پتھر کے صنم

موسم تغیر کی جانب مائل پرواز تھا۔ دن بڑھنے لگے تھے اور راتیں دوپہر کے سیالوں کی طرح گھٹنے لگی تھیں، انہی نرم اور گرم دنوں میں صدف کے ہا ں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی۔ گھر بھر میں دہری خوشی کی لہر دوڑ گئی…. اذان کی پیدائش سے صدف اور واثق کی روٹین میں بھی مثبت تبدیلیاں آئیں۔ گھر کے کام کاج کے علاوہ اپنے بچے کی تربیت کے حوالے سے لائحہ عمل طے کرتے ہوئے اس کا سارا دن گزر جاتا…. اب دربار پر حاضری دینے والا ایک اور فرد آگیا تھا۔ وقت اپنی رفتار سے چل رہا تھا۔ شائستہ کی شادی ہوگئی اور اب کنیز بیگم کو ان کی اداسی دور کرنے کے لیےاذان مل گیا تھا یعنی ایک رونق گئی اور دوسری آگئی۔ اذان تین سال کا ہو چلا تھا۔ انہی ہنستے بستے دنوں میں ایک بُری خبر نے سب کو غم زدہ کردیا۔ دن دیہاڑے سٹور کو ڈاکو لوٹ کر لے گئے تھے۔ بھاری مالیت کا نقصان ہوا پھر بھی شکر تھا کہ مشتاق صاحب پیسے بینک میں رکھتے تھے اور دکان کے اوپر جو مکان کرایے پر چڑھا رکھا تھا اس کے مناسب کرایے نے بڑے صدمے سے بچالیا۔
”کیا فائدہ ہوا اتنے تعویزوں اور پیروں کی پوجا پاٹ کرنے کا؟“
 عبدالواثق نے اپنے کمرے میں آتے ہوئے نہ جانے کس دُھنمیں کہا۔ بیڈ پر نیم دراز صدف اذان کو سلا رہی تھی ذرا چونکی۔ جب کہ عبدالواثق کے تاثرات یک دم بدلے۔ وہ غالباً کمرے میں صدف کی موجودگی سے بے خبر تھا۔
”کیا کہا آپ نے؟“ صدف فوراً سے اٹھ کر اس کے قریب آئی اور آہستگی سے بولی:
 ”کک کچھ نہیں“ واثق نے نظریں چرائیں۔
”نہیں بولیں دوبارہ کیا کہا آپ نے؟“ صدف حیران تھی مگر اس کے انداز جارحانہ تھے۔
”اوہو بھئی! کچھ نہیں کہا میں نے۔“ واثق کو ڈر تھا کہیں وہ عقیدت مندی اور ناراضی کے زیراثر امی سے نہ شکایت کردے۔
”لیکن مجھے لگا آپ نے پیروں کے خلاف کچھ کہا۔“ صدف ہر حال میں تصدیق چاہتی تھی۔ ”ہاں بھئی میں نے کہا ہے انہیں بُرا بھلا! کم از کم تم اور امی جن پیروں کی عقیدت مند ہو وہ مریدی کے لائق نہیں، اتنی دعائیں اور وہ دم والے تعویز کسی کام نہ آئے، جو نقصان ہونا تھا وہ اللہ کے حکم سے ہوگیا، بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ بھی ڈاکا سزا کے طور پر پڑا، تاکہ ہم کچھ عقل کے ناخن لیں، اپنی عاقبت سنوار لیں، لیکن دیکھ لو امی ابھی بھی پیر صاحب کے ہاں جانے سے باز نہیں آئیں اور تم بتا دینا امی کو کہ میں نے ان پہنچے ہوئے باباجی کی شان میں گستاخی کی ہے، بہت برداشت کرلیا۔“ واثق تو واقعی ہی نہ جانے کب کا بھرا بیٹھا تھا اور صدف کے تاثرات بھی عجیب و غریب تھے۔ جیسے یقین کرنے اور نہ کرنے کی کیفیت سے گزر رہی ہوں۔
”اب کیا بت بن گئی ہو؟“ وہ چڑ کر بولا۔ ”آپ کو بھی غیر اللہ سے مدد لینا پسند نہیں؟“ اس نے ”بھی“ پر زور دیا جس سے واثق چونکا ”ہاں! نہیں پسند بھئی ہمارا کیا منہ سیاہ ہوا کہ ہم اللہ سے خود نہیں مانگ سکتے؟ لیکن تم پکی مریدن ہو نا؟“ وہ دونوں بازو سر کے پیچھے باندھ کر بیڈ پر لیٹ گیا۔ ”ارے آپ سے کس نے کہا یہ تو سب میں اپنی اور آپ کی جان چھڑانے کے لیے حربے آزما رہی تھی، کیوں کہ شائستہ نے مجھے براہ راست آپ سے اور امی سے اس بارے میں کوئی بات کرنے سے منع کیا تھا۔“ صدف نے اسے ساری تفصیل بتائی جس میں وہ جھوٹا پیر اور اس کا آستانہ بھی شامل تھا جو اس نے اپنے محلے کے ایک نوجوان لڑکے کو پیسے دے کر بنوایا تھا۔
”مگر تم نے اسے قائل کیسے کیا اس کام کے لیے؟“
”ارے وہ لڑکا بڑا شوقین ہے پیر بننے کا، محلے کی بہت سی بیبیاں واقعی ہی اسے کرامت والا لڑکا کہتی ہیں۔“
”مگر کیسے، کیوں؟“ واثق کے لیے یہ معمہ ناقابل فہم تھا۔
”ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک دفعہ پڑوس کی سعدیہ خالہ کے چوزے گم گئےاور اٹھارہ گھنٹے تک لاپتہ رہے۔ خالہ جب بالکل ناامید ہوچکیں تو افضل (جھوٹا پیر) نے مسجد کے صحن میں انہیںپایا اور اگلے دن خالہ کے حوالے کیے، پھر اسی طرح اتفاق سے ہمارے علاقے کے حکیم صاحب کا ایک قیمتی نسخہ گم ہوگیا، پوری دکان اور گھر چھان مارا مگر وہ مل کر نہ دیا، دو دنوں بعد کسی کام سے افضل ان کی دکان پر آیا، شروع سے ہی وہ صوم و صلوٰة کا پابند تھا۔ وہیں کھڑے کھڑے حکیم صاحب کو دعا دی، چند منٹ ہی گزرے تھے افضل کے دکان سے گئے کہ حکیم صاحب کو اپنی ٹوپی کے اندر سے وہ نایاب نسخہ مل گیا۔ بس پھر کیا تھا اسی طرح کے ایک دو مزید واقعات نے افضل کو علاقے بھر کا من پسند نوجوان بنا دیا جو آہستہ آہستہ پیری کے درجے پر فائز ہونے کو ہے۔“
صدف نے کہہ کہ ایک سرد آہ خارج کی۔
 ”اُف ، بھئی میں تو امی اور ابا کے زیرتسلط تھا، پھر تم نے بھی عجیب و غریب حرکتیں شروع کردیں۔“
”مجھے اگر اندازہ ہوتا تو میں کرتی کیا؟…. ویسے آپ نے کبھی اپنے والدین کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی؟“ صدف کے لہجے میں تجسس تھا۔
”ہاں! بہت پہلے اپنے شعور کے مطابق، تب میں بہت چھوٹا تھا، شاید میٹرک میں، لیکن ان کی عجیب منطق تھی کہ جیسے کسی بڑے شخص سے ڈائریکٹ ملاقات کرنا ناممکن ہے، جب تک اس کے سیکرٹری، مشیر یا وزیر سے بات چیت نہ ہو، یعنی جیسے کوئی وزیر یا سیکرٹری کسی سیاست دان سے ملاقات کا وسیلہ ہیں، اسی طرح یہ پیر بھی اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں، کہ اللہ تو پھر سب سے عظیم ہستی ہے۔ “ واثق نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”یہی تو بات لوگ نہیں سمجھتے۔ ہم مخلوق اور خالق کے اختیارات کا موازنہ کیسے کرسکتے ہیں؟ جب کہ اللہ تعالیٰ ایک وقت میں اپنی ساری مخلوق پر نظر رکھے ہوئے ہے، وہ ایک پل کے لیے بھی کسی سے غافل نہیں ہوتا، ہمیں اس سے بات کرنے کے لیے کسی ”اپائٹمنٹ“ کی ضرورت نہیں…. وہ تو غفور و رحیم ہے۔“ صدف بے حد رنجیدگی کے عالم میں کہہ رہی تھی۔ ”کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو لیکن یہ بات لوگوں کو سمجھانا مشکل ہے۔“
”لوگوں کو تو نہیں مگر ہم اپنے چاہنے والوں کو سمجھا سکتے ہیں۔ پیار سے، آہستہ آہستہ، جانے کب ہماری مسلسل کوششوں سے وہ اس وبال سے نکل آئیں۔“ صدف پرامید تھی اب۔ قبل اس کے کہ واثق اس کے ساتھ کی حامی بھرتا، کنیز بیگم دروازے پر دستک دینے لگیں۔
اذان….اذان!
”جی امی!“ واثق اٹھ بیٹھا۔ ”سو رہا ہے، میں پیر صاحب کے پاس جارہی تھی، سوچا اسے بھی لے جاﺅں۔ اچھی عادتیں جلدی پختہ کروا دینی چاہئیں۔ خیر پھر کسی دن صحیح“ وہ جس عجلت میں آئی تھیں، اسی انداز سے سر پر چادر لپیٹ کر باہر نکل گئیں۔
”اذان“؟ دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
”دوسروں کی فکر چھوڑو ہمیں اپنے بیٹے کو ”پتھر کے صنم“ کا عاشق اور ننھا مرید بننے سے بچانا ہے۔“ عبدالواثق نے کہا تھا اور صدف نے باختیار اپنا سر پکڑلیا۔

Read Previous

نامراد

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ دوسرا دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!