ڈھال — نازیہ خان

ماں تعویذ لیتے ہی بیٹی کے گھر چلی گئی اور کمرے میں جا کر اُسے ساری بات سمجھانے لگی۔
دروازے پر کان لگائے ثنا سب کچھ سُن رہی تھی۔
’’ارے یہ بُڑھیا تو سارا کام خراب کر دے گی۔‘‘ وہ ہاتھ ملتے ہوئے بڑبڑائی۔
ماہرہ کی ماں کے جانے کے بعد ثنا نے چپکے سے نظر بچا کر سارے تعویذ اُٹھا کر پانی میں بہا دیے۔
ماہرہ تعویذ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی، مگر اُسے تعویذ نہ ملے۔ شاہ میر جو جانور صدقے کے لیے لے کر آیا، وہ پہلی رات ہی مر گیا۔
٭…٭…٭
فون کی گھنٹی بجی۔ ماہرہ نے فون اُٹھایا۔
’’کیسی ہو بٹیا؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
’’امی آپ یقین کریں، نماز پڑھنے کو میرا بالکل دل نہیں کرتا، ایسے لگتا ہے اُٹھنے کی طاقت نہیں رہی۔‘‘
ماں سُن کر پھر سے پریشان ہوئی۔
’’تعویذ تو دھیان سے پی رہی ہو؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
’’جی۔‘‘ اُس نے جھجکتے ہوئے جھوٹ بولا۔
’’نماز بھی پڑھو بٹیا۔‘‘ ماں نے نصیحت کی۔
’’جی اچھا۔‘‘ وہ مایوسی سے بولی۔
٭…٭…٭
اب روزانہ رات کو ماہرہ کو سوتے ہوئے صرف ایک ہی خواب آتا۔ وہ خواب میں کُھدی ہوئی قبر دیکھتی اور بدک کر اُٹھ جاتی۔ اسی طرح دو مہینے گزر گئے اور ماہرہ کی حالت عجیب سے عجیب تر ہوتی جارہی تھی۔ وہ شاہ میر سے دور رہنے لگی اور اس کی شکل دیکھتے ہی وہ غصے میں آجاتی۔
ہر وقت اس کا جسم بخار سے تپنے لگا۔ شاہ میر زبردستی اُسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا، مگر ہر ڈاکٹر یہی کہتا کہ ماہرہ بالکل ٹھیک ہے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ دفتر سے آنے کے بعد ایک کپ چائے پی کر کمرے میں بچھے صوفے پر آنکھیں بند کیے لیٹ گئی۔ شاہ میر کھانا کھا کر کمرے میں آیا، تو ماہرہ نے آنکھیں کھول کر اُسے ایک بار دیکھا۔ وہ جان چکا تھا کہ ماہرہ ابھی تک جاگ رہی ہے۔ وہ اپنی کلائی گھڑی اُتارتے اُتارتے دوسری طرف مڑا کہ اُس کے ہاتھ سے گھڑی گری اور ٹوٹ گئی۔ وہ فرش سے گھڑی کے پُرزے اُٹھا رہا تھا کہ ماہرہ کھانستے کھانستے اٹھ بیٹھی، اُس کی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا اور وہ بار بار اپنے گلے کو ملتے ملتے کھانسنے لگی۔ وہ بھاگ کر اُس کے پاس آیا۔
’’کیا ہوا ماہرہ؟ کیا ہوا؟‘‘ وہ پانی کا گلاس بھر لایا۔
’’ابھی وہ میرا گلا دبا کر مار دیتا اور تم اسی طرح کھڑے رہتے۔‘‘ وہ روتے روتے چلائی۔
’’کون مار دیتا؟‘‘ اُس نے حیرانگی سے پوچھا اور ماتھے پر بل ڈالے۔
’’کتنی آوازیں دیں میں نے اور تم…‘‘ اُس کی آنکھوں میں خون اُتر چکا تھا اور آواز کا بھاری پن اُس کے وجود کو خوف زدہ بنا رہا تھا۔
’’یہ تم مجھ سے کس طرح بات کررہی ہو؟‘‘ شاہ میر نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’کس طرح بات کررہی ہوں۔‘‘ وہ ایک خوف ناک اور بھاری آواز کے ساتھ بولی اور شاہ میر کا کالر پکڑلیا۔
’’ماہرہ۔‘‘ اُس کے ہاتھ اپنے کالر سے ہٹاتے ہوئے وہ چلّایا۔ ماہرہ بدکی اور حیرانگی سے شاہ میر کو دیکھنے لگی، اپنے چکراتے سر کو اُس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور رونے لگی۔
شاہ میر غصے سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
شام کے وقت وہ اُداس سا صحن میں بیٹھا تھا کہ ماہرہ اُس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’مجھے معاف کردو شاہ میر۔ مجھے نہیں پتا میں نے یہ سب کیوں کیا۔ میرا مزاج تو کبھی ایسا نہ تھا، پتا نہیں آج کل اتنا غصہ کیوں آرہا ہے۔‘‘ وہ آہستہ سے بولتی رہی۔
’’بس تم ایک کام کرو ماہرہ، تم یہ ملازمت چھوڑ دو، ایسے کیسے چلے گا؟ یہ سب اُسی کا نتیجہ ہے۔‘‘
’’نہیں شاہ میر، یہ سب ملازمت کی وجہ سے نہیں ہے۔‘‘ وہ حیرانگی سے بولی۔
’’تم ملازمت بھی کرو گی، گھر کو بھی دیکھو گی، پاگل ہو جاؤ گی۔ پھر یہی سب ہو گا نا، بس میں نے کہہ دیا ہے تم ملازمت نہیں کرو گی۔‘‘ وہ غصے میں تھا۔
’’ملازمت میں شادی سے پہلے بھی کرتی تھی، پڑھتی بھی تھی، گھر بھی سنبھالتی تھی۔ یہ کوئی بڑی بات تو نہیں میرے لیے۔‘‘ اُس نے بھی غصہ دکھایا۔
’’پوری زندگی انسان ایک جیسا تو نہیں رہتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے۔‘‘ اُس نے غصے سے گھورتے ہوئے کہا اور کھڑا ہوگیا۔
’’میری ملازمت میرے لیے بہت ضروری تھی، میری جیت تھی جس نے میری زندگی بھر کی غربت کو ختم کردیا۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب صرف ملازمت کی وجہ سے ہورہا ہے، تو میں چھوڑ دیتی ہوں۔‘‘ اس نے مایوسی سے کہا اور پھر شاہ میر کا ہاتھ تھام لیا۔
’’میں جانتا ہوں یہ ملازمت تمہارے لیے کیا معنی رکھتی ہے، مگر میں تمہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ اس نے گہری سانس لی۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مُسکرائے۔ کئی دنوں سے یہ مسکراہٹ کہیں غائب ہوچکی تھی اور ہر دن اُن دونوں کو مایوسیوں کے گہرے سمندر میں دھکیل رہا تھا۔
٭…٭…٭
ماہرہ کی کام والی شائستہ کئی دنوں سے گھر نہیں آئی تھی۔ وہ کچھ دن پہلے ماہرہ سے پیسے لے کر اپنے میاں کی بیماری کا بتا کر گئی تھی۔
ماہرہ نے گھر بیٹھے بیٹھے سوچا کہ اُسے شائستہ کے میاں کا پتا کرنے اُس کے گھر جانا چاہیے، اپنی ساس سے اجازت لے کر وہ اُس کے گھر چلی گئی۔
٭…٭…٭
دروازہ کھٹکا۔
’’آئی آئی۔‘‘ شائستہ ہاتھ صاف کرتے ہوئے دروازہ کھولنے کے لیے بھاگی۔
’’ارے ماہرہ بی بی آپ۔‘‘ وہ دیکھ کر خوشی سے کھل اُٹھی اور چارپائی جھاڑ کر ماہرہ بی بی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’شائستہ تم آئی نہیں تو سوچا میں خود ہی تم سے مل آؤں۔‘‘ وہ آہستہ سے بولی۔
’’ماہرہ بی بی آپ تو خود آج کل بیمار ہیں، آپ نے خواہ مخواہ تکلیف کی۔‘‘ شائستہ پھر سے بولی۔
’’نہیں کوئی بات نہیں۔ تمہیں پیسوں کی ضرورت تو نہیں۔‘‘ ماہرہ نے پوچھا۔
’’شائستہ… شائستہ۔‘‘ کمرے سے اُس کے بوڑھے باپ نے چیخ چیخ کر آوازیں دیں۔
’’ایک منٹ ماہرہ بی بی میں ابھی آئی۔‘‘ وہ شرمندگی سے بھاگتی ہوئی کمرے میں گئی۔
’’کون ہے باہر؟‘‘ وہ بوڑھا گھبرا کر بولا۔
’’ابا کیا ہوگیا ہے تجھے، اس طرح چیخ کیوں رہا ہے۔ روبینہ باجی کی بیٹی ماہرہ بی بی آئی ہے۔‘‘ اُس نے آہستہ سے بتایا۔
’’رُک جا، بیٹھ جا یہاں۔ باہر نہیں جانا۔‘‘ اُس نے غصے سے کہا۔
’’مگر کیوں ابا؟ وہ بے چاری اکیلی بیٹھی ہے باہر۔‘‘ وہ تنک کر بولی۔
بوڑھا تسبیح ہاتھ میں پکڑے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکلااور ماہرہ کو بہ غور دیکھا۔
اُسی لمحے زوردار ہوا کا جھونکا آیا۔ دو، چار پتیلیاں باورچی خانے کی کارنس سے گریں، بوڑھا ایک دم کانپا اور تسبیح تیز تیز پڑھنے لگا۔
ماہرہ کا دل گھبرانے لگا، اُسے ایسے لگا جیسے اُس کی سانس بند ہورہی ہے۔ وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی اور اپنی گاڑی کے پاس کھڑی ہوکر گہرے گہرے سانس لینے لگی اور پھر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ وہ بار بار اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے گاڑی چلا رہی تھی۔
کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد اس کی گاڑی کسی چیز سے ٹکرائی اور وہ ہوش و حواس کھو بیٹھی۔
راہ گیروں نے اُسے اسپتال پہنچایا، اُس کے جسم پر کوئی گہری چوٹ تو نہ تھی البتہ گاڑی کو کافی نقصان پہنچا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!