’’ابا… ابا۔‘‘ شائستہ آوازیں سن کر کمرے سے بھاگی آئی، تب تک ماہرہ بی بی جاچکی تھی۔
’’اس لڑکی پر کوئی سفلی عمل ہے، شیطانیت اسے گھیرے ہوئے ہے۔‘‘ وہ گھبرا کر بولا۔
’’مگر ابا تجھے کیسے پتا چلا۔‘‘ اُس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’میں تو اپنی چارپائی پر سو رہا تھا کہ کسی نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا، میں نے اچانک آنکھیں کھولیں، تو وہ کسی انسان کا ہاتھ نہیں تھا۔ وہ کوئی بہت ہی بھاری ہاتھ تھا اور بالوں سے بھرا ہوا۔ جب میں اُٹھا، تو کالی بلیوں کا ہجوم یہاں سے باہر نکلا۔‘‘
’’مگر ابا ہوسکتا ہے تیرا وہم ہو، مجھے تو ایسا کچھ نہیں لگا۔‘ ‘ وہ کانپتے ہوئے بولی۔
’’کُڑیے تجھے نہیں پتا، یہ جنات انہی لوگوں کو چھیڑتے ہیں جو ان سے چھڑ جائیں، یہ کسی عامل اور دم کرنے والے کو ہی تنگ کرتے ہیں۔‘‘
’’تو ابا تُو نے بی بی پر دَم کیوں نہیں کیا؟‘‘ وہ پھر سے بولی۔
’’میرے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ گھبرا کر بولا۔
’’میں ابھی روبینہ باجی کے گھر جاتا ہوں اور اُسے بتاتا ہوں کہ اُس کی بیٹی پر سفلی عمل ہوا ہے۔‘‘ وہ اپنی تسبیح اور پگڑی تھامے گھر سے نکلا۔
٭…٭…٭
شاہ میر اور اُس کے گھر والے فوراً ماہرہ کے پاس اسپتال پہنچے، سب لوگ ماہرہ سے پوچھ رہے تھے کہ یہ حادثہ کیسے ہوا؟
’’شاہ میر میرے آس پاس کوئی ٹریفک نہیں تھی، سڑک تو تقریباً خالی تھی۔ پتا نہیں میری گاڑی کس چیز سے ٹکرائی اور یہ سب…‘‘ وہ مایوسی سے بولتی رہی۔
اُس نے آج پھر شاہ میر کو حیران کردیا۔
شاہ میر نے اُس کی روز بہ روز کی عجیب سے عجیب باتیں سُن سُن کر اُسے ماہرِ نفسیات کو دکھانے کا فیصلہ کیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’بہ ظاہر تو ماہرہ بالکل ٹھیک نظر آئی مگر کوئی خوف ہے شاید یا ڈر گئی ہے جس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے ماہرہ سے بات چیت کرنے کے بعد شاہ میر کو بتایا۔
وہ بڑے غور سے ڈاکٹر کی بات سُن رہا تھا۔
’’ایک کام کرو شاہ میر۔‘‘ اُس نے پھر سے کہا۔
’’جی جی بتائیے ڈاکٹر صاحب۔‘‘ وہ تیزی سے بولا۔
’’اب ماہرہ تمہیں کچھ بھی بتائے تو تم اس کی ہاں میں ہاں ملاؤ گے۔ شاید اس طرح وہ اس اُلجھن سے نکل آئے اور باقی میں نے کچھ ادویہ لکھ دی ہیں، وہ باقاعدگی سے کھلاؤ۔ ان شا اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
’’ان شا اللہ۔‘‘ وہ مُسکرایا۔
٭…٭…٭
ماہرہ روز بہ روز مایوس ہوتی جارہی تھی۔ وہ اکثر خواب میں کھدی ہوئی قبر دیکھتی۔ ہر رات وہ کسی کے چلنے کی آہٹ سنتی۔ اُس آہٹ کو سنتے سنتے وہ ایک رات اُس کے پیچھے چل پڑی تھی کہ اچانک اُس نے ایک بھیانک جانور کی دہاڑ سنی۔ وہ کانپ کر واپس کمرے کی طرف بھاگی ، تو وہاں کالے لباس میں ملبوس دو چار سائے اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرے۔
ایک بڑی چمگادڑ اُس کے کان کو چُھوتے ہوئے اُڑی، دیوار پر چڑھی مکڑی کا جسم خاصا بڑا ہوگیا تھا۔ ماہرہ کا بدن پسینے سے شرابور تھا، مگر وہ تجسس سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ اب وہ چمگادڑ کے پیچھے چلنے لگی جو جسامت میں کافی بڑی تھی۔ صحن میں جا کر وہ چمگادڑ غائب ہوگئی اور ماہرہ نے وہاں کالا پتلا پڑا دیکھا جو چھوٹی چھوٹی سوئیوں سے بھرا ہوا تھا۔
ماہرہ نے اسے اٹھایا اور پھر دُور پھینکتے ہوئے روتے روتے کمرے کی طرف بھاگی۔
’’کیا ہوا ماہرہ؟‘‘ شاہ میر نے اُسے تھاما۔
’’یہاں کوئی ہے، یہاں کوئی ہے شاہ میر۔ میں جھوٹ نہیں بول رہی، میرا یقین کرو۔‘‘
وہ کالے لباس والا آدمی، چمگادڑ، کالا پتلا۔‘‘ وہ کانپتے کانپتے اسے بتا رہی تھی، پھر رونے لگی۔
’’ہاں ماہرہ میں نے بھی دیکھا ہے وہ آدمی، وہ پُتلا۔‘‘ اُس نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اُس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
ماہرہ حیرانگی سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
’’کیا تم نے بھی دیکھا ہے؟ دیکھا شاہ میر میں جھوٹ نہیں بولتی تھی نا۔ میں سچ کہتی تھی، یہاں کچھ ہے۔‘‘ وہ روتے روتے بولتی رہی۔
شاہ میر مایوسی سے اُس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
ماہرہ کے جسم میں ابھی بھی کپکپاہٹ تھی اور اس کی آنکھیں رو رو کر لال ہوچکی تھیں۔
’’مجھے امی کے پاس جانا ہے شاہ میر۔ مجھے وہاں لے چلو۔‘‘ وہ روتے ہوئے اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
اُس کی چیخیں سن کر باقی گھر والے بھی جاگ اُٹھے۔
’’مجھے تو لگتا ہے ماما، یہ لڑکی پاگل ہوگئی ہے۔‘‘ ثنا نے بے زاری سے اپنی ساس کے کانوں میں بات ڈالی۔
’’چپ کرو ثنا۔ شاہ میر نے سن لیا، تو ناراض ہوگا۔‘‘ اُس نے گھورتے ہوئے کہا۔
ثنا اور واصف ناک منہ چڑھاتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں جا کر سو گئے۔
’’شاہ میر کچھ دن ماہرہ کو اس کے گھر چھوڑ آوؑ بیٹا۔ اپنی ماں کے پاس رہے گی، تو کچھ بہتر ہو جائے گی۔‘‘ اس کی ماں نے مشورہ دیا۔
’’صبح چھوڑ آؤں گا۔‘‘ وہ مایوسی سے منہ لٹکائے ہوئے بولا۔
’’حوصلہ رکھو بیٹا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ماں نے دلاسا دیا۔
اُس نے پوری رات ماہرہ کے پاس بیٹھے بیٹھے گزار دی۔
صبح ہوتے ہی شاہ میر اُسے اس کی ماں کی طرف لے گیا۔
’’ماہرہ تم یہاں رہو، میں شام کو دفتر سے آتے ہوئے تمہیں لے جاؤں گا اور ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔‘‘ وہ اُسے دیکھ کر مُسکرایا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ماہرہ نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
ماں اُن دونوں کی گفت گو سُن رہی تھی۔
شاہ میر کے جانے کے بعد وہ بڑے پیار سے بیٹی کو دیکھتی رہی، وہ تو جانتی تھی کہ یہ کس مصیبت میں ہے۔
’’ماہرہ کیا تم نے صدقہ نہیں دیا؟‘‘ ماں نے آہستہ سے بات شروع کی۔
’’صدقے کا جانور گھر میں قدم رکھتے ہی مر جاتا ہے اماں۔‘‘ وہ مایوسی سے بولی۔
’’اور وہ تعویذ؟‘‘ ماں نے پھر سے پوچھا۔
’’اماں میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا، وہ تعویذ تو آپ کے جانے کے بعد مجھے ملے ہی نہیں، پتا نہیں کہاں رکھ دیے تھے میں نے؟‘‘ وہ مایوسی سے ماں کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
’’کیا؟ ماہرہ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘ ماں نے غصے سے اُسے دیکھا۔
وہ ماں کے گھٹنوں میں سر رکھ کر رونے لگی۔
’’ماہرہ، ماہرہ۔‘‘ ماں نے اُس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
’’اچھا تم مجھے بتاؤ، کیا ہوتا ہے تمہیں۔ میں تو تمہاری ماں ہوں نا؟‘‘ اُس نے پیار سے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’اماں ہر چیز میں کوئی آہٹ ہے، کوئی خوف زدہ آہٹ، جیسے میری سانس لینے کی آواز بھی گڑگڑا کر گلے سے نکلتی ہو۔جسم میں اتنی تکان ہوتی ہے اماں کہ میں بتا نہیں سکتی اور ڈاکٹر کہتا ہے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ رات کا اندھیرا چھاتے ہی میرا دل خوف سے بھر جاتا ہے، ایسے لگتا ہے یہ اندھیرا میری زندگی کی ساری روشنیاں ختم کردے گا۔ ہر رات مجھے آخری رات لگتی ہے، پوری پوری رات قبر کی گہرائی میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے اور میں بدک بدک کر اُٹھتی ہوں، صرف یہ سوچ کر کہ میں اپنے بیڈ پر نہیں بلکہ اُس چارپائی پر ہوں جو ابھی چار لوگ اپنے کندھوں پر اُٹھائیں گے اور مجھے قبر میں اُتار آئیں گے اور شاہ میر سے نفرت ہو گئی ہے مجھے۔ اماں مجھے لگتا ہے یہ سب کچھ وہ کررہا ہے، تماشا بنا رہا ہے میرا۔ اُس کی آہٹ سنتے ہی میرادل اور دماغ غصے سے پھٹنے لگتا ہے۔ میں کیا کروں اماں؟ کیا کروں؟‘‘ وہ خوب روئی۔ ماں ہکا بکا بیٹی کی دُکھ بھری داستان سُن کر سکتے میں آچکی تھی۔
’’خدا بہتر کرے گا۔‘‘ مایوسی کے باوجود اُس کے چہرے پر ٹکٹکی لگائے ہوئے ماں نے پیار سے اُس کے سر پر پھر سے ہاتھ پھیرا۔
ماہرہ کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔ رو رو کر وہ اپنی بے بسی کا اظہار کررہی تھی۔
اُس نے روتے روتے ماں کے گھٹنوں پر سر رکھ کر پھر سے آنکھیں بند کیں، آنسوؤں کے دو، چار قطرے پھر سے گرے۔
وہ گہری سوچ میں گُم تھی کہ نظر بیٹی کی آنکھوں کے گرد ہلکوں اور پیلی رنگت پر پڑی۔
ماں نے روتے روتے ہونٹ دانتوں میں دبائے، وہ بے بس جان چکی تھی کہ ماجرہ کیا ہے، یہی تو سب باتیں تھیں جو اُس اللہ والی عورت نے اور شائستہ کے باپ نے اُس کی ماں کو بتائی تھیں۔
’’تیرے اوپر کسی نے کالا جادو کروایا ہے۔‘‘ وہ منہ میں بلبلائی اور رونے لگی۔
تب تک ماہرہ ماں کی گود میں سر رکھ کر سوچکی تھی، کئی دنوں بعد اُسے راحت کی نیند آئی تھی۔
٭…٭…٭
ماہرہ کا وجود روز بہ روز خوف زدہ اور رنگت سیاہ ہورہی تھی۔ وہ پوری پوری رات جاگتی، بالکل خاموش ایک کونے میں پڑی رہتی۔ ایسے لگتا جیسے کسی نے زنجیروں سے اُسے جکڑ رکھا ہے اور اُس کے حلق سے آواز چھین لی ہے، شاہ میر اور اُس کے گھر والے اُس کی یہ حالت دیکھ کر بہت پریشان ہورہے تھے۔ اُس کے گندے اُلجھے بال، آنسوؤں سے بھری آنکھیں اور سوکھے ہوئے ہونٹ شاہ میر کو بہت پریشان کیے ہوئے تھے۔
وہ جب بھی ماہرہ کے پاس جاتا، وہ اُس سے ڈرنے لگتی یا چیختے ہوئے وہاں سے بھاگ جاتی۔
٭…٭…٭
’’شاہ میر بیٹا، مجھے کسی نے بتایا ہے کہ ماہرہ پر کسی نے کالا جادو کروایا ہے۔‘‘ ماں نے روتے روتے اپنی بیٹی کا حال اُسے بتایا۔
’’پلیز آنٹی! میں ان باتوں کو نہیں مانتا۔ آپ فکر نہ کریں میں اُسے بہت اچھے ماہرِ نفسیات کو دکھا رہا ہوں۔‘‘
’’یہ چیزیں اُس پر کام نہیں کریں گی۔‘‘ ماں نے مایوسی سے کہا۔
’’تو آپ نے یہ سب بتانے کے لیے مجھے بُلایا تھا۔‘‘ اس نے غصے سے کہا۔
’’ہاں بیٹا! مجھے لگا ایک تم ہی ہو جو میری بات سمجھ سکو گے۔‘‘
’’آنٹی آپ فکر نہ کریں وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘ وہ غصے سے اُٹھا اور اپنے گھر واپس آگیا۔
وہ ماہرہ کے پاس گیا جو دیوار سے ٹیک لگا کر سر اپنے گھٹنوں پر رکھے رو رہی تھی۔ جب وہ اُس کے پاس آیا، وہ آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے اُسے دیکھتی رہی، ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنا سارا درد شاہ میرکو بتانا چاہ رہی تھی۔ اُس نے پیار سے اُسے دیکھتے دیکھتے اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، اس کی آنکھوں سے اب بھی شاہ میر کے لیے محبت صاف جھلک رہی تھی کہ اچانک وہ بے ہوش ہوگئی۔
روز بہ روز اُس کی بگڑتی حالت دیکھ کر ثنا نے کہنا شروع کردیا کہ ماہرہ پاگل ہوچکی ہے اور اُسے مزید اس گھر میں نہیں رکھنا چاہیے۔
ثنا کے ساتھ ساتھ اب باقی گھر والے بھی ماہرہ کو پاگل تصور کرنے لگے، لیکن شاہ میر کے ڈر سے کوئی بھی اُس کے بارے میں ایک لفظ نہ بولتا۔
٭…٭…٭
رات کا اندھیرا چھاتے ہی ماہرہ اپنے حواس پوری طرح کھو بیٹھتی۔
ننگے پاؤں، بکھرے بالوں کے ساتھ وہ ہر رات گھر سے نکل جاتی۔ وہ ساکت اکڑے جسم کے ساتھ بغیر آنکھیں جھپکائے اُس کالی بلی کے پیچھے چلتے چلتے ہر رات قبرستان پہنچ جاتی۔
اسی طرح کئی راتیں ہوتا رہا کہ ایک رات شاہ میر اُٹھا اور ماہرہ کو ڈھونڈنے لگا، اُس نے اُسے کمرے اور باتھ روم میں نا پایا، تو وہ گھبرا کربالکونی میں گیا، وہ وہاں بھی موجود نہ تھی۔ اچانک اُس کی نظر گھر کے سامنے روڈ پر پڑی جہاں ماہرہ بغیر جوتا پہنے اور دوپٹا لیے گھر کی طرف واپس آرہی تھی۔
شاہ میر اُسے اس طرح دیکھ کر چونک گیا۔ وہ واپس بھاگ کر کمرے میں جوتا پہننے کے لیے آیا تاکہ ماہرہ کے پاس جا سکے۔ اُس کی نظر اچانک بیڈ پر پڑی، جہاں ماہرہ پہلے سے سو رہی تھی، وہ اُسے اچانک یہاں دیکھ کر پھر سے چونکا، وہ اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کررہا تھا۔
’’ماہرہ۔‘‘ یہ اچانک یہاں کیسے آئی؟‘‘ وہ گھبرا کر بولا۔
’’تو وہ کون تھی؟‘‘ اس نے ماتھے پر بل ڈالے۔
وہ بھاگ کر گیٹ پر بیٹھے خان بابا کے پاس گیا۔
’’خان بابا! کیا آپ نے کسی کو یہاں سے آتے یا جاتے دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں شاہ میر بابو، ہم تو ساری رات یہیں پر بیٹھا تھا، ہم نے نہ کسی کو یہاں آتے دیکھا نہ جاتے۔‘‘ وہ تسلی سے بولا۔
’’آ آ آ… ٹھیک ہے۔‘‘ وہ حیرانگی سے واپس مڑا۔
اُس کے ذہن میں وہ ساری باتیں چلنے لگیں جو ماہرہ روز روز اُسے بتایا کرتی تھی اور وہ ہمیشہ بے یقینی سے اُس کی بات سنا کرتا تھا۔
وہ واپس کمرے میں داخل ہوکر ٹکٹکی لگائے ماہرہ کو دیکھ رہا تھا کہ اُسے ایک بار اپنی ساس کی بات بھی یاد آئی۔
’’کالا جادو… نہیں۔‘‘ وہ بار بار خود کو جھنجلا رہا تھا۔
٭…٭…٭
صبح شاہ میر کے اُٹھنے سے پہلے ماہرہ پھر سے اپنے بستر پر نہ تھی، وہ اُٹھتے ہی اُسے دیکھنے کے لیے کمرے سے باہر بھاگا۔‘‘
’’کیا ہوا شاہ میر؟‘‘ ماں نے بیٹے سے پوچھا۔
’’ماہرہ کہاں ہے؟‘‘ وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بولا۔
’’وہ پچھلے صحن کے باتھ روم کو ٹیک لگا کر بیٹھ جاتی ہے روزانہ… وہیں پر ہوگی۔‘‘ ماں نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
’’کیا؟‘‘ وہ وہاں کیوں بیٹھتی ہے؟‘‘ اُس نے ماتھے پر بل ڈالے۔
وہ اسے دیکھنے کے لیے پچھلے صحن کی طرف بھاگا۔ وہ وہاں موجود سب سے بڑے درخت کے نیچے سو رہی تھی اور اُس کے بازوؤں اور پاؤں پر ناخنوں کے بڑے بڑے نشانات نمایاں نظر آرہے تھے جیسے کسی جانور کے ہوں۔
وہ اب پوری طرح گھبرا چکا تھا۔
اُسے اس طرح پڑے دیکھ کر اُس نے ماہرہ کو بازوؤں میں اٹھایا اور کمرے میں لے آیا۔
وہ بار بار اپنے چہرے سے پسینہ صاف کرتا اور اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتا۔
پورا دن آفس میں چکر لگاتے لگاتے وہ بس ماہرہ کے بارے میں سوچتا رہا۔
شام کو جب ہلکا ہلکا اندھیرا چھانے لگا، تو ماہرہ گھر کے صحن میں بکھرے بالوں کے ساتھ اس قدر اُلجھی ہوئی بیٹھی تھی کہ اُس کا وجود خوف ناک حد تک ڈراؤنا لگ رہا تھا۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ہاتھ اور پاؤں سے اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کررہی ہو اور وہ اُن زنجیروں کو اُتار رہی ہو جنہوں نے اُسے جکڑ رکھا تھا، اپنے آپ کو نوچتے ہوئے وہ خوف ناک آوازیں نکالتے ہوئے ہونق رہی تھی۔
اُس کی ساس نے یہ منظر دیکھا، تو وہ کانپنے لگی۔ وہ ڈرتے ڈرتے کمرے کی طرف بھاگی اور اُس نے روتے روتے شاہ میر کو گلے لگایا۔
’’شاہ میر اسے یہاں سے لے جاؤ اگر یہ یہاں رہی، تو میں زندہ نہیں بچوں گی۔‘‘ وہ یہ الفاظ سن کر چونک گیا۔
’’ثنا ٹھیک کہہ رہی تھی اسے پاگل خانے چھوڑ آؤ۔‘‘ اس نے کانپتے ہوئے بیٹے کے آگے ہاتھ جوڑے۔
’’ماما خدا کے لیے!‘‘ وہ چلّایا۔
’’کچھ نہیں ہوا ماہرہ کو، کچھ بھی نہیں ہوگا اُسے۔‘‘
آنکھوں میں آنسو بھرتے اور خود کو تسلیاں دیتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکلا۔ وہ کھلی آنکھوں سے اُس خوف ناک منظر کو دیکھ کر گھر آیا، مگر ماہرہ کی سچی محبت آڑے آگئی کہ اس قدر خوف ناک حالت میں بھی وہ ماہرہ کے پاس بھاگا۔
’’ماہرہ… ماہرہ۔‘‘ وہ آنسووؑں کو دباتے ہوئے چلّایا۔
اُسے کندھوں سے ہلاتے ہوئے اُس نے چونکایا اور وہ شاہ میر کو دیکھنے لگی۔ پھر بڑی محبت سے اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے وہ بے ہوش ہوگئی۔ اُسے اپنی بانہوں میں دباتے ہوئے وہ آسمان کی طرف دیکھ کر خوب رویا۔
اُسے کمرے میں لے جا کر وہ ڈاکٹر کو فون ملانے لگا کہ باپ نے آواز دی۔
’’شاہ میر یہ سب ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں بیٹا۔‘‘ آنسو صاف کرتے ہوئے باپ نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’شاہ میر اسے اس کے گھر چھوڑ آوؑ یا پھر پاگل خانے،اپنی زندگی نہ برباد کرو اس کے پیچھے۔‘‘ ثنا نے بے مروتی سے لقمہ دیا۔
’’بیٹا تم اسے طلاق دے دو اور دوسری شادی کرلو۔‘‘ ماں نے روتے روتے بیٹے کو سمجھایا۔
وہ حیرانگی سے گھر والوں کا بدلتا رویہ دیکھ رہا تھا۔ اپنی ساس کے الفاظ سن کر ثنا نے خوشی سے اس کی طرف دیکھا، وہ حیران ہوتے ہوئے بے دھڑک مسکرائی۔
’’واہ بنگلہ دیشی بابا تو واقعی کمال کے ہیں۔‘‘ وہ منہ میں بڑبڑائی۔
شاہ میر بے جان کھڑا گھر والوں کی باتیں سنتا رہا۔ اُس کے پاس الفاظ تک نہ تھے جنہیں وہ ماہرہ کے حق میں استعمال کر پاتا۔ وہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کررہا تھا۔
٭…٭…٭
رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی۔
ثنا کے علاوہ باقی سب مایوسی کے عالم میں جاگ رہے تھے۔
شاہ میر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنے کمرے تک پہنچا۔ بیڈ پر ماہرہ ابھی تک بے ہوش پڑی تھی۔ وہ وہاں کھڑے کھڑے بڑے غور سے اُسے دیکھ رہا تھا کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے، ماہرہ کو دیکھتے دیکھتے وہ زمین پر بیٹھ گیا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر رونے لگا۔
کہتے ہیں مرد کے آنسو اُس کے درد کی حدود پار کرنے کے بعد آنکھوں سے گرتے ہیں۔ جب اُس کا مضبوط وجود درد کو سنبھالنے لائق نہیں بچتا۔ اُس وقت وہ روتے روتے اپنی مایوسیوں کا اظہار کرتا ہے۔ شاہ میر بھی اپنی محبت کو بچاتے بچاتے آج تھک ہار کر دل کھول کے رویا۔
وہ مایوسی سے وہیں بیٹھا رہا رات کا ایک بج چکا تھا۔ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہوئے آدھی رات کو وہ گھر سے نکل گیا، نا جانے اُس کی بے چین روح کو کس چیز کی تلاش تھی۔
’’ماہرہ ٹھیک ہو جائے گی، کچھ نہیں ہوگا اُسے۔‘‘ اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے وہ بے یار و مددگار چلتا جارہا تھا۔
اپنے خیالات میں گُم ایک بار پھر اپنے گالوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوا۔
وہاں کچھ لوگ وضو کررہے تھے، انہیں دیکھتے ہوئے اُس نے بھی وضو کیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});