتی تھی۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ میری کچھ باتوں کی وجہ سے آپ غلط فہمی کا شکار ہو گئی تھیں جیسے آپ نے یہ سوچ لیا کہ میں اپنی ماں کے ظلم و ستم سے عاجز ہوں اور میرے پاس روپے نہیں ہیں مگر یہ آپ کی غلطی تھی۔ میری نہیں۔ آپ نے سب کے سامنے مذاق میں کہی جانے والی باتوں کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لیا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ مجھ پر ترس کھانے لگی ہیں یا میری باتوں پر اعتبار کرنے لگی ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب آپ نے مجھے روپے دئیے اور پھر بعد میں ہر ماہ مجھے میری ضرورت کی چیزیں بھجوانے لگیں۔ میں ہر ماہ وہ پیکٹ دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ مجھے کون اس طرح شرٹس اور دوسری چیزیں بھجوا رہا ہے پھر مجھے آپ پر شک ہوا تھا اور میرا یہ شک ٹھیک تھا۔”
اس کے گالوں پر اب گرم قطرے بھی گرنے لگے تھے۔ اسٹیریو پر گونجتی آواز اس کے کانوں میں آرہی تھی۔
Smile an everlasting A smile can bring you near to me.
Don’t ever let me find you gone cos that would bring a tear to me.
اسے یاد آیا۔ وہ پہلے اسے ہمیشہ تم کہہ کر مخاطب کرتا تھا اور آج وہ اسے آپ کہہ رہا تھا۔
”میں آپ کو منع کرنا چاہتا تھا۔ بتانا چاہتا تھا آپ کی غلط فہمی کے بارے میں مگر میں اتنی ہمت نہیں کرسکا۔ میں آپ کو شرمندہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر میرا خیال تھا، آپ سب کچھ جان گئی ہیں۔ جب اسٹڈی میں آیا کرتی تھیں تو میرا خیال تھا کہ آپ میرے بارے میں اچھے جذبات رکھتی ہیں۔ اس لئے وہاں آتی ہیں۔ آج یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔ آپ تو واصف کی اسٹڈی سمجھ کر وہاں آیا کرتی تھیں۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ کو میری کون سی بات بری لگی تھی جس سے آپ نے میرا ایسا خاکہ بنا لیا کہ میں پچھلے ڈیڑھ سال سے فری کی باتوں کو بھول نہیں پایا۔”
”میں نے فری سے کچھ نہیں کہا تھا، کچھ بھی نہیں۔” وہ ایک لمحے کو ٹھٹھک کر رکا۔ ”پھر فری نے کیوں؟” وہ بڑبڑایا۔
”مرد کو محبت نہیں کرنی چاہئے، وہ محبت افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔ یہ بندے کو رسوا کرکے رکھ دیتی ہے۔ کم از کم مجھے نہیں کرنی چاہئے تھی اچھا بھلا زندگی گزار رہا تھا اور پھر بس۔”
وہ اسے اس طرح بتا رہا تھا جیسے کسی تیسرے کے بارے میں بتا رہا ہو۔
”ہاں محبت نہیں کرنی چاہئے۔” اس نے دل میں اعتراف کیا تھا۔
”پچھلے ڈیڑھ سال سے میں خود کو یہی سمجھا رہا ہوں کہ محبت بے کار چیز ہے۔ کیا ہے اگر نہیں ملتی کیا دنیا ختم ہو گئی ہے۔ دفع کرو زندگی کو نئے سرے سے شروع کرو۔ دنیا میں بس وہی تو نہیں تھی۔”
”ہاں پچھلے ڈیڑھ سال سے میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔” گالوں پر گرنے والے گرم قطروں کی تعداد میں اب اضافہ ہو گیا تھا۔ اسٹیریو پر آواز ابھی بھی گونج رہی تھی۔
This world has lost its glory
Let’s start a brand new story
Now my love
”اور پرسوں یہاں آنے کے بعد آج تمہیں دیکھا اور بس۔ سب کچھ دھواں بن کر اڑ گیا۔ مجھے پتا چل گیا تھا تم بھی شادی اٹینڈ کرنے آئی ہو مگر میں کوشش کے باوجود تمہیں دیکھ نہیں پایا۔ پھر جب سب مہندی لے کر آرہے تھے تو میں وہاں کھڑا ہو گیا۔ میرا خیال تھا تم اب تو نظر آؤ گی مگر تم نظر نہیں آئیں۔ میں نے ایک ایک چہرے کو دیکھا تھا۔ تم اندر کیسے چلی گئی تھیں۔؟”
”لان سے گزر کر۔” اس نے گہرا سانس لیا۔
”ہاں مجھے اس کا خیال آیا تھا اور میں وہاں گیا تھا مگر تم نظر نہیں آئیں میرا دل چاہا تھا میں کہیں بھاگ جاؤں پھر میں نے تمہیں ہال میں دیکھا تھا ثمین کے پاس۔ مجھے لگا تھا کسی نے مجھے زندگی بخش دی ہے اور پھر میں نے تمہیں وہاں اپنے کمرے میں دیکھا اور میرا دل چاہا تھا جنید مر جائے وہ یہاں کیوں کھڑا تھا۔ میں تم سے بات کرنا چاہتا تھا اور میں بات نہیں کرسکتا تھا۔ تم نے کبھی الوژنر دیکھے ہیں مومی؟ میں ڈیڑھ سال سے الوژنز کے حصار میں ہوں اور ابھی جو یہاں تمہارے ساتھ چل رہا ہوں تو مجھے لگتا ہے میں پھر کسی الوژن کے ساتھ چل رہا ہوں۔”
You think that I don’t even mean
A single word I say
It’s only words And words are all I have
To take your heart away
اسٹیریو کی آواز اب دور ہو چکی تھی مگر وہ اب بھی لفظوں کو سن سکتی تھی۔ وہ رک گئی۔ بارش تیز ہو چکی تھی۔ وہ دونوں بری طرح بھیگ چکے تھے۔
”ثمین؟” اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
”وہ سمجھ جائے گی ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جو کسی دوسرے سے محبت کرتا ہو۔ وہ جانتی ہے، میں کس سے محبت کرتا ہوں۔ پہلے تو شاید میں اس سے شادی کر لیتا مگر اب نہیں۔ سب کچھ جاننے کے بعد نہیں۔”
اس نے مڑ کر گیٹ کی طرف دیکھا تھا پھر اس نے گیٹ کی طرف قدم بڑھا دیا۔
”میں نے طوطوں کے پنجرے کی جالی بدلوا دی تھی۔ اب اگر تم انہیں دیکھو میرا مطلب ہے روز تو وہ تمہاری انگلی کو کاٹ نہیں سکیں گے۔”
اس نے مڑ کر ولید کو دیکھا۔
Talk in ever lasting words
And dedicate them all to me
And I will give you all my life
I’m here if you should call to me
اسٹیریو پر بجنے والا نمبر ختم ہو گیا۔ چاروں طرف عجیب سا سناٹا پھیل گیا۔ بارش کے قطرے گرنے کی آواز اس خاموشی کو توڑ رہی تھی۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی، پھر ولید نے اسے مسکراتے دیکھا تھا۔ وہ ایک قدم چل کر اس کے پاس آئی تھی۔ پاس آکر اس نے اپنی بند مٹھی اس کے سامنے کرکے کھول دی۔ چیونگم کی ایک اسٹک ریپر سمیت ٹیڑھی میڑھی حالت میں اس کی مٹھی میں دبی ہوئی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ لہرائی۔ اس نے چیونگم اٹھالی۔ مومی نے اسے کہتے سنا۔
”یہ دنیا کی سب سے قیمتی چیونگم ہے۔” وہ تیزی سے گیٹ کھول کر اندر آگئی تھی۔ وہ وہیں باہر کھڑا چاروں طرف پھیلی ہوئی خاموشی اور بارش کے قطروں کی آواز کو محسوس کرتا رہا۔
اس نے کلائی سے رسٹ واچ اتار کر وقت دیکھا تھا۔ نو بج کر سینتیں منٹ ہوئے تھے۔ اس نے گھڑی کو اسی وقت پر روک دیا۔ ٹشو نکال کر اس نے چیونگم اور گھڑی دونوں کو اس میں لپیٹ کر جیب میں رکھ لیا۔ ایک گہری سانس لے کر دونوں ہاتھوں سے گیلے بالوں کو ماتھے سے پیچھے ہٹاتے ہوئے اس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا تھا۔ وہاں مکمل تاریکی تھی۔ بارش کے قطرے اس کے چہرے پر گرنے لگے۔ اس نے مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کرلی تھیں۔
”میرے علاوہ کسی کو آج یہ آسمان روشن نظر نہیں آرہا ہوگا۔” اس نے واپس جاتے ہوئے سوچا۔
”ہاں یا پھر…” اس کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہو گئی تھی۔
…***…




Loading

Read Previous

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Read Next

آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

One Comment

  • This story just blew my mind.still i feel like i am in a dream .Humaira Ma’am you never ever failed in to leave me in emotion of aww

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!