چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

خود تو وہ بڑے ہی رنگین مزاج آدمی تھے۔ مگر بیوی کے لئے بڑے سخت گیر شوہر ثابت ہوئے تھے۔ ساری سختیاں، پابندیاں، روک ٹوک صرف بیوی کے لئے ہی تھی۔ روشنی کو انہوں نے گھر میں قید کررکھا ہوا تھا۔ برقعہ کے بغیر انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ اپنی بیوی کو پردہ کروا کر سمجھتے تھے کہ چلو کوئی تو نیکی کی انہوں نے، اور وہ بہت اچھے اور نیک آدمی ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کو پردہ کروایا اور برقعہ اوڑھے بغیر انہیں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔
انہیں اطمینان تھا کہ اگر انہوں نے اتنے گناہ کئے تھے تو انہوں نے اپنی بیوی کو گناہ گار نہیں ہونے دیا، پھر بھی ان کا ضمیر مطمئن تھا کہ بیوی کو پردہ کروا کر انہوں نے بہت ثواب کاکام کیا تھا۔ خود تو وہ دوستوں کے ساتھ اس عمر میں بھی گھومتے پھرتے، آوارہ گردی کرتے، سینما جاتے، غیر عورتوں سے موبائل پر باتیں کرتے، دوستیاں کرتے۔ ان کی شخصیت کا یہ تضاد بڑا خوفناک تھا۔ ہر انسان کسی شخصیت کا یہ تضاد خطرناک ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو اس کے ساتھ رہتے ہیں۔
فردوسی خالہ بیٹی کا دکھ جانتی تھیں حالانکہ روشنی نے کبھی اپنے دکھ ماں کے ساتھ شیئر نہیں کئے تھے۔
روشنی نے بھی اپنے شوہر ثاقب کے ساتھ کسی طرح گزارا کرہی لیا مگر کبھی کبھار وہ اپنا مخصوص برقع اوڑھ کر رانیہ کے گھر آجاتیں کبھی اپنی ماں کے گھر چلی جاتیں۔
اور جیسے ہی انہیں اپنے شوہر کی ایک خاتون دوست کے بارے میں پتا لگا۔ انہوں نے جیمو ماموں سے مدد طلب کی۔ دیگر لوگوں کی طرح انہیں بھی جیمو ماموں کے مشوروں پر بڑا مان تھا۔ وہ اپنے شوہر کو دیکھتی تھیں وہ تیار شیار ہوکر خوشبو لگا کر باہر چلے جاتے، رات کو دیر سے گھر آتے۔ موبائل پر اُس عورت سے باتیں کرتے۔ چیٹنگ کرتے۔ انہی چیزوں میں تو وہ مصروف رہے تھے۔
نہ انہوں نے روشنی کو کوئی نوکر رکھ کر دیا تھا اور نہ ہی کوئی اور سہولت دی تھی۔
بس وہ ان کے گھر کسی قیدی کی سی زندگی گزار رہی تھیں۔ میاں سے کچھ پوچھنے کی اُن کی جرأت نہیں تھی۔ وہ جیمو ماموں سے اکثر مشورے لیتی کہ آپ بتائیں کہ کیا کروں! کہ میرے شوہر میری طرف مائل ہوجائیں اور اُس عورت کا پیچھا چھوڑ دیں اور وہ گھر بار پر توجہ دیں۔
ان کی بہت ساری فرمائشیں تھیں وہ ایک سادہ اور حساس عورت تھیں۔ جیمو ماموں انہیں مشورے تو دیتے مگر ابھی تک انہیں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ روشنی بھی شوہر کے عیبوں پر پردہ ڈال کر تھک چکی تھیں۔ انہیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا وہ غلط ہیں یا اُن کے شوہر غلط ہیں۔
وہ ایک خوش باش زندگی گزارنا چاہتی تھیں۔ وہ کبھی رانیہ کی امی سے کبھی جیمو ماموں سے پوچھتیں کہ خوشی کا راز کیا ہے۔ وہ لوگوں سے مشورے مانگیں …… ان کی قوت ارادی کمزور پڑچکی تھی۔ جیمو ماموں محسوس کرتے کہ اس ماحول میں رہتے رہتے ان کے ذہن پر اثر ہوچکا ہے۔ اس لئے وہ توجہ سے اُن کی بات سنتے تھیں مشورے دیتے اور ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے۔ آہستہ آہستہ وہ ان کے ساتھ بہت سی باتیں شیئر کرنے لگی تھیں۔ جیمو ماموں ان کی سب باتیں سمجھتے تھے۔
اس دن بھی جب وہ رانیہ کے گھر آئی تھیں تو جیمو ماموں انہیں سمجھا رہے تھے۔
”اصل میں آپ نے کبھی کسی بات پر احتجاج نہیں کیا۔ اس لئے آپ کے شوہر کو اپنی من مانی کرنے کی عادت ہوگئی۔“
جیمو ماموں نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ اداس ہوگئیں۔

”جیمو! بھائی عورت کے احتجاج کو بھلا کسی نے کبھی اہمیت دی ہے! …… وہ عورت……“
وہ افسردگی سے بولیں۔
”دفع کریں اُس عورت کو…… اگر وہ باہر اُس عورت کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ یا فون پر اُس سے باتیں کرتے ہیں تو آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ دو چار دن اس کے ساتھ گھومیں پھریں گے تو ان کا دل جلد ہی اس عورت سے بھر جائے گا۔ پھر انہیں آپ کی قدر آئے گی۔“
انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”آپ مجھے کچھ بتائیں …… میں خوش رہنا چاہتی ہوں۔“
وہ سادگی سے بولیں۔ اُن کی آواز میں حسرت تھی۔
بڑا مشکل سوال تھا، جیمو ماموں نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
وہ کیا جواب دیتے! چاہنے کے باوجود کچھ دیر وہ بول نہیں سکے۔ اس سوال نے انہیں بھی اداس کردیا تھا۔
”خوش رہنا چاہتی ہیں آپ، ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے مگر بعض دفعہ یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا…… ایک تو آپ کے گھر میں نہ ٹی وی ہے، نا ریڈیو ہے، نا کتابیں ہیں، نا رسالے ہیں …… ان حالات میں خوش رہنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر پھر بھی کوشش تو کی جاسکتی ہے نا۔“
کچھ دیر بعد وہ سنجیدگی سے بولے۔ وہ ان کا دل بھی توڑنا نہیں چاہتے تھے۔
”باورچی خانے میں سارا دن مصروف رہتی ہوں۔“ شوہر اور سسرال والوں کی خدمتیں کرتی ہوں۔ کھانے پکاتی ہوں۔ برتن دھوتی ہوں۔ صفائیاں کرتی ہوں …… پھر بھی…… قدر نہیں کوئی جیمو بھائی۔“
انہوں نے اداسی سے کہا۔
”ناقدرے اور ناشکرے لوگ انسانوں کی قدر نہیں کرتے۔“
جیموماموں نے ان کا دکھ محسوس کرتے ہوئے کہا۔
”کبھی یہاں آجاتی ہوں تو کبھی امی کی طرف چلی جاتی ہوں اس پر بھی انہیں اعتراض ہوتا ہے۔ مگر میں اپنے سارے کام کرکے ہی آتی ہوں۔ کھانا پکا کر، گھر صاف کرکے اپنی ذمہ داریاں پوری کرکے ہی گھر سے باہر نکلتی ہوں۔“
روشنی نے کہا۔
جیمو ماموں ان کا دھیان بٹانا چاہتے تھے۔
”اچھا آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا کیا دل کرتا ہے کہ آپ کیا کریں؟“
ماموں نے ان سے کسی ماہر سائیکٹرسٹ کے سے انداز میں پوچھا۔
وہ کچھ دیر کے لئے سوچیں لگیں۔ پھر انہوں نے کہا۔
”میرا دل چاہتا ہے کہ میں کسی کے ساتھ باتیں کروں۔“
اُن کے انداز میں بڑی سادگی تھی۔
وہ اداسی سے مسکرا دیے۔
”آپ کے پاس تو موبائل فون بھی نہیں ہے…… خیر…… آپ گھر میں سارا دن کام کرنے کے علاوہ اور کیا کرتی ہیں؟“
”کچھ نہیں …… میں نے اور کیا کرنا ہے۔ کبھی کبھار اوپر والی منزل پر چلی جاتی ہوں۔ کھڑکی سے باہر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ لیتی ہوں۔ گلی میں بڑی رونق ہوتی ہے دل بہل جاتا ہے۔ اس طرح مجھے گھر میں تنہائی کا احساس نہیں ہوتا ورنہ اکیلے گھر میں رہ رہ کر تو میں پاگل ہی ہوجاؤں۔“
انہوں نے اداس لہجے میں کہا۔ ماموں جانتے تھے وہ ایک دکھی خاتون تھیں۔
”آپ اپنے میاں کے ساتھ گھومنے پھرنے اور شاپنگ پر چلی جایا کریں۔“
ماموں نے نرم لہجے میں کہا۔
اُن کی اداسی بڑھ گئی۔
”وہ مجھے کہیں باہر لے کر ہی نہیں جاتے۔ بازار جانے والی عورتوں سے تو انہیں نفرت ہے…… اور بازار جانے کو فضول خرچی سمجھتے ہیں۔“
وہ دکھی ہوگئیں۔
ماموں کو غصہ آگیا۔
”کیسا آدمی ہے، ایک عورت کو کتنا دکھ اور کتنی تکلیف دے رہا ہے، مگر اُسے احساس تک نہیں۔ بے حس لوگ، خود غرض بھی ہوتے ہیں۔“
عنایا نے انہیں اتنی سنجیدہ گفتگو میں مصروف دیکھا تو ان کے آگے میز پر خاموشی سے پکوڑوں کی پلیٹ رکھ کر چلی گئی۔
ماموں کے پاس اکثر لوگ اپنا کتھارسس کرنے آیا کرتے تھے۔ ماموں ان کا دکھ بانٹتے، ان کے آنسو پونچھتے، انہیں مشورے دیتے، بعض دفعہ تسلی کے دو لفظ بھی کسی کا دکھ دور کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
”چلیں …… آپ پریشان نہ ہوں …… اب تو عقیل بھائی آرہے ہیں کینیڈا سے…… خوب رونق ہوجائے گی۔ خوب شغل میلہ لگے گا۔ آپ کا دل بہل جائے گا۔“
وہ مسکرا کر بولے۔
”ہاں …… ان کے آنے کا تو مجھے بہت انتظار ہے۔“
وہ خوش ہوگئیں۔
وہ انہیں مسکراتے دیکھ کر خود بھی مسکرا دیئے۔
”بس…… ایسے رہا جاتا ہے خوش۔“
وہ چٹکی بجاکر بولے۔ روشنی کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”آپ ایک بہت اچھے انسان ہیں جیمو بھائی۔“
وہ مسکرا کر بولیں۔
”شکریہ، شکریہ…… نوازش، یہ لیں پکوڑے کھائیں اور یہ پکوڑے اتنے مزیدار ہیں کہ انہیں کھا کر آپ اور زیادہ خوش ہوجائیں گی۔“
انہوں نے پکوڑوں کی پلیٹ روشنی کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
وہ بھی مسکراتے ہوئے پکوڑے کھانے لگیں۔
ماحول یک دم ہی بدل گیا۔
اداسی تحلیل ہوگئی۔ ہر طرف مسکراہٹوں کے سورج روشن ہوگئے۔
یہاں آکر روشنی کو بے حد خوشی ہوتی۔ یہاں ان سے باتیں کرنے والے لوگ تھے۔ ان کا دکھ بانٹنے والے لوگ تھے۔ اُن کی بات سمجھنے والے لوگ تھے۔ اور یہاں کے مکین ان کی عزت کرتے تھے…… جیمو ماموں کی کسی بات پر مسکراتے ہوئے روشنی کو احساس ہوا کہ دراصل انسان کو خوش رہنے کے لئے یہی چیزیں تو چاہیے ہوتی ہیں۔
٭……٭……٭
مصروفیت کے باوجود رانیہ کے دن رات اداس تھے۔ نہ فارس نے اُس سے کوئی رابطہ کیا اور نہ وہ اپنے گھر والوں کی ناراضگی کو دور کرپائی۔
”ہوتے ہیں کچھ ایسے لوگ، جن سے ہر کوئی ناراض ہی رہتا ہے۔“
اس نے دل میں سوچا۔
وہ اپنا زیادہ تر وقت تھیٹر میں گزارتی اور Macbeth کی ریہرسل میں مصروف رہتی۔
فارس نہ جانے کہاں غائب تھا اور اس کے گھر والے عقیل ماموں کے آنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
یہ ڈرامہ Macbeth پچھلے تمام ڈراموں سے بہت مختلف تھا کیونکہ ایک ٹیکسٹائل فیکٹری اُسے اسپانسر کررہی تھی اور اس ڈرامے پر بہت پیسہ لگا رہی تھی، اس لئے اس ڈرامے کا بجٹ بھی زیادہ تھا۔ سب اداکاروں کے لباس بھی بہتر تھے۔ جو اسی ٹیکسٹائل فیکٹری سے بن کر آئے تھے۔ سب اداکار اپنے اپنے لباس اور accessoriesدیکھ کر حیران رہ گئے۔
اس کے علاوہ سیٹ ڈیزائنگ، آرٹ ورک اور دیگر شعبوں میں بھی بہت محنت کی گئی تھی۔
سب اداکار ریہرسل ختم ہونے کے بعد اپنے اپنے لباس اور accessoriesدیکھ رہے تھے۔
رانیہ Lady Macbeth کے کردار کا لباس پہنے آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔
وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے حیران بھی تھی اور خوش بھی۔
ستاروں سے سجی پیروں کو چھوتی ہلکے گلابی رنگ کی میکسی جس کا کپڑا بے حد نفیس تھا۔
”تمہارا ڈریس تو بہت ہی خوبصورت ہے۔“
شزا نے بے ساختہ تعریف کرتے ہوئے کہا۔
”تمہارا بھی۔“

وہ جواباً مسکرائی۔
”اب ہم اپنے گیٹ اپ کے ساتھ، اپنے کوسٹیومز پہن کر ریہرسل کیا کریں گے۔ ایک بہت بڑی ٹیکسٹائل فیکٹری اس تھیٹر پلے کو اسپانسر کررہی ہے۔ یہاں سارے ڈریسز بھی اُس فیکٹری سے تیار ہوکر آئے ہیں۔“
شزا نے پرجوش انداز میں کہا۔
”چلو اچھی بات ہے کہ اس بار ہمیں بھی کوئی اچھا اسپانسر ملا ہے۔“
رانیہ نے مسکرا کر کہا۔
”دیکھو نا! کتنا پیسہ لگا رہے ہیں وہ لوگ…… سیٹ، ڈیزائنرز اس ڈرامے کے لئے بہترین سیٹ تیار کروا رہے ہیں، اسٹیج رومن ایمپائر کے قدیم محل کی طرح لگے گا۔ کسی سینئر میک اپ آرٹسٹ کو بھی بلوائیں گے۔
آرٹ ڈائریکٹر بھی دن رات فیکٹری کے مالک کے ساتھ Meetingsمیں مصروف رہتا ہے۔“
شزا نے اُسے بہت ساری خبریں دیں۔
”اچھا! واقعی!“
رانیہ نے بے ساختہ کہا۔ وہ اپنی جیولری دیکھ رہی تھی۔ موتیوں کی مالائیں تھیں۔ قیمتی، پتھروں سے مزین انگوٹھیاں تھیں اور دل کی شکل کا ایک لاکٹ بھی تھا۔
”ہاں …… تمہیں تو کچھ خبر ہی نہیں ہے۔ بس اپنے ڈائیلاگ ہی یاد کرتی رہتی ہو،اِدھر اُدھر دھیان نہیں دیتی۔“
شزا نے اپنی کلائی میں بریسلیٹ پہنتے ہوئے کہا۔
”مجھے لگ رہا ہے کہ یہ ایک یادگار ڈرامہ ہوگا۔“
رانیہ نے لکڑی کے ڈبے میں سے تاج نکال کر پہنتے ہوئے کہا، یہ سفید موتیوں سے بنا ہوا تاج تھا جو ہلکا اور باریک تھا اور بالوں میں پہنے کسی بینڈ کی طرح لگتا تھا۔
”ہاں بالکل…… اگر یہ ڈرامہ کامیاب ہوگیا تو یہ مزید تھیٹر ڈراموں کو اسپانسر کریں گے۔“
شزا کہتے ہوئے ٹھہر گئی۔ اس کی نظریں اس قیمتی تاج پر رک سی گئی تھیں، اس کی آنکھوں میں ستائش اُبھری۔
”واؤ…… اتنا قیمتی تاج! یہ تو اصلی موتیوں سے بنا ہوا لگتا تھا…… Real pearls، اور یہ تو گولڈ کا لگتا ہے۔“
شزا دو قدم آگے آئی اور رانیہ کے سر پر پہنے تاج کو انگلی سے چھو کر دیکھا۔
رانیہ انگوٹھی پہنتے ہوئے ذرا چونکی پھر اُس نے لاپرواہی سے کندھے اُچکا دیئے۔
”ارے نہیں یار…… یہ تاج آرٹیفیشل ہے۔ آج کل آرٹیفیشل چیزیں رئیل چیزوں سے زیادہ چمک دمک دکھتی ہیں۔Its duplicate“
اُس نے شزا کی بات پر یقین نہیں کیا۔
”میری بہن جیولری ڈیزائنر ہے۔ مجھے اصلی اور نقلی جیولری کی بہت اچھی طرح پہچان ہے۔ یہ Duplicateنہیں ہے رانیہ…… یہ اصلی موتیوں سے بنا ہوا تاج ہے…… یوں جیسے کسی ملکہ کے لئے ہی بنایا گیا ہو۔“
شزا پانی بات پر قائم رہی۔
”کیسی باتیں کررہی ہو…… وہ فائنانسر دولت مند ضرور ہوگا مگر بے وقوف نہیں ہے۔“
رانیہ بچکانہ سی لگی۔
”ہاں …… یہی تو میں سو چ رہی ہوں۔“
شزا بھی جز بز ہوگئی۔
”بلکہ وہ بے حد عقلمند فائنانسر ہے جس نے ایسی زبردست کولیکشن رکھی ہے کہ اصلی اور نقلی کا فرق ہی پتا نہیں چلتا۔“
رانیہ نے لاکٹ پہنتے ہوئے کہا۔
شزا کچھ سوچتے ہوئے چپ ہوگئی۔ وہ اُسے بتا نہیں سکی کہ اسے تو یہ لاکٹ بھی گولڈ کا ہی لگتا تھا۔
”دیکھو! آہستہ آہستہ ہمارے تھیٹر ڈراموں کا معیار بہتر ہوتا جارہا ہے اور کام بھی بڑھتا جارہا ہے۔“
رانیہ اپنی ہی باتوں میں مگن تھی۔
”میں کسی دن اپنی بہن کو لے کر آؤں گی۔ وہ تمہیں بتادے گی کہ یہ تاج اصلی ہے یا نقلی ہے۔“
شزا کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
”ہاں لے کر آنا…… تسلی کر لینا…… اب خوش!“
رانیہ نے لاپرواہی سے کہا۔
اُسے یقین تھا کہ یہ محض شزا کا وہم ہے۔
پھر اس نے ڈبے سے سینڈریلا جیسے کرسٹل کے جوتے نکالے۔
شزا کو اگلا جھٹکا ان جوتوں کو دیکھ کر لگا۔
”یہ جوتے تو مجھے کہیں باہر سے منگوائے ہوئے لگتے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے جیسے شیشے کے ہیں۔“
شزا انہیں دیکھتے ہوئے ذرا حیران ہوئی۔
”یہاں سے بھی سب کچھ مل جاتا ہے شزا…… وہ فائنانسربھلا ہمارے لئے باہر سے چیزیں کیوں منگوائے گا! کیا وہ کوئی پاگل ہے یا اُسے اپنا پیسہ ضائع کرنے کا شوق ہے؟“
رانیہ نے جوتے پہنتے ہوئے کہا۔
شزا کچھ اُلجھ سی گئی۔
”یہ آدمی کوئی عام آدمی نہیں ہے رانیہ۔“
چند لمحوں بعد اُس نے سنجیدہ سے انداز میں کہا۔
رانیہ نے اس کی بات کو اہمیت نہیں دی۔
وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔ وہ ایک ملکہ کا عکس تھا۔
”دیکھو! اب میں لگ رہی ہوں ناQueen of scot land!“
وہ مسکرا کر بولی۔
نہ جانے کیوں شزا مسکرا نہ سکی۔
اُسے کسی انہونی کا احساس ہوا کہ یہ آدمی جو کوئی بھی تھا وہ رانیہ کو اصلی ملکہ کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا۔ مگر کیوں؟ رانیہ تو اس شخص کو جانتی بھی نہیں تھی۔ شزا الجھ گئی پھر اُسے خیال آیا کہ کیا پتا وہ شخص رانیہ کو جانتا ہو…… ہاں اس بات کا امکان تھا۔
”کیا سوچ رہی ہو؟“
رانیہ نے اُسے یوں سوچ میں ڈوبے دیکھ کر پوچھا۔
”کچھ نہیں۔“
اُس نے نفی میں سرہلادیا۔
اچانک ایک ساتھی اداکارہ نے دروازہ کھول کر کمرے میں جھانکا وہ بڑی جلدی میں تھی۔
”جلدی آجاؤ…… فائنانسر آگئے ہیں۔ ڈائریکٹر نے سب کو مین ہال میں بلایا ہے۔“
اس لڑکی نے عجلت میں بتایا۔
”واقعی؟“
شزا نے حیران ہوکر کہا۔
”ہاں …… آج وہ ڈرامے کے سب لوگوں کے ساتھ میٹنگ بھی کریں گے اور دعوت بھی ان کی طرف سے ہوگی۔“
وہ جلدی میں تھی۔
”چلو…… ہم بھی آرہے ہیں۔“
شزا نے بھی اسی انداز میں کہا۔
وہ لڑکی چلی گئی…… رانیہ اور شزا بھی باہر آئیں اور تیزی سے چلتے ہوئے مین ہال میں آئیں۔
”وہ دیکھو! وہ ہے financer!“
کسی نے اشارہ کرکے بتایا۔
وہ جو شزا کے ساتھ تیزی سے چلتے ہوئے اس طرف آرہی تھی۔ اچانک اس کے قدموں کو بریک لگ گئے۔
وہ حیران اور ششدر رہ گئی۔
وہ وہی تھا…… بلیک ٹوپیس میں ملبوس مسکراتا ہوا…… زوار آفندی……
نجانے اُسے محسوس ہوا کہ اُس کا یہاں آنا اتفاق نہیں تھا۔
نجانے کیوں آج اُسے اِس آدمی سے خوف سا محسوس ہوا تھا۔
٭……٭……٭
(باقی آئندہ)

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Read Next

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!