میں، محرم، مجرم — افراز جبین

اس دن کے بعد انعم نے مدثر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ دیر سے گھر آتا، آفس بھی کبھی جاتا کبھی نہیں جاتا۔ بزنس مسلسل گھاٹے کی طرف جا رہا تھا۔ انعم کڑھتی رہتی۔ افضل علی کے کاروبار کو یوں تیزی سے گرتے دیکھ کر وہ دل مسوس کر رہ جاتی۔ کتنی محنت کرتا تھا وہ اپنے نام اور سٹیٹس کو قائم رکھنے کے لیے اور اسی کی لاڈ پیار سے پالی ہوئی اکلوتی اولاد نے اس کا بیڑا غرق کردیا تھا۔ کبھی کبھی اس کا دل چاہتاکہ سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور چلی جائے۔
٭…٭…٭




انعم اکثر محسن کے بارے میں صدف سے پوچھتی تو وہ گول مول جواب دیتی اور کبھی خالی نگاہوں سے فضا میں گھورنے لگتی۔ فائنل ایگزام ختم ہوئے تو سب نے گھر کی راہ لی۔ اس بار انعم بھی بہت عرصے کے بعد گھر جارہی تھی۔ حسبِ معمول وہ برقع الماری سے نکالا گیا اور وہ پہن کر صدف اور باقی سب کو خدا حافظ کہتی ہوئی بس اسٹینڈ کی طرف بڑھ گئی۔
شدید گرمی، ایک ہاتھ میں اٹیچی بکس، دوسرے میں ہینڈبیگ اور دور دور تک کوئی سواری نہیں۔ پاس سے ایک چنگ چی گزرا، اندر بیٹھے ڈرائیور نے اس کی طرف دیکھ کر آواز لگائی۔
”باجی جانا ہے؟” ایک لمحے کو اس کا دل چاہا کہ بھاگ کر اس میں سوار ہوجائے، مگر پھر رک گئی اور تیزی سے بولی: ”نہیں!”
چنگ چی والا آگے بڑھ گیا اور وہ چلچلاتی دھوپ میں تیزی سے آگے بڑھنے لگی۔
”اللہ پاک! تو نے مجھے ہر نعمت سے محروم رکھا ہے۔ کیا تھا جو میرے پاس بھی گاڑی ہوتی؟ اب میں کیسے اس ٹوٹی پھوٹی بے کار سواری میں بیٹھ جاؤں۔ کسی نے دیکھ لیا تو کیا کہے گا میں نے تو سب سے یہی کہا ہوا ہے کہ میرے ابو زمین دار ہیں، ہمارے کئی مربعے اور پانچ گاڑیاں ہیں۔ اللہ پاک! میرے پاس بھی پانچ نہیں دس گاڑیاں ضرور ہوں۔ تھک گئی ہوں میں اس غربت اور دھکوں والی زندگی سے۔ تو بھی بس امیروں کو ہی نوازتا ہے۔ ہم غریب تو بس…” ابھی نجانے وہ اللہ سے کتنی اور شکایتیں کرتی کہ ایک سیاہ کار نے اس کا راستہ روکا۔
”آپ اتنی گرمی میں کہاں جارہی ہیں؟” جانی پہچانی آواز سُن کر اس کے ماتھے کی تیوریاں کم ہوئیں۔
”وہ بس گھر تک، دراصل ابو کو کام تھا اس لیے ڈرائیور نہیں آسکا۔” وہ تھوڑا ہکلائی۔
”میں چھوڑ دیتا ہوں۔” محسن نے انتہائی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑی سے اُتر کر اس کے ہاتھ سے سامان لیا۔ فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر انعم کو اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دوسری طرف سے آکر خود کار میں بیٹھ گیا۔ ہلکی پھلکی گفت گو میں انعم کو پتا ہی نہ چلا کہ گاڑی بس اسٹینڈ کے بجائے کب ایک ریسٹورنٹ کے آگے رُکی۔
٭…٭…٭
”رابعہ! کیا ہم مل سکتے ہیں؟” بلال کی اس بات پر بہت دیر تک کوئی رپلائی نہ آیا جب کہ کبھی ایسا تھا کہ میسجز کا سلسلہ رُکتا ہی نہ تھا۔ بلال پر ایک نیا بھوت سوار ہوگیا۔ وہ ہر وقت بس اس کے بارے میں سوچتا رہتا۔ اسی کی باتیں کرتا اور اگر اس کا مسیج نہ آتا تو اداس بلبل کی طرح گھر کے باہر دکان پر بیٹھا موبائل کی اسکرین ہی تکتا رہتا۔
احمد علی اس کی اس حالت پر کڑھتے رہتے۔ ایک بار تو انہوں نے اُس کی یہ صورتِ حال دیکھ کر اس پر ہاتھ بھی اُٹھا لیا مگر جوان بیٹے کی بغاوت کے ڈر سے فرخندہ بیگم نے احمد علی کو روکنے میں عافیت جانی۔
”یہ وقت ہوش کا ہے جوش کا نہیں احمد علی! اس عمر میں لڑکے لڑکیوں کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔” وہ خود بلال کی اس حالت پر خائف تھیں اور ان سے زیادہ دل ہی دل میں خود بھی بلال کی بے راہ روی پر نالاں تھیں، لیکن زبان پر لانے سے ڈرتی تھیں کہ کہیں جوان بیٹا مدِمقابل نہ آجائے۔
٭…٭…٭




”میری ٹکٹ ہے چار بجے کی اور یہ آپ مجھے کہاں لے آئے؟” انعم کار رُکنے پر گڑبڑا کر بولی۔
”یہ میرا فیورٹ ریسٹورنٹ ہے اور آپ میری فیورٹ…” محسن نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی۔ آئیے کھانا کھاتے ہیں۔” اس نے ایک بار پھر اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا اور وہ دونوں اس مشہور ریسٹورنٹ میں قدم سے قدم ملاتے ہوئے داخل ہوئے۔
انعم کے لیے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا۔ وہ پہلی بار کسی ریسٹورنٹ میں نہیں آئی تھی۔ وہ اور صدف اکثر ہی بازار میں شاپنگ کے بعد کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے۔ ویسے بھی جب سے انعم نے اپنا روپ بدلا تھا، وہ ایسی محفلوں کی جان ہوتی مگر آج محسن کے ساتھ ریسٹورنٹ میں اسے عجیب سا محسوس ہورہا تھا۔
”آپ اتنی گھبرائی، ڈری ہوئی اور الجھی الجھی سی کیوں ہیں؟” محسن نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں نہیں! بہت دنوں بعد گھر جارہی ہوں۔ اس لیے دل چاہ رہا ہے اُڑ کر چلی جاؤں۔” وہ ہچکچائی۔
”انعم! آپ سے ایک بات کرنی تھی۔ بہت دنوں سے سوچ رہا تھا مگر موقع نہیں مل رہا۔” محسن نے اسے ادھر اُدھر بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی فرمائیے…” انعم نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔
”مجھے آپ کی یہ چمک دار گہری آنکھیں بہت attract کرتی ہیں۔ جب آپ کو پہلی بار میں نے ہوسٹل میں دیکھا تھا تو اُسی دن سے آپ کی آنکھیں دل کے کسی کونے میں fix ہوگئی تھیں۔” محسن نے انتہائی دھیمے مگر رومانی لہجے میں انعم کے سامنے اپنے دل کی بات رکھی۔ انعم کی تعریف بہت سے لڑکوں نے کی لیکن آج محسن کے منہ سے اپنی آنکھوں کی تعریف سُن کر وہ ایک لمحے کو کھو ہی گئی۔ اس کی ماں بھی اس کی آنکھوں کی ہی دیوانی تھی۔
”مِس انعم! میں آپ سے مخاطب ہوں۔” محسن کی آواز اسے حال میں واپس کھینچ لائی۔
ویٹر انہیں کھانا سرو کررہا تھا۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔ محسن زیرِلب مسکراتے ہوئے اس کے سُرخ و سفید چہرے پر نظریں جمائے اس کو تکتا رہا اور اس کی نظریں کبھی محسن سے ملتیں اور کبھی جھک جاتیں۔
خاموشی کا یہ پہر ایک بار پھر محسن کی دل نشیں آواز نے توڑا۔ ”اپنا خیال رکھیے گا۔” اسے بس میں بیٹھا کر سامان اس کے حوالے کرتے ہوئے اس نے واپسی کی راہ لی اور اس کی نظریں دیر تک اسی سیاہ کار کا تعاقب کرتی رہیں۔
٭…٭…٭




”بس کردو غم منانا! آج کل یہ سب اتنا عام ہے، وہ صرف ایک فراڈ ہے۔ دیکھو تم نے ملنے کو کہا اور وہ غائب۔” علیشبہ اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔
”نہیں! وہ ایسی نہیں ہے۔” بلال کے انتہائی کھردرے انداز میں جواب۔ جس دن سے بلال نے اسے ملنے کا کہا تھا، اسی دن سے میسجز آنا بند ہوگئے تھے۔ اس کی لاتعداد مسڈ کالز اور میسجز کا کوئی reply نہیں آرہا تھا۔ وہ اتنا بے چین تھا کہ اسے گھر کی دیواریں بھی کاٹ کھانے کو دوڑتیں۔ اس کے جاننے والوں میں جس کسی کو بھی انعم کا پتا تھا وہ یہی کہتا:
”ماموں بنا گئی ہے منے تجھے تیری دوست۔”
بالآخر ایک دن موبائل کی خاموشی ٹوٹی اور reply آہی گیا۔
”There?”
”یہ کیا طریقہ ہے؟ میں پاگل ہوگیا ہوں تمہیں کالز اور میسجز کرتے ہوئے۔ بندہ reply تو کردے۔کیا میری اتنی ویلیو بھی نہیں ہے؟” بلال اتنے دنوں سے دبا غصہ ضبط نہ کرپایا۔
”اُف! اتنا غصہ؟” بلال نے اس کے reply کے جواب میں فون ہی کر ڈالا اور اب اس رس گھولتی آواز نے اسے یک دم خاموش کردیا تھا۔
”سلام نہ دعا اور اتنی ڈانٹ؟” وہ کھلکھلائی۔
”ہم ضرور ملیں گے مگر کچھ ٹائم کے بعد۔”
”لیکن میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ تمہارے ہونے کا یقین کرنا چاہتا ہوں۔” بلال نے اس کی بات کاٹی،جواباً وہ خاموش رہی۔
”ایک تو مجھے تمہاری یہ یک دم خاموش ہوجانے کی عادت سے نفرت ہے۔” بلال جھنجھلایا۔
”کیا تمہیں میرے ہونے کا ابھی بھی یقین نہیں؟” اس کی آواز سن کر بلال کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس کے پہلو میں بیٹھی شکوہ کناں نگاہوں سے اس سے پوچھ رہی ہو کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی ہے اور اس محبت کا یقین دلا رہی ہے۔ ٹوٹا ہوا رابطہ ایک بار پھر جُڑ گیا۔
٭…٭…٭
”انعم! تم بدل گئی ہو۔ یہ وہ انعم تو نہیں جو لاہور گئی تھی۔” ابو کے استفسار پر وہ گڑبڑا سی گئی۔
”کیا بدل گئی ہوں ابو جی؟” انعم نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
”جب سے آئی ہو، بس ہاتھ میں موبائل ہی ہے۔ جتنی تیزی سے تمہاری زبان چلتی تھی اب اتنی تیزی سے تمہارے ہاتھ اس موبائل پر چلتے ہیں۔” ذیشان صاحب نے آج اسے پکڑ ہی لیا تھا۔
”نہیں ابو! یہ ایسی ہی وقت گزاری کے میسجز ہوتے ہیں جو دوستوں اور کلاس فیلوز کو کرتی رہتی ہوں پھر آگے سے ان کے جواب آتے ہیں۔” اس نے باپ کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے کہا۔
”ابو! میں بھی اسد کی طرح آپ کا بیٹا ہوں۔ جتنا مان آپ کو اس پر ہے۔ اتنا اعتبار مجھ پر کریں۔” انعم نے باپ کو ایک بار پھر خاموش کرادیا۔
٭…٭…٭
”مدثر! بزنس ڈوب رہا ہے۔ خدا کا واسطہ اسے سنبھالو۔ قرضہ بڑھ رہا ہے کچھ نہ کرو تو کم از کم دیوالیہ بھی نہ نکالو۔ اربوں کے کاروبار کا ستیاناس کر ڈالا ہے۔ اگر تم نے یہی روٹین رکھی تو میں آفس جوائن کرلوں گی۔” مدثر ان کی بات سُن کر خاموش رہا۔
”اس گھر اور کاروبار میں میرا بھی حصہ ہے۔” انعم نے ہی خاموشی کو توڑا۔
”ہاہاہاہا…” مدثر نے قہقہہ مارا۔
”تو مسز افضل علی اب آپ آفس جوائن کریں گی؟” مدثر نے طنزیہ انداز میں ان سے پوچھا۔
”کیا تم مجھے اتنا بتا سکتے ہو کہ ان سب باتوں میں میرا قصور کیا ہے؟ جو کچھ بھی ہوا کیا میری وجہ سے ہوا ہے جو تم مجھ سے نفرت کرنے لگے ہو؟ تمہارا دل اور مان ٹوٹا ہے، میرا قصور تو بتاؤ؟ کیا تمہاری بربادی کا سارا ذمہ مجھ پر ہے؟” انعم ایک بار پھر تنہا رہ گئی۔ وہ ان کی بات مکمل ہوتے ہی کمرے سے نکل گیا۔
ہمیشہ کی طرح وہ خود ہی خاموشی توڑتی اور پھر اپنی کرچیاں سمیٹتی رہتی۔
٭…٭…٭
”ہم مل سکتے ہیں؟” ملنے کا ذکر دوبارہ بلال نے نہیں کیا، مگر آج اس میسج کو پڑھ کر وہ خوشی سے جھوم اٹھا۔ اس لمحے کا جس بے صبری سے اس نے انتظار کیا، بالآخر وہ آہی گیا تھا۔
بلیو جینز پر وائٹ شرٹ، پالش جوتے اور نیا ہیر اسٹائل۔ بلال کو بہت عرصے بعد جدید تراش خراش میں دیکھ کر پورا گھر کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا جو شیشے کے آگے سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، بلال کھسیا سا گیا۔
وہ کسی ریسٹورنٹ میں نہیں مانی تھی اس لیے وہ اس کے بتائے ہوئے مقامی پارک میں مقررہ وقت سے پون گھنٹا پہلے ہی آگیا تھا۔ وہ بے چینی سے ٹہلاتا ہوا بُڑ بڑا رہا تھا۔
مقررہ وقت سے آدھا گھنٹا زیادہ گزر گیا اور اس کا انتظار ابھی تک ختم نہیں ہوا تھا۔ اب وہ مایوس ہورہا تھا۔ تھک کر اس نے قریبی بنچ پر موبائل پھینکا اور خود بھی بیٹھ گیا۔
”ایکسکیوزمی!” ایک دھیمی نسوانی آواز پر اس نے سر اُٹھایا۔
اس نے انتہائی سلیقے سے کالی قمیص پر لال دوپٹا شانوں پر پھیلایا ہوا تھا۔ اس کے خوب صورت تراشے ہوئے بال ہائی پونی میں مقید تھے۔ وہ نظریں جھکا ناہی بھول گیا۔ سفید رنگ، گہری چمک دار، بولتی آنکھیں۔
”بلال ایسے مت دیکھیں۔”
”آپ!” وہ بُڑ بڑایا۔
”ہاں میں!” اس نے آنکھیں جھپکیں۔
”کیا ہوگیا ہے؟ کیا یوں ہی گھورتے رہو گے؟ آؤ واک کریں۔” بلال کسی مقناطیس کی طرح اس کے پیچھے لپکا تھا۔ کافی دیر واک اور ڈھیر ساری باتوں کے بعد اس نے اجازت چاہی اور بلال نے بھی دھیرے سے بائیک اسٹینڈ کی طرف قدم بڑھا دیے تھے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کباڑ — صوفیہ کاشف

Read Next

موسمِ گُل — عاصمہ عزیز

One Comment

  • …Keep it up Ma’am ………………………………………..Excellent as well as amazing

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!