میں، محرم، مجرم — افراز جبین

”مگر کیا آنٹی؟” اس نے سوال کیا۔
”ڈاکٹرز نے اسے آرام اور ٹینشن سے دور رہنے کا کہا ہے، مگر وہ صرف تمہارا نام ہی لے رہا ہے۔ اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔ جب تک اس کی طبیعت نہیں سنبھل جاتی، آپ اس سے دوبارہ بات کرلو۔” فرخندہ بیگم کو بیٹے کی محبت میں ایک لڑکی سے اپنے بیٹے کی خوشیوں کی بھیک مانگنی پڑی حالاں کہ وہ اس کے بدلتے چہرے کے تاثرات سے ہی اس کا مزاج پڑھ چکی تھیں۔
٭…٭…٭
فرخندہ بیگم کی درخواست پر اس نے بلال سے رابطہ کیا اور وہ اک بار پھر اس کے جھانسے میں آگیا، مگر اب وہ پہلے کی طرح بلال پر انحصار نہیں کررہی تھی کیوں کہ بلال محسن نہیں تھا۔ محسن اس کے بدلتے رنگ ڈھنگ دیکھتے ہوئے کسی اور مچھلی کو دانا ڈال چکا تھا۔ وہ محسن اور اس نئی لڑکی جو صدف کے تعلق سے ہاسٹل آئی تھی، دونوں کو ساتھ دیکھ کر برُی طرح ڈسٹرب ہوئی تھی۔
”بتاؤ تو سہی، بیٹھے بٹھائے گھر کیوں جارہی ہو؟” بلال نے اسے معمول کے مطابق ٹیوشن سے لے کر ہاسٹل کے دروازے پر اتارتے ہوئے سوال کیا۔
”بس میں تھک گئی ہوں اور کچھ دنوں کے لیے گھر جانا چاہتی ہوں۔”انعم نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔
٭…٭…٭
ذیشان صاحب اور دونوں بچیاں انعم کو یوں اچانک دیکھ کر کھل ہی اٹھے۔ ڈھیر ساری باتیں اور یادیں تازہ کی گئیں۔ اسد کو بھی فون کرکے بلا لیا گیا۔ گھر میں بھرپور رونق تھی۔ اسد کو اچھے گریڈز کی وجہ سے سکالرشپ مل گئی تھی اور اس کی تقریباً آدھی سے زیادہ فیس معاف ہوگئی تھی۔ انعم اپنے گھر والوں کو ہنستے کھیلتے دیکھ کر مطمئن ہوگئی، مگر اس کے دل کا بوجھ وہیں تھا۔
٭…٭…٭




صدف اس کی اور وہ صدف کی ہر عادت سے واقف ہوگئی تھی۔
”ایگزام سے پہلے کمرے کی صفائی کرلو انعم!” صدف اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
صفائی کے دوران صدف اور انعم کے درمیان بلال کا ذکر چھڑ گیا۔
”میری مانو! ڈگری کے آخری چھے مہینے ہیں، مکمل کرو اور بلال سے شادی کرلو۔” صدف نے انتہائی سیدھے انداز میں کہا۔
”Are you ok? میرا مطلب ہے Are you in Senses?” انعم نے اسے گھورا۔
”دیکھو یار! محسن تم سے شادی نہیں کرے گا۔ جہاں تک باقی لڑکے ہیں یونیورسٹی کے، وہ ہم جیسی لڑکیوں کے ساتھ کھانا کھانا، گھومنا پھرنا اور باتیں کرنا تو پسند کرتے ہیں، مگر شادی وہ اپنی کلاس ہی میں کرتے ہیں۔ جہاں برات پراڈو میں آتی ہے اور جہیز میں جائداد۔ بلال ایک شریف لڑکا ہے۔ کچھ نہیں دے گا لیکن عزت تو دے گا۔ ویسے بھی کہتے ہیں شادی اس سے کرنی چاہیے جو آپ سے محبت کرتا ہو۔” صدف نے انتہائی فلمی انداز میں اپنی بات مکمل کی۔
”دیکھو صدف! میری طرح بلال ایک متوسط گھرانے کا لڑکا ہے، جہاں خوشیاں ایک پاؤنڈ کے کیک کو کاٹ کر منائی جاتی ہیں۔ جہاں صرف سردی اور گرمی میں سب کا ایک ایک جوڑا بنتا ہے۔ جہاں زندگیاں بجلی کے بِلوں، کرائے، دیگر خرچوں اور حساب کتاب میں گزر جاتی ہیں۔ اگر مجھے ان سب چیزوں کو ہی face کرنا تھا تو میں لاہور کیوں آئی؟ بلال صرف ”Time pass” ہے۔ میرا ڈرائیور ہے جو ایک مُسکراہٹ سے ہی پگھل جاتا ہے۔ مجھے اُڑنا تھا، لیکن اب میرے دل کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ میرے پاس صرف چھے مہینے ہیں۔ پڑھائی ختم ہوجائے گی اور میرے پاس واپسی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ I don’t want to go back. وہ ٹوٹا ہوا گھر، مرمت طلب دیواریں اور کمیٹیوں کے حساب کتاب۔” اس نے ہنکارا بھرا۔
وہ اُٹھی اور الماری سے چیزیں نکال کر باہر رکھنی شروع کیں۔ کپڑے، جوتے اور کاغذ الگ الگ کرتے ہوئے ہاتھ میں آنے والے افضل علی کے کارڈ نے اس کی آنکھوں کی نمی چمک میں بدل دی۔
”عزت دے گا بلال، خالی محبت اور عزت سے پیٹ نہیں بھر ا کرتا۔” وہ نخوت سے کہہ رہی تھی۔
”میری جان! عزت کی پروا ہوتی تو میں…” وہ کمرے سے باہر جاچکی تھی۔ اب صدف کو ہی سارا کمرا سمیٹنا تھا۔
٭…٭…٭
”آج کل تم موبائل کو کیوں چپکی رہتی ہو؟” بلال اس کی مسلسل میسجنگ سے چڑ گیا تھا۔
”سم تھنگ پرسنل۔” اس نے مسکرا کر بات کاٹ دی۔
”اس دن آپ کی گاڑی میں میری کوئی file تو نہیں رہ گئی تھی؟” انعم نے صفائی کے دوران ملنے والے کارڈ سے نمبرلے کر افضل علی کو میسج کیا۔
”نو!” مختصر جواب نے انعم کو کال کرنے پر مجبور کردیا۔ دوتین بیلز ہونے کے بعد فون کاٹ دیا گیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد اسی نمبر سے کال آئی۔
”جی میں بزی تھا، فرمائیے۔” اس کی آواز اس کے چہرے سے زیادہ دل کش تھی۔
رسمی سلام دعا کے بعد انعم نے اسے کسی ملازمت کے لیے کہا۔ اس کام کے لیے اس نے کافی ہمت کی تھی۔
”نوکری! دراصل آج کل میں بہت مصروف ہوں، اگر آپ مجھے ایک دو دن دیں، تو میں خود کانٹیکٹ کرتا ہوں۔ آپ اپنی CV مجھے میل کردیں۔” مختصر بات کے بعد کال کاٹ دی گئی۔
٭…٭…٭
ای میل آئی ڈی کے ذریعے انعم نے افضل علی کا فیس بک اکاؤنٹ تلاش کیا۔ پروفائل سے انعم نے اس کا ڈیٹا چھان لیا تھا۔ آخر میں وہ اسے friend request بھیجنا نہیں بھولی۔
”مِس انعم! کیا آپ فری ہیں؟” افضل علی کا میسج صُبح صُبح اپنی سکرین پر دیکھ کر وہ دوبارہ جی اُٹھی تھی۔ اس نے اسے ایک کمپنی میں آنے والی جاب کا بتایا اور اپلائی کرنے کامشورہ دیا۔
جاب اچھی تھی۔ اس کے دو انٹرویوز کام یاب ہوئے تھے اور اب اسے فائنل انٹرویو کا انتظار تھا۔ ان دنوں وہ بلال کو نظرانداز کرکے محسن سے رابطے بڑھا رہی تھی کیوں کہ اسے نیا موبائل چاہیے تھا۔ ٹیوشن سے بچائے ہوئے پیسے اس نے گھر بھیج دیئے تھے۔ چھوٹی بہنوں کی فیس آگئی تھی اور ابو کا بجٹ اجازت نہیں دے رہا تھا۔ نیا موبائل وہ بھی جدید ماڈل کا محسن ہی دلواسکتا تھا۔
آخری انٹرویو میں اس نے اپنی جان لڑا دی تھی اور اس کی تیاری ضائع نہیں گئی تھی۔ آخری انٹرویو میں افضل علی نے اسے Approval دے دی تھی۔ وہ خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ نئی کمپنی، نیا ماحول اور اپنے آپ کو اس ماحول میں ایڈجسٹ کرنا اس کے لیے مشکل تھا مگر ناممکن نہیں۔ ویسے بھی انعم کو ماحول کے مطابق ڈھل جانے کا گُر آتا تھا۔
”Ms. Anum You’re working hard!” افضل نے آج اس کو خاص طور پر آفس بلوا کر اس کے کام کی تعریف کی تھی۔ چند ملاقاتوں میں وہ افضل علی کی پروفیشنل بلکہ پرسنل لائف میں بھی داخل ہوگئی تھی۔
٭…٭…٭
”جب سے تمہاری جاب شروع ہوئی ہے، تم مجھے بھول ہی گئی ہو۔” بلال اکثر ہی اس سے شکوہ کرتا۔ آج کل بلال کا موبائل خراب تھا اور اب انعم کو موبائل کے لیے محسن کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ خود موبائل خرید سکتی تھی۔ افضل علی نے گریجوایشن مکمل ہوتے ہی اس کی تنخواہ میں اضافہ کردیا تھا۔ اب وہ بہت سی چیزیں خود خریدتی اور باقی تحفے میں آجاتیں۔ وہ جہاں سے بھی گزرتی، سامنے والے کا نمبر لے آتی تھی یا اپنا چھوڑ آتی تھی اور جب بھی کوئی تحفہ آتاتو وہ ہنس کر کہتی:
”کم بخت دل! بھرتا ہی نہیں۔”
٭…٭…٭




اپنا پرانا موبائل اس نے بلال کو دے دیا تھا۔ انجانے میں وہ اپنا فیس بک اکاؤنٹ لاگ آؤٹ کرنا بھول گئی اور ایک بار پھر بلال نے عدالت لگالی۔
افضل علی اور اس کے درمیان messenger پر ہونے والی گفت گو نے بلال کو آگ بگولا ہی کردیا تھا۔
ایک بار پھر وہ معصوم، اپنی محبت کا رونا لے کر اس کے دربار میں کھڑا صفائی مانگ رہا تھا اور وہ انتہائی نخوت سے اس سے مکمل رابطہ توڑنے کی دھمکیاں دے رہی تھی۔
افضل علی کی دنیا محسن کی دنیا سے بالکل مختلف تھی اور بلال تو کبھی ڈرامے اور فلمیں دیکھ کر بھی وہ سب کچھ تصور نہیں کرسکتا تھا۔ اونچے خوب صورت مکان، قالین اتنے نرم کہ پائوں رکھو تو دھنس جائیں، آرام دہ گاڑیاں، کلب، پارٹیز وہ تو واپسی کا راستہ ہی بھول گئی تھی۔
”Ok fine! اگر تم مجھے اپنی زندگی میں لاناچاہتے ہو تو جاب کرو۔ بہتر ہے کہ تم دبئی کا ایک چکر لگا لو۔ اگر تمہیں کوئی جاب مل جاتی ہے تو میں تمہارے بارے میں سوچوں گی۔” ایک دن بلال کی دو ٹوک انداز میں کی گئی بات کا اُس نے دو ٹوک انداز میں ہی جواب دیا تھا۔
بلال انعم کی کہی ہوئی بات ٹال دے، یہ تو ناممکن تھا۔ ذیشان صاحب اور فرخندہ بیگم اس کی خودکشی کی کوشش کے بعد بالکل خاموش ہوگئے تھے۔
”اگر جانا ہے تو عثمان بھائی کے پاس ہی چلے جاؤ۔” گھر پر دبئی جانے کے ذکر پر علیشبہ نے اسے مشورہ دیا مگر وہ تو دبئی جانے کے لیے بہ ضد تھا۔ اکبر جو کہ عثمان سے چھوٹا تھا، بلال کی انہی حرکتوں کی وجہ سے اسے مخاطب کرتا اور نہ اس کے کسی معاملے میں بولتا تھا۔ مگر اس بار اس نے بلال کی حمایت کی کہ شاید اسی طرح اس کا کیرئیر سیٹ ہوجائے۔ کہیں کوئی جاب مل جائے اور اس کی زندگی سنور جائے۔بلال اپنی دھن میں مگن دبئی کے لیے روانہ ہوگیا، مگر جاتے جاتے وہ انعم سے وفا کا وعدہ لینا نہ بھولا۔
٭…٭…٭
”I’m expecting” انعم نے افضل علی کو میسج کیا، افضل علی نے بھی انعم کے میسج کا کوئی جواب نہ دیا۔ ساتھ ہی بلال کا میسج بھی آگیا۔
”I’m in Dubai” انعم نے اس میسج کو بالکل نظر انداز کردیا۔
٭…٭…٭
”انعم مجھے یہاں آئے ہوئے پندرہ ہوگئے ہیں مگر کوئی جاب نہیں مل رہی۔ میں تھک گیا ہوں۔ میرے پاس پیسے بھی ختم ہورہے ہیں۔” بلال روہانسا ہوگیا۔
”دیکھو بلال میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔” انعم کو افضل علی کا اس طرح میسج نظر انداز کرنا پریشان کر گیا تھا۔
”انعم پلیز! ہم تھوڑے میں گزارہ کرلیں گے مگر میں اس طرح میں گھر سے اور تم سے دور نہیں رہ سکتا۔” بلال اب منتیں کررہا تھا۔
”تم ہو ہی بے کار آدمی، تم دوٹکے کے غریب آدمی اپنی اوقات دیکھو اور پانا چاہتے ہو انعم ذیشان کو؟ ہونہہ!” انعم نے نخوت بھرے انداز میں اسے دھتکار کر فون بند کردیا۔ دوسری جانب بلال کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
انعم کا نمبر مسلسل بند جارہا تھا۔ انتہائی تکلیف میں بلال نے اپنا ویزہ Tenure پورا کیا۔ وہ اپنے مشن میں ناکام ہوگیا تھا اور شاید… محبت میں بھی۔
٭…٭…٭
”افضل تم اس بات کو اتنا لائٹ لے رہے ہو۔” وہ جار حانہ انداز میں آفس میں داخل ہوئی۔
”ریلیکس انعم! تم میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری لڑکی نہیں ہو ایسا ہوجاتا ہے۔ It’s not a big deal مگر ہماری فیملی میں لڑکے کم ہیں۔ میری پہلی طلاق کی وجہ بھی یہ تھی کہ اس سے میری صرف دو بیٹیاں ہیں اور اب موجودہ بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ میرے والدین کو وارث چاہیے۔” افضل علی بالکل نارمل انداز میں اس سے بات کررہا تھا۔
”تمہاری شادی… دو بیویاں؟” انعم کو جیسے سو واٹ کا کرنٹ لگا۔
”میں پہلے بچے کا Gender چیک کرواؤں گا۔ If It will be a boy میں تم سے نکاح کرلوں گا۔” وہ بہت آرام سے کہہ رہا تھا اور وہ ہکاّ بکا ّکھڑی سُن رہی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کباڑ — صوفیہ کاشف

Read Next

موسمِ گُل — عاصمہ عزیز

One Comment

  • …Keep it up Ma’am ………………………………………..Excellent as well as amazing

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!