پتھر کے صنم

”اچھا ہے، اس طرح ان لوگوں کے بارے میں مزید جاننے کا موقع مل جائے گا، اور اس سے بھی اچھی کیا بات ہوسکتی ہے کہ نئی بہو الگ پورشن میں راج کرے گی، جیسے پہلی بہو بھی دو سال بعد ہی الگ ہوگئی تھی۔“
اماں ایسی ہی تھیں۔ دل چاہا تو کسی بات پر خوامخواہ وضاحت کردی، اور کبھی اپنا فیصلہ صادر کرکے یوں چپ سادھ لی کہ اگلا بندہ چاہے سر پیٹتا رہ جائے۔ ان کی ”ہاں“ نہ میں نہ بدلنی، انہی باتوں میں اپنے آپ کو الجھا کر بے زار ہوئی صدف واپس نیچے چلی گئی جہاں اماں چارپائی پر بیٹھی لان کا بوسیدہ دوپٹہ کانوں کے پیچھے اڑ سے ابا سے راز داری سے محو گفتگو تھیں۔ ندا اور مقدس اسکول کا کام کررہے تھے، مدثر کھیلنے کودنے گلی میں نکلا ہوا تھا۔
 ”سعیدہ بتا رہی تھی کہ عبدالواثق کے خاندان میں پیر بابوں کو بڑا مانتے ہیں، خاص طور پر اس کے تایا کی فیملی تو چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اپنے کسی مرشد کی اجازت کے بغیر نہیں کرتی اور جادو، جن بھوت کا بھی بڑا خوف رکھتے ہیں۔“ اماں اور بھی بڑا کچھ کہہ رہی تھیں مگر سیڑھیوں سے اترتی صدف سوچتی ہی رہ گئی۔
 ”بھلا اللہ ہم سب کا ہے، جب ہم اللہ سے مانگ سکتے ہیں، اللہ سے ہر کام کا مشورہ کرسکتے ہیں تو اس سے ڈائریکٹ رابطہ کرتے ہوئے لوگوں کو کیوں موت پڑتی ہے؟ میں تو کبھی بھی ان لوگوں کے رعب میں آکر اپنا کوئی پیر مرشد نہیں بناﺅں گی، کسی نے زبردستی کی تو ایک ایک کو سیدھا کر دوں گی۔“ اپنے خیالوں سے باہر نکلی تو ابا کی آواز کانوں میں پڑی۔
” اوئے! ہماری صدف خود اتنا پیارا جن ہے، سب کو پیار سے قابو کر لے گی، کسی نے اس پر کیا جادو ٹونا کرنا ہے۔“ ابا کے اس انوکھے اظہارِ خیال پر اماں تو اماں، صدف بھی زور سے ہنسی کہ دونوں نے چونک کر اسے دیکھا، صدف مارے شرم کے فوراً سے اندر چلی گئی۔
اماں ابا کی دعاﺅں اور بہن بھائی کے ہنسی اور خوشی سے لبریز آنسوﺅں کے ہم راہ وہ اپنے گھر سے رخصت ہوکر پیا گھر سدھار گئی۔ عبدالواثق کو قریب سے دیکھ اور جان کر اس کا پہلا وہم تو دور ہوا تھا کہ وہ حقیقت میں بھی اتنا ہی سوبر تھا جتنا کہ تصویر میں دکھتا تھا۔ ایک مسئلے کا سامنا اسے کرنا پڑا، جس کی سنگینی کا اسے پہلے احساس تک نہ تھا۔ تمام دعوتیںنمٹانے کے بعد وہ سکون سے گھر کی چار دیواری میں قید ہوگئی۔ دل چاہتا تو کاموں میں تھوڑا بہت ہاتھ بٹا دیتی کہ ابھی سسرال میں اس کے عیش و آرام کے کچھ دن باقی تھے۔ چھوٹی نند اور ساس سسر کا رویہ اس کے ساتھ فی الحال مناسب تھا ۔ آج فضا میں خلافِ معمول خنکی تھی۔ املی اور پودینے کی باس آنگن میں لگے پیڑوں سے خوب ٹپک رہی تھی۔ صدف برآمدے میں بیٹھے دھلے دھلائے صحن کو دیکھتے ہوئے سوچوں میں گم تھی جب شائستہ نے اسے مراقبے سے نکالا۔ ”بھابھی تیار ہو جائیں۔“ وہ باتونی بہت تھی۔
 ”کیوں بقر عید آرہی ہے؟“ صدف نے بے اختیار پوچھا۔
”ارے نہیں! ہم آپ کو پیر صاحب کے پاس لے کر جائیں گے۔ ہمارے خاندانی پیر و مرشد۔“
کس خوشی میں؟“ وہ اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے۔ ”بھئی آپ ہمارے گھر میں نیا فرد ہیں، آپ کی ہمارے پیر سے کوئی شناسائی نہیں، لہٰذا آپ کو ان کے ہاتھ پر بیعت لینی ہوگی تاکہ اجنبیت کی کوئی دیوار نہ رہے۔“ شائستہ نے وضاحت دینا ضروری سمجھا۔
”استغفراللہ“ صدف جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔
”بھابھی ایسے تو نہ کہیں…. اتنی عظیم ہستی ہیں وہ، آپ ان ملیں گی تو دیوانی ہو جائیں گی ان کی۔“
”کیا وہ راک اسٹار بھی ہیں کوئی؟“ صدف خود کو کہنے سے روک نہ سکی ”ہیں؟“ شائستہ سمجھ نہ سکی۔
 ”خود ہی تو کہا کہ میں دیوانی ہو جاﺅں گی ان کی۔“ اس نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
’ ’ارے بھابھی آپ بہت مزاحیہ ہیں، لیکن خیر جب آپ ان سے ایک بار ملیں گی تو ان کی عقیدت مند ہو جائیں گی اور پلیز ایسے مذاق بھائی یا امی کے سامنے مت کیجئے گا، وہ ان کی بے ادبی برداشت نہیں کریں گے۔دوسری طرف بھی معصومیت عروج پر تھی۔ “
صدف کو اس وقت اندازہ ہوگیا کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور اسی طرح حالات اگر مزید رہے تو جلد ہی یہ ”لاوا“ بن کر پھٹ جائے گا جس کی لپیٹ میں وہ بھی آ جائے گی۔ کیوں کہ شادی کی پہلی رات ذرا دیر ہو جانے پر وضاحت دیتے ہوئے عبدالواثق نے بھی تو یہی کہا تھا۔
 ”معذرت چاہتا ہوں آپ کو انتظار کرنا پڑا، دراصل پیر صاحب سے دعائیں لینے گیا تھا میں دوستوں کے ساتھ تو….“ وہ کہے جارہا تھا اور صدف حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی، جس کو سونامی بننے سے اس نے بہ مشکل روکا۔ اور اب شائستہ ”ہمارا مرشد نامہ“ لے کر بیٹھ گئی تھی۔
 ”اچھا ٹھیک ہے فی الحال دیکھو موسم کتنا اچھا ہے، آﺅ کچن میں چل کر پکوڑے بنائیں۔“ چٹوری شائستہ کو اس نے یونہی ٹالنا مناسب سمجھا۔
”صدف آج ہم دربار پر جارہے ہیں حاضری دینے، تم بھی ساتھ آﺅ۔“ وہ ٹی وی دیکھنے میں محو تھی جب کنیز بیگم نہ اسے پکارا
 ”دربار؟“
”ہاں بیٹا آج جمعرات ہے نا، چلو تیار ہو جاﺅ“ وہ اپنا بٹوہ چیک کر رہی تھیں۔
 ”لیکن امی میرا جانا ضروری ہے کیا؟“ وہ صدمے میں تھی۔
 ”تو اور کیا؟ تمہاری اور عبدالواثق کی شادی انہی کی کرامات و دعا کا نتیجہ ہے۔“
”اچھا واقعی ہی؟“ صدف نے حیران ہونا چاہا۔
 ہاں بیٹا وہ بہت پہنچے ہوئے، تم بھی ان کے زیر دست آجاﺅ تاکہ آئندہ کی زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہو۔“ انہوں نے جیسے کوئی اہم بات بتائی۔
 ”صرف ان کی کرامات و دعا؟ اور جو آپ نے نذرانے دینے ہوں گے ان کا کیا؟“صدف نہ جانے کیسے برداشت کررہی تھی۔
 ”ہیں؟ کیا مطلب….؟ ارے وہ تو ہم اپنی خوشی و عقیدت سے دیتے ہیں وہ تو ایسے اللہ والے ہیں، انہیں ان مادی چیزوں کی کیا ضرورت؟“ کنیز بیگم پہلے جز بز ہوئیں پھر اس کے قریب صوفے پر بیٹھ کر اسے بتایا۔ اور پھر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق نہ چاہتے ہوئے بھی اسے پیرِ طریقت کے دربار حاضری کے لیے جانا پڑا اور وہاں پیر صاحب کاحلیہ دیکھ کر اس کا جی متلانے لگا جسے لوگ سجدہ کرنے کی حد تک جارہے تھے۔ بر گد کے درخت کے قریب بھانت بھانت کے لوگوں کا ہجوم اکٹھا کیے وہ پیر بلکہ اللہ والے تو کہیں سے نہیں لگ رہے تھے۔ نہ جانے لوگوں کے نزدیک کسی کو ”پیر یا اللہ والے“ ماننے کا کیا پیمانہ ہے؟ طوطے کی چونچ کی مانند دیکھتے میلے ناخنوں، کسی رسی کی مانند اجڑے اور الجھے بالوں اور بے حد میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس پیر بابا کو دیکھ کر صدف نے سوچا۔ جو بولتے تھے تو بد نما دانت نمایاں ہوتے اور بو کی بھبھکیاں سات میل کے فاصلے تک سونگھی جاسکتی تھیں مگر فی الحال وہ انہیں بے دلی سے سلام کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکی۔ اس کا ذہن اس صورت حالِ سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل تیار کررہا تھا۔
٭….٭….٭

Read Previous

نامراد

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ دوسرا دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!