ڈھال — نازیہ خان

وضو کرتے کرتے وہ سوچنے لگا کہ ماہرہ کیسے ہر روز فجر کے وقت اُسے جگایا کرتی تھی اور وہ کمبل منہ پر ڈالتے ہوئے سو جاتا۔
اُس نے پھر سے اپنے آپ کو چونکایا اور تہجد کی نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔
نماز سے فارغ ہوتے ہی وہ ہچکیاں لیتے ہوئے رونے لگا کہ امام صاحب نے اُسے مڑ کر دیکھا۔
وہ ایک روشن چہرے والے بزرگ تھے، اُن کے سفید چمکتے ہوئے کپڑے اور سفید ڈاڑھی اُن کے چہرے کے نور میں مزید اضافہ کیے ہوئے تھی۔
’’کوئی پریشانی ہے بیٹا؟‘‘ بزرگ نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’وہ میری بیوی ہے، میں اُس سے بہت محبت کرتا ہوں، اُس کے علاوہ میں کسی اور کا تصور بھی نہیں کرسکتا، میں نے تو دنیا اور آخرت دونوں میں صرف اُس کا ہی ساتھ مانگا تھا۔ اُس کے وجود کی معصومیت اور فرشتہ سیرت کے آگے، تو میں جنت کی حوروں کو بھی چھوڑ دوں۔‘‘ گہری سوچ میں گم اُس نے ساری بات بتا ڈالی۔
’’خدا نے تجھے آزمانا تھا آزما لیا۔ میاں بیوی کا رشتہ بہت خوب صورت رشتہ ہے۔ ہمارے نبیؐ بھی اپنی بیویوں سے بہت محبت کرتے تھے۔‘‘ وہ بزرگ مُسکرایا۔
وہ حیرانگی سے اُن کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
’’تیری بیوی پر کالا جادو ہوا ہے، شیطان کے شکنجے میں ہے وہ۔‘‘ بزرگ نے تسبیح چلاتے ہوئے بتایا۔
’’نہیں… میں ان چیزوں کو نہیں مانتا۔‘‘ وہ غصے سے بولا۔
’’تیرے ماننے یا نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ خدا نے اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے شیطان کو بہت طاقت دے رکھی ہے۔ ارے نادان جادو تو اُس کے محبوبؐ پر بھی چل گیا تھا، تو بھلا ہم کیا چیز ہیں۔‘‘ وہ حیرانگی سے بزرگ کو دیکھنے لگا۔
’’تو اب میں کیا کروں؟ کیسے بچاؤں اُسے؟‘‘ اُس نے روتے ہوئے پوچھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’خدا نے جتنی طاقت شیطان کو دے رکھی ہے اُس سے کہیں زیادہ اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے نوازا ہے، اُس رحمت کو اُس نے قرآن کی صورت میں ہم پر اُتارا ہے۔‘‘ بزرگ نے تسلی سے اُسے بتایا۔
’’آپ چلیں نا میرے ساتھ، بچا لیں اُسے۔‘‘ وہ بے دھڑک بول پڑا۔
’’نہیں یہ کام تجھے کرنا ہوگا۔ آزمائش تو تیری ہے۔‘‘ بزرگ مُسکرائے۔
’’میں؟ میں بہت گناہ گار انسان ہو باباجی۔ نہ جانے کتنے سالوں بعد اس مسجد کا رُخ کیا ہے میں نے۔‘‘
وہ مایوسی سے بول پڑا۔
’’نہیں! کوئی وجہ ہے جو اُس نے تجھے ہی آزمائش میں ڈالا اور پھر ثابت قدم رہنے کی توفیق بھی دی۔‘‘ وہ بزرگ پھر سے مُسکرائے۔
شاہ میر حیرانگی سے اُن کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
’’تُو مانگ لے معافی، کر لے سچی توبہ، بن جا اُس کا نیک بندہ۔‘‘ وہ پھر سے مُسکرائے اور چلے گئے۔
شاہ میر ہکا بکا اپنے ارد گرد دیکھ رہا تھا۔ ہاتھ اُٹھا کر آج اُس نے دل کھول کر پورے بھروسے سے دعا مانگی اور توبہ کی۔ دیوار سے ٹیک لگاکر نہ جانے کب وہ گہری نیند سو گیا۔
فجر کے وقت بدک کر اُٹھا، نماز ادا کی اور گھر آگیا، ماہرہ ابھی تک بے ہوش پڑی تھی۔ اُسے ہلاتے ہوئے اُس نے جگایا اور اُسے اُس کی ماں کے گھر لے گیا۔
’’آنٹی میرے گھر والے اب مزید ماہرہ کو برداشت نہیں کرسکتے، مگر میں اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا، آپ تو اُس کی ماں ہیں آپ تو اُس کا ساتھ دیں گی نا؟‘‘ اُس نے مایوسی سے درخواست کی۔
’’ماہرہ میری اکلوتی اولاد ہے اور مجھے ساری دنیا سے بڑھ کر ہے، جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی، تم دونوں یہاں رہ لو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘
٭…٭…٭
ماہرہ کی ماں عبادت گزار عورت تھی۔ وہ شاہ میر کے جانے کے بعد ماہرہ کے لیے پانی دم کرکے اُسے پلانے کے لیے اٹھی۔ اُس نے گلاس پکڑا اور باورچی خانے کا نل کھولا اُس میں سے پانی کی جگہ خون نکلنے لگا۔ وہ ڈر کر باہر نکلی، باہر کا نل کھولا، پھر غسل خانے کا نل کھولا ہر نل سے خون بہ رہا تھا۔
وہ اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھنے لگی۔ اپنے گھر کی چاروں دیواروں پر پھونکنے لگی، اُس نے فوراً قرآن پاک کھولا، چار قُل اور آیت الکرسی پڑھ کر پورے گھر پر پھونکا کہ ماہرہ چکرائی اور بے ہوش ہوگئی۔
اُس کی ماں ڈر چکی تھی، مگر وہ اللہ پاک کو یکتا مان کر اُس وقت تک تلاوت کرتی رہی جب تک شاہ میر اُس بزرگ کو گھر نہیں لے آیا جو اُسے تہجد کے وقت ملے تھے۔
دروازہ کھٹکا، ماں بھاگتی ہوئی دروازے کی طرف لپکی اور دروازہ کھول کر شاہ میر اور بابا جی کو پوری بات بتائی۔
’’کوئی بات نہیں۔ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ ساری تو چھیڑ خانیاں ہیں۔‘‘ بزرگ نے اطمینان سے کہا۔
’’شاہ میر بیٹا بس ایک کام کرو جب تک میں کمرے میں تلاوتِ قرآن کروں گا تم دروازے پر کھڑے ہو کر چاقو ہلاتے رہنا اور بی بی آپ اپنی بیٹی کے پاس بیٹھو گی، مگر ڈرنا نہیں۔ اپنے رب پر بھروسا رکھو۔‘‘ اُس نے سمجھایا۔
جب تک وہ بزرگ آیات پڑھ پڑھ کر ماہرہ پر پھونک رہے تھے، شاہ میر دروازے پر چاقو لہرا رہا تھا۔ کئی بار چاقو پر خون کے قطرے گرے، شاہ میر گھبرایا، مگر پھر بھی رب پر بھروسا کرتے ہوئے وہ وہیں کھڑا رہا۔
تلاوت قرآن سنتے سنتے ماہرہ تڑپ تڑپ کر چارپائی سے اُٹھ رہی تھی۔ اُس کی بے چینی بتا رہی تھی کہ وہ کس قدر تکلیف میں ہے، اُس کا پورا جسم پسینے سے شرابور ہوچکا تھا۔
ماں بہت بڑا دل کرکے بیٹی کو تھامے بیٹھی تھی۔
بزرگ نے ایک نظر بھی ماہرہ کو نہیں دیکھا، بس اپنے دھیان کلمات پڑھتے اور آنکھیں بند کیے چاروں طرف پھونک دیتے۔
ایک گھنٹا کلمات پڑھنے کے بعد انہوں نے ماہرہ کی ماں اور شاہ میر کو بھی کچھ وظیفے بتا دیے۔
’’اس لڑکی کو اکیلے نہیں چھوڑنا، جو آیات بتائی ہیں وہ کثرت سے پڑھتے رہیں۔ بہت کچھ ظاہر ہوگا، مگر ڈرنا نہیں۔‘‘
ماہرہ کے کپڑے یا بال جن پر جادو کروایا گیا ہے یا کوئی پُتلا، ہڈیاں سب کچھ ظاہر ہوگا، مگر آپ دونوں کو ثابت قدم رہنا پڑے گا۔‘‘ اُس بزرگ نے آہستہ سے کہا۔ ماہرہ کی ماں اور شاہ میر دونوں پانچ وقت نماز پڑھتے اور آیات پڑھ کر ماہرہ کو پانی پلاتے اور اُس پر پھونکتے۔ چالیس دن تک وہ بزرگ ماہرہ کے لیے مختلف وظائف لے کر آتے رہے۔
پورے چالیس دن یہ سلسلہ جاری رہا اور ماہرہ ٹھیک ہونے لگی، شاہ میر اور ماں کو پہچاننے لگی اور صاف ستھری رہنے لگی۔
آخری دن کے وظیفے کے بعد بزرگ نے ماہرہ کو بھی کچھ آیات اور وظائف بتائے کہ وہ خود پڑھے تاکہ ہر نحوست ختم ہو جائے اور شیطان کا سایہ بھی ماہرہ کے قریب سے نہ گزرے۔
شاہ میر اُس بزرگ ہستی کا بہت شکر گزار تھا۔
ماہرہ کے ٹھیک ہونے کے بعد وہ مسجد میں نذرانے کے طور پر کچھ رقم لے کر بابا جی سے ملنے گیا کہ وہاں موجود امام نے اُسے بتایا کہ ’’وہ تو کل شام سے یہاں سے جاچکے ہیں۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘ شاہ میر نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’پتا نہیں۔ انہوں نے تو یہی بتایا تھا کہ اب ان کا کام یہاں ختم ہوچکا ہے، اب کسی اور کو ان کی ضرورت ہے۔‘‘
شاہ میر سُن کر حیران ہوا۔
وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ بزرگ تو صرف ماہرہ کی جان بچانے اور مجھے راہِ راست پر لانے کے لیے یہاں آئے تھے، واقعی ان کا کام تو ختم ہوچکا ہے۔
وہ خوب جان چکا تھا کہ جو لوگ ماہرہ کی طرح نیک ہوتے ہیں، اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں، اس کے بندوں کی مدد کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر کسی کا بُرا نہیں چاہتے، ان کی مدد اللہ غیبی طریقوں سے کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کی نیکیاں اُن کی زندگی میں آنے والی مصیبتوں کے آگے بھی ڈھال بن جاتی ہیں۔
ماہرہ کو خدا نے شیطانی نحوستوں سے نکال کر نئی زندگی عطا کی اور شاہ میر کو دنیا اور آخرت دونوں کی۔ ماہرہ کی بھابی ثنا نے بھی سچے دل سے توبہ کرلی کہ اللہ کے ولی نے اُن کا پردہ فاش نہیں کیا ورنہ وہ ساری عمر شاہ میر کا سامنا نہ کر پاتی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!