سات بج کر پچپن منٹپر اس کی آنکھ کھل گئی ۔ سستی سے انگڑائی لیتی وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔ بالوں کو پونی ٹیل میں سمیٹتی وہ نیچے آئی تو وہی مانوس سا منظر تھا۔چھوٹا سا لِونگ روم اور چمکتا ہوا اوپن کچن۔ اس کا مادی کمفرٹ زون۔گنگناتے ہوئے اس نے آملیٹ کے لیے سامان نکال کر کاؤنٹر پر رکھا۔کٹنگ بورڈ پر پیاز کاٹتے ہوئے وہ ٹھٹکی، آج گھر میں کچھ زیادہ ہی خاموشی اور خالی پن محسوس ہو رہا تھا۔ وہ دھیرے سے مسکرائی،اس کے بغیر تو وہ اب بھی کچھ نہیں کھاتی تھی۔
”رالف!” اس نے گردن ترچھی کر کے آواز لگائی۔
”ناشتا تیار ہونے والا ہے۔”
اپنی پسند کا پھولا پھولا آملیٹ وہ پلیٹ میں نکال کر پلٹی تورالف کچن ڈائننگ ٹیبل کے دواطراف دھری کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھا ہوا تھا۔ بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ سرخ سوئیٹر پہنے۔ ہمیشہ کی طرح اس کے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہ دی تھی۔
”گڈ مارننگ!” اْس نے مسکرا کر کہا۔
”ٹوسٹ اور آملیٹ لوگے یا میوزلی؟”
اس نے سرپوری طرح اٹھا کر اُس پر اپنی سلیٹی آنکھیں جمائیں اور سخت لہجے میں بولا:
”تمہیں پتا ہونا چاہیے آگسٹا کہ میں سنڈے کوآملیٹ ہی کھاتا ہوں۔”آگسٹا کی مسکراہٹ دھیمی پڑی۔
”ہاں۔ مجھے پتا ہے، میں نے سوچا شاید آج تم۔”
”میری عادتیں نہیں بدلتیں آگسٹا ،تم جانتی ہو۔” اس کی آواز بھاری اور گونج دار تھی ۔ جیسے کوئی بھولابسرا خواب ۔ ”خیر، یہ بتاؤ کہ تم نے اس ہفتے کے الاؤنس کے لیے اپلائی کر دیا؟ویسے اور کتنا عرصہ بے روزگاری بینیفٹ پر پلنے کا ارادہ ہے ؟” آخری فقرے میں سوال کم اور طنز زیادہ تھا۔
”آج کر دوں گی۔” آگسٹاکی آواز خود اسے بھی مشکل سے سنائی دی۔ حلق میں کچھ پھنسا تھا شاید۔
چند لمحے توقف کے بعدرالف نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔
”ناشتا کرو آگسٹا۔میں نے تمہاری پسند کا آملیٹ بنایا ہے۔” آواز اب نرم اور پُرسکون تھی۔
”دیکھو تمہارا شوہر تمہارا کتنا خیال رکھتا ہے۔”
آنسوؤں کا گولا اس نے حلق سے اتارااور مسکرا دی۔
”بالکل! ” ایک ٹکڑا کانٹے میں پھنسا کر کھایا اور بولی:
”لذیذ! ہمیشہ کی طرح۔ کاش میں بھی تمہارے جیسا کھانا بنا سکوں کبھی۔ ”
”ایسا ہونا تو ممکن نظر نہیں آتا۔” رالف کی مخصوص یک طرفہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر سجی ہوئی تھی۔
”تم جیسی نالائق عورت کیا مجھ جیسے عظیم شیف کو ڈیزرو کرتی ہے؟ ”
آگسٹا نے جھکے سر کے ساتھ نفی میں سر ہلایا۔
”بالکل بھی نہیں۔” ایک زخمی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوگئی۔
ناشتا ختم کر کے وہ کچھ جھاڑ پونچھ میں لگ گئی۔ رالف شاید اپنی اسٹڈی میں چلا گیا تھا، وہ زیادہ تر وہیں ہوتا تھا۔ اسے گند گی سے شدید چڑ تھی اس لیے آگسٹا صاف گھر کو بھی دن میں دو بار صاف کرتی۔لونگ روم کے کارپٹ پر ویکیوم کلینر چلاتے ہوئے اسے بہ مشکل ہی اپنے بجتے ہوئے فون کی آواز سنائی دی۔ کچھ جھنجھلاتے ہوئے اس نے فون کو دیکھا۔ ہیلینا کالنگ۔ہیلینا اس کی بچپن کی سہیلی تھی۔ ایک گہری سانس بھر کے اس نے فون اٹھا لیا۔
”ہاں اوگی ڈارلنگ؟” دوسری طرف سے آواز آئی۔
”کیسی ہو؟ طبیعت کیسی ہے؟”
”ہاں فلو بہتر ہے۔ ” آگسٹا منہ ہی منہ میں میں بڑبڑائی۔
”میں فلو کی بات نہیں کر رہی اوگی۔” دوسری طرف ایک لمحے کی خاموشی چھائی پھر وہ بولی۔
”خیر میں نے فون بھی اس لیے کیا تھا کہ میں آج ڈاؤن ٹاؤن جا رہی ہوں، میڈیکل سینٹر بھی جاؤں گی۔ تم کہو تو…”
”میں ٹھیک ہوں ہیلینا۔” آگسٹا نے خفگی سے بات کاٹی۔
”تم جاؤ اپنے گھٹنوں کے دردکا علاج کراؤ،مزیدسردیاں آنے والی ہیں۔” انداز جتانے والا تھا۔
”اور ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ اس سال ناروے میں سردی کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔” اپنے تئیں بات میں وزن پیدا کر کے اس نے فون بند کیااور واپس اپنے کام میں جت گئی۔
گھر کے اندر کی صفائی تو اس نے ایک گھنٹے میں ہی ختم کر لی۔ مشکل کام ابھی باقی تھا دروازے کے سامنے سے برف ہٹانے کا۔ اس نے اپنا شاکنگ پنک اوور کوٹ پہنا،لال کیپ اور لال ہی سنو بوٹ پہنے بیلچہ اٹھائے وہ باہر آگئی۔
برف کے ساتھ دھینگا مشتی کرتے اسے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا۔برگن (ناروے کا ایک قصبہ) کا کمزور سا سورج پوری طرح نکل تو آیا تھا، مگر اس کی روشنی بھی ٹھنڈی اور پھیکی سی تھی۔ وہ بیلچہ چلاتی گئی، چلاتی گئی مگر سورج کی طرح اس کی کاوشیں بھی بے سود رہیں، سوائے اس کے کہ اس کی کمر میں شدید ٹیسیں اٹھنے لگی تھیں۔ بے زار ہو کراس نے ہاتھ روک دیا۔ دفعتہ اسے کھڑکی کے شیشے سے رالف کا چہرہ جھانکتا نظر آیا۔ خفگی کے تاثرات شیشے کے پار سے بھی عیاں تھے، اسے گھر کی سامنے والی سیڑھیوں پر برف بھی سخت نا پسند تھی۔ آگسٹا نے دانت پیستے ہوئے بیلچے سے ایک اور وار کیا توبلبلا گئی۔ یوں لگا کہ ساری ریڑھ کی ہڈی جھٹکا کھا گئی ہو۔
”کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟” ایک خوش گوار مردانہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
آگسٹا نے سر اٹھا کے دیکھا۔ برابر والے گھر کی سیڑھیوں پر ایک چھبیس ستائیس سالہ خوش شکل لڑکا کھڑا تھا۔ وہ نیا پڑوسی تھا اور شاید کچھ گروسری لے کر واپس آرہا تھا۔ آگسٹا نے پچھلے ہفتے اسے اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا تھا۔کمر کا درد چھپاتے وہ یقینا سرخ پڑ رہی تھی۔کن انکھیوں سے گھر کی کھڑکی کی طرف دیکھا، رالف اب وہاں نہیں تھا۔
”نہیں میں کر رہی ہوں۔ کر لوں گی۔”وہ اپنی کیپ سر پے ٹھیک سے جماتے ہوئے بولی۔
”آپ رکیں۔میں یہ رکھ کے آتا ہوں۔” وہ مسکرا کر کہتا اپنے گھر داخل ہوگیا۔ آگسٹا وہیں کھڑی سرد ہوائیں کھاتی رہی۔ کوئی پانچ منٹ بعد وہ باہر آیا۔ اس کے ہاتھ سے بیلچہ لیا اور اس کے دروازے کے آگے سے برف ہٹانے لگا۔