سالار صبح خلاف معمول دیر سے اٹھا۔ گھڑی دیکھتے ہوئے اس نے کالج نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ سکندر اور طیبہ کراچی گئے ہوئے تھے اور وہ گھر پر اکیلا ہی تھا۔ ملازم جس وقت ناشتہ لے کر آیا وہ ٹی وی آن کیے بیٹھا تھا۔
”ذرا ناصرہ کو اندر بھیجنا۔” اسے ملازم کو دیکھ کر کچھ یاد آیا۔ اس کے جانے کے چند منٹ بعد ناصرہ اندر داخل ہوئی۔
”صاحب جی! آپ نے بلایا ہے؟” ادھیڑ عمر ملازمہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں، میں نے بلایا ہے…تم سے ایک کام کروانا ہے۔” سالار نے ٹی وی کا چینل بدلتے ہوئے کہا۔
”ناصرہ! تمہاری بیٹی وسیم کے گھر کام کرتی ہے نا؟” سالار اب ریموٹ رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”ہاشم صاحب کے گھر؟” ناصرہ نے کہا۔
”ہاں، ان ہی کے گھر۔”
”ہاں جی کرتی ہے۔” وہ کچھ حیران ہوکر اس کا منہ دیکھنے لگی۔
”کس وقت جاتی ہے وہ ان کے گھر؟”
”اس وقت ان کے گھر پر ہی ہے… کیا ہوا ہے… سالار صاحب؟” ناصرہ اب کچھ پریشان نظر آنے لگی۔
”کچھ نہیں… میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کے پاس جاؤ، یہ موبائل اسے دو اور اس سے کہو کہ یہ امامہ کو دے دے۔” سالار نے بڑے لاپروا انداز میں اپنا موبائل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
ناصرہ ہکا بکا رہ گئی۔ “میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔”
”یہ موبائل اپنی بیٹی کو دو اور اس سے کہو کسی کو بتائے بغیر یہ امامہ تک پہنچا دے۔”
”مگر کیوں؟”
”یہ جاننا تمہارے لیے ضروری نہیں ہے، تمہیں جو کہا ہے وہی کرو۔” سالار نے ناگواری کے عالم میں اسے جھڑکا۔
”لیکن اگر کسی کو وہاں پتا چل گیا تو…” ناصرہ کی بات کو اس نے درشتی سے کاٹ دیا۔
”کسی کو پتا تب چلے گا جب تم اپنا منہ کھولوگی… اور تم اپنا منہ کھولو گی تو صرف تمہیں اور تمہاری بیٹی کو نقصان ہوگا اور کسی کو نہیں… لیکن اگر تم اپنا منہ بند رکھوگی تو نہ صرف کسی کو پتا نہیں چلے گا بلکہ تمہیں بھی خاصا فائدہ ہوگا۔”
ناصرہ نے اس بار کچھ کہے بغیر خاموشی سے وہ موبائل پکڑ لیا۔ ”میں پھر کہہ رہاہوں… کسی کو اس موبائل کے بارے میں پتا نہیں چلنا چاہیے۔” وہ اپنا والٹ نکال رہا تھا۔
”ناصرہ سر ہلاتے ہوئے جانے لگی۔ ”ایک منٹ ٹھہرو۔” سالار نے اسے روکا۔ وہ اب اپنے والٹ سے کچھ کرنسی نوٹ نکال رہا تھا۔
”یہ لے لو۔” اس نے انہیں ناصرہ کی طرف بڑھا دیے۔ ناصرہ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ نوٹ پکڑ لیے۔ وہ جن گھروں میں کام کرتی رہی تھی وہاں کے بچوں کے ایسے بہت سے رازوں سے واقف تھی، اسے بھی پیسے کمانے کا موقع مل گیا تھا۔ اس نے فوری اندازہ یہی لگایا تھا کہ امامہ اور سالار کا چکر چل رہا تھا اور یہ موبائل وہ تحفہ تھا جو اسے امامہ کو دینا تھا، مگر اسے حیرانی اس بات پر ہو رہی تھی کہ اس سب کا اسے پہلے پتا کیوں نہیں چلا … اور پھر امامہ … اس کی تو شادی ہو رہی تھی… پھر وہ کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہی تھی۔
”اور دیکھو ذرا مجھے، میں امامہ بی بی کو کتنا سیدھا سمجھتی رہی۔” ناصرہ کو اب اپنی بے خبری پر افسوس ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
”ابو! میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔” جلال رات کو اپنے والد کے کمرے میں چلا آیا۔ اس کے والد اس وقت اپنی ایک فائل دیکھنے میں مصروف تھے۔
”ہاں آؤ، کیا بات ہے؟” انہوں نے جلال کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ان کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہا، اس کے والد نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا، انہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کچھ پریشان ہے۔ ”کیا بات ہے جلال!” انہیں یک دم تشویش ہونے لگی۔
”ابو! میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔” جلال نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
”کیا؟” انصر جاوید کو اس کے منہ سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔ ”تم کیا کرنا چاہتے ہو؟”
”میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
”یہ فیصلہ تم نے یک دم کیسے کرلیا، کل تک تو تم باہر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، اور اب آج تم شادی کا ذکر لے بیٹھے ہو۔” انصر جاوید مسکرائے۔
”بس… معاملہ ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ مجھے آپ سے بات کرنی پڑ رہی ہے۔”
انصر جاوید سنجیدہ ہوگئے۔
”آپ نے زینب کی دوست امامہ کو دیکھا ہے۔” اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔
”ہاں! تم اس میں انٹرسٹڈ ہو۔” انصر جاوید نے فوراً اندازہ لگایا۔
جلال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ”مگر وہ لوگ تو بہت امیر ہیں … اس کا باپ بڑا صنعت کار ہے اور وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔” انصر جاوید کا لہجہ بدل چکا تھا۔
”ابو! وہ اسلام قبول کرچکی ہے، اس کی فیملی قادیانی ہے۔” جلال نے وضاحت کی۔
”اس کے گھر والوں کو پتا ہے؟”
”نہیں۔”
”تمہارا خیال ہے وہ یہ پرپوزل قبول کرلیں گے؟” انصر جاوید نے چبھتے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔
”ابو! اس کی فیملی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کی اجازت کے بغیر ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔”
”تمہار ادماغ ٹھیک ہے؟” اس بار انصر جاوید نے بلند آواز میں کہا۔ ”میں تمہیں کسی حالت میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔”
”جلال کا چہرہ اُتر گیا۔ ”ابو! میری اس کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”مجھ سے پوچھ کر کمٹمنٹ نہیں کی تھی تم نے … اور اس عمر میں بہت ساری کمٹمنٹس ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بندہ اپنی زندگی خراب کرلے۔” مجھے اس کے خاندان کے اثر و رسوخ کا پتا ہے… انہیں اپنے پیچھے لگا کر ہم سب برباد ہوجائیں گے۔”
”ابو! میں خفیہ طور پر شادی کرلیتا ہوں… کسی کو بتائیں گے نہیں تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔”
”اور اگر پتا چل گیا تو… میں ویسے بھی تمہاری تعلیم کے مکمل ہونے تک تمہاری شادی کرنا نہیں چاہتا۔ ابھی تمہیں بہت کچھ کرنا ہے۔”
ابو! پلیز… میں اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کرسکتا۔” جلال نے مدھم آواز میں اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اچھا… ایسا ہے تو تم اس سے کہو کہ وہ اپنے والدین سے اس سلسلے میں بات کرے۔ اگر اس کے والدین مان جاتے ہیں تو میں تم دونوں کی شادی کردوں گا۔” انہوں نے تیز مگر حتمی لہجے میں کہا۔ ”مگر میں تمہاری شادی کسی ایسی لڑکی سے قطعی نہیں کروں گا جو اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف تم سے شادی کرنا چاہے۔۔۔۔”
”ابو! آپ اس کا مسئلہ سمجھیں، وہ بری لڑکی نہیں ہے… وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ بس وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے جس پر اس کے گھر والے راضی نہیں ہوں گے۔” جلال نے دانستہ طور پر اسجد اور اس کی منگنی کا ذکر گول کر دیا۔
”مجھے کسی دوسرے کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تمہیں بھی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ امامہ کا مسئلہ ہے، وہ جانے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچو۔” انصر جاوید نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”ابو! پلیز… میری بات سمجھیں۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے۔۔۔”
”بہت سے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تم کس کس کی مدد کروگے… اور ویسے بھی ہمارے اور ان کے اسٹیٹس میں اتنا فرق ہے کہ ان سے کوئی دشمنی یا مخالفت مول لینا ہمارے بس کی بات نہیں، سمجھے تم اور پھر میں ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کر کے اپنے خاندان والوں کا سامنا کیسے کروں گا۔”
”ابو! وہ مسلمان ہوچکی ہے… میں نے آپ کو بتایا ہے۔” جلال نے جھنجلا کرکہا۔
”چار ملاقاتوں میں وہ تم سے اتنی متاثر ہوگئی کہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔”
”ابو! اس نے مجھ سے ملنے سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔”
تم نے اسلام قبول کرتے دیکھا تھا اسے؟”
”میں اس سے مذہب کے بارے میں تفصیلاً بات کرتا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہے۔”
”بالفرض وہ ایسا کر بھی چکی ہے… تو پھر اسے اپنے مسائل سے خود نمٹنا چاہیے۔ تمہیں بیچ میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ اپنے والدین سے دو ٹوک بات کرے، انہیں بتائے کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتی ہے… پھر میں اور تمہاری امی دیکھیں گے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں… دیکھو جلال! اگر اس کا خاندان اپنی مرضی اور خوشی سے اس کی شادی تمہارے ساتھ کرنے پر تیار ہوجائے تو میں اسے بخوشی قبول کرلوں گا… مگر کسی بے نام و نشان لڑکی سے میں تمہاری شادی نہیں کروں گا… مجھے اس معاشرہ میں رہنا ہے لوگوں کو منہ دکھانا ہے… بہو کے خاندان کے بارے میں کیا کہوں گا میں کسی سے… یہ کہ وہ گھر چھوڑ کر آئی ہے اور اس نے اپنی مرضی سے میرے بیٹے سے شادی کرلی ہے۔”
”ابو! یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ ہم اس کی مدد کریں اور …” انصر جاوید نے تلخی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”مذہب کو بیچ میں مت لے کر آؤ، ہر چیز میں مذہب کی شرکت ضروری نہیں ہوتی۔ صرف تم ہی یہ مذہبی فریضہ ادا کرنے والے رہ گئے ہو، باقی سارے مسلمان مرگئے ہیں۔”
”ابو! اس نے مجھ سے مدد مانگی ہے، میں اس لیے کہہ رہا ہوں۔”
”بیٹا! یہاں بات مدد کی یا مذہب کی نہیں ہے، یہاں صرف زمینی حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت اچھی بات ہے کہ تم میں مدد کا جذبہ ہے اور تمہیں اپنے مذہبی فرائض کا احساس ہے مگر انسان پر کچھ حق اس کے والدین کا بھی ہوتا ہے اور یہ حق بھی مذہب نے ہی فرض کیا ہے اور اس حق کے تحت میں چاہتا ہوں کہ تم اس کے خاندان کی مرضی کے بغیر اس سے شادی نہ کرو… فرض کرو تم اس سے شادی کر بھی لیتے ہو… تو کیا ہوگا… تم تو چند ماہ میں امریکہ ہوگے … اور وہ یہاں گھر بیٹھی ہوگی… میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ میں تم چاروں کی تعلیم پر بھی خرچ کروں اور اس کی تعلیم پر بھی… تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تم پر میرا کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے… تو وہ ڈاکٹر تو نہیں بنے گی… یہاں گھر میں کتنے سال تم اسے بٹھا سکتے ہو… اور اگر اس کے خاندان نے تم پر یا ہم پر کیس کر دیا تو اس صورت میں تم بھی پابند ہو کر رہ جاؤگے اور میں بھی… تم کو اپنی بہن کا احساس ہونا چاہیے، تم یہ چاہتے ہو کہ اس عمر میں، میں جیل چلا جاؤں… اور شاید تم بھی۔۔۔”
جلال کچھ بول نہیں سکا۔
”ان چیزوں کے بارے میں اتنا جذباتی ہوکر نہیں سوچنا چاہیے۔ میں نے تمہیں راستہ بتا دیا ہے… اس سے کہو اپنے والدین سے بات کر کے انہیں رضا مند کرے… ہوسکتا ہے وہ رضامند ہوجائیں پھر مجھے کیا اعتراض ہوگا تم دونوں کی شادی پر لیکن اگر وہ یہ نہیں کرتی تو پھر اس سے کہو کہ وہ کسی اور سے شادی کرلے اور تم ٹھنڈے دل سے سوچو۔ تمہیں خود پتا چل جائے گا کہ تمہارا فیصلہ کتنا نقصان دہ ہے۔” انصر جاوید نے آخری کیل ٹھونکی۔
٭…٭…٭
”باجی! میں آپ کا کمرہ صاف کردوں؟” ملازمہ نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اسامہ سے پوچھا۔
”نہیں تم جاؤ۔” امامہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کے لیے کہا۔ ملازمہ باہر جانے کے بجائے دروازہ بند کر کے اس کے پاس آگئی۔
”میں نے تم سے کہا ہے نا کہ تم …” امامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر پھر اس کی بات حلق میں ہی رہ گئی۔ ملازمہ نے اپنی چادر کے اندر سے ایک موبائل نکالا تھا۔ امامہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
”باجی! یہ میری ماں نے دیا ہے، وہ کہہ رہی تھی کہ ساتھ والے سالار صاحب نے آپ کے لیے دیا ہے۔” اس نے اِمامہ کی طرف عجلت کے عالم میں وہ موبائل بڑھایا۔ امامہ نے تیزی سے موبائل کو جھپٹ لیا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
”دیکھو، تم کسی کو بتانا مت کہ تم نے مجھے کوئی موبائل لاکر دیا ہے۔” امامہ نے اسے تاکید کی۔
”نہیں باجی! آپ بے فکر رہیں، میں نہیں بتاؤں گی۔ اگر آپ کو بھی کوئی چیز سالار صاحب کے لیے دینی ہو تو مجھے دے دیں۔”
”نہیں، مجھے کچھ نہیں دینا، تم جاؤ۔” اس نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
ملازمہ کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے کمرے کو لاک کر لیا۔ کانپتے ہاتھوں اور دل کی بے قابو ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ اس نے دراز سے موبائل نکالا اور اس پر جلال کا نمبر ڈائل کرنا شروع کیا۔ وہ اسے تفصیل سے ساری بات بتانا چاہتی تھی۔ فون جلال کی امی نے اٹھایا۔
”بیٹا! جلال تو باہر گیا ہوا ہے، وہ تو رات کو ہی آئے گا۔ تم زینب سے بات کرلو۔ اسے بلا دوں؟” جلال کی امی نے کہا۔
”نہیں آنٹی! مجھے کچھ جلدی ہے، میں زینب سے پھر بات کرلوں گی۔ بس میں نے ان سے چند کتابوں کا کہا تھا، مجھے ان ہی کے بارے میں پوچھنا تھا۔ میں دوبارہ فون کرلوں گی۔” امامہ نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
امامہ نے اس دن دوپہر کو بھی کھانا نہیں کھایا۔ وہ صرف رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ جلال گھر آجائے اور وہ اس سے دوبارہ بات کرسکے۔ شام کے وقت ملازمہ نے اسے اسجد کے فون کی اطلاع دی۔
وہ جس وقت نیچے آئی اس وقت لاؤنج میں صرف وسیم بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے فون کی طرف چلی گئی۔ فون کا ریسیور اٹھاتے ہی دوسری طرف اسجد کی آواز سنائی دی تھی۔ بے اختیار امامہ کا خون کھولنے لگا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ اس شادی کو طے کرنے میں اسجد سے زیادہ خود ہاشم مبین کا ہاتھ تھا۔ امامہ کو اس پر غصہ آرہا تھا۔
وہ اس کا حال احوال دریافت کر رہا تھا۔
”اسجد! تم نے اس طرح میرے ساتھ دھوکا کیوں کیا ہے؟”
”کیسا دھوکہ امامہ!”
”شادی کی تاریخ طے کرنا… تم نے اس سلسلے میں مجھ سے بات کیوں نہیں کی۔” وہ کھولتے ہوئے بولی۔
”کیا انکل نے تم سے بات نہیں کی۔”
”انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا اور میں نے ان سے کہا تھا کہ میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتی۔”
”بہرحال اب تو کچھ نہیں ہوسکتا … اور پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ شادی اب ہو یا کچھ سالوں کے بعد۔” اسجد نے قدرے لاپروائی سے کہا۔
”اسجد! تمہیں فرق پڑتا ہو یا نہیں، مجھے پڑتا ہے۔ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے تک شادی نہیں کرنا چاہتی… اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے تھے۔”
”ہاں، میں جانتا ہوں مگر اس سارے معاملے میں، میں تو کہیں بھی انوالو نہیں ہوں۔ تمہیں بتا رہا ہوں، شادی انکل کے اصرار پر ہو رہی ہے۔”
”تم اسے رکوادو۔”
”تم کیسی باتیں کر رہی ہو امامہ! میں اسے کیسے رکوادوں۔” اسجد نے کچھ حیرانی سے کہا۔
”اسجد پلیز!”
”اِمامہ! میں ایسا نہیں کرسکتا، تم میری پوزیشن سمجھو۔ اب تو ویسے بھی کارڈ چھپ چکے ہیں، دونوں گھروں میں تیاریاں ہو رہی ہیں اور ۔۔۔”
امامہ نے اس کی بات سنے بغیر ریسیور کو پٹخ دیا۔ وسیم نے اس پوری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ وہ خاموشی سے اسجد کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو سنتا رہا تھا جب امامہ نے فون بند کر دیا تو وسیم نے اس سے کہا۔
”تم خوامخواہ ایک فضول بات پر اتنا ہنگامہ کھڑا کر رہی ہو۔ کل بھی تو تمہیں شادی اسجد کے ساتھ ہی کرنی ہے پھر اس طرح کر کے تم خود اپنے لیے مسائل پیدا کر رہی ہو۔ بابا تم سے بہت ناراض ہیں۔”
”میں نے تم سے تمہاری رائے نہیں مانگی، تم اپنے کام سے کام رکھو۔ جو کچھ تم میرے ساتھ کرچکے ہو وہ کافی ہے۔”
امامہ اس پر غرائی اور پھر واپس اپنے کمرے میں آگئی۔
٭…٭…٭