نالائق — نورالسعد

آگسٹا کو جوں کا توں کھڑا دیکھ کر وہ بولا:
”آپ اندر جائیں میںیہ حصہ صاف کر دیتا ہوں، مسز؟”
”مس” آگسٹا نے سرگوشی کی، پھر قدرے بلند اور مضبوط آواز میں بولی:
”مس آگسٹا بلوم۔”
”سوری، مس بلوم آپ اندر جائیں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ ” آگسٹا کے سفید چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے اس نے فکر مندی سے کہا۔
آگسٹا خاموشی سے اندر آگئی۔ کوئی پندرہ منٹ لگے اس لڑکے کو برف صاف کرنے میں اوربیس منٹ آگسٹاکو اسے اپنے بیڈ روم کی کھڑکی سے دیکھتے رہنے میں۔پانچ منٹ اس کے اندر جانے کے بعد بھی۔
اگلے چند دن معمول کے مطابق گزرتے اگر آگسٹا کو نیا مشغلہ ہاتھ نہ آتا۔ وہ روزساڑھے نو بجے ماریوس کو برابر والے گھر سے نکلتا دیکھتی جب تک کہ وہ سڑک کے آخری لیمپ پوسٹ کو کراس کر کے بائیں طرف نہیں مڑ جاتا۔ اس کی واپسی رات سات بجے تک ہوتی۔تب بھی آگسٹا اپنے بیڈ روم کی کھڑکی میں جا کھڑی ہوتی، ایسے کہ وہ خود نظروں میں نہ آئے۔بڑامزہ آنے لگا تھااسے اس کھیل میں۔
آہستہ آہستہ ان کے درمیان شناسائی پیدا ہونے لگی۔ آگسٹا جب گروسری کے لیے نکلتی تو دھیان رکھتی کہ یہ اس کے گھر سے باہر آنے کا وقت ہو۔ وہ دونوں پیدل چلتے ہوئے گروسری اسٹور تک جاتے، پھر وہ بائیں مڑ جاتا۔ ماریوس نے بتایا تھا کہ وہ درابک نامی قصبے سے نوکری کی تلاش میں آیا ہے اوریہاں ایک دوست کے ساتھ روم شیئر کر رہا ہے۔
”مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ صرف میں ہی بولتا رہتا ہوں؟ ” ایک روزبات کرتے کرتے وہ رک کر بولا۔
”تم اپنے بارے میں کچھ کیوں نہیں بتاتیں؟تمہارا کرئیر، تمہاری فیملی؟”
”میرے پاس بتانے کو نہ ‘کچھ’ ہے نہ ‘کوئی’ ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
”بس میں ایک عام سی عورت ہوں، بے روزگاری بینیفٹ پر پل رہی ہوں اور اور بس جی رہی ہوں۔” کندھے اچکاتے ہوئے اس نے بات مکمل کی اور آگے بڑھ گئی۔
کرسمس آنے والی تھی اور شاید کرسمس کے استقبال کے لیے ہی ناروے کی بھیانک سردیاں آن پہنچی تھیں،درجٔہ حرارت منفی چالیس کو چھو جاتا۔گھر کے اندر اس کے روز و شب اسی طرح گزر رہے تھے۔اپنے اور رالف کے لیے کھانا بنانا، گھر کی صفائی کرنا اور پھر مزید صفائی کرنا۔ہاں کھڑکی سے باہر جو منظر کبھی آگسٹا کو منجمد جہنم نظر آتا وہ اب برفیلی جنت دکھتا تھا۔




ایک برف سے اٹی صبح وہ سو کر اٹھی، سات بج کر پچپن منٹ پر۔اس وقت سے بھی اسے عجیب انسیت تھی جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ اور رالف صبح سات بج کر پچپن منٹ پر ہی تیبان (اوسلو میٹرو ) میں ملے تھے۔دوسری وجہ وہ یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔نیچے آئی تو فرنٹ ڈور کے پاس ایک سرخ کاغذ پڑا تھا۔ جیسے کوئی باہر سے پوسٹ ڈال گیا ہو۔ اس نے جھک کر کاغذ اٹھایا۔ وہ ایک خط تھا۔خون جیسے سرخ کاغذ پر سلور قلم سے لکھا ہوا ایک خط۔
”پیاری آگسٹا!
میں تم سے وہ کہنا چاہتا ہوں جو تمہارے سامنے نہیں کہہ پاتا۔وہ سارا کچھ نہیں، بس اس کا کچھ حصہ۔میں نے سارے اسکینڈینیویا میں تم سے حسین عورت نہیں دیکھی۔جب میں اور تم گروسری اسٹور تک جاتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ وہ آخری لیمپ پوسٹ کبھی نہ آئے جس سے مجھے بائیں مڑنا پڑ جاتا ہے۔ میں اور تم یونہی باتیں کرتے کرتے ناروے کے سارے فیورڈز کی سیر کرتے رہیں۔میں تمہیں سامی لوک گیت سنایا کروں اور ایسے ہی کسی گیت میں اظہار بھی کر دوں، مگر میری پیاری، میں چاہتا ہوں کہ یہ اظہار پہلے تم کرو،کیونکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے درمیان عمروں کا جو فرق ہے وہ تمہیں میری طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ لو آدھا اظہارمیں نے کر دیا، پورا تم کر دو۔”
تمہارا ……
آگسٹا ہکا بکا کھڑی خط پڑھے گئی۔ ایک بار، دو بار، جانے کتنی بار۔ کیا سچ میں ماریوس اس سے؟ مگر وہ تو شادی شدہ تھی۔ بے چینی سے وہ لونگ روم کی طرف پلٹی تو جان حلق میں آگئی۔ رالف کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ٹھنڈی، بے تاثر نظروں سے۔ آگسٹا اپنی جگہ منجمد رہی۔ابھی وہ کاغذ طلب کر لے گا۔ ابھی وہ اس سے پوچھ گچھ کرے گا، مگر چند ساعتیں یونہی دیکھتے رہنے کے بعد رالف نے سیڑھیوں پر قدم رکھ دیا اور بغیر اس کی طرف دیکھے سیڑھیاں چڑھتا گیا۔آگسٹا نے رکا ہوا سانس خارج کیا۔میں ٹھیک ہوں، میں بالکل ٹھیک ہوں،وہ بڑبڑائی۔ دیوار سے ٹیک لگا کر خط کو مٹھی میں بھینچ لیا۔خون جیسے سرخ کاغذ پر سلور قلم سے لکھا ہوا خط۔ایسے پیارے الفاظ تو رالف لکھا کرتا تھاشادی کے ابتدائی دنوں میں۔ اس پرلکھاری بننے کا بھوت نیا نیاسوار ہو ا تھا۔ تب وہ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے محبت نامے لکھا کرتا تھا۔اب جب کہ وہ ایک پروفیشنل لکھاری اور ایڈیٹر تھا، الفاظ اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے، تو وہ کوئی محبت نامہ نہیں لکھتا تھا۔
اس رات ماریوس کے گھر واپسی کے وقت پر اس نے کھڑکی میں کھڑے ہونے سے پہلے کمرے کی بتّی جلا لی تھی تاکہ ماریوس اسے دیکھ سکے اور ماریوس نے اسے دیکھ لیا۔ کچھ ٹھٹکا پھر مسکرایا اور اس کی جانب ہاتھ ہلاتا ہوا گھر کے اندر چلا گیا۔ کھڑکی کے اس پار کھڑی آگسٹا بھی ایک شرمیلی سی ہنسی ہنس دی۔ اگلے چند دن وہ ماریوس سے نہیں ملی، ایک جھجک، ایک الجھن تھی اس کے اندر۔ ہاں اسے دیکھنے کا معمول ویسا ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ رالف کو یکسر بھول جاتی۔
ایسی ہی ایک نیلگوں شام میں وہ ایٹک کی مخروطی چھت تلے بیٹھی تھی۔ چھوٹی سی کھڑکی جو باہر سڑک کی جانب کھلتی تھی، اس سے ناک چپکائے وہ محو تھی کہ یکا یک دائیں کان میں ایک سرگوشی ابھری۔
”میری کافی، آگسٹا؟” وہ ہڑبڑا کر پیچھے مڑی۔ کوئی تین فٹ دور وہ کھڑا تھا۔ سلور سوئیٹر پہنے، مرون ٹراؤزرکی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ، وہ سر کوہلکا سا بائیں جانب جھکائے اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی سلور آنکھیں ایٹک کے گرد آلود نیم اندھیرے میں دھیما سا چمک رہی تھیں۔
”یو نو، ویسے تو تم کچھ بھی اچھا بنا ہی نہیں سکتیں۔” کہہ کر وہ ہلکا سا رکا، جیسے اپنے کہے سے محظوظ ہو رہا ہو۔
”مگر میں چاہتا تھا کہ کم سے کم کافی تم میرے لیے بنا دیا کرو۔ وقت پر۔” اس کی آواز کی گونج آگسٹا کو اپنے جسم پر پڑتی محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ ایسے ہی تکلیف دیتے تھے اس کے الفاظ۔
”لاتی ہوں۔” نظریں چراتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے برابر سے کتراتے ہوئے نیچے کچن میں چلی آئی۔ رالف نے اس سے کوئی اور بات نہیں کی تھی۔ یہ اس کے مزاج کے خلاف تھا۔ کیوں اس نے کوئی سوال نہیں کیا؟کیا وہ جان گیا ہے کہ وہ ماریوس کوچھپ چھپ کر دیکھتی ہے؟ کیا وہ کوئی کھیل کھیل رہا ہے؟ بہت سے سوال آگسٹا کے ذہن میں ناچ رہے تھے۔ کافی کا کپ بنا کر اس نے میز پر رکھا اور بغیر رالف کو آواز دیے بیڈ روم میں آ کر کمفرٹر میں گھس گئی۔
ماریوس اسے پسند کرتا ہے ، اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں رہا تھا اور آگسٹا؟جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس پر تو جنون کی حد تک ماریوس کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ میں اب ٹھیک ہوں…میں اب رالف سے آزادی لے لوں گی۔ اس بار ہمیشہ کے لیے۔ وہ اکثر منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی رہتی۔
مگررالف بھی آج کل تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ اس سے نرمی سے بات کرنے لگا تھا، کبھی کبھی تعریف بھی کر دیتا۔ بالکل شادی کے ابتدائی دنوں والا رالف۔ اس کا یہ رویہ آگسٹا کو اور الجھا رہا تھا۔ وہ اپنے شوہر کو چیٹ کر رہی تھی یہ گلٹ بڑھتا جا رہا تھا۔ کچھ دن لگے اسے فیصلہ کرنے میں۔ اسے رالف کو چھوڑنا تھا، اسے اپنی عزتِ نفس بچانی تھی۔ اسے اب مزید اذیت نہیں سہنی تھی، ایک نئی زندگی شروع کرنی تھی اور نئی زندگی کی شروعات اس نے ماریوس کو برتھ ڈے پارٹی دے کر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اکیس دسمبر کو ماریوس کی سالگرہ تھی۔ آگسٹا نے بہت عرصے بعد دل لگا کر کھانا بنایا اور بہت عرصے بعد دل لگا کر تیار بھی ہوئی تھی۔ اپنی تیاری کے بعد وہ بیڈ روم کی کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی، اسے ماریوس کو دیکھنا تھا۔ کیا وہ بھی آج اس کے لیے تیار ہو گا؟ آٹھ بجے وہ اپنے گھر سے نکلتا دکھائی دیا۔ اس نے ایک بہترین ڈنر سوٹ پہن رکھا تھا، ہاتھوں میں ایک گفٹ پیک لیے اس نے برفیلی ہواؤں میں مضبوط قدم جماتے آگسٹا کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ دروازہ نہ لاک تھا نہ بند۔ اس نے ہلکے ہاتھ سے دباؤ دیا تو وہ کھلتا چلا گیا۔وہ بھاگ کر سیڑھیوں تک پہنچی۔ گھر کے اندر ٹرکی پکنے کی اشتہا انگیز خوشبو بسی ہوئی تھی۔ وہ چلتا ہوا لاؤنج تک آگیا۔ لاؤنج خالی تھا، اس نے گفٹ ٹیبل پر رکھا اور اپنے دونوں ہاتھ رگڑ کے گرم کرنے لگا جب آگسٹا کے آنے کی آہٹ اُس کے کانوں میں گونجی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

Read Next

محتاج — سارہ عمر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!