پتھر کے صنم

رات کو سوتے ہوئے بھی واثق کے خواب میں وہ ”دم اور برکت والی چمپی “آکر اس کے جسم کی ٹیسوں کو سہلاتی رہی جو حقیقت میں صدف کے کہنے پر پیر کے چیلوں نے علیحدہ کمرے میں لے جا کر اس کی کی تھی۔ انہوں نے وہاں اسے ایک تختے پر لٹایا، قمیص اتروائی اور چارہٹے کٹے چیلوں نے دَم والے تیل سے مالش کرکے اس کا جوڑ جوڑ ہلا دیا تھا۔ اگلے دن وہ اسی تھکان کی وجہ سے اسٹور بھی نہ جاسکا، صدف دِل ہی دل میں شرمندہ ہوتی بھرپور خیال رکھ رہی تھی اس کا۔
”واثق رکیے ذرا!“ اس دن وہ اسٹور جانے کیلئے نکل رہا تھا جب صدف نے ازلی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھتے ہوئے سب کے سامنے اُسے پکارا ”یہ تعویز اپنے بازو پر باندھ لیں۔“
”اس سے کیا ہوگا؟“ واثق کو کوفت ہوئی۔
 ”ارے واثق یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے، تعویز بابرکت ہے، اللہ کا کلام لکھا ہے، کسی وجہ کی ضرورت نہیں اِسے پہننے کے لیے“ صدف سے پہلے امی نے وضاحت دی اور واثق نے نا چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے بازو پر باندھ لیا۔ صدف کو یقین تھا کہ اس طرح کرنے سے واثق زچ ہوکر خود ہی اس پیری فقیری کہ سحر سے نکل آئیں گے اور اس وبال سے کم از کم ان دونوں کی جان تو چھوٹے گی۔
٭….٭….٭

Read Previous

نامراد

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ دوسرا دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!