پتھر کے صنم

وہ اپنے میکے آئی ہوئی تھی۔ لاکھ چاہا کہ اماں کو وہاں کی عجیب و غریب صورت حال سے آگاہ کرے، مگر پھر یہ سوچ کر خاموش رہی کہ بہ ظاہر یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اماں ابا کو پریشان کیا جائے۔ یہ ایک طرح سے مکمل طور پر ذاتی مسئلہ تھا جسے وہ اپنے طور پر حل کرسکتی تھی کیوں کہ اس پیر نامے کے علاوہ وہاں سب کچھ نارمل تھا۔ ہفتہ بھر رہ کر وہ واپس گئی تو ساتھ ہی اسے اپنے امید سے ہونے کا معلوم ہوا، اس نے سکون کا سانس لیا کہ سال بھر کے لیے اس کی جان اس سب سے چھوٹی رہے گی۔ یہ خبر سن کر میکے اور سسرال کی خوشی فطری تھی۔ صدف نے بھی نوافل پڑھنا معمول کا حصہ بنا لیا۔ اس دن وہ نماز پڑھنے کے بعد اپنے لیے دودھ گرم کررہی تھی جب شائستہ نے اس کی خوش فہمی کو نگل لینے والی بات کہی۔
”بھابھی یہ سفوف دودھ میں ڈال لیں، شفا والا ہے۔“
”شفا والا؟“ اس نے حیرانی سے شائستہ کو دیکھا۔
”جی پیر صاحب نے دم کرکے دیا ہے، امی کل گئی تھیں دربار حاضری دینے“ وہ پرجوش تھی
 ”تم لوگوں نے پیر صاحب کو بتایا میری حالت کے بارے میں؟“ وہ ان کی کم علمی کا جتنا افسوس کرتی کم تھا۔
 ”ظاہر ہے بھابھی، آگے بچے کا نام، اس کا زائچہ بھی تو بنوانا ہے پھر طاقت کے لیے اور بری نظر سے بچنے کے لیے بھی تو تعویز چاہیے، انہیں تو بتانا ہی تھا۔وہ معصومیت سے انہیں تفصیل بتانے لگی۔
”ارے یہ بری نظر وزرکو اتنا سر پر مت چڑھاﺅ، یہ سب انسان کے اپنے کرتوت ہوتے ہیں جنہیں وہ بری نظر کے پیراہن میں چھپا کر خود معصوم بن جاتا ہے۔“ اس نے سمجھانے کی ناکام سی کوشش کی۔ ”پتا نہیں بھابھی آپ کیوں نہیں سمجھتیں؟ یہ جو آپ کو اولاد کی نوید ملی ہے نا، یہ بھی باباجی کی دعاﺅں کی بہ دولت ہے، ورنہ دشمن اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوگیا ہوتا ااب تک“ شائستہ بڑی اماﺅں والے انداز میں اسے سمجھا رہی تھی۔
”کون دشمن“؟صدف نے تشویش ناک لہجے میں پوچھا۔
”بھابھی! آپ بہت بھولی ہیں، ہر شخص کا ہی کوئی نہ کوئی دشمن ہوتا ہے، کون جانے کب وار کر جائے، اس کے لیے احتیاطی تدبیر کرنا تو ہمارا فرض ہے۔“
”ہاں تو چندہ تدبیر کرنے سے کون منع کررہا ہے؟ ضرور کرو تدبیر…. لیکن دعا “اللہ سے بہ راہ راست خلوص دل سے مانگی گئی دعا سے بڑھ کر اور کوئی تدبیر نہیں…. تم کیوں نہیں سمجھتیں؟…. یہ پیر و ویر….“وہ بول رہی تھی کہ شائستہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”نہ کریں بھابھی! بس یہ پڑیا ڈالیں دودھ میں دیکھئے گا کیسا سکون ملتاہے۔“ شائستہ نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنا مدعا بیان کیا اور چلی گئی۔
اپنے کمرے میں آکر ایک پل کو صدف نے سوچا کہ اتنی ضد لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سفوف ہی ہے نا گھول کر پی لیتی ہوں۔“ ویسے بھی کل رات سے اس کی کمر میں درد اٹھ رہا تھا۔ ”آزمانے میں کیا حرج ہے؟“ لیکن ساری بات تو عقیدے کی ہے نا، انسان اپنے آپ کو جس کے حوالے کردے، اللہ بھی اس سے اسی طرح حساب لے گا۔ اس بات کا شعور رکھتے ہوئے بھی وہ لمحاتی طور پر بے شعور ہوئی اور وہ پڑیا گھول کر دودھ پی لیا۔ کچھ دیر بعد وہ سو کر اٹھی تو حیران رہ گئی…. اس کی کمر کا درد بالکل غائب تھا۔ مگر وہ خوش نہ ہوسکی…. کیوں؟ وجہ تو اسے رات کو سمجھ آئی اور جب سمجھ آئی تو دیر ہوچکی تھی۔
”بھابھی آپ نے دودھ میں وہ سفوف نہیں ڈالا ہوگا دم کیا ہوا تب بھی اتنا تیز بخار ہورہا ہے۔ “ شائستہ نے یقینی لہجے میں کہا۔
 ”اسی پڑیا کا کمال لگ رہا ہے مجھے جو میں نے کھول کر پی تھی“ صدف بھی نہ چوکی۔
 ”کیا؟“ عبدالواثق اور کنیز بیگم اس کی جرا ¿ت و اطلاع پر حیران ہوئے، جب کہ اپنا اندازہ غلط ہونے پر شائستہ نے نظریں جھکالیں۔ ”چلو کوئی بات نہیں، کل اسے پیر صاحب کے پاس لے جانا وہ دیکھ کر بتا دیں گے۔“ گھر کے سربراہ یعنی سسر صاحب بھی اس میدان میں پیش پیش تھے۔
 ”واثق میرا جانا ضروری ہے کیا اس حالت میں؟“ وہ ملتجی ہوئی۔ ”تم نہیں جانا چاہتیں؟ صدف نے دوا کھا لی تھی اور سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔
واثق نے اس سے بڑے پیار سے پوچھا جس سے صدف کی امید بڑھی۔
 ”نہیں“
”لیکن پھر بھی تمہیں جانا پڑے گا، پھر ہی مسئلہ سمجھ میں آئے گا۔“ واثق نے یوں کہا کہ صدف کا بے اختیار دل چاہا کہ اسے کہے ”پوچھ کیوں رہے تھے ڈرامے باز؟“ مگر وہ صبر کے گھونٹ پی گئی ۔اب ایک ہی حل بچا تھا…. ”بدلہ“ ”جب اس حالت میں بھی دربار سے چھٹی کی اجازت نہیں تو پھر مجھے انگلی ٹیڑھی کرلینی چاہیے گھی نکالنے کے لیے“ دل ہی دل میں اس نے مصمم ارادہ کیا۔
٭….٭….٭

Read Previous

نامراد

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ دوسرا دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!