ڈھال — نازیہ خان

ماہرہ کی بڑھتی ہوئی سستی دیکھ کر گھر والے بھی حیران ہورہے تھے، وہ خود بھی اسی سوچ میں گم رہتی کہ اس طرح کئی دن گزر گئے۔
٭…٭…٭
وہ صبح نہا کر نکلا اور ماہرہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
’’تم ابھی تک بستر پر ہو؟ آفس نہیں جانا کیا؟‘‘ اُس نے غصے سے دیکھا۔
’’ماہرہ میں تم سے بات کررہا ہوں۔‘‘ وہ اُس کے سامنے بیٹھ کر ٹائی باندھنے لگا۔
وہ بدکی اور مایوسی سے اُس نے اپنی آنکھیں مٹکائیں، وہ تقریباً آدھے گھنٹے سے اسی طرح اپنے بستر میں بیڈ سے ٹھیک لگا کر بیٹھی تھی۔
’’کیا ہوا ؟ سب ٹھیک تو ہے؟‘‘ شاہ میر نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’کیا ایک ہی خواب بار بار آسکتا ہے؟‘‘ اُس نے آہستہ سے پوچھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ پھر سے حیران ہوا۔
’’شاہ میر… پتا نہیں تم یقین کرو گے یا نہیں۔‘‘ وہ ہچکچائی۔
’’ایک بچی جو میرے خواب میں آتی ہے اور مجھے دیکھ کر مُسکراتی ہے جیسے مجھ سے میری بہت ہی قیمتی چیز لے کر جارہی ہو اور طنز کر رہی ہو مجھ پر… وہ دکھنے میں بہت خوب صورت ہے، مگر مجھے اُس کا وجود بہت خوف زدہ کرتا ہے۔ میں اُسے دیکھتے ہی تمہیں پکارنے لگتی ہوں، اماں جان کو پکارتی ہوں، روتی ہوں، چلاتی ہوں، مگر کوئی میری آواز نہیں سنتا حالاں کہ شاہ میر تم میرے پاس بیٹھے تھے اور ماما بھی… پھر بھی۔‘‘ اُس نے اُداسی سے آنسوؤں بھری نگاہیں شاہ میر پر ڈالیں۔
’’کیا ہوگیا ہے ماہرہ… یہ ایک خواب ہے۔‘‘ اُس نے حیرانگی سے اُس کی طرف دیکھا۔
’’یہ خواب کئی دنوں سے مجھے آرہا ہے۔ ایک ہی خواب بار بار کیسے آسکتا ہے شاہ میر؟‘‘ وہ گہری سوچ میں گم تھی۔
’’چھوڑو ماہرہ، تمہیں محض ان خوابوں کو اپنے سر پر اس طرح سوار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ وہ طنزیہ مُسکرایا۔
’’تم بار بار اس کے بارے میں سوچ رہی ہوگی بس اس لیے یہ خواب تمہیں روز آتے ہیں۔‘‘ اُس نے پھر سے طنز کی اور اپنا فون ڈھونڈنے لگا۔
’’اب چھوڑو ان خوابوں کو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ۔‘‘ وہ تیزی سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا۔
وہ مایوسی سے اپنے ارد گرد دیکھنے لگی۔ اپنے گھٹنوں پر سر رکھتے ہوئے اُس نے دو آنسو گرائے۔
’’شاہ میر ٹھیک کہہ رہا ہے، میں نے فضول ان خوابوں کو اپنے سر پر سوار کر رکھا ہے۔‘‘ اُس نے آنسو صاف کیے اور بستر سے اُٹھ گئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ایک رات جب وہ دونوں گہری نیند سو رہے تھے، ماہرہ نے عجیب عجیب سرگوشیاں سنیں، جیسے بہت سے لوگ لڑ رہے ہیں۔ وہ گھبرا کر اُٹھی مگر وہ حیران تھی کہ اتنے شور کے باوجود شاہ میر آرام سے سو رہا تھا۔
وہ بے چینی سے بار بار اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ رہی تھی کہ اُس کے دروازے کی دستک ہوئی۔
’’اس وقت کون ہوگا۔ شاہ میر… شاہ میر۔‘‘ وہ ڈرتے ڈرتے کانپتی آواز کے ساتھ بول رہی تھی۔
شاہ میر کو دروازے کی دستک بھی سنائی نہیں دے رہی تھی، وہ گہری نیند میں تھا۔
جب تیسری بار دستک ہوئی، ماہرہ نے دروازہ کھولنے کے لیے پاؤں بیڈ سے اتارے ہی تھے کہ دروازے کا ہینڈل خود سے مڑا اور دروازہ کھل گیا۔
ماہرہ نے محسوس کیا کہ جیسے کمرے میں کوئی داخل ہوا ہے، وہ زور دار آواز سے چیخی، مگر اُس کے گلے سے آواز نہ نکلی۔
وہ کانپ رہی تھی اور پورا جسم پسینے سے شرابور تھا، اُس نے زور دار طریقے سے شاہ میر کو ہلایا۔ وہ اٹھا۔
’’کیا ہوا؟ کیا ہوا ماہرہ؟‘‘
’’یہاں کوئی ہے؟‘‘ وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔
اُس نے ماہرہ کو گلے لگا کر تسلی دی، وہ پریشان تھا کہ یہ روز روز ماہرہ کو کیا ہورہا ہے اور ماہرہ کے پاس الفاظ تک نہ ہوتے کہ وہ یہ سب کھل کر کسی کو بتا پاتی۔
٭…٭…٭
دن بھر وہ پریشان رہی کہ یہ اُس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ آفس سے رخصت لے کر وہ اپنی ماں کے گھر چلی گئی۔ ماں کے گلے لگ کر وہ خوب روئی اور اُس نے سب کچھ اپنی ماں کو بتایا۔
’’ارے ماہرہ بیٹا تم رو کیوں رہی ہو، کبھی کبھی ہم اپنے سائے سے ہی ڈر جاتے ہیں۔‘‘ ماں نے تسلی دی۔
’’نہیں امی! ایسا بار بار کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ وہ زار و قطار روتے ہوئے بولی۔
’’ضرور تمہیں کسی کی نظر لگ گئی ہوگی۔ ہماری پچھلی گلی میں ایک عورت ہے وہ بہت اچھا دم کرتی ہے، میں تمہیں وہاں لے کر جاتی ہوں۔‘‘ ماں نے اُسے چپ کروایا۔
دونوں ماں بیٹیاں اُس اللہ والی کے گھر چلی گئیں۔ ایک لڑکی نے دروازہ کھولا اور انہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کو کہا۔
’’اماں جی نماز پڑھ رہی ہیں، تو آپ تھوڑا انتظار کریں۔‘‘ وہ دونوں ماں بیٹی وہاں اُس اللہ والی کا انتظار کرنے لگیں۔
جب وہ نماز ختم کرنے کے بعد ڈرائنگ روم میں آنے لگی، ابھی اُس نے ایک قدم کمرے کی طرف بڑھایا ہوگا کہ وہ بُری طرح نیچے گری۔
ماہرہ اور اس کی ماں بھاگ کر اُسے اٹھانے کے لیے لپکیں کہ اُس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
’’چھوڑ دے مجھے تو بس اپنی بیٹی کو یہاں سے لے جا۔‘‘
ماہرہ اور اس کی ماں بہت حیران ہوئیں اور پھر مایوسی سے گھر لوٹ آئیں۔
ماہرہ نے تو اس بات کو اتنا دل پر نہیں لیا۔ اُس نے سوچا پانی کی وجہ سے پیر پھسل گیا ہو گا، مگر اُس کی ماں سوچ میں پڑ گئی کہ اُس عورت نے گرنے کے بعد ماہرہ کو لے جانے کے لیے کیوں کہا؟
’’ماہرہ شاہ میر سے کہو کہ صدقے کے بکرے دے۔‘‘ ماں نے بیٹی کو نصیحت کی۔
’’جی اماں، میں کہہ دوں گی۔‘‘ اُس نے مایوسی سے جواب دیا اور گھر آگئی۔
دو دن بعد اسی اللہ والی نے ماہرہ کی ماں کو اپنے گھر بُلایا۔
’’تیری بیٹی کسی کے شکنجے میں ہے۔‘‘ اُس نے سرگوشی کی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ ماں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’مطلب چھوڑ، یہ تعویذ پلا دے اُسے، صدقہ کر جتنا کرسکتی ہے اور اُسے کہہ کہ نماز نہ چھوڑے۔‘‘
’’ہاں میں کہتی ہوں اُسے۔‘‘ ماں نے آنسو بھری آنکھوں سے دیکھا۔
’’اور سُن، اسے کہہ ہر وقت کوئی نہ کوئی جانور اپنے گھر ضرور رکھے، جیسے بکرا، مرغی یا کوئی پرندہ، اس طرح جب بھی اُس کی جان خطرے میں ہوگی، جانور اُس کی تکلیف کو اپنے سر لے لے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میری بیٹی ٹھیک تو ہو جائے گی؟‘‘ ماں نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ پھر سے دیکھا۔
’’ان شا اللہ! بس رب پر بھروسا رکھو۔‘‘
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!