میں، محرم، مجرم — افراز جبین

”انعم! تم بھی پلیز اس کو اتاردو۔ بالوں کی ساری سیٹنگ خراب ہورہی ہے۔”صدف نے انعم کو سمجھاتے ہوئے کہا پھر محسن کی طرف متوجہ ہوگئی۔
”مُحسن کیسی لگ رہی ہوں؟” صدف نے گاڑی چلاتے ہوئے محسن کی طرف جھکتے ہوئے انتہائی رومانی انداز میں پوچھا تو محسن کی نظریں اس کے پاؤں سے ہوتے ہوئے اس کے چہرے پر بے باکی سے جارکیں۔
”بولو نا۔” صدف تھوڑا اور قریب ہوکر پوچھا۔ محسن نے ایک بے باک نظر اس پر ڈالی۔
”بہت خوب صورت! مت پہنا کرو یہ رنگ کہیں تمہیں میری ہی نظر نہ لگ جائے۔” محسن کی آواز سرگوشی میں ڈھل رہی تھی اور پیچھے بیٹھی انعم کا وجود یہ سب سُن کر پسینے سے شرابور ہوچکا تھا۔
٭…٭…٭
بلال اور عثمان وقت سے پہلے ہی آگئے تھے۔ گھر خاصا بڑا تھا اس میں ہی سارے انتظامات کیے گئے تھے۔ ہر طرف گہما گہمی تھی۔ زرق برق لباسوں میں ملبوس ہر کوئی اپنے آپ میں مگن تھا۔
بلال ان رنگینیوں کو انجوائے کرتا عثمان کو دیکھنے کے لیے پلٹا تو اس کی ٹکر ایک گھبرائی ہوئی پریشان لڑکی سی ہوگئی۔
”اوہ سوری!” وہ دونوں ایک ساتھ ہی بولے۔ دونوں ایک بار پھر پلٹے اور دوبارہ ٹکرا گئے۔
”آئی ایم رئیلی سوری۔” بلال گھبرا کر پیچھے ہٹا اور وہ گھبرائی ہوئی پریشان سے لڑکی آگے بڑھ گئی۔
٭…٭…٭




”صدف دیر ہوگئی ہے، چلو۔” انعم نے صدف کو کہنی ماری جو مسلسل اپنی Selfies لینے میں مصروف تھی۔
”کیا انعم بہت بور ہو تم! ابھی تو رسم کے بعد ڈانس ہوگا۔ اتنا مزہ آرہا ہے۔ ہم ابھی نہیں جارہے۔ تم انجوائے نہیں کررہیں کیا؟” صدف نے ایک اور سیلفی لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں! وہ…”
”چپ کرو تصویر خراب ہورہی ہے۔” صدف نے اُس کی اور اپنی ایک اور سیلفی لیتے ہوئے۔
”یہ دیکھو، یہ لڑکے والے ہیں۔ سُنا ہے کافی امیر لوگ ہیں۔” صدف کی نہ ختم ہونے والی کہانی شروع ہوگئی، جب کہ انعم کی نظر ڈھول کے ساتھ ناچتے ہوئے بلال پر جا ٹھہری۔ سفید شلوار اور پیلی قمیص پر جس وارفتگی سے وہ ناچ رہا تھا، انعم کو لگا کہ وہ دُلہا کا کوئی بہت ہی قریبی عزیز ہے۔
٭…٭…٭
”آپ بہت اچھا ڈانس کرتے ہیں۔” موبائل پر اُسے ایک ان جانے نمبر سے آنے والے میسج نے بلال کو حیران ہی کردیا۔
”بہت شکریہ! کیا میں جان سکتا ہوں آپ کون ہیں؟” بلال نے میسج کا جواب دیا۔ پورا دن گزر گیا مگر اس نمبر سے دوبارہ کوئی میسج نہیں آیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
٭…٭…٭
صدف کی صحبت میں رہ کر انعم کا برقع اُتر گیا تھا۔ اس کے کپڑے میانوالی سے ہی آتے تھے۔ ذیشان صاحب کا جب بھی لاہور آنا ہوتا یا وہ جاتی تو دونوں چھوٹی بہنیں اس کے لیے خاص کپڑے سلواتیں۔ اس نے پوری آستینوں کو کندھوں تک موڑ کر بالکل ہی سلیولیس انداز میں بنالیا تھا۔ چوں کہ گھر سے قمیص شلوار سل کر آتی تھی اس لیے اس نے رنگ برنگے ٹائٹس خرید لیے تھے جو ہر سوٹ کے ساتھ چل جاتے۔ لمبے بال اب کندھوں تک کٹنگ کی وجہ سے ایک پونی میں قیداور کچھ لٹیں ہر وقت گالوں پر جھولتیں۔ وہ جب بھی گھر جاتی، اسے اپنا بدلا روپ چُھپانے کے لیے خود کو سر سے پیر تک ڈھانپنا پڑتا۔ اس نے بھی اسد کی طرح گھر جانا بہت کم کردیا تھا۔
عثمان کے واپس جاتے ہی زندگی دوبارہ اسی ڈگر پر آگئی۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ بلال کو یاد ہی نہیں رہا کہ اسے کوئی میسج آیا تھا۔ آج دوبارہ اس نمبر سے میسج آیا اور وہ بھی وہی والا تو وہ ذرا سا پریشان ہوا۔ اس نے اس نمبر پر کال کی۔ کافی بیل کے بعد فون کٹ گیا۔ اسی رات دوبارہ اس نمبر سے مسیج آیا۔
”آپ نے کال کی تھی؟”
”جی!”
”آپ کون؟” میسج آیا۔
”آپ کون؟” دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
”پہلے آپ اپنا تعارف کرائیے۔”
”جی میرا نام بلال ہے۔ ایک یونیورسٹی میں BSc کے دوسرے سال میں ہوں۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔ اب آپ بتائیں۔” بلال نے اپنا مکمل تعارف کروایا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس نمبر سے مسیج آیا۔
”جی! میں بھی ایک یونیورسٹی سے BS(Hons) کررہی ہوں۔ بہن بھائیوں میں میرا پہلا نمبر ہے۔”
”آپ کا نام؟” بلال نے تجسس سے پوچھا۔ بہت دیر تک جواب نہیں آیا، پھر اچانک موبائل کی بیپ بجی۔
”نام بتانا ضروری ہے کیا؟”
”بالکل! اس طرح میں آپ کو کیسے جانوں گا؟ اورپلیز اس بار reply ذرا جلدی کردیجیے گا۔”
”میرا نام… آپ مجھے خود کوئی نام دیجیے۔”
”میں؟” وہ حیرانی سے سوچ میں پڑ گیا۔
”یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ کا کوئی تو نام ہوگا؟” بلال اب الجھ رہا تھا۔
”میرا کوئی نام ہمارے رشتے کی مناسبت سے ہی رکھ لیں۔”
”ہمارا رشتہ؟ آپ ہیں کون؟” بلال کی حیرانی اور الجھن بڑھتی جارہی تھی۔
”ایک دوست…”
٭…٭…٭




اپنی طرزِ زندگی کو بدلتے ہی انعم کی زندگی میں جو تبدیلیاں آئی تھیں وہ خود بھی اکثر انہیں دیکھتی تو ایک لمحے کو خاموش ہوجاتی اور سوچتی کہ واپسی کی راہ لے مگر آج کل یہی سب کچھ ہوتا ہے۔
”تم بالکل صحیح کررہی ہو۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ان سب چیزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اب سر سے پیر تک لپٹی ہوئی لڑکی کو کوئی پسند نہیں کرتا۔ اگر تم اپنے آپ کو نہیں بدلو گی تو واپس جاکر خالہ زاد تو کیا کسی بھی معمولی لڑکے سے شادی ہوجائے گی، پھر زندگی بھر کا عذاب بھگتوگی۔ شوہر صرف یہی باتیں سنائے گا۔ اس مہینے بل جمع کروایا ہے تو شاپنگ اگلے مہینے، ایک ہی سوٹ خریدو وہ بھی ہلکا سا، پھر اسی کو دھودھو کر استری کرو اور وہی ہر فنکشن میں پہنو۔” اس کے اندر کی آواز اسے واپس رنگینیوں میں لے جاتی۔
٭…٭…٭
”دوبارہ مسیج نہیں آیا۔” بلال نے اپنے دوست ابوبکر کو پوری تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
”یار چیک کر WhatsApp پر اس نے کوئی تصویر لگائی ہو۔” ابو بکر نے انتہائی تجسس سے کہا۔
”ہاں! ہاتھوں کی لگائی ہوئی ہے۔” بلال نے موبائل اسکرین اس کے آگے رکھی۔
”ہاتھ تو بہت خوب صورت ہیں، تیری نامعلوم فین کے۔” ابوبکر نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
”ویسے سوچ! کوئی لڑکا ہی بیوقوف نہ بنا رہا ہو۔ اب میسج آئے نا تو فوراً کہنا مجھ سے کال پر بات کریں۔” ابو بکر بہت دیر تک اسے اپنے مفید مشوروں سے نوازتا رہا۔ اسی میں دو کلاسز مِس ہوگئیں۔
٭…٭…٭
ہر ماہ کے پہلے ہفتے گھر سے کوئی نہ کوئی آپ سے ملنے آسکتا ہے، ہاسٹل کے رولز میں سے ایک یہ بھی تھا۔ باقی مہینے کسی کو بھی ملنے کے لیے آنے کی اجازت نہ تھی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ذیشان صاحب اور اسد اس سے مل کر گئے تھے۔ وہ آفس میں ہی بیٹھی رہی۔ باپ کی ڈھلتی عمر اور گھر میں ان دونوں کی کمی کے قصے سُن کر تھوڑا رنجیدہ ہوگئی تھی۔ اسی خیال میں نہ جانے کب محسن اندر داخل ہوا، اسے پتا ہی نہ چلا۔
”یہ آپ کے لیے۔” محسن کی آواز پر انعم ایک دم پلٹی۔
”آپ؟ آپ یہاں آفس میں؟ میڈم نے دیکھ لیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔ آپ بیٹھیں پلیز صدف کو میں بلاتی ہوں۔” انعم اس کو یوں آفس میں دیکھ کر بوکھلا گئی۔
”ریلیکس مس انعم! کوئی نہیں دیکھے گا۔ میں صرف آپ کو یہ دینے آیا تھا۔” اس نے ایک چھوٹا سا ڈبا جو ایک خوب صورت پیکنگ میں لپٹا ہوا تھا، اس کی طرف بڑھایا۔
”I request you, don’t tell Sadaf about it ” اس نے ڈبا اسے پکڑاتے ہوئے التجائیہ انداز میں کہا اور آفس سے نکل گیا۔وہ ہکّا بکّا سی کھڑی رہ گئی۔
٭…٭…٭
کمرے میں آکر انعم نے ڈبا کھولا تو اس میں ایک انتہائی خوب صورت بریسلیٹ تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ فوراً ہی پہن لے مگر صدف کو کمرے میں آتا دیکھ کر اس نے ڈبا بستر میں چھپا دیا۔
”یہ محسن بھی ناجانے کیا کیا لے آتا ہے؟ اب یہاں پر فریج میں کوئی چیز رکھو تو وہ صبح کو غائب ہوتی ہے۔ منع بھی کیا ہے ہزار بار اس لڑکے کو، دیوانہ ہی ہے پورا۔” صدف ہاتھوں میں کھانے کے شاپر لیے جھنجھلائی کھڑی تھی۔
”لاؤ! آج کی رات پھر کھا کھا کر گزارتے ہیں۔” انعم نے اس کے ہاتھ سے شاپر لے کر ڈبے کھولنے شروع کیے۔
”محسن! تمہارا بھائی ہی ہے نا۔” انعم نے چیزوں کے ساتھ بھرپور انصاف کرتی ہوئی صدف سے پوچھا۔
”کیا مطلب؟” صدف اس اچانک سوال پر یک دم چونکی۔
”میرا مطلب کہ کافی بے تکلفی ہے تم دونوں میں۔”
”وہ میرا بھائی ہی ہے۔” اس نے چبا چبا کر جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
٭…٭…٭
”میرا نام رابعہ ہے۔” دوست کے نام سے محفوظ کیے ہوئے نمبر سے میسج رات کے کسی پہر آیا تھا جو بلال نے صبح اٹھتے ہی پڑھا۔
بلال نے وہ نمبر دوست کے نام سے Save کرلیا تھا مگر اسے خود سے دوبارہ رابطہ کرتے ہوئے جھجھک آرہی تھی۔ وہ اسی کش مکش میں تھا کہ کیا کرے کہ موبائل کی بیپ بجی۔ وہ تیزی سے چارجنگ پر لگے موبائل کی جانب لپکا۔
”میاں اتنی پھرتی اور کاموں میں بھی دکھا دیا کرو۔” احمد علی کی آواز پر وہ جھنجھلا گیا۔
”ابا آپ بھی نا،یہ میسج میرے دوست کا تھا۔”یہ کہتا ہوا وہ وہاں سے باہر نکل گیا اور میسج پڑھنے لگا۔
”مجھے بھول گئے؟” میسج آیا۔
”کیسے یاد رکھوں؟ کوئی نشانی،نام پتا بھی تو ہو۔”
”Hmmm” جواب آیا۔
”کیا Hmm۔” اس نے جواب دیا۔
”میں دوست ہوں نا۔”
”نہیں اپنا نام بتاؤ۔ ورنہ میں تمہیں block کررہا ہوں۔” بلال نے آخری حربہ آزمایا تھا۔
”رابعہ۔” اس نام سے اُس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سے مسکراہٹ آگئی۔
”جی تو رابعہ اور بھی بتائیے اپنے بارے میں۔” اس میسج کے بعد میسجز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کباڑ — صوفیہ کاشف

Read Next

موسمِ گُل — عاصمہ عزیز

One Comment

  • …Keep it up Ma’am ………………………………………..Excellent as well as amazing

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!