قسط نمبر4
”چنبیلی کے پھول“
اُسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ کچھ لمحوں کے لئے اس کے حواس منجمد ہوگئے۔
وہ اتنی بے باکی سے اُسے پرپوز کرے گا اُسے اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا جبکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اُس کی منگنی ہوچکی ہے۔
”آپ!“
غصے سے اس کا چہرہ سرخ پڑگیا۔ آنکھوں سے شرارے پھوٹنے لگے۔اُسے احساس ہوا کہ اس نے یہاں آکر غلطی کی تھی۔ وہ اُس کے سامنے بڑے اطمینان سے بیٹھا پرسکون انداز میں اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔
”مجھ سے قربانی مانگ رہی ہیں! آپ کیوں یہ قربانی نہیں دے سکتیں؟ توڑ دیں اپنی منگنی…… ختم کردیں۔ مجھ سے شادی کرلیں۔ میں آپ کی بات مان لوں گا۔“
وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے اسی پرسکون اندا ز میں بولا مگر اس کی آواز برف جیسی سرد تھی۔
رانیہ کاغصے سے بر ا حال تھا۔ رہی سہی کسر زوار کے سکون اور اطمینان نے پوری کردی۔
آخر وہ خود کوسمجھتا کیا تھا۔ رانیہ کی آنکھوں سے غصہ چھلکنے لگا۔
”آپ ایک نفسیاتی مریض ہیں۔“
اردگرد بیٹھے لوگوں کی وجہ سے وہ بلند آواز میں بات نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں برہمی اور چہرے پر بے پناہ خفگی تھی۔
زوار کے چہرے کے تاثرات پرسکون ہی رہے۔ اُس کے بارے میں رانیہ کا اندازہ درست تھا۔ اس کامطلب تھا کہ وہ اُسے جاننے لگی تھی۔
”میں اپنے منگیتر سے بہت محبت کرتی ہوں۔ آ پ کو یہ بات کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔“
رانیہ نے اُسے یہ جتانا ضروری سمجھا۔ زوار کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا۔
”آپ کو بھی تو یہ بات کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ میں جواب میں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں۔“
اُ س نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدہ انداز میں کہا مگر اس کی آواز سرد تھی۔
رانیہ کو اس کا یوں جتانا اور بھی زیادہ برا لگا۔
”مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے اپنی کزن عشنا کی وجہ سے یہاں آکر آپ سے یہ بات کرنی پڑی مگر آپ کو کیا پتا کہ رشتوں کی محبت اور اُن کا مان کیا ہوتا ہے۔ نہ تو میں سارہ آفندی کو جانتی ہوں اور نہ ناصرہ تسکین کو…… میں نے یہ کوشش صرف انسانی ہمدردی کی وجہ سے کی۔ عشنا اپنی دوست کی مدد کرنا چاہتی ہے اور میں نے انسانیت کے ناطے اُس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ میں اُس کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ اُسے مایوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اور پھر میں نے برسوں پردیس میں رہنے والی ماں بیٹی کے بارے میں بھی سوچا جنہوں نے اپنی زندگی کی مشکلات کا تنہا اور خاموشی سے مقابلہ کیا مگر یہاں آکر تو میں نے صرف اپنا وقت ہی ضائع کیا ہے۔آپ ایک بے حد خودغرض، ظالم اور سنگ دل آدمی ہیں۔ آئندہ نہ میں کبھی آپ سے ملنا چاہتی ہوں اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی رابطہ رکھنا چاہتی ہوں۔ میں تو تھیٹر بھی چھوڑ رہی ہوں۔“
وہ بے حد خفا سے انداز میں بولی۔ اُس نے سوچا کہ آج تو اُسے دو چار سنا ہی دینی چاہیے۔
وہ پرسکون انداز میں بیٹھا اُس کی بات سنتا رہا۔ شزا اور اس کی بہن وہاں سے جاچکی تھیں۔ ورنہ زوار اور رانیہ کے اس انداز پر ضرور چونک جاتیں۔ زوار کے چہرے کے تاثرات سے لگتا تھا جیسے اُس نے رانیہ کی کسی بات کا برا نہیں منایا، بلکہ وہ تو پہلے سے ہی جانتا تھا کہ وہ اُس کی بات کے جواب میں یہی سب کچھ کہے گی۔ وہ اُس کے اس ردعمل کے لئے پہلے سے ہی تیار تھا۔
”یہ کیسی ہمدردی ہے آپ کی؟ کہ آپ سارہ آفندی کے لئے اپنی منگی نہیں توڑ سکتیں! اور مجھ جیسے سنگ دل آدمی سے آپ کو رحم دلی کی اُمید ہے؟“
اس نے پلکیں جھپکائے بغیر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بھاری آواز میں کہا۔
رانیہ کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔ اس نے بمشکل اپنے غصے پر قابو پایا۔
”آپ مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟“
اُس نے زوار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ وہ اُس کے سوال پر مسکرایا۔
”کیونکہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔“
اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اعتراف کیا۔ اب کی بار اس کی آواز کا بر ف جیسا تاثر پگھل گیا تھا۔
وہ اس کے اس جملے پر سن ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی کہ اُس نے نظر جھکالی۔ زوار کی آنکھیں مقناطیسی کشش رکھتی تھیں۔
”مگر میں آپ سے محبت نہیں کرتی ہوں۔“
وہ جھکی نظروں کے ساتھ بولی۔
وہ زوار کی آنکھوں میں دیکھ کر یہ بات نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے کوشش کی کہ اگر زوار کو اس کے حوالے سے کوئی خوش فہمی ہے تو وہ ختم ہوجائے۔ وہ اس کی جھکی پلکوں کودیکھ کر زیر لب مسکرایا۔
”مگر میں نے آپ سے محبت تو نہیں مانگی۔“
وہ مدھم مگر بھاری آواز میں بولا۔
رانیہ نے بے ساختہ پلکیں اٹھائیں۔ اسے احساس ہوا کہ اس آدمی سے ایسی باتیں کرنا خطرناک تھا…… بہت خطرناک اس نے اس سے محبت کا تقاضا نہیں کیا مگر شادی کے لئے پروپوز کردیا۔ آخر اس بات کا کیا مطلب تھا۔
وہ الجھ گئی۔
”پھر آ پ نے مجھے پروپوز کیوں کیا ہے؟“
اس نے خفگی سے کہا۔
وہ مدھم انداز میں مسکرایا۔
”جب آپ میرا پروپوزل قبول کرلیں گی پھر بتادوں گا۔“
وہ اُس مسکراتی نظروں سے دیکھتے ہوئے گہری آواز میں بولا۔ رانیہ کو اس سے خوف سا محسوس ہوا۔ پتا نہیں ا س آدمی کے کیا ارادے تھے۔
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ مجھے آپ کے پروپوزل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔“
اس نے قطعی اور بے لچک انداز میں کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
زوار کی مسکراہٹ گہری ہوگئی، یوں جیسے اُسے رانیہ کے انکار سے کوئی فرق ہی نہ پڑا ہو۔ اُسے یوں مسکراتے دیکھ کر رانیہ نے بمشکل ضبط کیا۔ اس کی آنکھیں بے اختیار نم ہوگئیں۔ وہ اس کی باتوں سے ہرٹ ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں کی نمی دیکھ کرزوار کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ وہ اُسے ہرٹ نہیں کرناچاہتا تھا۔
وہ وہاں رکی نہیں۔ وہاں سے چلی گئی۔ بارہ بارش تھی۔ وہ بے اختیار۔ اس کے پیچھے آیا۔
کیفے کے ساتھ ہی تھیٹر ہال تھا۔ وہ بھیگی سڑک کے کنارے چلتے ہوئے اس طرف جارہی تھی۔
زوار تیزی سے اس کے قریب آکر اس کے برابر چلنے لگا۔
”میرا تعاقب نہ کریں۔“
وہ غصے سے بولی۔ وہ شاید رو رہی تھی۔ زوار کو افسوس ہوا۔
”بارش تیز ہے۔ آپ کواس موسم میں اکیلے نہیں جانے دے سکتا ہوں۔“
وہ نرم مگر قطعی انداز میں بولا۔ رانیہ نے غصے کے عالم میں اس کے لہجے کی فکر مندی کو محسوس ہی نہیں کیا۔ اس نے یونہی چلتے ہوئے اپنا دوپٹہ پھیلا کر اوڑھ لیا۔
”مجھے آپ کی مہربانیوں کی ضرورت نہیں ہے۔“
وہ اکھڑے ہوئے لہجے میں بولی۔ اس کی آواز میں غصہ تھا۔
”میں تو ایک سنگ دل آدمی ہوں۔ لوگوں پر مہربانیاں نہیں کرتا ہوں۔“
اس نے اسے جتاتے ہوئے کہا۔ رانیہ نے بے اختیار لب بھینچ لئے۔
”اُف …… اس آدمی کے ساتھ بحث کرنا بے وقوفی ہے۔“
اس نے لمحہ بھر کے لئے آنکھیں بند کیں اور دل میں سوچا پھر گردن موڑ کر اپنے برابر چلتے زوار کو دیکھ کر درشت لہجے میں کہا۔
”آپ یہاں سے چلے جائیں۔“
اس کی آواز میں غصہ اور ناراضگی تھی۔
مگر وہ زوار ہی کیا جس پر کسی با ت کا اثر ہوجائے۔
”یہ سڑک آپ کی جاگیر تو نہیں ہے۔ آپ کے علاوہ اور لوگ بھی یہاں چل پھر سکتے ہیں۔“
وہ مدھم آواز میں بات کررہا تھا۔ رانیہ نے بے بسی سے اُسے دیکھا۔
”نفسیاتی مریضوں کو اپنے او ردوسروں کے نقصان کی پرواہ نہیں ہوتی۔“
اس نے خفگی سے کہا۔ اس نے اس کی با ت کا برا نہیں مانا۔
”اگر میں نفسیاتی مریض ہوں تو آپ میرا علاج کردیں۔ یقین کریں میں ٹھیک ہوجاؤں گا۔“
وہ زیر لب مسکرایا۔
”اُف یہ آدمی……“
وہ جھنجھلا گئی۔ اُسے احساس ہوا کہ اس سے کچھ کہنا سننا بے کار ہی تھا۔
وہ تھیٹر کی پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کے پاس آگئی تھی۔ اب وہ جلد از جلد گھر جانا چاہتی تھی۔
گاڑی کا لاک کھول کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ مگر وہ گاڑی کا دروازہ نہیں بند کرسکی کیونکہ اس پر زوار نے ہاتھ رکھا ہوا تھا۔
”میری بات سن لیں۔“
وہ برستی بارش میں کھڑا تھا۔
”آپ میرے پاس یہ مقدمہ لے کر آئی ہیں۔ میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا مگر ادھوری کہانیاں خطرناک ہوتی ہیں۔ میں آ پ کوہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر میرے پروپوزل پر غور ضرور کیجیے گا۔ یقین کریں میں اتنا بھی سنگ دل نہیں ہوں۔“
رانیہ نے ناراضگی کے عالم میں اُس کی بات سنی پھر گاڑی اسٹارٹ کردی۔ وہ اب اس کی کسی بات کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی۔ وہ گہرا سانس لے کر دو قدم پیچھے ہٹا۔
رانیہ نے اس کی طرف نہیں دیکھا اور فوراً ہی وہاں سے گاڑی بھگاکر لے گئی۔
”میں آئندہ کبھی اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔“
وہ راستے بھر سوچتی آئی۔
پھر اُس کی گاڑی کو اپنے تعاقب میں آتے دیکھا۔
وہ جانتی تھی کہ وہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا اور اس برستی بارش میں اس کے گھر تک آئے گا اور ایسا ہی ہوا۔ وہ اپنے گھر پہنچ گئی اور وہ اس کے گھر کے گیٹ سے واپس مڑ گیا۔
وہ واقعی ایک عجیب آدمی تھا۔
٭……٭……٭
وہ گھر آئی تو عشنا اسی کا انتظار کررہی تھی۔ مگر وہ آتے ساتھ ہی اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس کا چہرہ اترا ہوا اور آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ گیلے بال الجھے ہوئے تھے۔ عشنا اسے اس حال میں دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ اسے کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا۔ وہ تو کبھی اس ابتر حالت میں گھر واپس ہی نہیں آئی تھی۔
رانیہ اپنا لباس تبدیل کرکے تھکے ہوئے انداز میں اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ آج کا دن اس کے لئے بے حد برا ثابت ہوا تھا۔
”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے رانیہ باجی؟“
عشنا نے اس کی سوجی ہوئی آنکھوں اور بجھے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھا۔
”میرے سر میں درد ہے…… آج بہت تھک گئی ہوں۔“
رانیہ نے تھکے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
عشنا کو تشویش ہوئی۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر سے برش اٹھایا۔
”میں آپ کے بال سلجھا دیتی ہوں۔دیکھیں تو سہی۔ کتنے الجھ گئے ہیں۔“
وہ آہستگی سے رانیہ کے گیلے الجھے بالوں میں برش کرنے لگی۔ پھر اس نے وہی سوال کیا جس سے رانیہ خوفزدہ تھی۔
”کیا آپ نے زوار آفندی سے بات کی؟“
رانیہ نے ایک پل کے لئے آنکھیں بند کیں۔ وہ اس لمحے کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”وہ ایک پاگل اور سنگ دل آدمی ہے۔ تم اپنی دوست کی مدد کرنے کا خیال دل سے نکال دو۔ وہ ناصرہ تسکین کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔“
رانیہ نے خفا سے انداز میں کہا۔ وہ عشنا کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرناچاہتی تھی۔ عشنا اس کے اس انداز پر بھونچکا رہ گئی۔ یہ جواب ا س کی توقع کے برعکس تھا۔
”مگر ہوا کیا ہے؟ کیا کہا اُس نے؟“
عشنانے بے چینی سے پوچھا۔ رانیہ اُسے وہ سب کچھ تو نہیں بتا سکتی تھی جو زوار نے اس سے کہا تھا۔
”اس نے انکار کردیا؟“
عشنا نے دل تھام کر اندازہ لگایا۔
”ہاں۔“
رانیہ کو یہی مناسب ترین جواب لگا۔ عشنا کو مایوسی ہوئی۔
”آپ نے اسے ساری باتیں بتائی تھیں؟“
عشنا نے بجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”ہاں …… بتائی تھیں۔“
رانیہ نے کہا۔
”پھر…… کیا اُس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی؟“
عشنا نے ذرا جھجک کر پوچھا۔
”بہت زیادہ…… صرف یہی نہیں بلکہ اس نے میری انسلٹ بھی کی۔“
رانیہ نے خفا انداز میں کہا۔ عشنا کو افسوس ہوا۔ اُسے زوار سے ایسے انتہائی ردعمل کی امید نہیں تھی۔
”I am sorry Rania Baji…… میری وجہ سے آپ کو اتنی باتیں سننی پڑیں۔“
اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں تمہارا اس میں بھلا کیا قصور…… تم تو اپنی دوست کی مدد کرنا چاہتی تھی وہ ہی بدتمیز آدمی ہے…… آئندہ میں اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔“
رانیہ برہم انداز میں بولی۔
”اس کامطلب ہے سارہ کا اندازہ درست تھا۔“
عشنا نے گہراسانس لے کر کہا۔
”ہاں ظاہر ہے۔ وہ زوار آفندی کی فطرت سے واقف ہوگی بے چاری……“
رانیہ نے اسی انداز میں کہا۔
”اور آپ نے اُسے تاج بھی واپس کردیا؟“
عشنا نے بجھی آواز میں پوچھا۔
”ہاں ……کردیا۔“
رانیہ نے سنجیدہ انداز میں جواب دیا۔
عشنا نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ وہ رانیہ کے بال سلجھا چکی تھی اور اب اس کے سامنے آکر بیٹھ گئی تھی۔
”مجھے یقین نہیں آرہا کہ زوار آفندی نے آ پ کی بات بھی نہیں سنی۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ جب وہ آپ کے لئےgold کا تاج بنوا سکتا ہے تو آپ کی اتنی سی بات کیوں نہیں مان سکتا؟“
عشنا نے الجھ کر کہا۔ اسے افسوس تھا کہ اس کی ساری کوششیں بے کار ہوگئی تھیں اور یہ اُس کے لئے بڑے صدمے کی بات تھی۔
”ایک دولت مند آدمی کے لئے سونے کا تاج بنوانا بہت آسان ہوتا ہے مگر اپنی انا اور غرور کو توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔“
رانیہ نے گہرا سانس لیتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
عشنا خاموش ہوگئی۔ یہ فلسفہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
یکدم رانیہ کا موبائل بجنے لگا۔ اُس نے پرس میں سے موبائل نکال کر دیکھا تو موبائل کی اسکرین پر زوار کالنگ لکھا ہوا آرہا تھا۔
”دیکھیں …… زوار کا فون آرہا ہے۔ شاید اُسے ابguiltہورہا ہوگا اور آپ سے sorry کرنا چاہتا ہوگا۔“
عشنا کی آواز پرجوش ہوگئی۔ رانیہ کی پیشانی شکن آلو دہوگئی۔
وہ زوار کا فون نہیں اٹھانا چاہتی تھی۔
ا س نے زوار کا فون کاٹ کر اس کا نمبر بلاک کردیا۔
”میں اب اس آدمی سے کبھی با ت نہیں کرنا چاہتی ہوں۔“
اس نے قطعی انداز میں کہا
عشنا نے اُسے روکنے کی کوشش کی۔
”بلاک تو نہ کریں اُسے۔“
زوار کا فون آنے سے اُسے کچھ امید بندھ گئی تھی۔
رانیہ کو عشنا پر غصہ آیا۔
”اس کا انکار سن کر بھی تمہیں اس سے ہمدردی ہورہی ہے!“
وہ اس پر برس پڑی۔
”پھر وہ آپ کو فون کیوں کررہا ہے؟“
عشنا نے الجھ کرکہا۔
”کیونکہ وہ ایک پاگل آدمی ہے۔ نفسیاتی مریض ہے۔“
رانیہ نے خفگی سے کہا اور موبائل آف کرکے سائیڈٹیبل پررکھ دیا۔
عشنا خاموش ہوگئی۔ اُسے احساس ہوا کہ اس وقت رانیہ سے زوار کے بارے میں بات کرنا بے کار ہے۔ وہ بہت غصے میں تھی مگر آخر رانیہ کو زوار پر اتنا غصہ کیوں تھا؟ ایسی کیا بات ہوگئی تھی۔ عشنا نے سوچا۔ اگر زوار نے سارہ کے معاملے میں انکار کردیا تھا تو اس میں اتنا ناراض ہونے والی کیا بات تھی۔ عشنا کو لگا کہ رانیہ اس سے کچھ چھپا رہی ہے۔ بات دراصل کچھ اور تھی۔
رانیہ سونے کے لئے لیٹ گئی۔