پتھر کے صنم

”واثق آج اسٹورسے آپ جلدی آجائیے گا“ وہ کمرے کا بکھراوا سمیٹتے ہوئے بولی۔
”کیوں؟“
شام کو اماں کی طرف جانا ہے، بہت ضروری کام ہے اگر دیر ہوئی تو نقصان ہو جائے گا۔“ وہ لہجے میں سراسیمی لیے بولی۔
”پتہ تو چلے آخر“ وہ بال جما رہا تھا۔ ”نقصان اور فائدے کی باتیں راز رکھی چاہئیں، جب تک نقصان کا سدباب نہ ہو جائے اور فائدے کی کامیابی حاصل نہ ہو جائے۔“ وہ غیرمعمولی حد تک سنجیدہ تھی۔
 ”پتہ نہیں کیا پہیلیاں بجھا رہی ہو، خیر کوشش کروں گا جلدی فارغ ہو جاﺅں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکلا۔
”میں چھے بجے تک بالکل تیار ہوﺅں گی۔“ صدف نے گویا تصدیق کی ۔ شام میں جب وہ لوگ اماں کی طرف جانے کیلئے نکل رہے تھے۔
”تم لوگوں نے گھر بدل لیا کیا؟“ اجنبی محلے میں داخل ہوتے ہوئے واثق نے صدف سے پوچھا۔
 ”گھر نہیں ارادہ“ صدف نے بے ساختہ کہا
 ”کیا؟“واثق نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
 میرا مطلب اماں کے گھر واپسی پر جائیں گے پہلے میں آپ کو اپنے عظیم الشان پیر بابا سے ملوا دوں۔
” کیا؟“ واثق ایک بار پھر چیخا۔
”حیران رہ گئے نہ، مجھے معلوم تھا، دراصل یہ ہمارے بھی خاندانی تو نہیں محلے کے پیر ہیں، بہت پہنچے ہوئے ہیں، آپ ایک بار ان سے ملیں گے تو بے اختیار ان کی مریدی اختیار کرنے کا دل چاہے گا“ قبل اس کے واثق مزید سوال کرتا وہ پیر بابا کے آستانے پر پہنچ گئے۔
 آستانہ کیا…. ایک چھوٹا سا کمرہ اگر بتی، سرسوں اور ناریل کے تیل کی بدبو نما مہک میں بسا تھا، جس سے شاید پیر بابا کا اپنا جی الٹ رہا تھا۔
”کہاں ہیں پیر صاحب“ وہ فرش پر بیٹھ چکے تھے۔
 ”آئے ہائے کیا کہہ دیا آپ نے؟ یہ لمبے جوان سے پیر صاحب نظر نہیں آرہے آپ کو سامنے۔“ صدف کی اطلاع پر واثق کو حیرت کا جھٹکا لگا، کمزور ڈانگ سا پندرہ سولہ برس کا لڑکا خاکستری رنگ کی کرتا شلوار میں پیر پر بد رنگ تولیہ لپیٹے اپنے سامنے مٹی کے برتن میں آگ لگا کر بیٹھا تھا۔ جہاں سے تیز اٹھتا ہوا دھواں حاضرین کا دم گھونٹنے کے لیے کافی تھا۔
”یہ؟“ واثق کو شاید ناگوار گزرا تھا۔
”ادب سے واثق پیر بابا کو پتا لگ گیا تو برا لگ جائے گا اور کہیں ہمیں نقصان نہ اٹھانا پڑ جائے اور اگر آپ نے ضد کی تو میں امی اور ابو کو بتا دوں گی، میں نے ذکر کیا تھا ان سے آپ کے بارے میں جس طرح آپ کے پیر کے پاس میرا حاضری لگانا بہت ضروری ہے، اسی طرح آپ کا بھی میرے پیر بابا سے شرفِ ملاقات باعث فضیلت و نفع ہوگا اور یہ باتیں تو مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں۔ پیر صاحب اپنے مخصوص طریقے سے ایک ہی وار میں ہر طرح کی نظر بد، آفت اور شیاطین کا آپ پر سے خاتمہ کردیں گے۔ آپ کو ہر جمعہ کو حاضری دینے کی ضرورت نہیں“ صدف نے ممکنہ بحث سے بچنے کیلئے اپنے دل پر پتھر رکھ کر وضاحت دی، جس کے خاطر خواہ نتائج نکلے۔
 ”واقعی؟ یہ تو کمال ہوگیا“ ابھی وہ مزید رطب اللّسان ہونا چاہ رہا تھا کہ پیر صاحب کی باریک مگر تیز آواز نے ان دونوں کو چونکا دیا۔
 ”ارے اوبچڑا کیا دیکھتا ہے، حیران کیوں ہوتا ہے؟ بابا کی صحت پر نہ جا، بابا کی کرامات دیکھ“ دونوں نے بے ساختہبابا جی کی طرف دیکھا جس کی نظروں کا نشانہ عبدالواثق تھا۔
 ”قریب آجا بچڑے، گھبرانا“ پیر بابا نے لہجے کو مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کی، جب کہ واثق کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔
 ”جائیے نا اور جیسے وہ علاج کریں گے، خاموشی سے ان کے آگے سر تسلیم خم کر لیجئے گا“ صدف نے مسکراہٹ دبائی اور پھر ایک گھنٹے بعد عبدالواثق جس حلیے میں لوٹا تھا اُسے دیکھ کر صدف کا دل لخطہ بھر کیلئے پسیجا لیکن وہ قابو پاکر آگے بڑھی اور بازوو ¿ں سے واثق کو سہارا دے کر آستانے سے باہر نکل گئی، جاتے ہوئے وہ بابا جی سے ”لین دین“ کرنا نہیں بھولی تھی۔
٭….٭….٭

Read Previous

نامراد

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ دوسرا دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!