ڈھال — نازیہ خان

ثنا نے اپنے گھر جا کر سارا غصہ ماہ نور پر نکالا۔
’’تمہارے جیسی لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ تم ایک لڑکے کو اپنی طرف مائل نہیں کرسکی۔ لعنت ہے تم پر۔‘‘ وہ غصے میں چلّائی۔
ثنا کے کڑوے الفاظ سن کر ماہ نور لال پیلی ہوگئی۔
’’لڑکوں کی لائنیں لگی ہیں میرے پیچھے۔ کوئی ضرورت نہیں مجھے تمہارے دیور کی۔‘‘ وہ بھی غصے میں چلائی۔
’’بے وقوف لڑکی۔ شاہ میر جیسا امیر لڑکا تمہیں پورے شہر میں نہیں ملے گا۔‘‘ اُس نے پھر سے طعنہ دیا۔
’’ارے بس کردو تم دونوں، کچھ تو عقل کرو۔‘‘ ماں نے آکر دونوں بہنوں کی لڑائی ختم کروائی۔
ماہ نور غصے سے گھر سے باہر چلی گئی اور ثنا نے دوسرے کمرے کا دروازہ زور سے بند کیا۔
’’اُف کیا کروں میں ان لڑکیوں کا؟‘‘ ماں سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔
پاس جھاڑ پونچھ کرتی رضیہ نے مشورہ دیا۔
’’بی بی جی ہمارے گاؤں کے باہر والے ویران علاقے میں ایک بنگلہ دیشی بابا ہیں۔ وہ ایسا کالا جادو کرتے ہیں کہ میاں بیوی کی طلاق تو پکی سمجھو۔‘‘
’’تم چپ کرکے اپنا کام کرو۔‘‘ ماں نے غصے سے اُسے گھورا۔
’’کیا ہوگیا ہے ثنا؟ بیٹا کھانا تو کھا لو۔ اب جو ہونا تھا ہوگیا۔‘‘ ماں نے بیٹی کو منانے کی کوشش کی۔
’’اماں وہ لڑکا ہیرا تھا ہیرا۔‘‘ ثنا نے پھر سے بات چھیڑی۔
’’تو اب طلاق کروا دو اُن دونوں کی۔ میں ماہ نور کو منا لوں گی۔‘‘ اُس نے مشورہ دیا۔
اُس نے حیرانگی سے ماں کو دیکھا۔
’’مگر اماں شاہ میر اُسے کبھی طلاق نہیں دے گا، پاگلوں کی طرح اُس دو ٹکے کی لڑکی کے پیچھے مرتا ہے۔‘‘ اُس نے مایوسی سے کہا۔
’’وہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔‘‘ وہ طنزیہ مسکرائی۔
’’کیا مطلب اماں؟‘‘ ثنا نے سرگوشی کی۔
’’تھوڑی دیر پہلے رضیہ نے مجھے ایک بنگلہ دیشی بابا کے بارے میں بتایا ہے۔‘‘
’’تو کیا وہ شاہ میر اور ماہرہ کی طلاق کروا سکتا ہے؟‘‘ وہ پُرجوش انداز سے بولی۔
’’ہاں کیوں نہیں؟‘‘ وہ پھر مُسکرائی۔
’’تو اماں ہم آج ہی وہاں چلتے ہیں۔‘‘ وہ تیزی سے بیڈ سے اُتری۔
’’ہاں میں رضیہ سے پوچھتی ہوں پہلے۔‘‘
’’رضیہ… رضیہ…‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’جی بی بی جی؟‘‘ وہ بھاگی آگئی۔
’’وہ تم بنگلہ دیشی بابا کی بات کررہی تھی نا، کہاں ہوتے ہیں وہ؟‘‘ اُس نے تجسس سے پوچھا۔
’’وہ جی ہمارے گاؤں کے باہر ایک علاقہ ہے وہاں ہوتے ہیں۔‘‘
’’تو تم ہمیں وہاں لے جاؤ گی؟‘‘ ثنا نے تیزی سے سوال کیا۔
’’ہاں جی ضرور… میں کل ہی آپ کو لے جاؤں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ماں بیٹی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں۔
ثنا، ماہ نور اور اُن کی ماں دس بجے بڑی بے چینی سے رضیہ کا انتظار کررہی تھیں۔
’’شکر ہے رضیہ تم آگئی۔‘‘ ماں نے غصے سے کہا۔
’’چلو اب ہمیں بنگلہ دیشی بابا کے پاس لے چلو۔‘‘ ثنا نے سرگوشی کی۔
’’معاف کرنا بی بی جی، وہ آج کل وہاں نہیں ہوتے اور اُن کے خادم نے بتایا ہے کہ وہ کچھ مہینوں بعد واپس آئیں گے۔‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ ثنا نے غصے سے پوچھا۔
’’ہاں ثنا بی بی۔‘‘ اُس نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔
اُس نے غصے سے ماں کو دیکھا۔
’’اچھا رضیہ، یہ لو کچھ پیسے… اور جب بابا آئیں تو ہمیں اطلاع ضرور کرنا۔‘‘ اُس نے آہستہ سے کہا۔
’’جی بی بی جی۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’کچھ نہیں ہوتا ثنا، کچھ مہینوں کی ہی تو بات ہے۔ تب تک تم خوشی سے اپنے گھر رہو، تمہارے ساس، سسر کو ذرا بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ تم اس رشتے پر راضی نہیں ہو۔‘‘ ماں نے بیٹی کو سمجھایا۔
’’اماں آپ فکر نہ کریں۔ میں بالکل ایسا ہی کروں گی۔‘‘ اُس نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
٭…٭…٭
ماہرہ اخلاق کی بہت اچھی لڑکی تھی۔ وہ اپنے ساس سسر کا دل جیت چکی تھی۔ وہ پانچ وقت کی نمازی تھی اور غریبوں کی مدد کرنے کا اُسے بے حد شوق تھا۔ وہ آفس جاب کرتی اور اپنی تنخواہ غریبوں میں بانٹ دیتی۔
واصف حیران تھا کہ ثنا جو اس شادی کے اس قدر خلاف تھی، وہ اب شاہ میر اور ماہرہ سے اس قدر پیار سے پیش آتی ہے۔ گھر کا ماحول خاصا پُرسکون تھا کہ ساڑھے تین ماہ بعد ثنا کو اپنی ماں کی کال آئی۔
’’ثنا تمہارے آس پاس کوئی ہے تو نہیں؟‘‘ ماں نے رازداری سے پوچھا۔
’’نہیں اماں۔ میں اپنے کمرے میں ہوں، آپ بتائیے۔‘‘
’’تم جلدی سے یہاں آجاؤ، وہ بنگلہ دیشی بابا آگئے ہیں، ہم آج ہی وہاں چلتے ہیں۔‘‘
ثنا خوشی سے مسکرائی۔
’’کیا واقعی! آپ فکر نہ کریں میں ابھی آئی۔‘‘
اپنی ساس سے ماں کی طبیعت خراب ہونے کا بہانہ کرکے وہ اپنے گھر آئی۔
دونوں ماں بیٹیاں اور رضیہ اُس بنگلہ دیشی بابا کے پاس پہنچ گئیں۔ وہ ایک خوف ناک، گندہ اور میلا کچیلا آدمی تھا، اپنی بھاری بھر کم رقم وصول کرنے کے بعد اُس نے شاہ میر اور ماہرہ کی معلومات اکٹھی کیں اور ان لوگوں سے وعدہ کیا کہ جلد ہی شاہ میر خود ماہرہ کو طلاق دے دے گا۔
’’اس کام کو وقت لگے گا، تو انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ نہ ہو کہ تم لوگ روز یہاں چکر کاٹتی رہو۔‘‘ اُس نے غصے سے تینوں کو دیکھا اور بات سمجھائی۔
’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ ماں نے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
وہ تینوں پورے اعتماد سے وہاں سے آگئیں۔
٭…٭…٭
ثنا بس انتظار میں تھی کہ اب جلد از جلد وہ گھر والوں کے بدلتے رویے دیکھے۔
کچھ دن گزرے تو ماہرہ سست سست رہنے لگی، اس کی طبیعت میں بھاری پن رہنے لگا، وہ جب بھی ٹمپریچر چیک کرتی، وہ نارمل ہوتا، مگر اُسے محسوس ہوتا کہ اُسے بہت تیز بخار ہے۔
وہ ہر وقت چاق چوبند رہنے کی عادی تھی۔ گھر آکر ساس، سسر اور شوہر کو وقت دیتی، آفس میں کام میں دھیان دیتی، مگر وہ مزاج میں آنے والی تبدیلیوں کو محسوس کررہی تھی۔
٭…٭…٭
وہ آفس سے تھکی ہوئی گھر پہنچی، تو اتنی نقاہت محسوس کررہی تھی کہ کھانا کھائے بغیر بس سونے کی تیاری کرنے لگی۔ وہ کپڑے بدل کر واش روم سے نکلی تو اُس نے بارش کی آواز سُنی۔ اُس کی نظر اپنے کمرے کی کھڑکی پر پڑی جو زور دار ہوا کے جھونکوں سے کھلنے کی کوشش کررہی تھی۔
’’ارے ابھی تو موسم ٹھیک تھا، یہ اچانک بارش کیسے؟‘‘ وہ منہ میں بڑبڑائی۔
بارش دیکھنے کے لیے وہ کھڑکی کی طرف بڑھی کہ اچانک اُس کے کمرے کی لائٹ بند ہوگئی۔
اُس نے کھڑکی کھولی تو ایسے لگا جیسے باہر سے کوئی پہلے ہی اُسے کھولنے کی کوشش کررہا تھا۔
جیسے ہی اُس نے چٹخنی ہٹائی ایک زور دار جھٹکے سے کھڑکی کھلی۔ وہ بدکی اور دو چار قدم پیچھے ہٹی۔ وہ شاید ہوا کا تیز جھونکا تھا۔ وہ چمکتی ہوئی بجلی اور زوردار بارش دیکھنے لگی کہ اُس کے کمرے کی لائٹ پھر سے روشن ہوگئی۔ اُس نے دیکھا کہ بارش میں ایک کالی بلی کھڑی ٹکٹکی لگائے ماہرہ کو دیکھ رہی تھی، اُس کی پیلی آنکھیں دیکھ کر ماہرہ خوف زدہ ہوگئی۔
گہری سانس لیتے ہوئے اُس نے اپنی نظریں گھمائیں اور بارش کو محسوس کرنے کے لیے اپنا ہاتھ کھڑکی سے باہر نکالا کہ دوچار خون کے قطرے اُس کے ہاتھوں پر گرے، وہ گھبرائی اور چیختے ہوئے اپنے کمرے سے باہر بھاگی۔ کمرے کے باہر شاہ میر پہلے ہی اسی طرف آرہا تھا، وہ کانپتی، چیختی ہوئی اُس کے گلے لگ کر رونے لگی۔
’’کیا ہوا ماہرہ؟‘‘ وہ گھبرایا۔
’’بارش… خون۔‘‘ وہ کانپتے ہوئے بولی۔
’’کیا کہہ رہی ہو تم؟‘‘ اُس نے پھر سے پوچھا۔
’’شاہ میر باہر خون کی بارش ہورہی ہے۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔
’’کیا؟ مگر بارش تو ہو ہی نہیں رہی۔‘‘ وہ حیرانگی سے بولا۔
ماہرہ نے اسے اپنا ہاتھ دکھایا جس پر خون کے قطرے تھے۔
’’یہ دیکھو شاہ میر۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ ہاتھ دیکھتے دیکھتے پوچھنے لگا۔
وہ اپنا ہاتھ دیکھ کر ایک دفعہ پھر حیران ہوئی کہ اُس پر خون کے قطروں کے نشان تک نہ تھے۔
’’مجھے لگتا ہے تم نے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہے۔‘‘
’’مگر میں تو ابھی سوئی ہی نہیں۔‘‘
’’لیکن تم تو کہہ رہی تھی کہ تم کھانا نہیں کھاؤ گی کیوں کہ تمہیں بہت نیند آرہی ہے۔‘‘
’’مگر شاہ میر…‘‘ وہ حیرانگی سے بولی۔
’’تم تھک گئی ہو اس لیے ایسا سوچ رہی ہو۔‘‘ اُس نے تسلی دی۔
وہ آرام سے بیڈ پر لیٹ گیا، یہ سوچ کر کہ ماہرہ نے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہے۔ ماہرہ دوسری طرف منہ کرتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گئی کیوں کہ وہ ابھی تک کانپ رہی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!