”تم مجھ سے شادی کروگے؟” سالار کو جیسے شاک لگا۔ ”فون پر نکاح؟” وہ کچھ دیر کے لیے بول نہیں سکا۔
لاہور سے واپس آنے کے بعد اس نے امامہ کو جلال کا جواب بالکل اسی طرح سے پہنچا دیا تھا۔ اس کا اندازہ تھا کہ وہ اب رونا دھونا شروع کرے گی اور پھر اس سے کسی ہتھیار کی فرمائش کرے گی، مگر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش رہی پھر اس نے سالار سے جو کہا تھا اس نے چند ثانیوں کے لیے سالار کے ہوش گم کر دیے تھے۔
”مجھے صرف کچھ دیر کے لیے تمہارا ساتھ چاہیے تاکہ میرے والدین اسجد کے ساتھ میری شادی نہ کرسکیں اور پھر تم بیلف کے ذریعے مجھے یہاں سے نکال لو۔ اس کے بعد مجھے تمہاری ضرورت نہیں رہے گی اور میں کبھی بھی اپنے والدین کو تمہارا نام نہیں بتاؤں گی۔” وہ اب کہہ رہی تھی۔
”او کے کرلیتا ہوں… مگر یہ بیلف والا کام تھوڑا مشکل ہے۔ اس میں بہت سی Legalities انوالو ہوجاتی ہیں۔ وکیل کو ہائر کرنا …اور …” امامہ نے دوسری طرف سے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم اپنے فرینڈز سے اس سلسلے میں مدد لے سکتے ہو۔ تمہارے فرینڈز تو اس طرح کے کاموں میں ماہر ہوں گے۔”
سالار کے ماتھے پر کچھ بل نمودار ہوئے۔ ”کس طرح کے کاموں میں۔”
”اسی طرح کے کاموں میں۔”
”تم کیسے جانتی ہو؟”
”وسیم نے مجھے بتایا تھا کہ تمہاری کمپنی اچھی نہیں ہے۔”
امامہ کے منہ سے بے اختیار نکلا اور پھر وہ خاموش ہوگئی۔ یہ جملہ مناسب نہیں تھا۔
”میری کمپنی بہت اچھی ہے، کم از کم جلال انصر کی کمپنی سے بہتر ہے۔” سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ اس بار بھی خاموش رہی۔
”بہرحال میں دیکھتاہوں، میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں۔” سالار کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد بولا۔ ”مگر تمہیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ یہ کام بہت رسکی ہے۔”
”میں جانتی ہوں مگر ہوسکتا ہے میرے والدین صرف یہ پتا چلنے پر ہی مجھے گھر سے نکال دیں کہ میں شادی کرچکی ہوں اور مجھے بیلف کی مدد لینی نہ پڑے یا ہوسکتا ہے وہ میری شادی کو قبول کرلیں اور پھر میں تم سے طلاق لے کر جلال سے شادی کرسکوں۔”
سالار نے سر کو قدرے افسوس کے عالم میں جھٹکا۔” اس نے دنیا میں اس طرح کا احمق پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ احمقوں کی جنت کی ملکہ تھی یا شاید بننے والی تھی۔
”چلو دیکھتا ہوں، کیا ہوتا ہے۔” سالار نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
”میں ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔” حسن نے سالار کے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر بے اختیار ہنسا۔
”یہ اس سال کا نیا ایڈونچر ہے یا آخری ایڈونچر۔”
”آخری ایڈونچر۔” سالار نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ تبصرہ کیا۔ ”یعنی تم شادی کر رہے ہو۔” حسن نے برگر کھاتے ہوئے کہا۔
”شادی کا کون کہہ رہا ہے۔” سالار نے اسے دیکھا۔
”توپھر؟”
”میں ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہ رہا ہوں۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے، میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔” حسن اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”آج تم مذاق کے موڈ میں ہو؟”
”نہیں، بالکل بھی نہیں۔” میں نے تمہیں یہاں مذاق کرنے کے لیے تو نہیں بلوایا۔”
”پھر کیا فضول باتیں کر رہے ہو… نکاح… لڑکی کی مدد… وغیرہ وغیرہ۔” اس بار حسن نے قدرے ناگواری سے کہا۔ ”محبت وغیرہ ہوگئی ہے تمہیں کسی سے؟”
”مائی فٹ… میرا دماغ خراب ہے کہ میں کسی سے محبت کروں گا اور وہ بھی اس عمر میں۔” سالار نے تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
”یہی تو… میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ پھر تم کیا کر رہے ہو؟”
سالار نے اس بار اسے تفصیل سے امامہ اور اس کے مسئلہ کے بارے میں بتایا۔ اس نے حسن کو صرف یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ لڑکی وسیم کی بہن ہے کیوں کہ حسن وسیم سے بہت اچھی طرح واقف تھا لیکن اس سے تفصیلات سننے کے بعد حسن نے پہلا سوال ہی یہ کیا تھا۔
”وہ لڑکی کون ہے؟” سالار نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
”وسیم کی بہن۔”
”واٹ۔” حسن بے اختیار اچھلا۔ ”وسیم کی بہن… وہ جو میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے۔”
”ہاں۔”
”تمہارا دماغ خراب ہوگیا، تم کیوں خوامخواہ اس طرح کی حماقت کر رہے ہو۔ وسیم کو بتا دو اس سارے معاملے کے بارے میں۔”
”میں تم سے مدد مانگنے آیا ہوں، مشورہ مانگنے نہیں۔” سالار نے ناگواری سے کہا۔
”میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں۔” حسن نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”تم نکاح خواں اور کچھ گواہوں کا انتظام کرو، تاکہ میں اس سے فون پر نکاح کرسکوں۔” سالار نے فوراً ہی کام کی بات کی۔
”مگر تمہیں یہ نکاح کر کے فائدہ کیا ہوگا۔”
”کچھ بھی نہیں، مگر میں کسی فائدے کے بارے میں سوچ بھی کب رہا ہوں۔”
”دفع کرو سالار! اس سب کو … تم کیوں کسی دوسرے کے معاملے میں کود رہے ہو اور وہ بھی وسیم کی بہن کے معاملے میں… بہتر۔۔۔”
سالار نے اس بار درشتی سے اس کی بات کاٹی۔ ”تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ میری مدد کروگے یا نہیں… باقی چیزوں کے بارے میں پریشان ہونا تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔”
”ٹھیک ہے، میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں مدد کرنے سے انکار نہیں کر رہا ہوں، مگر تم یہ سوچ لو کہ یہ سب بہت خطرناک ہے۔ ”حسن نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں کہا۔
”میں سوچ چکا ہوں، تم مجھے تفصیلات بتاؤ۔ ”سالار نے اس بار فرنچ فرائیز کھاتے ہوئے کچھ مطمئن انداز میں کہا۔
”بس ایک بات… اگر انکل اور آنٹی کو پتا چل گیا تو کیا ہوگا۔”
”انہیں پتا نہیں چلے گا، وہ یہاں نہیں ہیں، کراچی گئے ہوئے ہیں اور ابھی کچھ دن وہاں رکیں گے۔ وہ یہاں ہوتے پھر میرے لیے یہ سب کچھ کرنا بہت مشکل ہوتا۔” سالار نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ وہ اپنا برگر تقریباً ختم کر چکا تھا۔ حسن اب اپنا برگر کھاتے ہوئے کسی گہری سوچ مین ڈوبا ہوا نظر آرہا تھا مگر سالار اس کے تاثرات کی طرف دھیان نہیں دے رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ حسن اس وقت اپنا لائحہ عمل طے کرنے میں مصروف ہے۔ اسے حسن سے کسی قسم کا کوئی خوف یا خطرہ نہیں تھا۔ وہ اس کا بہترین دوست تھا۔
٭…٭…٭
حسن نے نکاح کے انتظامات بہت آسانی سے کرلیے تھے۔ سالار نے اسے کچھ رقم دی تھی، جس سے اس نے تین گواہوں کا انتظام کرلیا تھا۔ چوتھے گواہ کے طور پر وہ خود موجود تھا۔ نکاح خواں کو اندازہ تھا کہ اس نکاح میں کوئی غیر معمولی کہانی تھی۔ مگر اسے بھاری رقم کے ساتھ اتنی دھمکیاں بھی دے دی گئی تھیں کہ وہ خاموش ہوگیا۔
حسن سہ پہر کے وقت اس نکاح خواں اور تینوں گواہوں کو لے آیا تھا۔ وہ سب سالار کے کمرے میں چلے گئے تھے۔ وہیں بیٹھ کر نکاح نامہ بھرا گیا تھا۔ سالار امامہ کو پہلے ہی اس بارے میں انفارم کر چکا تھا۔ مقررہ وقت پر فون پر نکاح خواں نے ان دونوں کا نکاح پڑھا دیا تھا۔ سالار نے ملازمہ کے ذریعے امامہ کو پیپرز بھجوادیے تھے۔ امامہ نے پیپرز لیتے ہی برق رفتاری سے ان پر سائن کر کے ملازمہ کو واپس دے دیے تھے۔ ملازمہ ان پیپرز کو واپس سالار کے پاس لے آئی تھی، مگر وہ بری طرح تجسس کا شکار تھی۔
آخر وہ لوگ کون تھے جو سالار کے کمرے میں تھے اور یہ پیپرز کیسے تھے جن پر امامہ نے سائن کیا تھا۔ اس کا ماتھا ٹھنک رہا تھا اور اسے شبہ ہو رہا تھا کہ ہو نہ ہو وہ دونوں آپس میں شادی کر رہے تھے۔ سالار کو پیپرز واپس دیتے ہوئے وہ پوچھے بغیر رہ نہیں سکی تھی۔
”یہ کس چیز کے کاغذ ہیں سالار صاحب؟” اس نے بظاہر بڑی سادگی اور معصومیت سے پوچھا۔
”تمہیں اس سے کیا… جیسے بھی پیپزز ہوں… تم اپنے کام سے کام رکھو۔” سالار نے درشتی سے اسے جھڑک دیا۔
“اور ایک بات تم کان کھول کر سن لو، اس سارے معاملے کے بارے میں اگر تم اپنا منہ بند رکھوگی تو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا بلکہ بہت بہتر ہوگا۔۔۔”
”مجھے کیا ضرورت ہے جی کسی سے بھی اس بارے میں بات کرنے کی۔ میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا۔ آپ اطمینان رکھیں صاحب جی! میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔”
ملازمہ فوراً گھبرا گئی تھی۔ سالار ویسے بھی اتنا اکھڑ مزاج تھا کہ اسے اس سے بات کرتے ہوئے خوف آیا کرتا تھا۔ سالار نے کچھ نخوت بھرے انداز میں سر کو جھٹکا۔ اسے اس بات کا کوئی خوف نہیں تھا کہ ملازمہ یہ سب کسی کو بتا سکتی تھی، اگر بتا بھی دیتی تو اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔
٭…٭…٭
”تم ایک بار پھر جلال سے ملو، ایک بار پھر پلیز…” وہ اس دن فون پر اس سے کہہ رہی تھی۔
سالار اس کی بات پر چڑ گیا۔ ”وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا امامہ! وہ کتنی بار کہہ چکا ہے۔ آخر تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ دوبارہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کے ماں باپ اس کی کوئی منگنی وغیرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔”
”وہ جھوٹ بول رہا ہے۔” امامہ نے بے اختیار اس کی بات کاٹ دی۔ ”صرف اس لیے کہ میں اس سے دوبارہ کانٹیکٹ نہ کروں، ورنہ اس کے پیرنٹس اتنی جلدی اس کی منگنی کر ہی نہیں سکتے۔”
”تو جب وہ نہیں چاہتا تم سے شادی کرنا اور کانٹیکٹ کرنا … تو تم کیوں خوار ہو رہی ہو اس کے پیچھے۔”
”کیوں کہ میری قسمت میں خواری ہے۔” اس نے دوسری طرف سے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”اس کا کیا مطلب ہے۔” وہ الجھا۔
”کوئی مطلب نہیں ہے۔ نہ تم سمجھ سکتے ہو… تم بس اس سے جاکر کہو کہ میری مدد کرے، وہ حضرت محمدﷺ سے اتنی محبت کرتا ہے… اس سے کہو کہ وہ آپﷺ کے لیے ہی مجھ سے شادی کرلے۔” وہ بات کرتے کرتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”یہ کیا بات ہوئی۔” وہ اس کے آنسوؤں سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔ ”کیا یہ بات کہنے سے وہ تم سے شادی کرلے گا۔”
امامہ نے جواب نہیں دیا، وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ وہ بیزار ہوگیا۔
”تم یا تو رولو… یا پھر مجھ سے بات کرلو۔”
دوسری طرف سے فون بند کردیا گیا۔ سالار نے فوراً کال کی۔ کال ریسیو نہیں کی گئی۔
”پندرہ بیس منٹ کے بعد امامہ نے اسے دوبارہ کال کی۔ ”اگر تم یہ وعدہ کرتی ہو کہ تم روؤگی نہیں تو مجھ سے بات کرو، ورنہ فون بند کردو۔” سالار نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”پھر تم لاہور جا رہے ہو۔” اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس نے اس سے پوچھا۔ سالار کو اس کی مستقل مزاجی پر حیرانی ہوئی۔ وہ واقعی ڈھیٹ تھی۔ وہ اب بھی اپنی ہی بات پر اٹکی ہوئی تھی۔
”اچھا، میں چلا جاؤں گا۔ تم نے اپنے گھر والوں کو شادی کے بارے میں بتایا ہے۔” سالار نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”نہیں، ابھی نہیں بتایا۔” وہ اب خود پر قابو پاچکی تھی۔
”کب بتاؤگی؟” سالار کو جیسے ڈرامے کے اگلے سین کا انتظار تھا۔
”پتا نہیں۔” وہ کچھ الجھی۔ ”تم کب لاہور جاؤگے؟”
”بس جلد ہی چلا جاؤں گا۔ ابھی یہاں مجھے کچھ کام ہے ورنہ فوراً ہی چلا جاتا۔”
اس بار سالار نے جھوٹ بولا تھا۔ نہ تو اسے کوئی کام تھا اور نہ ہی وہ اس بار لاہور جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
”جب تم بیلف کے ذریعے اپنے گھر سے نکل آؤگی تو اس کے بعد تم کیا کروگی… آئی مین! کہاں جاؤگی؟” سالار نے ایک بار پھر اسے اس موضوع سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ ”اس صورت میں جب جلال بھی تمہاری مدد کرنے پر تیار نہ ہوا تو۔۔۔۔”
”میں ابھی ایسا کچھ فرض نہیں کر رہی، وہ ضرور میری مدد کرے گا۔” امامہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پرزور انداز میں کہا۔ سالار نے کندھے اچکائے۔
”تم کچھ بھی فرض کرنے پر تیار نہیں ہو، ورنہ میں تم سے ضرور کہتا کہ شاید وہ نہ ہو جو تم چاہتی ہو پھر تم کیا کروگی… تمہیں دوبارہ اپنے پیرنٹس کی مدد کی ضرورت پڑے گی… تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ تم ابھی یہاں سے نہ جانے کا سوچو… نہ ہی بیلف اور کورٹ کی مدد لو۔ بعد میں بھی تو تمہیں یہاں ہی آنا پڑے گا۔”
”میں دوبارہ کبھی یہاں نہیں آؤں گی، کسی صورت میں نہیں۔”
”یہ جذباتیت ہے۔” سالار نے تبصرہ کیا۔
”تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے۔” امامہ نے ہمیشہ کی طرح اپنا مخصوص جملہ دہرایا۔ سالار کچھ جزبز ہوا۔
”اوکے… کرو جو کرنا چاہتی ہو۔” اس نے لاپروائی سے کہہ کر فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭
”کل شام کو ہم لوگ اسجد کے ساتھ تمہار انکاح کر رہے ہیں۔ تمہاری رخصتی بھی ساتھ ہی کر دیں گے۔”
”ہاشم مبین نے رات کو اس کے کمرے میں آکر اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
”بابا! میں انکار کردوں گی… آپ کے لیے بہتر ہے آپ اس طرح زبردستی میری شادی نہ کریں۔”
”تم انکار کروگی تو میں تمہیں اسی وقت شوٹ کردوں گا، یہ بات تم یاد رکھنا۔” وہ سر اٹھائے انہیں دیکھتی رہی۔
”بابا! میں شادی کرچکی ہوں۔” ہاشم مبین کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ ”میں اسی لیے اس شادی سے انکار کر رہی تھی۔”
”تم جھوٹ بول رہی ہو۔”
”نہیں، میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔ میں چھ ماہ پہلے شادی کرچکی ہوں۔”
”کس کے ساتھ؟”
”میں یہ آپ کو نہیں بتا سکتی۔”
ہاشم مبین کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس اولاد کے ہاتھوں اتنا خوار ہوں گے۔ آگ بگولہ ہوکر وہ امامہ پر لپکے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے اس کے چہرے پر تھپڑ مارنے شروع کردیے۔ وہ چہرے کے سامنے دونوں ہاتھ کرتے ہوئے خود کو بچانے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہی۔ کمرے میں ہونے والا شور سن کر وسیم سب سے پہلے وہاں آیا تھا اور اسی نے ہاشم مبین کو پکڑ کر زبردستی امامہ سے دور کیا۔ وہ دیوار کے ساتھ پشت ٹکائے روتی رہی۔
”بابا! آپ کیا کر رہے ہیں، سارا معاملہ آرام سے حل کیا جاسکتا ہے۔” وسیم کے پیچھے گھر کے باقی لوگ بھی اندر چلے آئے تھے۔
”اس نے… اس نے شادی کرلی ہے کسی سے۔” ہاشم مبین نے غم و غصہ کے عالم میں کہا۔
”بابا! جھوٹ بول رہی ہے، شادی کیسے کرسکتی ہے۔ ایک بار بھی گھر سے نہیں نکلی۔” یہ وسیم تھا۔
”چھ ماہ پہلے شادی کرلی ہے اس نے۔” امامہ نے سر نہیں اٹھایا۔
”نہیں، میں نہیں مانتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا، یہ ایسا کر ہی نہیں سکتی۔” وسیم اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔ امامہ نے دھندلائی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا۔