نالائق — نورالسعد

ماریوس پیچھے سے آنے والی آہٹ پر پلٹا۔ آگسٹا سیڑھیاں اتر کر لونگ روم میں داخل ہورہی تھی۔ پینسٹھ سالہ آگسٹا نے سرخ ایوننگ گاؤن پہن رکھا تھا جو اس کے بوڑھے وجود پر لٹکا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ چہرے پر بے تحا شا میک اپ کے ساتھ ساتھ عجیب قسم کی حریص تاثرات تھے جنہیں دیکھ کرماریوس کیاکسی کی بھی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ جاتی۔آگسٹا نزاکت سے چلتی ہوئی اس کے قریب آتی گئی۔
”گڈ ایوننگ ڈارلنگ! کیسی لگ رہی ہوں؟” اس نے باریک سی آواز بنا کر پوچھا۔
”آہ! مس بلوم…” ماریوس نے بے چین ہو کر تھوک نگلا۔
”آپ نے بہت تیاری کر لی اس پارٹی کے لیے۔ اس کی ضرورت نہیں۔”
آگسٹا اب کھل کے ہنسی۔ ایک بچکانہ سی چبھتی ہوئی ہنسی۔
”کیوں نہیں تھی؟ آج تو خاص دن ہے نا۔” اس نے آنکھ ماری۔ ماریوس کا ہاتھ پکڑ کے وہ کچن میں پڑی ڈائننگ ٹیبل تک لے آئی۔ماریوس جیسے تابعدار بچوں کی طرح اس کے پیچھے چلتا گیا۔اسے ایک کرسی پر بٹھا کر آگسٹا سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
”اب کہو۔ کیسی لگ رہی ہوں؟”
”آگسٹا آپ تو ہمیشہ اچھی لگتی ہیں۔ سادگی میں بھی۔”
”مگرمیں آج تمہارے لیے تیار ہوئی ہوں ماریوس! کچھ تو کہو!” آگسٹا نے بچوں کی طرح منہ بنا کر کہا۔
ماریوس کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔
”مس آگسٹا میں نے کب آپ سے کہا کہ آپ میرے لیے تیار ہوں؟” آواز میں دبا دبا غصہ تھا۔
”اچھا تو تم کھیل رہے ہو؟ ” وہ پھر ہنسی۔
”کہا نہیں تھا اپنے کل والے خط میں، ہاں؟”
”خط؟ کیسا خط؟” ماریوس کا منہ کھل گیا۔
”دیکھیں محترمہ آپ نے شاید آج زیادہ پی رکھی ہے، میں نے آپ کوکوئی خط نہیںلکھا اور میرا خیال ہے اب مجھے چلنا چاہیے۔” وہ بات کے اختتام تک اٹھ کھڑا ہوا۔
”ٹھہرو۔” آگسٹا نے یک دم سنجیدگی سے کہا۔ وہ چمک جو اس کے چہرے پر تھی اب غائب تھی۔
” توتم بھی رالف کی طرح بدل گئے؟”




”کون رالف؟” وہ جو جانے کے لیے مڑ چکا تھا، ٹھہر گیا اور لمحہ بھر توقف کے بعد بولا۔
”میرا شوہر، رالف۔ وہ بھی ایسی باتیں کیا کرتا ہے۔” وہ اب سر جھکائے بیٹھی تھی کہ اس کے تاثرات نظر نہ آتے تھے۔
”کیا کرتا ہے کا کیا مطلب ہے؟” ماریوس نے سنبھل کر پوچھا۔
”تم شادی شدہ ہو؟”
”ہاں۔” سادگی سے جواب آیا۔
”اور کہاں ہے وہ؟” ماریوس اب چوکنا لگ رہا تھا، مگر اس نے آگسٹا پرنظریں جمائے رکھیں۔
ٰٰآگسٹا نے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے چمک رہی تھیں۔ بغیر کچھ کہے اس نے سر سے اسٹڈی کی طرف اشارہ کیا، جس کا دروازہ بند تھا۔ ماریوس نے یکدم ہڑبڑاکے پیچھے دیکھا۔ اسٹڈی کا دروازہ ویسے ہی بند تھا۔
”کیا وہ اند ر ہے؟” ماریوس نے واپس اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں۔”
ماریوس نے گہری سانس بھر ی۔
”تمہیں یقین ہے؟”
”ظاہر ہے۔” وہ اب کچھ تلخی سے بولی۔
”میں نے اسے خود بند کیا ہے۔”
”جاؤ جا کر دیکھو آگسٹا۔ وہ وہاں نہیں ہے۔”
آگسٹا وہیں بیٹھی پلکیں جھپکاتی رہی۔
”یہ کوئی گیم ہے؟” چند ثانیوں بعد وہ گویا ہوئی۔
”جاؤ آگسٹا !” اب کی بار ماریوس نے تحکمانہ لہجہ اختیار کیا۔
آگسٹا جیسے کسی خواب سے چونک کر اٹھی اور میکانکی انداز میںجا کر اسٹڈی کا دروازہ کھول کر کھڑی ہوگئی۔ اسٹڈی بالکل خالی تھی۔ نہ صرف خالی بلکہ گرد سے اٹی ہوئی۔ وہ کسی روبوٹ کی طرح چلتی ہوئی پھر سے ماریوس کے سامنے آ بیٹھی۔
”رالف مر چکا ہے آگسٹا۔ ” ماریوس نے کہا۔
”اور اسے تم نے مارا ہے۔”
آگسٹا خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی پھر ہنس پڑی۔
”تم سے کس نے کہا ہے یہ سب؟” وہ ہنستی چلی گئی۔
”رالف اپنے ریسٹورنٹ گیا ہے۔ وہ ہیڈ شیف ہے نا۔”
”نہیں آگسٹا۔ شیف وہ نہیںہے،شیف تم ہو بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تم ‘تھیں’۔ رالف تو ایک رائٹر تھا۔” ماریوس اسے دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرے کہتا گیا۔
آگسٹا کا منہ کھل گیا۔
”تم ہو کون؟” کچھ ثانیوں بعد اس نے سرگوشی میں پوچھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

Read Next

محتاج — سارہ عمر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!