ڈھال — نازیہ خان

ثنا بڑی بے چینی سے اپنے شوہر واصف کا انتظار کرتے ہوئے کمرے میں چکر لگا رہی تھی۔ بالآخر اُس نے گاڑی کے ہارن کی آواز سُنی اور کھڑکی کی طرف بھاگی۔
’’شکر ہے۔‘‘ وہ بے دھڑک بولی۔
واصف گھر داخل ہوتے ہی اپنے کمرے کی طرف مُڑا۔
’’کیا ہوا واصف؟‘‘ باپ نے بیٹے کی بے چینی دیکھتے پوچھا۔
’’آآآ…کچھ نہیں پاپا… بس وہ ایک فائل رہ گئی تھی۔‘‘ اُس نے جھوٹ بولتے ہوئے بات سنبھالی۔
’’آرام سے بیٹا… تمہارے کمرے میں ہوگی۔‘‘ماں نے بھی چائے کا کپ رکھتے ہوئے دلاسا دیا۔
وہ بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں پہنچا۔
’’کیا ہوگیا ہے ثنا؟ ایسی کون سی قیامت آگئی ہے کہ تم کالز پر کالز کرتی جارہی تھی۔‘‘ اُس نے غصے سے سرگوشی کی۔
’’واصف آپ کو اندازہ بھی ہے، اس گھر میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولی۔
’’ارے ہوا کیا ہے؟ تم سیدھی طرح کیوں نہیں بتاتی؟‘‘
’’ماما پاپا شاہ میر کی بات مان کر اس کی شادی اُس دو ٹکے کی لڑکی ماہرہ کے ساتھ کروانے پر راضی ہوگئے ہیں۔‘‘ وہ غصے سے چلّائی۔
’’کیا؟ لیکن مجھ سے تو انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔‘‘ وہ حیرانگی سے بولا۔
’’میں آپ کو بتا رہی ہوں واصف، آپ کے بھائی شاہ میر کی شادی صرف میری بہن ماہ نور سے ہوگی ورنہ…‘‘
’’ورنہ کیا؟‘‘ واصف نے اُس کی بات کاٹی۔
’’واصف آپ سمجھ نہیں رہے، اگر شاہ میر کی شادی ماہ نور سے ہوگی، تو آپ ساری زندگی اس کاروبار کے اکیلے مالک بن کر زندگی گزاریں گے، لیکن اگر کوئی باہر کی لڑکی گھر آگئی تو یہ راج دو دنوں میں ختم ہو سکتا ہے۔‘‘
’’لیکن ہم شاہ میر کے ساتھ زبردستی بھی تو نہیں کرسکتے۔‘‘واصف نے کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’وہ ماما اور پاپا کا بہت پیارا ہے۔ اگر وہ لوگ نہیں مانیں گے، تو وہ ماہرہ سے کسی صورت شادی نہیں کرے گا۔‘‘ اُس نے واصف کے کان بھرے۔
’’تو تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ اُس نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’میں چاہتی ہوں کہ آپ ماما اور پاپا کو کسی بھی طرح اس رشتے کے حق میں نہ جانے دیں۔ اُس کا گھرانہ غریب ہے، تو آپ سٹیٹس کو اپنا ہتھیار بنا سکتے ہیں۔‘‘ اُس نے آہستہ سے مشورہ دیا۔
’’میں بات کرتا ہوں ماما سے۔‘‘ وہ تیزی سے مُڑا۔
٭…٭…٭
اُس نے بڑے ادب سے چائے پیتے ہوئے ماں باپ کو جوائن کیا۔
’’تمہاری فائل مل گئی بیٹا؟‘‘ ماں نے سوال کیا۔
’’جی ماں، وہ کمرے میں ہی تھی۔‘‘
’’شکر ہے۔‘‘ ماں نے تسلی سے جواب دیا اور بیٹے کو دیکھ کر مُسکرائی۔
’’سنو واصف… شاہ میر شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘ ماں نے آہستہ سے بات شروع کی۔
’’یہ تو اچھی بات ہے۔ دیر کس بات کی ہے کردیں اُس کی شادی۔‘‘ ماں نے واصف کی بات سُن کر اچانک اُس کے پاپا کی طرف دیکھا۔
’’مگر بیٹا وہ اپنی کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’ہاں تو ٹھیک ہے اگر ان لوگوں کا سٹیٹس ہمارے ساتھ میچ کرتا ہے، تو کردیں وہاں شادی۔‘‘ اُس نے تسلی سے جواب دیا۔
’’یہی تو مسئلہ ہے واصف… وہ لڑکی ایک غریب پرائمری اسکول ٹیچر کی بیٹی ہے۔‘‘ باپ نے غصے کا اظہار کیا۔
’’کیا؟‘‘ واصف نے حیرانگی اور غصے سے چائے کا کپ میز پر رکھا۔
’’شاہ میر پاگل ہوچکا ہے؟ ہم بھلا شاہ میر کی شادی وہاں کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘ اُس نے ماں کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’مگر بیٹا وہ ضد کررہا ہے کہ وہ صرف اُسی سے شادی کرے گا۔‘‘
’’ماں پلیز… آپ اُسے سمجھائیں، شاہ میر کا اور اُس لڑکی کا کوئی جوڑ نہیں۔‘‘ وہ غصے سے کھڑا ہوگیا۔
’’میں کیا کروں؟ اُس کی مانوں یا تم لوگوں کی؟‘‘ ماں نے غصے سے پوچھا۔
’’آپ اُس کی شادی ماہ نور سے کیوں نہیں کروا دیتیں؟‘‘ اُس نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کان میں بات ڈالی اور پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
’’بات تو واصف کی بھی ٹھیک ہے۔‘‘ باپ نے مشورہ دیا۔
ماں غصے سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔
٭…٭…٭
شاہ میر یونی ورسٹی سے آتے ہی ماں کے کمرے میں سلام کرنے گیا۔
ماں نے اُسے پیار سے دیکھا اور مُسکرائی، وہ سلام کرنے کے بعد واپس مڑا۔
’’رُکو شاہ میر… بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘
’’جی ماما۔‘‘ اُس نے مڑ کر دیکھا۔
’’بیٹا ماہرہ تمہارے لائق نہیں، اُس کا اور تمہارا کوئی جوڑ نہیں۔ تم اُس سے شادی کی ضد چھوڑ دو۔‘‘ ماں نے نظریں چراتے ہوئے بیٹے کو ساری بات سمجھائی۔
’’لیکن ماما، وہ لڑکی پڑھی لکھی ہے، اچھی ہے، مجھے اِس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ اُس نے بات سمجھانے کی کوشش کی۔
’’نہیں شاہ میر، بس اب میں دوبارہ تمہارے منہ سے یہ بات نہ سنوں۔ شادی کرنے سے صرف دو لوگ نہیں جڑتے بلکہ دو خاندان جڑتے ہیں۔‘‘
’’مگر میں شادی صرف ماہرہ سے کروں گا۔‘‘ وہ جوش سے بولا۔
’’تم ماہ نور سے شادی کیوں نہیں کرلیتے؟‘‘
’’ماہ نور جیسی آوارہ لڑکیوں میں مجھے کوئی دل چسپی نہیں۔‘‘ وہ چلّایا۔
’’بکواس بند کرو۔ وہ ثنا کی بہن ہے اور ثنا بھی تو اتنی اچھی اور فرماں بردار لڑکی ہے۔‘‘
’’میں آپ کو آخری دفعہ بتا رہا ہوں، میں صرف اور صرف ماہرہ سے شادی کروں گا۔‘‘ اُس نے گھورتے ہوئے اپنی بات مکمل کی اور کمرے سے چلا گیا۔
’’وہ میری کوئی بات سننے کو راضی نہیں ہے۔‘‘ ماں نے اُداسی سے واصف اور اُس کے باپ کو بتایا۔
وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
’’بیٹے کی خوشی سے بڑھ کر آخر کیا ہوتا ہے ماں باپ کے لیے۔‘‘ ماں نے غصے سے اپنے میاں کو دیکھا۔
واصف غصے سے ماں باپ کو گھورتے ہوئے کمرے میں چلا گیا۔
٭…٭…٭
شاہ میر کی ضد کو مانتے ہوئے ماں باپ نے اُس کا نکاح ماہرہ سے کروا دیا۔
ماہرہ نے پہلے دن ہی جانچ لیا کہ شاہ میر کے گھر والے اس رشتے پر خاص راضی نہ تھے، اُن سب کے لہجے، الفاظ کا ساتھ نہ دے رہے تھے۔ شادی کی پہلی رات ہی جب وہ کمرے میں داخل ہوا، تو ماہرہ نے اُس سے پوچھا۔
’’شاہ میر کیا تمہارے گھر والے اس شادی پر راضی نہیں تھے؟‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں ماہرہ۔‘‘ وہ جھجکتے ہوئے بولا۔
’’کیا تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ تمہارے گھر والے اس رشتے پر راضی ہیں۔‘‘ اُس نے آنسو بھری نگاہوں سے اُسے دیکھا۔
’’سب ٹھیک ہو جائے گا ماہرہ! ماما پاپا مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ وہ کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں سب ٹھیک کردوں گا۔‘‘
’’شاہ میر تم پر تمہارے والدین کا حق سب سے پہلے ہے۔ اگر وہ راضی نہیں تھے، تو تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘ اُس نے مایوسی سے کہا۔
’’میں تم سے وعدہ کرتا ہوں ماہرہ، میں ماما، پاپا کو منالوں گا۔ تمہارے علاوہ میں اپنی زندگی میں کسی اور کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔‘‘ اُس نے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
ماہرہ نے بھی شاہ میر پر بھروسا کرتے ہوئے اُسے معاف کردیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!