نالائق — نورالسعد

”میں، ڈاکٹر ماریوس مارتنسن، برگن کے فارینزک سائیکاٹری ہاسپٹل کا ایک سائیکاٹرسٹ، اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میری تشخیص کے مطابق مس آگسٹا بلوم کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ وہ آج بھی تنہائی میں اپنے شوہر کو حیات سمجھتی ہیں۔ نہ صرف سمجھتی ہیں بلکہ انہیں وہ ایک مکمل وجود کے ساتھ دکھائی اور سنائی بھی دیتے ہیں۔” کمرئہ عدالت میں مکمل خاموشی تھی۔ ماریوس گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا بلند آواز میں اپنا بیان ریکارڈ کروا رہا تھا۔
”یور ہائینس اور قابلِ احترام جیوری، میں اعتراف کرتا ہوں کہ میری تحریر کردہ ابتدائی تشخیص کے مطابق مس بلوم ذہنی طور سے ایک صحت مند خاتون تھیں، مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ میری تشخیص غلط تھی۔ جیسا کہ پوسٹ مارٹم سے عیاں ہے یور آنرکہ مس بلوم کے مرحوم شوہر فوڈ الرجی سے مرے تھے۔ پولیس کو شک تھا کہ یہ الرجن ان کو جان بوجھ کر کھلایا گیا ہے، جب کہ مس بلوم کا اصرار تھا کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کے شوہر کو اس پھل سے الرجی ہے۔یہ بات بہت عجیب تھی کہ شادی کے اتنے عرصے بعد بھی مس بلوم اپنے شوہر کی فوڈ الرجی سے نا واقف رہیں، جب کہ وہ خود ایک بہترین شیف اور نیوٹریشنسٹ (ماہرِ غذائیات) رہ چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دورانِ تفتیش ہی اپنے شوہر کا بھوت دیکھنے کا دعویٰ بھی کرنا شروع کر دیا۔ پولیس نے عدالت کی اجازت سے یہ کیس ہمارے انسٹیٹیوٹ کو فارورڈ کردیا۔” ماریوس کٹہرے میں کھڑا کہتا جا رہا تھا۔ آگسٹا حاضرین میں بیٹھی بوریت سے کرسیوں کی تعداد گن رہی تھی۔ کاش کہ یہ جلدی سے ختم ہو جائے، امجھے گھر جانا ہے۔ رالف کی صبح کی کافی کا وقت گزرے بھی آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے۔اس نے بے زاری سے سوچا۔
”ہمارے ڈاکٹرز کے پینل کو معلوم ہوا کہ رالف وِک ایک اذیت پسند اور حاسد شوہر تھا۔ اس نے مس بلوم کے کوکنگ کرئیر میں اتنے روڑے اٹکائے کہ انہیں بالآخر وہ پروفیشن چھوڑ کر گھر بیٹھنا پڑا۔وہ مکمل ہاؤس وائف بن گئیں تب بھی رالف انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتا رہتا۔مس بلوم کی سہیلی کے مطابق وہ خاص طور سے ان کے پکائے کھانوں میں کیڑے نکالتا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ مس بلوم اپنے ریسٹورنٹ میں ہیڈ شیف بننے والی تھیں جب کہ وہ خوداس وقت ایک بے روزگار رائٹر تھا۔اس نے مس بلوم کو اتنا ذہنی ٹارچر کیا کہ اس کی موت کے بعد بھی مس بلوم اس کے حصار سے نکل نہیں پائیں ۔جب یہ کیس میرے سینئر ڈاکٹر کے پاس آیا، تو مجھے بھی اس میں دلچسپی محسوس ہوئی مگر اپنے سینئرڈاکٹر فریدرک کی تشخیص کے برخلاف مجھے جانے کیوں یہ لگا کہ مس بلوم نے جان بوجھ کر اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اسے مارا ہے۔ڈاکٹر فریدرک نے کیس اسٹڈی کے طور سے مجھے ایک رول پلے کا مشورہ دیا۔اسی سلسلے میں، میں نے ایک انجان کی حیثیت سے آگسٹاسے تعلقات بڑھائے۔انہوں نے اکیس دسمبر کی رات سے پہلے ایک د فعہ بھی اپنے شوہر کا ذکر نہیں کیا۔وہ مجھے کچھ اداس، مگر ایک ذہنی طور سے صحت مند انسان نظر آئیں۔مجھے یقین ہونے لگا کہ وہ اپنی ذہنی بیماری کو شک سے بچنے کے لیے فیک کرتی رہی ہیں۔ رالف کا ذکر نہ کرنے کی وجہ جو کہ میں بعد میں جان سکا، یہ تھی کہ…” وہ کچھ جھجکا۔
”مس بلوم مجھ میں دلچسپی لینے لگی تھیں اور اپنے طور سے اپنے شوہر کے ساتھ بے وفائی کر رہی تھیں۔”
آگسٹا چونکی۔اس نے اپنی ڈبڈباتی ہوئی آنکھیں اٹھا کرسامنے دیکھا،تو کیا واقعی ماریوس اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا؟
”قصہ مختصر اکیس دسمبر کی رات مس بلوم نے مجھے اپنے تئیں ڈیٹ پر بلایا اور ساتھ ہی رالف کو اسٹڈی میں ‘بند’ بھی کر دیا تاکہ وہ مخل نہ ہو سکے۔جب میں نے ان کوان کے شوہر کی موت کی حقیقت بتانا چاہی تو وہ۔”
آگسٹا کو اپنا سرپکڑ کر چلانا یاد آیا۔ کیسے وہ تڑپتی تھی رالف کے لیے… اب کی بار دو آنسو رالف کے لیے ٹپکے۔
”ان کو اب بھی اپنے شوہر کے وژن نظر آتے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں ایک طویل علاج کی ضرورت ہے۔” ماریوس اپنی گواہی مکمل کرکے کٹہرے سے اتر چکا تھا۔
٭…٭…٭
آگسٹا اپنے گھر کا دروازہ کھول کر داخل ہوئی، ساتھ آئی ہیلینا سے اس نے باہر ہی رہنے کی درخواست کی تھی۔ وہ اپنا ضروری سامان لینے آئی تھی کیونکہ شام سے اسے ہاسپٹل شفٹ ہونا تھا۔اس کا علاج ہونا تھا، سرکاری خرچ پر۔وہ بیڈ روم سے اپنا مختصر ساسامان جمع کر کے لونگ روم میں چلی آئی۔ رالف ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا تھا۔
وہ دھیرے دھیرے چلتی اس کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔
”آئم سوری رالف۔ مجھے واقعی نہیں معلوم تھا کہ تمہیں آم سے الرجی ہے۔” اس کی آنکھوں میں پھرآنسو آرہے تھے۔
”تم مجھے کہتے تھے نا کہ میرے ہاتھ میں کوئی ذائقہ نہیں ہے؟ مجھے بہت دکھ ہوتا تھا رالف۔فوڈ تو میرا جنون تھا۔ میری زندگی ختم ہو گئی تھی جب تم نے مجھ سے ریسٹورنٹ کی نوکری چھڑوا کر اس دوسرے شہر میں نوکری ڈھونڈ لی۔پھر تم کہتے تھے کہ میرے ریسٹورنٹ والے احمق تھے جو مجھ جیسی نالائق کو ترقی پے ترقی دیے جا رہے ہیں۔” آنسوؤں کا گولہ حلق میں پھنسنے لگا۔ اس نے سر جھکا لیا۔ پھر ایک ہاتھ سے آنسو صاف کرتے اس نے اوپر دیکھا۔اب کے وہ بولی تو آواز ہموار تھی۔
”ہماری شادی کی سالگرہ تھی۔ اس دن میں تمہیں بہت اچھا کھانا کھلانا چاہتی تھی رالف۔ تمہاری زندگی کا بہترین! تاکہ تم میری تعریف کرو۔ ایک بار تو کرو، پہلے کی طرح۔ اسی لیے میں تمہارے لیے پاکستانی ہنی مینگو لے کر آئی تھی۔ تمہارے لیے محبت سے مینگو ٹارٹ بنایا تھا۔آٹھ بجنے والے تھے، یاد ہے؟ نہیں، سات بج کر پچپن منٹ ہوئے تھے جب میں نے تمہیں ٹارٹ سرو کیا تھا۔ ” سامنے بیٹھا رالف ہونٹ بھینچے سن رہا تھا۔
”تمہیں تو سیب سے الرجی تھی ہنی۔ آم سے تو نہیں نا؟ ” وہ بچوں کی سی معصومیت سے پوچھ رہی تھی۔
”اب مجھے کیا معلوم کہ آم میں موجود کچھ خاص الرجن دوسری قسم کی الرجی والوں کو بھی اینا فلاکٹک شاک میں بھیج سکتے ہیں؟ میں تو ایک نالائق انسان ہوں نا؟اب دیکھو میری نالائقی تمہاری جان لے گئی رالف۔ یہ میں نے پڑھا تو تھا، مگر میںشایدبھول گئی تھی۔ یہ دکھ مجھے کھا جائے گا۔مجھ نالائق کو۔
”رالف” کی طرف ایک زہریلی مسکراہٹ اچھالتی وہ اٹھ گئی۔
اس کا ماریوس کے ساتھ اپوائنٹمنٹ تھا۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

Read Next

محتاج — سارہ عمر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!